محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
ہمیشہ کی لعنت
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں کسی پر اتنی لعنت نہیں پڑی جتنی میر جعفر اور میر صادق پر پڑی اور تا قیامت پڑتی رہے گی۔ صدیوں سے یہ دونوں نام کسی کو گالی دینے کیلئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ میر جعفراور میر صادق نے رشوت لے کر پورے برصغیر کے عوام کو اور خاص کر مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے مٹھی بھر انگریزوں کا غلام بنا دیا تھا۔آج بھی صرف نام کی آزادی ہے لیکن وہی انگریزوں کا قانون ہے اور وہی انگریزوں کی غلامی ہے۔ آج بھی رشوت لینے والے میر جعفر و میر صادق ملک عزیز کے ہر محکمے میں چھائے ہوئے ہیں‘ جن کے متعلق ارشاد ربانی ہے:
أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ۔۔۔(المائدہ:42(
یعنی ’’ یہ لوگ سُحت کھانے والے ہیں‘‘۔
’ سُحت ‘ کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ، بنیاد سے کھود کر برباد کرنے‘ انسان کی دین و مروت کی چڑ کاٹ دینے کے ہیں۔یا سُحت اصل میں سے اس چھلکے کو کہتے ہیں جسے پوری طرح اتار لیا جائے۔قرآن مجید میں اس جگہ لفظ سُحت سے مراد’ رشوت ‘ ہے۔
رشوت کی شرعی تعریف یہ ہے کہ جس کا معاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو، اس کا معاوضہ لینا۔ مثلاً جو کام کسی شخص کے فرائض میں داخل ہے اور جس کا پورا کرنا اس کے ذمہ لازم ہے، اس کام پر کسی فریق سے معاوضہ لینا‘ کوئی تحفہ لینا‘ کوئی مراعت یا کوئی منفعت وغیرہ حاصل کرنا۔ جیسے سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین اپنی ملازمت کی رو سے اپنے فرائض ادا کرنے کے ذمے دار ہیں، پھر وہ صاحب معاملہ سے کچھ بھی لیں، تو یہ رشوت ہے۔
رشوت ایک ایسی لعنت ہے جو پورے ملک وملت کی جڑ، بنیاد اورامن عامہ کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ جس ملک یا محکمہ میں رشوت چل جائے، وہاں قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور قانونِ ملک ہی وہ چیز ہے، جس سے ملک وملت کا امن برقرار رکھا جاتا ہے، وہ معطل ہو گیا ، تو نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے ، نہ آبرو، نہ مال۔ اور رشوت کا آخری نتیجہ ملک و ملت کی ہمیشہ کی تباہی‘ بربادی اور غلامی ہے جیسا کہ میر جعفر اور میر صادق ملعونوں نے کیا تھا۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالٰی ہے:
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٨﴾
’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘
رشوت باطل طریقے سے مال کھانےکی انتہائی بد ترین صورت ہے کیونکہ راشی سرکاری ملازمین ایک طرف عوام الناس کے جائز کام بغیر رشوت لئے نہیں کرتا تو دوسری طرف رشوت لے کر اصل حقدار کو اس کے حق سے محروم کرتا ہے اور جنکی خدمت کرنے کیلئے اسے تعینات کی گئی ہے ان ہی پر ظلم و ستم کرتا ہے۔
