makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
بھارت کی جی حضوری میں ہم اس قدر پیش پیش ہیں کہ ایک وقوعہ اس کی سرزمین پر ہوا، مگر اس کی تفتیش ہم کر رہے ہیں اوراس شتابی سے کہ ہم نے جیش محمد کے سربراہ ا ور معلوم نہیں کہ اس تنظیم کے کتنے دیگر لیڈروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہی حرکت ہم نے ممبئی واقعے کے بعد بھی کی تھی، اس وقت بھارت نے لشکر طیبہ پر الزام لگایا تھااور حافظ محمد سعید اور ذکی ا لرحمن لکھوی کے نام گنوائے تھے، ہم نے پکڑ کران کو بند کر دیا، ہماری عدالتیں ان کو رہا کر چکیں مگر لکھوی کی رہائی عملی طور پر عمل میں نہیں آ پا رہی۔بھارت کے ہاتھ ایک نسخہ آ گیا ہے کہ وہ کسی ایک جگہ ٹھوں ٹھاں کرے اور اس کا الزام پاکستان کی کسی تنظیم یا لیڈر شپ پر عائد کردے ، باقی کام پاکستان خود کرے گا اور بھارت کے نامزد کئے گئے لوگوں کے خلاف کاروائی شروع ہو جائے گی۔
پاکستان میں ایک تھانے کی حدود سے دوسرے تھانے سے تفتیش کروانے کے لئے جان توڑ جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت میںمقدمہ لے جانا اس سے بھی مشکل مگ بھارت کے پاس ایسی جادو کی چھڑی ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر ہونے والے وقوعے کی تفتیش ہم سے کروا رہا ہے۔
مگر بھارت نے سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرم کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں کی، یہ صاحب بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل ہیں، ان کے خلا ف ممبئی دہشت گردی سیل کا سربراہ تفتیش کر رہا تھا،ا سے ممبئی سانحے کے ابتدائی لمحات میں قتل کر دیا گیا۔اس کا کیامطلب ہوا، اس کی تشریح کی چنداں ضرورت نہیں، ہم کہتے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے، رینجرز کہتی ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کی تربیت بھارتی ادارہ را دیتا ہے، ہم نے کچھ مجرم پکڑ رکھے ہیں، انہوںنے اپنے تربیت دینے والوں کے نام بھی بتائے ہوں گے، بھارت نے ان کے خلاف کیا کاروائی کی، ابھی بدھ کو جلال آباد کے پاکستانی قونصلیٹ میں دھماکہ ہوا، یہ دھماکہ بھارت کے علاوہ کون کر سکتا ہے، جمعرات کو انڈونیشیا میں ہمارے سفارتخانے میں دھماکہ ہوا، یہ سب کچھ اس دھمکی کے بعد ہو رہا ہے جو بھارتی وزیر نے منگل کو دی ہے کہ اب دشمن کو بھی وہی تکلیف پہنچائیں گے جو بھارت کو پٹھانکوٹ کی وجہ سے پہنچی ہے۔ تو ہم نے ان دونوں دھماکوں کے لئے بھارت سے کس مجرم کو مانگا،ہے، اگر میں غلطی نہیں کرتا تو اے پی ایس پشاور کے بچوں کے وحشیانہ قتل کے دوران آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا تھا کہ انہوںنے ساری فون کالز کا ریکارڈ حاصل کر لیا ہے اور یہ ثبوت موجود ہیں کہ اس سانحے کی ہدایات افغانستان سے دی جا رہی تھیں ۔ اگرچہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ لوگ بھارتی تھے مگر پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اس سانحے کے ذمے دار بھارتی را کے دہشت گرد ہیں، کراچی میں اورین طیارہ تباہ ہوا، کامرہ میں ایواکس طیارہ تباہ ہوا، ان کو تباہ کرنے کا فائدہ صرف اور صرف بھارت کو پہنچتا ہے، کیا ہم نے ان کے مجرم بھارت سے مانگے ہیں اور اگرا ٓج تک ہم نے اپنے مرنے والوں اور دیگر نقصانات کے ذمے داروں کو بھارت سے نہیں مانگا اور خود بھارت نے بھی ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تو ہمارے اوپر کونسی قیامت نازل ہو گئی ہے کہ ہم نے بھارت کے ہونٹ ہلانے پر جیش محمد کی قیادت کو دھر لیا ہے، کیا کل کلاں کو بھارت یہ کہے کہ اسداللہ غالب اس کے خلاف بہت چڑ چڑ کرتا ہے تو کیا میرا حشر بھی لکھوی اور مسعود اظہر کا سا ہو گا، بسم اللہ!ِ میں اس روز سعید کا بے تابی سے منتظر ہوں۔میرے مرشد جناب مجید نظامی نے کہا تھا کہ وہ کھل کر کشمیریوں کی حمائت کرتے ہیںا ور اگر کشمیریوں کی حمایت دہشت گردی ہے تو امریکہ انہیں اٹھا کر گوانتا نامو لے جائے۔ وہ نہیں ڈرے تو میں کس سے ڈروں گا اور کاہے کو ڈروں گا۔ میرا موقف ہے کہ جب تک بھارت ہمارے شہید وں کے مجرم ہمارے حوالے نہیں کرتا یا خود انہیں پھانسی نہیں دیتا تو تب تک اس کے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا جائے، بھارت کی تھانیداری کو قبول کرنے کا جونقصان ہو گا،اس کے تصور سے ہی ہول اٹھتا ہے۔ یہ تو ہندو کی غلامی میں جانے کے مترادف ہے، وہ ہزار سالہ غلامی کا بدلہ چکانا چاہتا ہے ا ور ایک ہم ہیں کہ خود ہی اس کی غلامی کے جوئے میں سر پھنسا رہے ہیں۔
کیا طرفہ تماشہ ہے کہ ہم ایک صریح اور کھلے دشمن کے صدقے واری جا رہے ہیں مگر وہ جو ہمارا برسوں سے دوست ہے اوراسنے ہر موقع پر ہمارے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا ہے،ا سے ہم نے ٹرخا دیا ہے، خارجہ مشیر کہتے ہیں کہ نہ سعودیہ نے فوج مانگی، نہ ہم فوج دیں گے ، صرف معلومات کا تبادلہ کریں گے یا اسلحہ دیں گے۔ پتہ نہیں پاکستان کے پاس کیا معلومات ہیں جو سعودی عرب کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں، ہمیں تو اپنے ہاں وارداتیں کرنے والوں کا کچھ علم نہیں ہوتا، روز سانحے پر سانحہ ہو رہا ہے، رہا اسلحہ تو کونساا سلحہ پاکستان کے پاس ایساہے جس سے بہتر اسلحہ عالمی مارکیٹ سے نہیں ملتا، ہاں تھنڈر طیارے ہیں، مگر وہ تو سعودیہ نے نہیں مانگے، ا سلئے کہ اس کے پاس پہلے ہی طیاروں کا ڈھیر ہے۔ اور ہر قسم کے اسلحے کاا نبار ہے۔ سعودیہ سے یہ سلوک ہم نے پہلی مرتبہ نہیں کیا، جب عراق سے خطرہ درپیش تھا تو تب جنرل اسلم بیگ نے ضد کی تھی کہ صدام حسین کو نئی کربلا درپیش ہے، ہماری حکومت کے دبائو پر اسلم بیگ صاحب نے چند د ستے بھیج تو دیئے مگر انہیں عراق کی سرحد سے سینکڑوں میل دور تعینات کیا گیا۔ اگرا سوقت ہم نے اپنی فوج سعودیہ کو نہیں دی تو عراق نے سعودیہ کو ڈکار نہیں لیا اور آج اگر ہم نے فوج دینے سے انکار کر دیا ہے تو میرا ایمان ہے کہ سرزمین حرمین شریفین کی حفاظت کرنے والا خدا ہے، ہم اس ثواب سے اپنے آپ کو محروم رکھنا چاہتے ہیں تو شاید یہ بھی ثواب ہو۔
مجھے عادت نہیں کہ یہ کہوں کہ میںنے یہ تو فلاں وقت لکھ دیا تھا مگر یہ میںنے کئی بار لکھا کہ پاکستان کو اس قدر کمزور کر دیا جائے گا اورا سے دہشت گردی کی جنگ میں اس قدر پھنسا دیا جائے گا کہ یہ کسی دوسرے کی مدد کے قابل ہی نہیں رہے گا اور یہی وہ وقت ہو گا جب عالمی شاطر سعودیہ کے گلے پڑیں گے، میں ایران کو مطعون نہیںکرتا،وہ سعودیہ کا نہ تو کچھ بگاڑنا چاہتا ہے، نہ بگاڑ سکتا ہے مگر عالمی طاقتیں تواب سعودی عرب کو گھیرے میں لے چکی ہیں۔ اور کیا ہی بہتر ہوتا کہ پاکستان کھری بات کرتا کہ میرے اندر توآپ کی مدد کرنے کی طاقت ہی نہیں۔ہماری فوج بری طرح پھنسی ہوئی ہے، رینجرز کو ہم نے کراچی میں کومٹ کر دیا ہے، کوئی بلوچستان میں دھنسا ہو اہے، کوئی کنٹرول لائن پر اور ہماری پولیس حکمرانوں کی حفاظت کامقدس فرض نبھا رہی ہے ۔ توکون فارغ ہے سعودی عرب جانے کے لئے، جن لوگوںنے سعودیہ کے ریال کھائے، وہ چپ شاہ بنے ہوئے ہیں۔
