يا أيها الناس إنا خلقنكم من ذكر و أنثى و جعلنكم شعوبا و قبائل لتعارفوا إن أكرمكم عند الله أتقاكم ، إن الله عليم خبير ۔
اے لوگو ہم نے تمہیں مذکر و مونث سے پیدا کرکے ، نسلوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا ہے ، تاکہ پہچان آسان رہے ، بیشک اللہ کے ہاں قابل عزت وہی ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہے ، بیشک اللہ خوب جاننے والا ، خبر رکھنے والا ہے ۔
گویا مسلمانوں کی اجتماعیت کا مرکز ’’ تعلق باللہ ‘‘ یعنی ’’ اسلام ‘‘ اور ایمان ہے ، کہاں پیدا ہوئے ، کہاں مرے ، کہاں رہے ، یہ ہمارے جذبات تو ہوسکتے ہیں لیکن اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
اب نسلی ، قبائلی ، ملکی ، عصبیتیں موجود ہیں تو یہ ’’ مسلمانوں ‘‘ کے اندر ہیں ’’ اسلام ‘‘ کے اندر نہیں ، اسلام کے اندر ’’ عرب و عجم ‘‘ کی بھی کوئی تقسیم نہیں ہے ، اگر مسلمانوں نے کر رکہی ہے تو اس خامی کو دور کرنا چاہیے ۔
وسعت اللہ صاحب ہزاروں سال پیچھے جاکر ، محنت و مشقت کرکے جس نتیجے پر پہنچے ہیں ، اگر قرآن مجید میں مذکور بالا ایک آیت ہی پڑھ لیتے تو کم از کم اتنی محنت کے بعد اتنا سطحی نتیجہ نہ نکالتے ۔
اور پھر یہ ساری محنت کیوں کی ہے ، تاکہ پاکستانیوں کے حرمین شریفین (یا کچھ لوگوں کے ایران ) سے تعلق پر طنز اور تنقید کرسکیں ، حالانکہ یہی نتیجہ اگر آج کل کے پڑھے لکھے ، یا بالفاظ دیگر روشن خیالوں پر منطبق کیا جائے تو یہ ننگے بھی ہوجائیں گے ، گونگے بھی ہوجائیں گے ، کیونکہ نہ تو انہیں اپنے ملک کا لباس پسند ہے ، نہ یہ اپنے ملک کی زبان میں بات کرنا قابل فخر سمجھتے ہیں ۔