میرب فاطمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 06، 2012
- پیغامات
- 195
- ری ایکشن اسکور
- 218
- پوائنٹ
- 107
ایک مسلمان اور ایک سکھ عرصہ دراز سے بیرون ملک نوکری کے سلسلے میں ساتھ رہ رہے تھے۔ ایک ہی کمرہ، ایک جیسا ہی نوکری کا شیڈول۔ وقت گرزتا گیا، ایک دن مسلمان نے سکھ سے کہا کہ:' تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟'
سکھ (جو کہ جوتے کا تسمہ باندہ رہا تھا) یہ بات سنتے ہی مسلمان کی طرف سرسری نظر سے دیکھا اور کہا کہ :' ٹھیک ہے ، ہو جاتا ہوں مسلمان، مگر مجھے کرنا کیا ہو گا مسلمان ہو کر؟ صرف کلمہ ہی پڑھنا ہے ناں؟ تو پڑھا دو۔ میں بھی کلمہ پڑھ لیتا ہوں۔ صرف کلمہ پڑھنے کا ہی تو فرق ہے تمہارے اور میرے درمیان۔ یہ فرق بھی ختم کر لیتے ہیں۔ باقی تو ہماری زندگی، ہمارے شب وروز سب یکساں ہی تو ہے۔ آٹھ سال سے ہم ساتھ رہ رہے ہیں ،مجھے تو ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں لگا۔ پھر بھی تم کہتے ہو تو کلمہ پڑھ لیتا ہوں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلے گا۔ پڑھاؤ کلمہ۔۔۔"
(مسلمان کی نظریں زمین میں گڑ گئیں اورمارے شرمندگی کے وہ اب کہہ بھی کیا سکتا تھا۔۔۔۔ )
یہی مثال آج عام قانونی مسلمانوں کی ہے کہ ہمارے اعمال، ہمارے اقوال، ہماری زندگی گزارنے کے ڈھنگ، مغرب کی تقلید میں بگڑتے طور طریقے اور ہماری ترجیحات آج اس قابل ہی نہیں کہ ہم غیر اقوام کو اپنے کردار سے دعوت دے سکیں، ان کو امن کا درس دے سکیں، ان کو یہ بتا سکیں کہ ہم 'خیر امۃ' ہیں۔ ہم روئے ارض پر سب سے بہترین امت ہیں۔ہم صرف اپنے لیئے نہیں بلکہ غیر اقوام کو معبود حقیقی کی طرف بلانے آئے ہیں۔ ہم حامل قرآن ہیں۔ ہم محمد ﷺ کے ماننے والے ہیں۔ وہ ہمت ہی نہیں اب ہم میں کہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ہم وہی محمد ﷺ کی امت ہیں کہ جب 313 تھے تو نصرت کو فرشتے اترا کرتے تھے، جو آدھی دنیا پر حکومت کرتے تھے۔ جنہیں اسی دنیا میں جنتوں کی بشارتیں ملا کرتی تھیں۔ کہ جن کی وفات پر عرش الہی میں جنبش ہو جاتی تھی۔ کہ جن سے اللہ نے ان کی جانیں جنت کے بدلے خرید لی تھیں ۔ ہم وہی امت ہیں۔۔۔۔۔
لوٹ جا عہد نبیﷺ کی سمت رفتار جہاں
پھر میری پسماندگی کو ارتقاء درکار ہے
سکھ (جو کہ جوتے کا تسمہ باندہ رہا تھا) یہ بات سنتے ہی مسلمان کی طرف سرسری نظر سے دیکھا اور کہا کہ :' ٹھیک ہے ، ہو جاتا ہوں مسلمان، مگر مجھے کرنا کیا ہو گا مسلمان ہو کر؟ صرف کلمہ ہی پڑھنا ہے ناں؟ تو پڑھا دو۔ میں بھی کلمہ پڑھ لیتا ہوں۔ صرف کلمہ پڑھنے کا ہی تو فرق ہے تمہارے اور میرے درمیان۔ یہ فرق بھی ختم کر لیتے ہیں۔ باقی تو ہماری زندگی، ہمارے شب وروز سب یکساں ہی تو ہے۔ آٹھ سال سے ہم ساتھ رہ رہے ہیں ،مجھے تو ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں لگا۔ پھر بھی تم کہتے ہو تو کلمہ پڑھ لیتا ہوں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلے گا۔ پڑھاؤ کلمہ۔۔۔"
(مسلمان کی نظریں زمین میں گڑ گئیں اورمارے شرمندگی کے وہ اب کہہ بھی کیا سکتا تھا۔۔۔۔ )
یہی مثال آج عام قانونی مسلمانوں کی ہے کہ ہمارے اعمال، ہمارے اقوال، ہماری زندگی گزارنے کے ڈھنگ، مغرب کی تقلید میں بگڑتے طور طریقے اور ہماری ترجیحات آج اس قابل ہی نہیں کہ ہم غیر اقوام کو اپنے کردار سے دعوت دے سکیں، ان کو امن کا درس دے سکیں، ان کو یہ بتا سکیں کہ ہم 'خیر امۃ' ہیں۔ ہم روئے ارض پر سب سے بہترین امت ہیں۔ہم صرف اپنے لیئے نہیں بلکہ غیر اقوام کو معبود حقیقی کی طرف بلانے آئے ہیں۔ ہم حامل قرآن ہیں۔ ہم محمد ﷺ کے ماننے والے ہیں۔ وہ ہمت ہی نہیں اب ہم میں کہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ہم وہی محمد ﷺ کی امت ہیں کہ جب 313 تھے تو نصرت کو فرشتے اترا کرتے تھے، جو آدھی دنیا پر حکومت کرتے تھے۔ جنہیں اسی دنیا میں جنتوں کی بشارتیں ملا کرتی تھیں۔ کہ جن کی وفات پر عرش الہی میں جنبش ہو جاتی تھی۔ کہ جن سے اللہ نے ان کی جانیں جنت کے بدلے خرید لی تھیں ۔ ہم وہی امت ہیں۔۔۔۔۔
لوٹ جا عہد نبیﷺ کی سمت رفتار جہاں
پھر میری پسماندگی کو ارتقاء درکار ہے