• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمفرے کے اعترافات ۔ ایک برطانوی جاسوس کی کتاب

شمولیت
جولائی 28، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
58
ہمفرے ایک برطانوی جاسوس تھا ۔ بقول ہمفرے، اس کو اسلامی ممالک میں جاسوسی اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چناچہ اس نے اپنے آپ کو سادہ مسلمان پیش کرکے عربی زبان اور اسلام کی تعلیم حاصل کی ۔اس نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو پیدا کرنے کے لیے ایک شخص جناب شیخ عبدالوہاب رحمتہ اللہ علیہ کا انتخاب کیا ۔
قارئین کرام! اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی لابی کس طرح مسلمانوں کے درمیان اور خاص طور پر شعیہ سنی اور وہابی کے درمیان اختلافات کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور انہی اختلافات کو بڑھانے کے لیے اور خاص طورپر وہابیوں کے خلاف سنی اور شیعہ لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بونے کے لیے اس کتاب کو لکھا گیا ہے ۔ اس کتاب کی کہانی اس ڈھنگ سے تیار کی گئی ہے کہ شیعہ سنی اس کو حق سمجھ لیں اور اس کو بطور ہتھیار وہابیوں اور سعودی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال کریں۔ اور بدقسمتی سے دشمن اپنی اس کوشش میں کامیاب ہے۔ شیعہ اورسنی مسلمان اس کتاب کو اسی طرح حرف بہ حرف سچا مانتے ہوئے وہابیوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں ۔ ان کے مختلف فورموں پر اس کتاب کو پیش کیا جارہا ہے ۔ بلکہ ڈاکٹر صفدرمحمود جنگ اخبار میں اس پر دوکالم بھی تحریر فرما چکے ہیں۔
اس کتاب میں شیعہ مکتب فکر کی بہت تعریف کی گئی ہے جبکہ شیخ عبدالوہاب کی انتہا ء درجے کی تذلیل کی گئی ہےاور ان کواس وقت کی برطانوی حکومت کا پٹھو قراردیا گیا ہے ۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ!
• کیا یہودی اور عیسائی لابی کا مقصد اور مشن مکمل ہو چکا ہے کہ اب وہ ان رازوں سے پردہ اٹھانے کو عیب نہیں سمجھتے ۔
• کیا وہ اس قدر بیوقوف ہیں کہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اس کتاب کے پڑھنے سے مسلمانوں کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت بڑھے گی۔
• کیا وہ اس قدر جاہل ہیں کہ اتنی معمولی سی بات بھی نہ سمجھتے ہوں کہ اس کتاب کو پڑھ کر اب کوئی مسلمان ان پر اعتبار نہ کرے گا۔
قارئین کرام ! ان تمام سوالوں کا جواب بہت آسان ہے کہ یقیناً وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہوگا مگر اس کتاب سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہ رہے تھے وہ مندرجہ بالا خدشات کے سامنے کچھ معنی نہ رکھتا تھا اور وہ تھا وہابیوں کے خلاف شیعہ اور سنی کو کھڑا کیا جائے ۔ چناچہ اس کتاب کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے تمام منصوبے اور سرگرمیوں کو بھی بڑھا چڑھا کر اس میں بیان کریں تاکہ ایک سادہ مسلمان ،کتاب کے آخر میں بیان کی گئی کہانی کو سچ جان کر آپس میں تفرقے کو مزید بڑھا لیں۔ میرا ان سنی اور شیعہ بھائیوں سے ایک سوال ہے جو اس کتاب کو بڑھ چڑھ کر پیش کررہے ہیں کہ اگر اس کتاب میں شیخ عبدالوہاب کےکردار کی جگہ آپ کا کوئی عالم ہوتا تو کیا پھر بھی آپ اس پر اسی طرح ایمان رکھتے ؟
میری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اس کتاب کرضرورپڑھیں مگر اس سوچ کے ساتھ کہ یہ کتاب اس جاسوس یا ادارے نے لکھی ہے کہ جو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو بڑھانے کے لیے نا صرف سر گرم تھےبلکہ اس وقت بھی ہیں ۔اور یہ کتاب بھی ان کے انہی منصوبوں کا ایک حصہ ہے۔اللہ تعالی ہمیں دشمنوں کے منصوبوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے نادان مسلمان بھائیوں کو بھی سوچنے سمجھنے اور اغیار کی چالوں میں نہ آنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

