طارق اقبال
رکن
- شمولیت
- جولائی 28، 2011
- پیغامات
- 47
- ری ایکشن اسکور
- 79
- پوائنٹ
- 58
ہمفرے ایک برطانوی جاسوس تھا ۔ بقول ہمفرے، اس کو اسلامی ممالک میں جاسوسی اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چناچہ اس نے اپنے آپ کو سادہ مسلمان پیش کرکے عربی زبان اور اسلام کی تعلیم حاصل کی ۔اس نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو پیدا کرنے کے لیے ایک شخص جناب شیخ عبدالوہاب رحمتہ اللہ علیہ کا انتخاب کیا ۔
قارئین کرام! اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی لابی کس طرح مسلمانوں کے درمیان اور خاص طور پر شعیہ سنی اور وہابی کے درمیان اختلافات کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور انہی اختلافات کو بڑھانے کے لیے اور خاص طورپر وہابیوں کے خلاف سنی اور شیعہ لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بونے کے لیے اس کتاب کو لکھا گیا ہے ۔ اس کتاب کی کہانی اس ڈھنگ سے تیار کی گئی ہے کہ شیعہ سنی اس کو حق سمجھ لیں اور اس کو بطور ہتھیار وہابیوں اور سعودی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال کریں۔ اور بدقسمتی سے دشمن اپنی اس کوشش میں کامیاب ہے۔ شیعہ اورسنی مسلمان اس کتاب کو اسی طرح حرف بہ حرف سچا مانتے ہوئے وہابیوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں ۔ ان کے مختلف فورموں پر اس کتاب کو پیش کیا جارہا ہے ۔ بلکہ ڈاکٹر صفدرمحمود جنگ اخبار میں اس پر دوکالم بھی تحریر فرما چکے ہیں۔
اس کتاب میں شیعہ مکتب فکر کی بہت تعریف کی گئی ہے جبکہ شیخ عبدالوہاب کی انتہا ء درجے کی تذلیل کی گئی ہےاور ان کواس وقت کی برطانوی حکومت کا پٹھو قراردیا گیا ہے ۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ!
• کیا یہودی اور عیسائی لابی کا مقصد اور مشن مکمل ہو چکا ہے کہ اب وہ ان رازوں سے پردہ اٹھانے کو عیب نہیں سمجھتے ۔
• کیا وہ اس قدر بیوقوف ہیں کہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اس کتاب کے پڑھنے سے مسلمانوں کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت بڑھے گی۔
• کیا وہ اس قدر جاہل ہیں کہ اتنی معمولی سی بات بھی نہ سمجھتے ہوں کہ اس کتاب کو پڑھ کر اب کوئی مسلمان ان پر اعتبار نہ کرے گا۔
قارئین کرام ! ان تمام سوالوں کا جواب بہت آسان ہے کہ یقیناً وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہوگا مگر اس کتاب سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہ رہے تھے وہ مندرجہ بالا خدشات کے سامنے کچھ معنی نہ رکھتا تھا اور وہ تھا وہابیوں کے خلاف شیعہ اور سنی کو کھڑا کیا جائے ۔ چناچہ اس کتاب کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے تمام منصوبے اور سرگرمیوں کو بھی بڑھا چڑھا کر اس میں بیان کریں تاکہ ایک سادہ مسلمان ،کتاب کے آخر میں بیان کی گئی کہانی کو سچ جان کر آپس میں تفرقے کو مزید بڑھا لیں۔ میرا ان سنی اور شیعہ بھائیوں سے ایک سوال ہے جو اس کتاب کو بڑھ چڑھ کر پیش کررہے ہیں کہ اگر اس کتاب میں شیخ عبدالوہاب کےکردار کی جگہ آپ کا کوئی عالم ہوتا تو کیا پھر بھی آپ اس پر اسی طرح ایمان رکھتے ؟
میری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اس کتاب کرضرورپڑھیں مگر اس سوچ کے ساتھ کہ یہ کتاب اس جاسوس یا ادارے نے لکھی ہے کہ جو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو بڑھانے کے لیے نا صرف سر گرم تھےبلکہ اس وقت بھی ہیں ۔اور یہ کتاب بھی ان کے انہی منصوبوں کا ایک حصہ ہے۔اللہ تعالی ہمیں دشمنوں کے منصوبوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے نادان مسلمان بھائیوں کو بھی سوچنے سمجھنے اور اغیار کی چالوں میں نہ آنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
کتاب کا لنک
پاسورڈ :
urdulibrary.paigham.net
قارئین کرام! اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی لابی کس طرح مسلمانوں کے درمیان اور خاص طور پر شعیہ سنی اور وہابی کے درمیان اختلافات کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور انہی اختلافات کو بڑھانے کے لیے اور خاص طورپر وہابیوں کے خلاف سنی اور شیعہ لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بونے کے لیے اس کتاب کو لکھا گیا ہے ۔ اس کتاب کی کہانی اس ڈھنگ سے تیار کی گئی ہے کہ شیعہ سنی اس کو حق سمجھ لیں اور اس کو بطور ہتھیار وہابیوں اور سعودی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال کریں۔ اور بدقسمتی سے دشمن اپنی اس کوشش میں کامیاب ہے۔ شیعہ اورسنی مسلمان اس کتاب کو اسی طرح حرف بہ حرف سچا مانتے ہوئے وہابیوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں ۔ ان کے مختلف فورموں پر اس کتاب کو پیش کیا جارہا ہے ۔ بلکہ ڈاکٹر صفدرمحمود جنگ اخبار میں اس پر دوکالم بھی تحریر فرما چکے ہیں۔
اس کتاب میں شیعہ مکتب فکر کی بہت تعریف کی گئی ہے جبکہ شیخ عبدالوہاب کی انتہا ء درجے کی تذلیل کی گئی ہےاور ان کواس وقت کی برطانوی حکومت کا پٹھو قراردیا گیا ہے ۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ!
• کیا یہودی اور عیسائی لابی کا مقصد اور مشن مکمل ہو چکا ہے کہ اب وہ ان رازوں سے پردہ اٹھانے کو عیب نہیں سمجھتے ۔
• کیا وہ اس قدر بیوقوف ہیں کہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اس کتاب کے پڑھنے سے مسلمانوں کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت بڑھے گی۔
• کیا وہ اس قدر جاہل ہیں کہ اتنی معمولی سی بات بھی نہ سمجھتے ہوں کہ اس کتاب کو پڑھ کر اب کوئی مسلمان ان پر اعتبار نہ کرے گا۔
قارئین کرام ! ان تمام سوالوں کا جواب بہت آسان ہے کہ یقیناً وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہوگا مگر اس کتاب سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہ رہے تھے وہ مندرجہ بالا خدشات کے سامنے کچھ معنی نہ رکھتا تھا اور وہ تھا وہابیوں کے خلاف شیعہ اور سنی کو کھڑا کیا جائے ۔ چناچہ اس کتاب کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے تمام منصوبے اور سرگرمیوں کو بھی بڑھا چڑھا کر اس میں بیان کریں تاکہ ایک سادہ مسلمان ،کتاب کے آخر میں بیان کی گئی کہانی کو سچ جان کر آپس میں تفرقے کو مزید بڑھا لیں۔ میرا ان سنی اور شیعہ بھائیوں سے ایک سوال ہے جو اس کتاب کو بڑھ چڑھ کر پیش کررہے ہیں کہ اگر اس کتاب میں شیخ عبدالوہاب کےکردار کی جگہ آپ کا کوئی عالم ہوتا تو کیا پھر بھی آپ اس پر اسی طرح ایمان رکھتے ؟
میری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اس کتاب کرضرورپڑھیں مگر اس سوچ کے ساتھ کہ یہ کتاب اس جاسوس یا ادارے نے لکھی ہے کہ جو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو بڑھانے کے لیے نا صرف سر گرم تھےبلکہ اس وقت بھی ہیں ۔اور یہ کتاب بھی ان کے انہی منصوبوں کا ایک حصہ ہے۔اللہ تعالی ہمیں دشمنوں کے منصوبوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے نادان مسلمان بھائیوں کو بھی سوچنے سمجھنے اور اغیار کی چالوں میں نہ آنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
کتاب کا لنک
پاسورڈ :
urdulibrary.paigham.net