میرب فاطمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 06، 2012
- پیغامات
- 195
- ری ایکشن اسکور
- 218
- پوائنٹ
- 107
ہم کیوں دعا کرنا چھوڑ دیتے ہیں؟
کیا ہمارے پاس کوئی پیمانہ ہے جو ہمیں بتا سکے کہ ہماری دعا رد کر دی گئی ہے یا ضائع چلی گئی ہے؟
یا پھر ہم نے دعا کی قبولیت اس شے کو سمجھ رکھا ہے کہ ہم اپنی جائز ناجائز خواہشات کو تمام جہانوں کے بادشاہ پر مسلط کر دیں اور پھر اس کو پورا ہوتا ہوا دیکھ لیں؟ بغیر اس کا انجام جانے ہوئے۔۔۔بغیر کسی حکمت کو سمجھے ہوئے۔۔۔بغیر درست وقت کا ادراک کیئے ہوئے؟
رب دیکھے ہی نہ کہ بندہ جو مانگ رہا ہے وہ اچھا ہے اس کے حق میں یا بُرا ہے۔بس ہم نے جو دعا مسلط کر دی ہے اس پر بس وہ اسے جوں کا توں آنًا فانًا پورا کر دے؟
اگر اسی کا نام قبولیت رکھ لیا ہے تو اس سے بڑھ کر اللہ کی توہین اور کیا ہوگی؟
جبکہ دعا تو ایک التجا کا ،ایک درخواست کا نام ہے جو ایک حقیر اور محتاج بندہ اپنے مالک کے آگے کرتا ہے۔ایک بندہ جو اپنا آنے والا کل نہیں جانتا اور وہ مالک جو عالم الغیب ،مختار کل اور بندے کو بندے سے زیادہ جاننے والا اور اس سے کہیں زیادہ اس کا بھلا چاہنے والا اور کہیں زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی بہت ضرورت ہے۔دعا کریں، کوشش کرتے رہیں، تغافل نہ برتیں۔ جلد بازی نہ کریں اور انجام عالم الغیب کے سپرد کر دیں۔ فرمان باری تعالی ہے:
وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور الله ہی جانتا ہے اور تم (کچھ بھی )نہیں جانتے۔
(البقرہ/۱۲۴)
پھر فرمان رسول صل اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہو:
بندے کی دعا تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی:
(۱)یا اس کا گناہ بخشا جاتا ہے۔
(۲)یا دنیا میں اسے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
(۳)یا اس کیلئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ اپنی اُن دعاؤں کا ثواب دیکھے گا جو دنیا میں مُسْتَجاب(قبول)نہ ہوئی تھیں تمنّا کرے گا:
کاش!دنیامیں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی اور سب یہیں کے واسطے جمع رہتیں ۔
(ترمذی،کتاب الدعوات،باب فی جامع الدعوات۔۔۔ الخ،۵/۲۹۲،حدیث:۳۴۹)
کیا ہمارے پاس کوئی پیمانہ ہے جو ہمیں بتا سکے کہ ہماری دعا رد کر دی گئی ہے یا ضائع چلی گئی ہے؟
یا پھر ہم نے دعا کی قبولیت اس شے کو سمجھ رکھا ہے کہ ہم اپنی جائز ناجائز خواہشات کو تمام جہانوں کے بادشاہ پر مسلط کر دیں اور پھر اس کو پورا ہوتا ہوا دیکھ لیں؟ بغیر اس کا انجام جانے ہوئے۔۔۔بغیر کسی حکمت کو سمجھے ہوئے۔۔۔بغیر درست وقت کا ادراک کیئے ہوئے؟
رب دیکھے ہی نہ کہ بندہ جو مانگ رہا ہے وہ اچھا ہے اس کے حق میں یا بُرا ہے۔بس ہم نے جو دعا مسلط کر دی ہے اس پر بس وہ اسے جوں کا توں آنًا فانًا پورا کر دے؟
اگر اسی کا نام قبولیت رکھ لیا ہے تو اس سے بڑھ کر اللہ کی توہین اور کیا ہوگی؟
جبکہ دعا تو ایک التجا کا ،ایک درخواست کا نام ہے جو ایک حقیر اور محتاج بندہ اپنے مالک کے آگے کرتا ہے۔ایک بندہ جو اپنا آنے والا کل نہیں جانتا اور وہ مالک جو عالم الغیب ،مختار کل اور بندے کو بندے سے زیادہ جاننے والا اور اس سے کہیں زیادہ اس کا بھلا چاہنے والا اور کہیں زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی بہت ضرورت ہے۔دعا کریں، کوشش کرتے رہیں، تغافل نہ برتیں۔ جلد بازی نہ کریں اور انجام عالم الغیب کے سپرد کر دیں۔ فرمان باری تعالی ہے:
وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور الله ہی جانتا ہے اور تم (کچھ بھی )نہیں جانتے۔
(البقرہ/۱۲۴)
پھر فرمان رسول صل اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہو:
بندے کی دعا تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی:
(۱)یا اس کا گناہ بخشا جاتا ہے۔
(۲)یا دنیا میں اسے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
(۳)یا اس کیلئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ اپنی اُن دعاؤں کا ثواب دیکھے گا جو دنیا میں مُسْتَجاب(قبول)نہ ہوئی تھیں تمنّا کرے گا:
کاش!دنیامیں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی اور سب یہیں کے واسطے جمع رہتیں ۔
(ترمذی،کتاب الدعوات،باب فی جامع الدعوات۔۔۔ الخ،۵/۲۹۲،حدیث:۳۴۹)