کتاب کا لنک

پاسورڈ :
urdulibrary.paigham.net
 

mahmood arshad

مبتدی
شمولیت
اپریل 13، 2017
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
لندن کے دو سکالر اس کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب گوگل پر Confessions of british spy Humphray کے حوالے سے پڑھی جاسکتی ہے۔
پہلے پہل یہ یادداشتیں قسط وار جرمنی کے مشہور اخبار شپیگل (Spiegel) میں شائع ہوئیں۔ بعد میں یہ فرانسیسی اخبار لو موند (Le Monde) میں شائع ہوئیں جہاں سے لبنان کے ایک مترجم نےاس کا عربی میں ترجمہ کیا۔ کافی عرصہ بعد اس کا انگریزی ترجمہ بعنوان ایک برطانوی جاسوس کے اعترافات اور برطانیہ کی اسلام دشمنی (Confessions of a British Spy and British Enmity against Islam) ہزمت بکس (Hizmet Books) نے برطانیہ سے شائع کیا۔ ترکی میں ترکی اور انگریزی دونوں زبانوں میں یہ کتاب وقف اخلاص پبلیکیشنز (Waqf Ikhlas Publications: Ihlas Gazetecilik A.Ş. Istanbul) نے استنبول، ترکی سے شائع کی ہے جس کے جملہ حقوق مع حقوق ترجمہ محفوظ نہیں رکھے گئے یعنی اسے کوئی بھی ترجمہ کر کے چھاپ سکتا ہے۔[2]
فارسی میں اس کا ترجمہ بعنوان 'خاطرات مستر ھمفر، جاسوس بریتانیا در خاورمیانہ' تہران سے شائع ہوا۔ چونکہ اس کے جملہ حقوق آزاد رکھے گئے تھے اس لیے تہران ہی میں اسے 'اعتراف‌ھای یک جاسوس بریتانیایی ' کے نام سے بھی شائع کیا گیا۔ اردو میں اس کا ترجمہ' ہمفرے کی یادداشتیں' (جبکہ اصل نام ہمفر ہے) کے عنوان سے شائع ہوا جس کا ہر سال دو سال بعد کوئی نیا نسخہ چھپ جاتا ہے۔

سعودی اور محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ یہ کتاب کسی عراقی سنی مسلمان کی اختراع ہے جو ان کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے لکھی گئی تھی۔4 ایک اور اعتراض بربارڈ ہیکل نے بھی کیا کہ یہ کتاب صرف وہابیت کے خلاف لکھی گئی تھی جسے ترکی زبان میں ایوب صابری پاشا نے لکھا۔ 5 مگر یہ اعتراض اس لیے درست نہیں کیونکہ یہ کتاب پہلے عربی یا ترکی میں نہیں بلکہ آلمانی (جرمن) زبان میں ایک مشہور اخبار میں ان سے کافی عرصہ پہلے چھاپی گئی تھی۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بعض تاریخیں آپس میں نہیں ملتیں۔ کتاب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ جن تاریخوں میں ہمفر نے محمد بن عبدالوہاب سے ملاقات و تعلقات کا حال لکھا ہے ان تاریخوں میں یا تو محمد بن عبدالوہاب کی عمر کم تھی یا وہ اس زمانے میں بصرہ اور بعد میں دریہ میں موجود نہیں تھے۔ جبکہ کتاب پر یقین رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ خود محمد بن عبدالوہاب کے مختلف اسفار کی تاریخیں واضح نہیں ہیں اور 1740ء سے پہلے محمد بن عبدالوہاب کے سفر اور زندگی کے بارے میں معلومات کم ہیں۔

