• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نے جو بویا ہے

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
ہم نے جو بویا ہے

ہم اپنے بچوں کو کیوں پڑھاتے ہیں؟
اپنے بچوں کو تعلیم دیتے وقت ہماری نیت کیا ہوتی ہے؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دیر تک سونے والی مائیں صبح صبح اُٹھ جاتی ہیں۔ اپنے بچوں کو نیند سے جگاتی ہیں۔ انہیں تیار کرتی ہیں۔ ننھے منے بچوں کو دل پر پتھر رکھ کر وین میں بٹھا کر اسکول روانہ کرتی ہیں۔
بچے اسکول جاتے ہیں۔ چھہ سات گھنٹے اسکول میں گزارتے ہیں۔ پھر گھر آتے ہیں۔ مائیں بچوں کو لے کر گھنٹوں ہوم ورک کراتی ہیں یا ٹیوٹر آکر انہیں ٹیوشن پڑھاتا ہے۔ بعض بچے آٹھ گھنٹے، بعض دس گھنٹے اور بعض بارہ بارہ یا سولہ سولہ گھنٹے پڑھتے ہیں، رات دن محنت کرتے ہیں۔ آخر کس لئے ہے اتنی محنت؟
یہ محنت و مشقت تین، چار یا پانچ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے اور20 /22 سال کی عمر تک چلتا رہتا ہے؟
بچے بھی محنت کرتے ہیں اور باپ ماں بھی بچوں کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔
آخر کس لئے؟ آخر کس لئے ہم اتنی محنت کرتے ہیں؟
اپنے بچوں کو پڑھانے کے پیچھے ہماری نیت کیا ہوتی ہے؟
جواب بالکل سادہ سا ہے۔
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں۔
ہم یہی سوچتے ہیں یا ہماری نیت یہی ہوتی ہے نہ کہ
بچہ پڑھ لکھ جائے گا،
اپنی زندگی بنالے گا،
اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ ڈگری حاصل کر لے گا،
تو اچھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا،
پھر خوب روپیہ کمائے گا،
اور ہمیں سپورٹ کرے گا۔
ہماری فیملی کو سپورٹ کرے گا،
بھائی بہنوں کو سپورٹ کرے گا،
ہماری حالت سدھر جائے گی،
ہم امیر سے امیر تر ہوجائیں گے،
ہم بھی دنیا کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اکثر گھرانوں میں بچوں کو سنایا جاتا ہے:
’’ ہماری ساری امیدیں تم سے ہےِ، تم ہی نے ہماری حالت بدلنا ہے، تم نے خوب پڑھنا لکھنا ہے، بڑا آدمی بننا ہے اور بڑا ہو کر خوب مال کمانا ہے‘‘۔
لہذا بچے کے ذہن میں بچپن سے ہی یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ ’’ اسے بڑا ہو کر مال کمانا ہے بس‘‘۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بچہ یہی سوچ لے کر اسکول جاتا ہے۔
استاد اس بچے کو پڑھاتا ہے اور روپیہ کماتا ہے۔
استاد کا مقصد بھی روپیہ کمانا ہے۔
اسکول کی طرف سے جو کتابوں کا پلندہ ہوتا ہے، اکثر استادوں کا مقصد صرف ان کتابوں کو بچے کی دماغ میں اتارنا ہوتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بچے کا دین کیا ہے؟
بچے کا عمل کیسا ہے؟
بچے کا اخلاق کیسا ہے؟
وہ کیسے BEHAVE کرتا ہے؟
بچے کی سوچ کیا ہے اور وہ کیسے سوچتا ہے؟
بہت کم استاد اس بارے میں سوچتے ہیں۔
بلکہ اکثر اسکول انتظامیہ کی جانب سے استادوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اپنے کام سے کام رکھیں، جو کورس کی کتابیں ہیں صرف وہی پڑھائیں، بچہ باقی جو کرتا ہے اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ہونا چاہئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
والدین کو بھی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ
بچے کا دین صحیح ہے یا نہیں،
اس کا اخلاق صحیح ہو رہا ہے یا نہیں،
اس کا کردار صحیح ہو رہا ہے یا نہیں،
اسے حلال حرام کی تمیز ہے یا نہیں،
اس کا عمل ، اس کا BEHAVIOR صحیح ہے کہ نہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
والدین کو بس فکر ہے تو ایک ہی فکر ہے کہ
بچے کی پڑھائی صحیح ہونی چاہئے۔
بچے کا مارک صحیح ّآنا چاہئے،
جی پی GPٹھیک ہونا چاہئے،
ڈگری صحیح ہونی چاہئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگر یہ سب ٹھیک ہے تو چاہے وہ دین پر چلے یا نہ چلے،
چاہے اس کا اخلاق و کردار اچھا ہو یا نہ ہو،
چاہے وہ کیسا ہی برتاؤ) (BEHAVE کرے،
بڑوں کا احترام کرے یا نہ کرے،
سب معاف ہے، سب ٹھیک ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب ہماری کی سوچ ایسی ہوگی،
ہماری نیت ایسی ہوگی
تو
ہمیں پھل بھی ویسا ہی ملے گا،
جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث ہے:

إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى

’’ اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی‘‘۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم نے جو بویا ہے وہی کاٹ رہے ہیں،
ہماری نیت جیسی تھی ویسا ہی ہمیں پھل مل رہا ہے
ہم نے اپنے بچوں کومال کیلئے پڑھایا ہے،
وہ مال کما رہا ہے،
مال بنا رہا ہے،
جائز ناجائز ہر طریقے سے،
کرپشن پر کرپشن سے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قیام پاکستان کے بعد سے ابتک جو تعلیمی نظام رہا ہے، اس کا پھل یہی ملنا تھا، مل رہا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج ملک میں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے
آج کرپشن کی آگ میں ہم سب جل رہے ہیں،
اور یہ آگ عنقریب ہمیں جہنم کی آگ میں پہنچا دے گا
جہاں ہم جلیں گے،
ہمارے بچے جلیں گے،
ہم نے خود اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو جہنم کی آگ میں ڈالا ہے
جبکہ ہمیں حکم ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّ۔هَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴿٦﴾سورة التحريم

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت مزاج طاقتور فرشتے (مقرر) ہیں جو کسی بھی امر میں جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے اﷲ کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام انجام دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگر ہم اپنی نیت ٹھیک رکھتے اور
اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی سعی کرتے تو

• ہم اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی فکر کرتے جس سے ان کی دنیا بھی بنتی اور آخرت بھی سنورتی۔
• ہم انہیں دنیوی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ قرآن کی پہلی وحی اقراء سے جو علم کی روشنی پھیلی ہے اس روشنی سے بھی روشناس کراتے،
• ہم انہیں متقی، پرہیزگا، سچا اور مخلص مسلمان بنانے کیلئے پڑھاتے،
• ہم ان کا اخلاق درست کرنے کیلئے انہیں تعلیم دیتے،
• ہم انہیں اچھے کردار کا مالک بنانے کیلئے پڑھاتے،
• ہم انہیں حقوق کی ادائیگی کا درس دیتے۔
• ہم انہیں خائن کے بجائے امین بناتے،
• ہم انہیں حلال اور حرام کی پہچان کرنے والا بناتے۔
• ہم انہیں سمجھاتے کہ
• ہم غربت کی زندگی بسر کرلیں گے لیکن اللہ کی نافرمانی برداشت نہیں کریں گے،
• ہم بھوکے پیاسے گزارا کر لیں گے لیکن کرپشن کی کمائی کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔

تو آج معاشرے میں ہر سُو کرپشن کا آگ نہیں ہوتا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم سب مسلمان ہیں۔
اگر ہماری نیت میں اللہ کو راضی کرنا شامل نہیں،
دین اسلام کو مقدم رکھنا شامل نہیں،
ہماری آخرت کی کامیابی شامل نہیں
تو
ہمارے عمل میں کوئی خیر نہیں،
پھر
ہم کرپشن کی آسے کبھی نکل نہیں سکتے
اور
ہمیں تیار رہنا چاہئے جہنم کی ایدھن بننے کیلئے

’’ پھر جس شخص نے (دنیا میں) سرکشی کی ہوگی(37) اور دنیاوی زندگی کو (آخرت پر) ترجیح دی ہوگی(38) تو بیشک دوزخ ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا(39)‘‘ ۔ ۔ ۔ سورة النازعات
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگر ہمیں جہنم کی آگ سے بچنا ہے اور اپنے بچوں کو اور آئنددہ نسل کو بچانا ہے
تو
ہمیں سب سے پہلے اپنی نیت درست کرنی ہے،
ہمیں اپنا سوچ درست کرنا ہے،
ہمیں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کا بھی سوچنا ہے،
اپنی آخرت بنانی ہے،
اپنے بچوں کا آخرت سنوارنا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھر اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ اسکول کیوں جانا ہے؟
پڑھائی کیوں کرنی ہے؟
اور
پڑھ کر کیا کرنا ہے؟
کرپشن کرنا ہے
یا
کرپشن سے پاک رہنا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top