حضرت عمرو بن عاص فرماتے ہیں، میں نے رسول الله ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’جس قوم میں رشوت عام ہو جاتی ہے، اس پر دشمن کا رعب طاری ہو جاتا ہے‘‘۔ (مسند احمد:4/205)
آج کوئی بھی ایسا مسلم ملک نہیں جہاں رشوت عام نہ ہو۔ لہذا مندرجہ بالا قول رسول اللہ ﷺکے مطابق مسلمانوں پر دشمنوں کا رعب طاری ہے۔
قصوروار کون ہے؟ کیا صرف مسلم حکمران؟ یا سارے کے سارے مسلمان؟
مسلم ملک و معاشرے میں پیدا ہونے والا کون مسلمان رسول اللہ ﷺ کے اس وعید سے واقف نہیں:
”لعن الله الراشی والمرتشی والرائش“․(المعجم الکبیر للطبرانی:
’’رشوت لینے والے، دینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر الله تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘۔
اور میٹرک تک پڑھنے والا ہر پاکستانی مسلمان نے تو
" الراشی وا لمرتشی کلا ھما فی النار "
’’ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں آگ (جہنم) میں ہے۔‘‘
اس حدیث کو ضرور پڑھا ہے کیونکہ یہ ’’ اسلامیات (لازمی)‘‘ میں درج ہے جسے پڑھے بغیر میٹرک پاس کرنا ممکن نہیں۔
لہذا اس حدیث کو ہرسرکاری ‘ نیم سرکاری‘ پرائیویٹ یا کسی بھی ادارے میں کام کرنےوالا ہر ملازم نے پڑھا ہے کیونکہ انکی کم از کم تعلیم میٹرک ہے اور سب نے اسلامیات کا لازمی پرچہ پاس کیا ہواہے۔ پھر بھی آج پورے ملک میں رشوت کا بازار گرم ہے‘ رشوت لئے بغیر اکثریت کام کرنے کو تیار ہی نہیں اور رشوت لے کر ہر جائز و ناجائز کام فوراً ہی کرنے کو تیار رہتی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں رہا اور نہ ہی جنت و جہنم پر ایمان و یقین ہے‘ لہذا رشوت لینے کے سو بہانے ہیں‘ راشی ملازمین کہتے ہیں :
’’ اب تنخواہ میں گزارہ کہاں؟ ‘‘
’’ اوپر کی کمائی تو ضروری ہے‘‘
"اب رشوت لئے بغیر گزارہ کہاں؟ "
جی ہاں
"اب رشوت لئے بغیر گزارہ کہاں؟"
لیکن ۔۔۔۔
رشوت کیلئے ملک کو جہنم بنانا گوارا ہے۔
رشوت کیلئے انصاف کا خون کرنا گوارا ہے۔
رشوت کیلئے عوام الناس کا خون پینا گوارا ہے۔
رشوت نہ دینے والے کے حق کو کھا جانا گوارا ہے۔
رشوت کیلئے کمزوروں پر ظلم کرنا اورانکی حق تلفی کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر لوگوں کی جان‘ مال‘ عزت و آبرو کا سودا کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر قاتلوں‘ لٹیروں‘ ڈاکووں‘ رہزنوں کی حفاظت کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر لوگوں کو زندہ جلانے کے مجرموں کو سزا نہ دینا گوارا ہے۔
رشوت لے کر ظالم و جابر ہوس پرست درندوں کی حفاظت کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر قاتلوں اور جاسوسوں کو بحفاظت ان کے ملک تک پہنچانا گوارا ہے۔
رشوت لے کر بہو‘ بیٹیوں‘ بچے اور بچیوں کے ساتھ درندگی کرنے والے کی حفاظت کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر ملک و ملت کی جڑیں کھوکھلی کرنا اور دشمنوں سے سازباز کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر ہمیشہ کیلئے میر جعفر اور میر صادق کی طرح لعنتی بننا گوارا ہے۔
اور رشوت لے کر جہنم میں جانا گوارا ہے.
اے ملک کے طول وعرض میں پھیلے رشوت لینے والوں ! اب بھی وقت ہے توبہ کرلو ورنہ دنیا میں تم پر اللہ کی لعنت ہے اور آخرت میں تمہارے لئے ہمیشہ کی جہنم ہے۔
دعا ہے: اللہ تعالٰی ہر راشی کو ھدایت اور توبہ کرنے کی توفیق دے یا ان جیسوں سے پاکستان کو پاک کر دے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں کسی پر اتنی لعنت نہیں پڑی جتنی میر جعفر اور میر صادق پر پڑی اور تا قیامت پڑتی رہے گی۔ صدیوں سے یہ دونوں نام کسی کو گالی دینے کیلئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ میر جعفراور میر صادق نے رشوت لے کر پورے برصغیر کے عوام کو اور خاص کر مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے مٹھی بھر انگریزوں کا غلام بنا دیا تھا۔آج بھی صرف نام کی آزادی ہے لیکن وہی انگریزوں کا قانون ہے اور وہی انگریزوں کی غلامی ہے۔ آج بھی رشوت لینے والے میر جعفر و میر صادق ملک عزیز کے ہر محکمے میں چھائے ہوئے ہیں‘ جن کے متعلق ارشاد ربانی ہے:
أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ۔۔۔(المائدہ:42(
یعنی ’’ یہ لوگ سُحت کھانے والے ہیں‘‘۔
’ سُحت ‘ کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ، بنیاد سے کھود کر برباد کرنے‘ انسان کی دین و مروت کی چڑ کاٹ دینے کے ہیں۔یا سُحت اصل میں سے اس چھلکے کو کہتے ہیں جسے پوری طرح اتار لیا جائے۔قرآن مجید میں اس جگہ لفظ سُحت سے مراد’ رشوت ‘ ہے۔
رشوت کی شرعی تعریف یہ ہے کہ جس کا معاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو، اس کا معاوضہ لینا۔ مثلاً جو کام کسی شخص کے فرائض میں داخل ہے اور جس کا پورا کرنا اس کے ذمہ لازم ہے، اس کام پر کسی فریق سے معاوضہ لینا‘ کوئی تحفہ لینا‘ کوئی مراعت یا کوئی منفعت وغیرہ حاصل کرنا۔ جیسے سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین اپنی ملازمت کی رو سے اپنے فرائض ادا کرنے کے ذمے دار ہیں، پھر وہ صاحب معاملہ سے کچھ بھی لیں، تو یہ رشوت ہے۔
رشوت ایک ایسی لعنت ہے جو پورے ملک وملت کی جڑ، بنیاد اورامن عامہ کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ جس ملک یا محکمہ میں رشوت چل جائے، وہاں قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور قانونِ ملک ہی وہ چیز ہے، جس سے ملک وملت کا امن برقرار رکھا جاتا ہے، وہ معطل ہو گیا ، تو نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے ، نہ آبرو، نہ مال۔ اور رشوت کا آخری نتیجہ ملک و ملت کی ہمیشہ کی تباہی‘ بربادی اور غلامی ہے جیسا کہ میر جعفر اور میر صادق ملعونوں نے کیا تھا۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالٰی ہے:
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٨﴾
’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘
رشوت باطل طریقے سے مال کھانےکی انتہائی بد ترین صورت ہے کیونکہ راشی سرکاری ملازمین ایک طرف عوام الناس کے جائز کام بغیر رشوت لئے نہیں کرتا تو دوسری طرف رشوت لے کر اصل حقدار کو اس کے حق سے محروم کرتا ہے اور جنکی خدمت کرنے کیلئے اسے تعینات کی گئی ہے ان ہی پر ظلم و ستم کرتا ہے۔
حضرت عمرو بن عاص فرماتے ہیں، میں نے رسول الله ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’جس قوم میں رشوت عام ہو جاتی ہے، اس پر دشمن کا رعب طاری ہو جاتا ہے‘‘۔ (مسند احمد:4/205)