بھارت کی گیم سامنے آ گئی ہے، وہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والی پالیسی پر کاربند ہے۔جلا ل آباد کے بعد ہماری درگت نئی دہلی کے پی آئی اے دفتر میںبنائی گئی ۔جس دن پٹھانکوٹ ہوا، ساری دنیا نے سمجھ لیا تھاکہ بھارت مذاکرات سے بھاگنا چاہتا ہے، اور وہ بھاگ گیا ہے۔باقی سب کہانیاں ہیں۔
"اسد اللہ غالب کا کالم"
پاکستان میں ایک تھانے کی حدود سے دوسرے تھانے سے تفتیش کروانے کے لئے جان توڑ جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت میںمقدمہ لے جانا اس سے بھی مشکل مگ بھارت کے پاس ایسی جادو کی چھڑی ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر ہونے والے وقوعے کی تفتیش ہم سے کروا رہا ہے۔
مگر بھارت نے سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرم کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں کی، یہ صاحب بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل ہیں، ان کے خلا ف ممبئی دہشت گردی سیل کا سربراہ تفتیش کر رہا تھا،ا سے ممبئی سانحے کے ابتدائی لمحات میں قتل کر دیا گیا۔اس کا کیامطلب ہوا، اس کی تشریح کی چنداں ضرورت نہیں، ہم کہتے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے، رینجرز کہتی ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کی تربیت بھارتی ادارہ را دیتا ہے، ہم نے کچھ مجرم پکڑ رکھے ہیں، انہوںنے اپنے تربیت دینے والوں کے نام بھی بتائے ہوں گے، بھارت نے ان کے خلاف کیا کاروائی کی، ابھی بدھ کو جلال آباد کے پاکستانی قونصلیٹ میں دھماکہ ہوا، یہ دھماکہ بھارت کے علاوہ کون کر سکتا ہے، جمعرات کو انڈونیشیا میں ہمارے سفارتخانے میں دھماکہ ہوا، یہ سب کچھ اس دھمکی کے بعد ہو رہا ہے جو بھارتی وزیر نے منگل کو دی ہے کہ اب دشمن کو بھی وہی تکلیف پہنچائیں گے جو بھارت کو پٹھانکوٹ کی وجہ سے پہنچی ہے۔ تو ہم نے ان دونوں دھماکوں کے لئے بھارت سے کس مجرم کو مانگا،ہے، اگر میں غلطی نہیں کرتا تو اے پی ایس پشاور کے بچوں کے وحشیانہ قتل کے دوران آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا تھا کہ انہوںنے ساری فون کالز کا ریکارڈ حاصل کر لیا ہے اور یہ ثبوت موجود ہیں کہ اس سانحے کی ہدایات افغانستان سے دی جا رہی تھیں ۔ اگرچہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ لوگ بھارتی تھے مگر پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اس سانحے کے ذمے دار بھارتی را کے دہشت گرد ہیں، کراچی میں اورین طیارہ تباہ ہوا، کامرہ میں ایواکس طیارہ تباہ ہوا، ان کو تباہ کرنے کا فائدہ صرف اور صرف بھارت کو پہنچتا ہے، کیا ہم نے ان کے مجرم بھارت سے مانگے ہیں اور اگرا ٓج تک ہم نے اپنے مرنے والوں اور دیگر نقصانات کے ذمے داروں کو بھارت سے نہیں مانگا اور خود بھارت نے بھی ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تو ہمارے اوپر کونسی قیامت نازل ہو گئی ہے کہ ہم نے بھارت کے ہونٹ ہلانے پر جیش محمد کی قیادت کو دھر لیا ہے، کیا کل کلاں کو بھارت یہ کہے کہ اسداللہ غالب اس کے خلاف بہت چڑ چڑ کرتا ہے تو کیا میرا حشر بھی لکھوی اور مسعود اظہر کا سا ہو گا، بسم اللہ!ِ میں اس روز سعید کا بے تابی سے منتظر ہوں۔میرے مرشد جناب مجید نظامی نے کہا تھا کہ وہ کھل کر کشمیریوں کی حمائت کرتے ہیںا ور اگر کشمیریوں کی حمایت دہشت گردی ہے تو امریکہ انہیں اٹھا کر گوانتا نامو لے جائے۔ وہ نہیں ڈرے تو میں کس سے ڈروں گا اور کاہے کو ڈروں گا۔ میرا موقف ہے کہ جب تک بھارت ہمارے شہید وں کے مجرم ہمارے حوالے نہیں کرتا یا خود انہیں پھانسی نہیں دیتا تو تب تک اس کے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا جائے، بھارت کی تھانیداری کو قبول کرنے کا جونقصان ہو گا،اس کے تصور سے ہی ہول اٹھتا ہے۔ یہ تو ہندو کی غلامی میں جانے کے مترادف ہے، وہ ہزار سالہ غلامی کا بدلہ چکانا چاہتا ہے ا ور ایک ہم ہیں کہ خود ہی اس کی غلامی کے جوئے میں سر پھنسا رہے ہیں۔
کیا طرفہ تماشہ ہے کہ ہم ایک صریح اور کھلے دشمن کے صدقے واری جا رہے ہیں مگر وہ جو ہمارا برسوں سے دوست ہے اوراسنے ہر موقع پر ہمارے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا ہے،ا سے ہم نے ٹرخا دیا ہے، خارجہ مشیر کہتے ہیں کہ نہ سعودیہ نے فوج مانگی، نہ ہم فوج دیں گے ، صرف معلومات کا تبادلہ کریں گے یا اسلحہ دیں گے۔ پتہ نہیں پاکستان کے پاس کیا معلومات ہیں جو سعودی عرب کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں، ہمیں تو اپنے ہاں وارداتیں کرنے والوں کا کچھ علم نہیں ہوتا، روز سانحے پر سانحہ ہو رہا ہے، رہا اسلحہ تو کونساا سلحہ پاکستان کے پاس ایساہے جس سے بہتر اسلحہ عالمی مارکیٹ سے نہیں ملتا، ہاں تھنڈر طیارے ہیں، مگر وہ تو سعودیہ نے نہیں مانگے، ا سلئے کہ اس کے پاس پہلے ہی طیاروں کا ڈھیر ہے۔ اور ہر قسم کے اسلحے کاا نبار ہے۔ سعودیہ سے یہ سلوک ہم نے پہلی مرتبہ نہیں کیا، جب عراق سے خطرہ درپیش تھا تو تب جنرل اسلم بیگ نے ضد کی تھی کہ صدام حسین کو نئی کربلا درپیش ہے، ہماری حکومت کے دبائو پر اسلم بیگ صاحب نے چند د ستے بھیج تو دیئے مگر انہیں عراق کی سرحد سے سینکڑوں میل دور تعینات کیا گیا۔ اگرا سوقت ہم نے اپنی فوج سعودیہ کو نہیں دی تو عراق نے سعودیہ کو ڈکار نہیں لیا اور آج اگر ہم نے فوج دینے سے انکار کر دیا ہے تو میرا ایمان ہے کہ سرزمین حرمین شریفین کی حفاظت کرنے والا خدا ہے، ہم اس ثواب سے اپنے آپ کو محروم رکھنا چاہتے ہیں تو شاید یہ بھی ثواب ہو۔
مجھے عادت نہیں کہ یہ کہوں کہ میںنے یہ تو فلاں وقت لکھ دیا تھا مگر یہ میںنے کئی بار لکھا کہ پاکستان کو اس قدر کمزور کر دیا جائے گا اورا سے دہشت گردی کی جنگ میں اس قدر پھنسا دیا جائے گا کہ یہ کسی دوسرے کی مدد کے قابل ہی نہیں رہے گا اور یہی وہ وقت ہو گا جب عالمی شاطر سعودیہ کے گلے پڑیں گے، میں ایران کو مطعون نہیںکرتا،وہ سعودیہ کا نہ تو کچھ بگاڑنا چاہتا ہے، نہ بگاڑ سکتا ہے مگر عالمی طاقتیں تواب سعودی عرب کو گھیرے میں لے چکی ہیں۔ اور کیا ہی بہتر ہوتا کہ پاکستان کھری بات کرتا کہ میرے اندر توآپ کی مدد کرنے کی طاقت ہی نہیں۔ہماری فوج بری طرح پھنسی ہوئی ہے، رینجرز کو ہم نے کراچی میں کومٹ کر دیا ہے، کوئی بلوچستان میں دھنسا ہو اہے، کوئی کنٹرول لائن پر اور ہماری پولیس حکمرانوں کی حفاظت کامقدس فرض نبھا رہی ہے ۔ توکون فارغ ہے سعودی عرب جانے کے لئے، جن لوگوںنے سعودیہ کے ریال کھائے، وہ چپ شاہ بنے ہوئے ہیں۔
بھارت کی گیم سامنے آ گئی ہے، وہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والی پالیسی پر کاربند ہے۔جلا ل آباد کے بعد ہماری درگت نئی دہلی کے پی آئی اے دفتر میںبنائی گئی ۔جس دن پٹھانکوٹ ہوا، ساری دنیا نے سمجھ لیا تھاکہ بھارت مذاکرات سے بھاگنا چاہتا ہے، اور وہ بھاگ گیا ہے۔باقی سب کہانیاں ہیں۔
"اسد اللہ غالب کا کالم"
Last edited by a moderator: