• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم اپنے دوستوں سے کیوں ڈریں ؟

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
"ہم اپنے دوست سے کیوں ڈریں ؟"
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::

میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی سے صرف عبادات اور دعاء کا رشتہ رکھنے سے بات نہیں بنتی۔ یعنی اس سے سنگت کا حقیقی لطف نصیب نہیں ہوتا۔ اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ اس کی عبادت ہی ہماری تخلیق کا اصل مقصد ہے۔ اور اس سے نہیں مانگیں گے تو کس سے مانگیں ؟ لیکن میں بات عبادت کی ذمہ داری نبھانے اور صرف مشکل یا ضرورت کے لمحوں میں اس سے رجوع کرنے سے ذرا آگے بڑھ کر ذاتی سطح کے تعلقات کی کر رہا ہوں۔ وہ ذاتی تعلقات جو رفتہ رفتہ بے تکلف بھی ہوجاتے ہیں اور اس کی جانب سے جوابات عملا آپ کو اپنی زندگی میں نظر آنے لگتے ہیں۔ یوں صورتحال رفتہ رفتہ یہ ہوجاتی ہے کہ بعض چیزوں کی آپ کو محض خواہش ہی پیدا ہوئی ہوتی ہے کہ وہ پوری ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ مانگنے کی نوبت بھی نہیں آنے دیتا۔ اس ذاتی دوستی کی شرط بس ایک ہی ہے۔ یہ بے لوث ہونی چاہئے۔ اسے دوست اس نیت سے نہیں بنانا چاہئے کہ دنیا کے خزانے ملنے لگیں گے۔ اس طرح سوچیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ اس سے دوستی بس اسی کے حصول کے لئے ہونی چاہئے۔ اس حوالے سے ذاتی تجربہ محض اس لئے شیئر کر رہا ہوں کہ آپ بھی اگر چاہیں تو ایسا کر سکیں۔ اور دنیا سے بے نیاز ہی نہیں بلکہ بے خوف بھی ہوسکیں۔ پھر چاہے وہ ٹینکوں والے ہوں، خواہ خداوندانِ اکابر۔

نہایت ہی سادہ سا طریقہ ہے۔ کسی سے سیکھا نہیں تھا، بس مشکلات کے ایک دور میں سب نے ساتھ چھوڑ دیا تھا تو دوستی کے لئے اس کے سوا کوئی بچا ہی نہ تھا۔ سو اسے دوست بنا کر تنہائی دور کی تھی۔ آغاز یوں ہوا تھا کہ ایک شام دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا اور اسے مخاطب کرکے کہا

"میرے رب ! میں آپ کو ایک قصہ سنانا چاہتا ہوں۔ اس لئے نہیں کہ آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں بلکہ اس لئے کہ اپنا دکھڑا کسی کو سنانا چاہتا ہوں مگر سننے کے لئے آپ کے سوا کوئی بچا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"

اور یوں میں نے اسے ایک ذاتی قصہ سنانا شروع کیا۔ اور قصدا اسے طویل سے طویل ترکرتا چلا گیا۔ اس کی جزیات یوں بتاتا گیا جیسے کسی لاعلم کو بتائی جاتی ہیں۔ لطف بہت آیا، دل ایسا ہلکا ہوا جیسے روئی کا گالا۔ یوں یہ سلسلہ مستقل چل پڑا مگر یوں کہ ہر بار دیوار سے ٹیک کے چکر میں نہ پڑتا بلکہ جہاں بھی جس حال میں بھی تنہائی میسر آئی اس سے گپیں لگانی شروع کر دیں۔ بسا اوقات اس سے بات کرتے ہوئے کسی بات پر بالکل اسی طرح ہنس بھی دیتا ہوں جس طرح ہم دوستوں سے بات کرتے ہوئے ہنسی والی بات پر ہنس دیتے ہیں۔ شروع میں دل ہلکا ہونے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا تھا۔ مگر بہت جلد میں نے عقیدے کی دنیا سے باہر عمل کی دنیا میں اس کی ہلجل دیکھنی شروع کردی۔ مثلا بیٹے نے کہا کہ انجینئر بننا ہے اور میرے پاس ٹکا نہیں۔ اس نے بھائی رحمت اللہ کے ذمہ لگا دیا اور اسی نے بچے کو انجینئرنگ کرادی۔ مثلا ایک دن ٹیکسی میں جاتے ہوئے بچوں میں سے ایک نے پوچھا

"اگر آپ گاڑی خریدنے کے لائق ہوتے تو کونسی خریدتے ؟ "

میں نے کہا

" ٹویٹا کی انڈس"

جیب میں ٹکا نہیں اور مہینے بعد میں انڈس کار کا مالک بن گیا۔ جاب جانے کے نتیجے میں مشکلات شروع ہوئیں تو جس زمانے میں کوئی کسی کو دس ہزار روپے ادھار بھی نہیں دیتا اسی زمانے میں جگر من وحید مراد پیچھے پڑ گیا کہ

"یہ میرے پاس دس لاکھ روپے پڑے ہیں جو نہ مجھے انڈے دے رہے ہیں اور نہ ہی بچے، یہ تم لو اور اسے کسی کار و بار میں لگا کر کچھ نہ کچھ خرچے کا تو انتظام کرلو"

میں نے کہا

" مجھے کار و بار نہیں آتے، یہ ضائع ہوجائیں گے"

تو جواب ملا

"ہونے دو ضائع"

فیملی اسلام آباد سے کراچی شفٹ کرنے کا مرحلہ آیا تو جیب حسب معمول خالی۔ کسی سے ذکر بھی نہیں کیا ۔ اور ایک پرانے دوست عبد الباسط نے اپنی ہی طرف سے کہدیا کہ

"بھئی تمہارے سارے سامان کی کراچی منتقلی کا بل میں پے کروں گا"

گھر پسند آیا اور مالک مکان نے ایڈوانس وغیرہ کے کھاتے میں ڈیڑھ لاکھ سے اوپر کا مطالبہ رکھدیا تو بھائیوں نے کہا

"یہ تو ہم پے کریں گے"

ایک بار پھر نوکری گئی اور بھائی سے کہا کہ

" اس مالک مکان سے معاملات آپ نے ہی طے کئے تھے، اسے کہئے کہ جب تک نوکری نہیں لگ جاتی کرائے کا مطالبہ نہ کرے"

بھائی نے کہا

"اچھا ٹھیک ہےکہدیتا ہوں"

اور کہنے کے بجائے اگلے ماہ سے کرایہ خود پے کرنا شروع کردیا۔ دو بچوں کی شادی ہوگئی اور الحمدللہ عزت اور وقار کے ساتھ ہوگئی وہ بھی اس حال میں کہ خرچ بھائیوں اور ایک عزیزہ نے اٹھایا۔ آمدنی میری اتنی ہے کہ گھر کی دال روٹی بھی چلنی مشکل نظر آئے مگر فروٹ، مچھلیاں، گوشت، چاول، شہد، زیتون اور پتہ نہیں کیا کیا پیٹیوں کے حساب سے آتا ہے۔ اور یہ سب مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

میں نے اپنے رب کو پنڈی میں "روشندان والا" کا نام دے رکھا تھا۔ میں جب اپنے کمرے میں اس سے کوئی چھوٹا موٹا جملہ بھی کہتا تو کمرے کے روشندان کے راستے آسمان کی سمت دیکھ کر مثلا کچھ یوں کہدیتا

"روشندان والے ! تیرا جواب نہیں، تو عجیب ہی ہے"

کبھی کسی دوست نے اپنی کسی پریشانی کا ذکر کیا تو دل ہی دل میں خود سے کہا

"چلیں آج اس کے لئے بھی روشندان والے سے بات کرتے ہیں"

اب کراچی منتقل ہوئے ہیں تو یہاں میرے میٹرس سے متصل کھڑکی ہے۔ یوں اب میں نے اس کا نام بدل دیا ہے۔ اب وہ "کھڑکی والا" ہے

جب بھی کوئی ایسی تحریر قلم سے نکل آئے جو مجھے بھی چونکا دے تو فورا بیٹھے بیٹھے کھڑکی کے راستے آسمان کی سمت دیکھتا ہوں چاہے کھڑکی پر پردہ ہی کیوں نہ پڑا ہو اورکہتا ہوں

"کھڑکی والے ! کہاں مجھ جیسا وہ پٹھان جن کی اردو کی ٹانگیں توڑنا ضرب المثل، اور کہاں یہ تحریر اور وہ بھی ایسے پٹھان کے قلم سے جس نے اردو بطور نصاب کبھی ایک دن کے لئے بھی نہیں پڑھی۔ یہ تو ہی ہے جو کئے جا رہا ہے"

کوئی کمنٹس میں کسی تحریر پر اچھی سی داد دیدے تو تب بھی لازما کھڑکی میں دیکھ کر کہتا ہوں

"کھڑکی والے ! اس بیچارے کو کیا پتہ کہ یہ تو میرا کام نہیں تیرا کرم ہے"

سو جگر کے توٹو ! اگر اس پوسٹ سے یہ نتیجہ اخذا کر بیٹھے کہ یہ تو کوئی ولی اللہ ہے، اس سے تو دعائیں لینی چاہئیں تو میرے رب کی قسم آپ شیطان کے فریب میں آگئے ۔ اور اگر آپ نے اس سے یہ نتیجہ اخذا کر لیا کہ اتنے بڑے فضول آدمی کے ساتھ بھی اگر اس کا معاملہ اور سلوک یہ ہے تو کیوں نہ میں بھی ایسا ہی کرلوں ؟ تو سمجھ لیجئے کہ قدرت آپ پر مہربان ہے، وہ آپ کی بھی منتظر ہے۔ آپ کتنے ہی گنہگار کیوں نہ ہوں، آپ کتنے ہی خطاء کار کیوں نہ ہوں، یہ چلن اختیار کرکے دیکھئے، وہ دوست بن کر رہے گا۔ اور اپنی دوستی کے ایسے ایسے مظاہر دکھائے گا کہ آپ کو مبہوت کردے گا۔

اسے مولوی نے کسی منتقم مزاج مہتمم جیسا سمجھ رکھا ہے جس سے آپ کو ہر وقت ڈراتا رہتا ہے۔ اور آپ سے کہتا ہے کہ اس کی رضاء اس لئے اختیار کرو کہ ایسا نہ کرنے کے نتیجے میں وہ آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ میرے اور آپ کے لئے وہ اینٹ سے اینٹ بجانے ولا نہیں ،سینے سے سینہ ملانے والا رب ہے۔ اس کی اینٹ بجانے والی صفت سے وہ ڈرے جو اس سے سرکش ہو، اور اس کا باغی ہو۔ ہم اپنے دوست سے کیوں ڈریں ؟اور دوست بھی وہ کہ اس جیسی دوستی سات ارب انسان مل کر بھی نہیں نبھا سکتے۔ ہاں ! میں اس سے ڈرتا بھی ہوں مگر تب جب کچھ غلط کرنے لگتا ہوں۔ پلیز ! یہ پوسٹ پڑھ کر میرے انبکس میں مت آیئے گا، اس کے انبکس میں جایئے گا، جس کی آئی ڈی اس پوسٹ کے ذریعے آپ کو دیدی !
 
Top