ہمفر کی یادداشتیں بزبان انگریزی
برطانوی جاسوس کے اعترافات، وقف اخلاص پبلیکیشنز استنبول ترکی
برطانوی جاسوس کے اعترافات میں سے لیا گیا۔ اخذ کرنے کی تاریخ 4 ستمبر 2009ء
جارج پیکر کا مضمون نیویارکر میں
وہابی مخالف تحریکیں ز رنارڈ ہیکل
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بعض تاریخیں آپس میں نہیں ملتیں۔ کتاب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ جن تاریخوں میں ہمفر نے محمد بن عبدالوہاب سے ملاقات و تعلقات کا حال لکھا ہے ان تاریخوں میں یا تو محمد بن عبدالوہاب کی عمر کم تھی یا وہ اس زمانے میں بصرہ اور بعد میں دریہ میں موجود نہیں تھے۔ جبکہ کتاب پر یقین رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ خود محمد بن عبدالوہاب کے مختلف اسفار کی تاریخیں واضح نہیں ہیں اور 1740ء سے پہلے محمد بن عبدالوہاب کے سفر اور زندگی کے بارے میں معلومات کم ہیں۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے متعلق جس درجہ کی معلومات ہمفرے نے دی ہیں ، اس کے متضاد پائی جانے والی معلومات اس سے کئی درجہ بہتر ہیں ۔ لہذا یہ کہنا کوئی مشکل نہیں کہ ہمفرے نے یا اس کے نام پر جو کچھ لکھا گیا ، بالکل جھوٹ اور بے بنیاد ہے ۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
لندن کے دو سکالر اس کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب گوگل پر Confessions of british spy Humphray کے حوالے سے پڑھی جاسکتی ہے۔
پہلے پہل یہ یادداشتیں قسط وار جرمنی کے مشہور اخبار شپیگل (Spiegel) میں شائع ہوئیں۔ بعد میں یہ فرانسیسی اخبار لو موند (Le Monde) میں شائع ہوئیں جہاں سے لبنان کے ایک مترجم نےاس کا عربی میں ترجمہ کیا۔ کافی عرصہ بعد اس کا انگریزی ترجمہ بعنوان ایک برطانوی جاسوس کے اعترافات اور برطانیہ کی اسلام دشمنی (Confessions of a British Spy and British Enmity against Islam) ہزمت بکس (Hizmet Books) نے برطانیہ سے شائع کیا۔ ترکی میں ترکی اور انگریزی دونوں زبانوں میں یہ کتاب وقف اخلاص پبلیکیشنز (Waqf Ikhlas Publications: Ihlas Gazetecilik A.Ş. Istanbul) نے استنبول، ترکی سے شائع کی ہے جس کے جملہ حقوق مع حقوق ترجمہ محفوظ نہیں رکھے گئے یعنی اسے کوئی بھی ترجمہ کر کے چھاپ سکتا ہے۔[2]
فارسی میں اس کا ترجمہ بعنوان 'خاطرات مستر ھمفر، جاسوس بریتانیا در خاورمیانہ' تہران سے شائع ہوا۔ چونکہ اس کے جملہ حقوق آزاد رکھے گئے تھے اس لیے تہران ہی میں اسے 'اعتراف‌ھای یک جاسوس بریتانیایی ' کے نام سے بھی شائع کیا گیا۔ اردو میں اس کا ترجمہ' ہمفرے کی یادداشتیں' (جبکہ اصل نام ہمفر ہے) کے عنوان سے شائع ہوا جس کا ہر سال دو سال بعد کوئی نیا نسخہ چھپ جاتا ہے۔

سعودی اور محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ یہ کتاب کسی عراقی سنی مسلمان کی اختراع ہے جو ان کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے لکھی گئی تھی۔4 ایک اور اعتراض بربارڈ ہیکل نے بھی کیا کہ یہ کتاب صرف وہابیت کے خلاف لکھی گئی تھی جسے ترکی زبان میں ایوب صابری پاشا نے لکھا۔ 5 مگر یہ اعتراض اس لیے درست نہیں کیونکہ یہ کتاب پہلے عربی یا ترکی میں نہیں بلکہ آلمانی (جرمن) زبان میں ایک مشہور اخبار میں ان سے کافی عرصہ پہلے چھاپی گئی تھی۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بعض تاریخیں آپس میں نہیں ملتیں۔ کتاب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ جن تاریخوں میں ہمفر نے محمد بن عبدالوہاب سے ملاقات و تعلقات کا حال لکھا ہے ان تاریخوں میں یا تو محمد بن عبدالوہاب کی عمر کم تھی یا وہ اس زمانے میں بصرہ اور بعد میں دریہ میں موجود نہیں تھے۔ جبکہ کتاب پر یقین رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ خود محمد بن عبدالوہاب کے مختلف اسفار کی تاریخیں واضح نہیں ہیں اور 1740ء سے پہلے محمد بن عبدالوہاب کے سفر اور زندگی کے بارے میں معلومات کم ہیں۔

ہمفر کی یادداشتیں بزبان انگریزی
برطانوی جاسوس کے اعترافات، وقف اخلاص پبلیکیشنز استنبول ترکی
برطانوی جاسوس کے اعترافات میں سے لیا گیا۔ اخذ کرنے کی تاریخ 4 ستمبر 2009ء
جارج پیکر کا مضمون نیویارکر میں
وہابی مخالف تحریکیں ز رنارڈ ہیکل
کچھ معلومات مجھے بھی ملی ہیں- یہاں شئیر کر رہا ہوں -

سلیمان بن عبد الوھاب اور محمد بن عبد الوھاب دو سگے بھائی تھے - یہاں تک کہ سلیمان نے کتاب

فصل الخطاب في الرد على محمد بن عبدالوهاب لکھی

جس کا ایک نام


طبع في الهند ومصر وتركيا

بھی ہے

محمد بن عبد الوھاب المتوفی ١٢٠٦ ھ اور محمد بن إسماعيل الصنعاني المتوفی ١١٨٢ ھ جو ہم عصر تھے اور محمد بن إسماعيل الصنعاني یمن میں رہتے تھے -ان تین میں اختلاف تکفیر کے مسئلہ پر تھا محمد اس کا قائل تھا کہ تکفیر کی جائے گی اور لوگوں کو قتل کر دیا جائے گا کیونکہ یہ کفار ہیں- باقی دو علماء اس کے خلاف تھے

یہاں تک کہ ان کو عرب میں وہ لوگ مل گئے جو ذو الخلصہ کو پوج رہے تھے

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ہے -

7116 . حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلَى ذِي الْخَلَصَةِ وَذُو الْخَلَصَةِ طَاغِيَةُ دَوْسٍ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ


حکم : صحیح


ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کا ذو الخلصہ کا ( طواف کرتے ہوئے ) کھوے سے کھوا چھلے گا اور ذو الخلصہ قبیلہ دوس کا بت تھا جس کو وہ زمانہ جاہلیت میں پوجا کرتے تھے ۔






صحیح مسلم: کتاب: فتنے اور علامات ِقیامت

(باب: قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ (قبیلہ) دوس"ذوالخلصہ"کی عبادت کرے گا)


7298 . حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ عَبْدٌ أَخْبَرَنَا و قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ حَوْلَ ذِي الْخَلَصَةِ وَكَانَتْ صَنَمًا تَعْبُدُهَا دَوْسٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِتَبَالَةَ

حکم : صحیح

7298 .
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،کیا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ دوس کی عورتوں کے سرین ،ذوالخلصہ کے ارد گرد(دوران طواف) منکیں گے۔" وہ(ذوالخلصہ) تبالہ میں ایک بت تھا،جاہلی دور میں قبیلہ دوس اس کی پوجا کیاکرتا تھا۔


کتاب عنوان المجد في تاريخ نجد از عثمان بن عبد الله ابن بشر کے مطابق


حوادث سنة 1230هـ ط 4 الجزء الأول صفحة 372 :

(ثم إن محمد علي وعساكره رحلوا من تربة في الحال وساروا إلى بيشة ، ونازلوا أكلب وأطاعوا لهم ، ثم سار منها إلى تبالة ، وهي البلد التي هدم المسلمون فيها ذا الخلصة زمن عبدالعزيز بن محمد بن سعود ، وهو الصنم الذي بعث إليه النبي صلى الله عليه وسلم جرير بن عبدالله البجلي فهدمه ، فلما طال الزمان أعادوه وعبدوه ، فنازلوا شعلان أمير الفزع وشمران … الخ).



یعنی عبد العزيز بن محمد بن سعود کے دور میں اس بت کو پاش کیا گیا اس طرح حدیث رسول سچ ہوئی وہاں ان لوگوں کو قتل کر دیا گیا جو اس بت کی پوجا کر رہے تھے-

اس واقعہ کا ذکر عصر حاضر میں ایک کتاب میں بھی کیا گیا ہے



Even after the idol was destroyed by Muhammad’s followers, the cult of Dhul Khalasa was resurrected and worshipped in the region until 1815, when members of the Sunni Wahhabi movement organised military campaigns to suppress remnants of pagan worship. The reconstructed idol was subsequently destroyed by gunfire.
[3]


یہاں جو بھائی تاریخ کے حوالے آپس میں بحث کر رہے ہیں مختلف تھریڈز میں وہ اس کی مزید تفصیل بتا سکتے ہیں-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سلیمان بن عبد الوھاب اور محمد بن عبد الوھاب دو سگے بھائی تھے - یہاں تک کہ سلیمان نے کتاب

فصل الخطاب في الرد على محمد بن عبدالوهاب لکھی

جس کا ایک نام

طبع في الهند ومصر وتركيا
اس کتاب کے اور بھی دو تین نام ہیں ۔ حقیقت میں یہ ان کے بھائی کی تصنیف ہے ہی نہیں ، یہ بھی کسی ہمفرے یا اس اس طرح کے کردار کے منہ میں بات ڈالنے والے کی کارستانی ہے ۔ اس کتاب کے نام مختلف آنے کی بھی کہانی عجب ہی لگتی ہے ، شروع میں کسی نے جوش میں آکر الرد علی الوہابیۃ رکھ دیا ، بعد میں کسی نے عقل دلائی کہ کتاب تو شیخ کے بھائی کی طرف منسوب ہے ، جبکہ ’ الوہابیہ ‘ لفظ کا اطلاق ان دونوں بھائیوں کی وفات کے بعد شروع ہوا ہے ، تو بو کھلا کر فصل الخطاب رکھ لیا ۔
بہر صورت جھوٹ تو جھوٹ ہی ہوتا ہے ، اسے لاکھ چھپائیں اپنے نشانات چھوڑ جاتا ہے ، تفصیل کے لیے دیکھیں ’ تاریخ وہابیت حقائق کےآئینے میں ‘ ۔
محمد بن عبد الوھاب المتوفی ١٢٠٦ ھ اور محمد بن إسماعيل الصنعاني المتوفی ١١٨٢ ھ جو ہم عصر تھے اور محمد بن إسماعيل الصنعاني یمن میں رہتے تھے -ان تین میں اختلاف تکفیر کے مسئلہ پر تھا محمد اس کا قائل تھا کہ تکفیر کی جائے گی اور لوگوں کو قتل کر دیا جائے گا کیونکہ یہ کفار ہیں- باقی دو علماء اس کے خلاف تھے
چند ایک مسائل میں اختلاف تھا ، باقی سب میں وہ آپس میں متفق تھے ، بلکہ علامہ صنعانی کی تحریروں میں حجاز میں اٹھنے والی اس تحریک اور اس کے محرک کے متعلق مدح و ثنا بھی موجود ہے ۔ خود علامہ صنعانی کی کتب اس پر گواہ ہیں کہ وہ چند ایک جزئیات سےہٹ کر تمام مسائل میں ’ وہابی طرز فکر ‘ ہی رکھتے تھے ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا خضر بهائی
المستقلہ ٹی وی ، لندن نے شیخ محمد بن عبد الوہاب پر ایک معلوماتی ڈاکیومنٹری نشر کی تهی ، یوٹیوب پر موجود هے جسمیں علماء نے سیر حاصل بحث کی هے ۔
 
Top