آج کوئی بھی ایسا مسلم ملک نہیں جہاں رشوت عام نہ ہو۔ لہذا مندرجہ بالا قول رسول اللہ ﷺکے مطابق مسلمانوں پر دشمنوں کا رعب طاری ہے۔
قصوروار کون ہے؟ کیا صرف مسلم حکمران؟ یا سارے کے سارے مسلمان؟
مسلم ملک و معاشرے میں پیدا ہونے والا کون مسلمان رسول اللہ ﷺ کے اس وعید سے واقف نہیں:
”لعن الله الراشی والمرتشی والرائش“․(المعجم الکبیر للطبرانی:
’’رشوت لینے والے، دینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر الله تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘۔
اور میٹرک تک پڑھنے والا ہر پاکستانی مسلمان نے تو
" الراشی وا لمرتشی کلا ھما فی النار "
’’ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں آگ (جہنم) میں ہے۔‘‘
اس حدیث کو ضرور پڑھا ہے کیونکہ یہ ’’ اسلامیات (لازمی)‘‘ میں درج ہے جسے پڑھے بغیر میٹرک پاس کرنا ممکن نہیں۔
لہذا اس حدیث کو ہرسرکاری ‘ نیم سرکاری‘ پرائیویٹ یا کسی بھی ادارے میں کام کرنےوالا ہر ملازم نے پڑھا ہے کیونکہ انکی کم از کم تعلیم میٹرک ہے اور سب نے اسلامیات کا لازمی پرچہ پاس کیا ہواہے۔ پھر بھی آج پورے ملک میں رشوت کا بازار گرم ہے‘ رشوت لئے بغیر اکثریت کام کرنے کو تیار ہی نہیں اور رشوت لے کر ہر جائز و ناجائز کام فوراً ہی کرنے کو تیار رہتی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں رہا اور نہ ہی جنت و جہنم پر ایمان و یقین ہے‘ لہذا رشوت لینے کے سو بہانے ہیں‘ راشی ملازمین کہتے ہیں :
’’ اب تنخواہ میں گزارہ کہاں؟ ‘‘
’’ اوپر کی کمائی تو ضروری ہے‘‘
"اب رشوت لئے بغیر گزارہ کہاں؟ "
جی ہاں
"اب رشوت لئے بغیر گزارہ کہاں؟"
لیکن ۔۔۔۔
رشوت کیلئے ملک کو جہنم بنانا گوارا ہے۔
رشوت کیلئے انصاف کا خون کرنا گوارا ہے۔
رشوت کیلئے عوام الناس کا خون پینا گوارا ہے۔
رشوت نہ دینے والے کے حق کو کھا جانا گوارا ہے۔
رشوت کیلئے کمزوروں پر ظلم کرنا اورانکی حق تلفی کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر لوگوں کی جان‘ مال‘ عزت و آبرو کا سودا کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر قاتلوں‘ لٹیروں‘ ڈاکووں‘ رہزنوں کی حفاظت کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر لوگوں کو زندہ جلانے کے مجرموں کو سزا نہ دینا گوارا ہے۔
رشوت لے کر ظالم و جابر ہوس پرست درندوں کی حفاظت کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر قاتلوں اور جاسوسوں کو بحفاظت ان کے ملک تک پہنچانا گوارا ہے۔
رشوت لے کر بہو‘ بیٹیوں‘ بچے اور بچیوں کے ساتھ درندگی کرنے والے کی حفاظت کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر ملک و ملت کی جڑیں کھوکھلی کرنا اور دشمنوں سے سازباز کرنا گوارا ہے۔
رشوت لے کر ہمیشہ کیلئے میر جعفر اور میر صادق کی طرح لعنتی بننا گوارا ہے۔
اور رشوت لے کر جہنم میں جانا گوارا ہے.
اے ملک کے طول وعرض میں پھیلے رشوت لینے والوں ! اب بھی وقت ہے توبہ کرلو ورنہ دنیا میں تم پر اللہ کی لعنت ہے اور آخرت میں تمہارے لئے ہمیشہ کی جہنم ہے۔
دعا ہے: اللہ تعالٰی ہر راشی کو ھدایت اور توبہ کرنے کی توفیق دے یا ان جیسوں سے پاکستان کو پاک کر دے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان