محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
ہم کیسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟
ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہیں آلودگی سے پاک بہت خوبصورت دنیا ملی تھی۔ ہمارے آباؤاجداد نے ہمارے لئے بہت خوبصورت دنیا چھوڑ کر گئے تھے۔ نہ ہی دنیا کی اتنی آباددی تھی۔ نہ ہی اس دنیا میں آج کی جیسی ماحولیاتی آلودگی تھی۔ نہ ہی اتنی شور تھی اور نہ ہی اتنی بیماریاں۔ نہ اونچی اونچی آسمان کو چھوتی عمارتیں تھیں نہ ہی اتنی گاڑیاں۔ نہ ہی کمپیوٹر اور موبائل پر بنے مصنوعی کھیل تھے اور نہ ہی زندگی آج کی جیسی مصنوعی تھی۔ ہم سب فطرت کے بہت قریب تھے اور گارے مٹی لکڑی کے بنے کھلونوں سے کھیلتے تھے۔ ہمارے ہاتھوں میں دیر تک جگائے رکھنے والی موبائل نہیں ہوتا تھا، بس شام ہوتی تھی اور سونا ہوتا تھا۔
آج کے نوجوانوں کے جیسا ہمیں اسٹیبلش ہونے کی کوئی تینشن نہیں تھی۔ ہمارا ایسا کوئی سلوگان نہیں تھا کہ اسٹیبلش ہونا ہے پھر شادی کرنا ہے ورنہ ڈپریسن اور بوریت کا شکار رہنا ہے۔
ہم جوان ہوئے اور شادی ہوگئی۔ پھر بچے ہوئے۔ اب بچے بڑے ہوگئے اور ہم بوڑھے ہوگئے۔ اب سوچتا ہوں تو سب خواب لگتا ہے۔ موت دروازے پر کھڑی ہے اور ہر بوڑھا آخرت کی راہ تکتا ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (٥٧) سورة العنكبوت
’’ہر جان کو موت کا مز ہ چکھنا ہے پھر ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘۔(٥٧) سورة العنكبوت
ایک دفعہ ایک بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ اپنی وسیع سلطنت کے بارے میں خوش گپی کرتے ہوئے فرمایا: ’’کاش! کہ موت نہ ہوتی‘‘۔ تو وزیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’حضور والا! اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت آپ تک کیسے پہنچتی؟ یہ موت ہی تو ہے جس کے ذریعہ یہ بادشاہی آپ تک پہنچی ہے، ورنہ یہ آپ کے آباؤ اجداد تک ہی محدود رہتی۔‘‘
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت تو آنی ہے اور ہم نے جانا ہے۔ جس طرح شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے اسی طرح ہماری موت میں ہماری آئندہ نسلوں کی بقا ہے۔ اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کیلئے ہم نے اس دنیا سے جانا ہے۔
لیکن دنیا سے جانے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمیں کیسی دنیا ملی تھی اور ہم کیسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ کیا ہم ایسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ہماری آئندہ نسلوں کی بقا کی ضامن ہو؟
ہم نے تو شاید اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں بلکہ ہم نے تو اس دنیا کو تباہ و برباد کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جبکہ ہمیں بہت اچھی دنیا ملی تھی، ہمارے آباؤاجداد ہمیں بہت اچھی اور خوبصورت دنیا دے کر گئے تھے۔
لیکن ہم نے اس دنیا کی ہیت کو بدل ڈالا، اس کے ماحول کو آلودہ کیا اور فساد فی لارض کے مرتکب ہوئے۔ فرمانِ باری تعالٰی ہے:
وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (٢٠٥) سورة البقرة
’’اور جب آپ کے پاس سے منہ پھیرتے ہیں تو زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کھیتیوں اور نسلوں کو برباد کرتے ہیں جب کہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ہے‘‘۔(٢٠٥) سورة البقرة
ہم نے اپنے نبی ﷺ سے منہ پھیرا، آپ ﷺ کے احکامات کو نہیں مانا، آپ ﷺ کی اطاعت جیسی کرنی تھی ویسی نہیں کی اور دنیا میں ہر طرح کی فساد پھیلا کر اس دنیا کو اپنی آئندہ نسلوں کے رہنے کے لائق ہی نہیں چھوڑا۔
ہم نے ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے اور پلازے کھڑے کرنے کیلئے جنگلات کاٹے، باغات اجاڑے، زرعی زمینیں تباہ کئے، ندی نالوں کو بھر دیئے اور جو ندی نالے باقی بچے ان میں گٹر کے پانی اور کچڑے ڈال دیئے پھر انہیں سمندروں میں چھوڑ کر اسے آلودہ کئے اور بہت سے زمینی اور آبی حیوانوں کی نسلوں ختم کئے، یہ سوچے بغیر کہ ہمارے ان اعمال کا ہمارے ماحول پر اور اس دنیا پر کیا اثر ہوگا؟ یہ دنیا ہماری آئندہ نسلوں کی رہنے کے لائق رہے گی بھی یا نہیں۔
ہم تو کبھی ایسا سوچتے ہی نہیں۔ ہمیں تو صرف دنیا میں مال بنانے کی فکر ہے۔ دنیا تباہ ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔
ساری دنیا میں آج ماحول کی تحفظ اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جبکہ ہمارے نبی ﷺ نے 1442 سال پہلے ہی ہم مسلمانوں کو اس کی تعلیم دے چکے ہیں۔
ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا درس دنیا کو اسلام نے دیا، فرمایا: ’’جہاں تک تم سے ہوسکے صفائی کرو، کیونکہ اسلام کی بنیاد صفائی پر ہے اور جنت میں صرف صاف رہنے والے ہی داخل ہوں گے‘‘۔ (کنز العمال : ۲۶۰۰۲)۔ چنانچہ اسلام نے پاکیزگی اور صفائی کو مومن کی شناخت بنا کر ماحولیات کے تحفظ اور آلودگی سے بچاؤ کی بنیاد رکھ دی، کیونکہ ماحول کو آلوگی سے بچانے کیلئے صفائی لازم و ضروری ہے۔
راستوں اور عوامی مقامات کوغلاظتوں سے پاک رکھنے کا سبق اسلام نے سکھایا، فرمایا: ”جس نے مسلمانوں کی گزرگاہ سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹائی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے نیکی لکھے گا اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ نیکی لکھ دیتا ہے اسے اس کی وجہ سے جنت میں داخل کر دیتا ہے‘‘۔ (سلسله احاديث صحيحه: 2277)
پانی کو گندگیوں سے بچانے اور پاک صاف رکھنے کا حکم اسلام نے دیا، فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں جنابت کا غسل کرے“۔ (سنن ابي داود: 70)
ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے کو اسراف اسلام نے کہا۔ رسول اللہ ﷺ سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیسا اسراف ہے؟“، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو“۔ (سنن ابن ماجه: 425)
ماحول کو تحفظ دینے کیلئے پودے اور درخت لگانے کی جس طرح کی ترغیب دین اسلام نے دی ہے ایسی مثال کہیں اور نہیں ملتی، فرمایا: ”اگر قیامت بالکل قریب ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا پودا ہو، اگر وہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے اسے گاڑھ سکتا ہو تو اسے گاڑھ دینا چاہیے‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: 1121 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 9)
بلاضرورت جانوروں اور پرنددوں کو مارنے سے اسلام نے منع کیا، فرمایا: ’’جو شخص ایک چڑیا یا اس سے بڑا جانور ناحق مارے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے باز پرس کرے گا کہ تو نے کس وجہ سے اس کو ناحق جان سے مارا؟ (سنن نسائی: 658)۔ جانوروں کا ناحق قتل کرنا ان کی نسل کشی کرنا ہے جس سے ماحول کا توازن برباد ہوتا ہے۔
مختصر جگہ میں اونچی اونچی بلڈنگیں بنانے کو اسلام نے ناپسند کیا، کیونکہ محدود فضاء میں زیادہ لوگوں کے رہنے سے ماحول آلودہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو علامات قیامت میں شمار کیا ہے۔
یہ تو صرف چند نقاظ ہیں جبکہ دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ دینے کیلئے اسلام نے جو جامع طریقۂ کار وضع کئے ہیں اس کی فہرست کافی لمبی ہے جس کا اس تحریر میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ آج کی جدید دنیا ان ہی اقدامات کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو ماحولیاتی آلودگی (Environmental Pollution) سے پاک کرنا اور آئندہ نسلوں کی بقا کیلئے سازگار بنانے میں لگی ہوئی ہے۔
لیکن افسوس کہ ہم مسلمان اسلام کی ان باتوں کو بھول گئے ہیں۔ ہمیں اس دنیا کو اپنی آئندہ نسل کیلئے بہتر بنانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہمیں تو صرف اپنی آخرت بنانے کی فکر رہتی ہے جس کیلئے ہم عبادت کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور نیکیاں جمع کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کیلئے اس دنیا سنوارنا اور اسے بہتر بنانا بھی صدقۂ جاریہ ہے اور جنت میں لے جانے والے اعمال ہیں۔
کاش! ہم یہ سمجھیں۔ اس دنیا کو بنائیں، سنواریں، اسے آلودگی سے پاک کرنے کا کام کریں اور اپنی آئندہ نسل کو ایک خوبصورت دنیا دے کر دنیا سے رخصت ہوں۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہیں آلودگی سے پاک بہت خوبصورت دنیا ملی تھی۔ ہمارے آباؤاجداد نے ہمارے لئے بہت خوبصورت دنیا چھوڑ کر گئے تھے۔ نہ ہی دنیا کی اتنی آباددی تھی۔ نہ ہی اس دنیا میں آج کی جیسی ماحولیاتی آلودگی تھی۔ نہ ہی اتنی شور تھی اور نہ ہی اتنی بیماریاں۔ نہ اونچی اونچی آسمان کو چھوتی عمارتیں تھیں نہ ہی اتنی گاڑیاں۔ نہ ہی کمپیوٹر اور موبائل پر بنے مصنوعی کھیل تھے اور نہ ہی زندگی آج کی جیسی مصنوعی تھی۔ ہم سب فطرت کے بہت قریب تھے اور گارے مٹی لکڑی کے بنے کھلونوں سے کھیلتے تھے۔ ہمارے ہاتھوں میں دیر تک جگائے رکھنے والی موبائل نہیں ہوتا تھا، بس شام ہوتی تھی اور سونا ہوتا تھا۔
آج کے نوجوانوں کے جیسا ہمیں اسٹیبلش ہونے کی کوئی تینشن نہیں تھی۔ ہمارا ایسا کوئی سلوگان نہیں تھا کہ اسٹیبلش ہونا ہے پھر شادی کرنا ہے ورنہ ڈپریسن اور بوریت کا شکار رہنا ہے۔
ہم جوان ہوئے اور شادی ہوگئی۔ پھر بچے ہوئے۔ اب بچے بڑے ہوگئے اور ہم بوڑھے ہوگئے۔ اب سوچتا ہوں تو سب خواب لگتا ہے۔ موت دروازے پر کھڑی ہے اور ہر بوڑھا آخرت کی راہ تکتا ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (٥٧) سورة العنكبوت
’’ہر جان کو موت کا مز ہ چکھنا ہے پھر ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘۔(٥٧) سورة العنكبوت
ایک دفعہ ایک بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ اپنی وسیع سلطنت کے بارے میں خوش گپی کرتے ہوئے فرمایا: ’’کاش! کہ موت نہ ہوتی‘‘۔ تو وزیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’حضور والا! اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت آپ تک کیسے پہنچتی؟ یہ موت ہی تو ہے جس کے ذریعہ یہ بادشاہی آپ تک پہنچی ہے، ورنہ یہ آپ کے آباؤ اجداد تک ہی محدود رہتی۔‘‘
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت تو آنی ہے اور ہم نے جانا ہے۔ جس طرح شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے اسی طرح ہماری موت میں ہماری آئندہ نسلوں کی بقا ہے۔ اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کیلئے ہم نے اس دنیا سے جانا ہے۔
لیکن دنیا سے جانے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمیں کیسی دنیا ملی تھی اور ہم کیسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ کیا ہم ایسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ہماری آئندہ نسلوں کی بقا کی ضامن ہو؟
ہم نے تو شاید اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں بلکہ ہم نے تو اس دنیا کو تباہ و برباد کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جبکہ ہمیں بہت اچھی دنیا ملی تھی، ہمارے آباؤاجداد ہمیں بہت اچھی اور خوبصورت دنیا دے کر گئے تھے۔
لیکن ہم نے اس دنیا کی ہیت کو بدل ڈالا، اس کے ماحول کو آلودہ کیا اور فساد فی لارض کے مرتکب ہوئے۔ فرمانِ باری تعالٰی ہے:
وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (٢٠٥) سورة البقرة
’’اور جب آپ کے پاس سے منہ پھیرتے ہیں تو زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کھیتیوں اور نسلوں کو برباد کرتے ہیں جب کہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ہے‘‘۔(٢٠٥) سورة البقرة
ہم نے اپنے نبی ﷺ سے منہ پھیرا، آپ ﷺ کے احکامات کو نہیں مانا، آپ ﷺ کی اطاعت جیسی کرنی تھی ویسی نہیں کی اور دنیا میں ہر طرح کی فساد پھیلا کر اس دنیا کو اپنی آئندہ نسلوں کے رہنے کے لائق ہی نہیں چھوڑا۔
ہم نے ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے اور پلازے کھڑے کرنے کیلئے جنگلات کاٹے، باغات اجاڑے، زرعی زمینیں تباہ کئے، ندی نالوں کو بھر دیئے اور جو ندی نالے باقی بچے ان میں گٹر کے پانی اور کچڑے ڈال دیئے پھر انہیں سمندروں میں چھوڑ کر اسے آلودہ کئے اور بہت سے زمینی اور آبی حیوانوں کی نسلوں ختم کئے، یہ سوچے بغیر کہ ہمارے ان اعمال کا ہمارے ماحول پر اور اس دنیا پر کیا اثر ہوگا؟ یہ دنیا ہماری آئندہ نسلوں کی رہنے کے لائق رہے گی بھی یا نہیں۔
ہم تو کبھی ایسا سوچتے ہی نہیں۔ ہمیں تو صرف دنیا میں مال بنانے کی فکر ہے۔ دنیا تباہ ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔
ساری دنیا میں آج ماحول کی تحفظ اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جبکہ ہمارے نبی ﷺ نے 1442 سال پہلے ہی ہم مسلمانوں کو اس کی تعلیم دے چکے ہیں۔
ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا درس دنیا کو اسلام نے دیا، فرمایا: ’’جہاں تک تم سے ہوسکے صفائی کرو، کیونکہ اسلام کی بنیاد صفائی پر ہے اور جنت میں صرف صاف رہنے والے ہی داخل ہوں گے‘‘۔ (کنز العمال : ۲۶۰۰۲)۔ چنانچہ اسلام نے پاکیزگی اور صفائی کو مومن کی شناخت بنا کر ماحولیات کے تحفظ اور آلودگی سے بچاؤ کی بنیاد رکھ دی، کیونکہ ماحول کو آلوگی سے بچانے کیلئے صفائی لازم و ضروری ہے۔
راستوں اور عوامی مقامات کوغلاظتوں سے پاک رکھنے کا سبق اسلام نے سکھایا، فرمایا: ”جس نے مسلمانوں کی گزرگاہ سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹائی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے نیکی لکھے گا اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ نیکی لکھ دیتا ہے اسے اس کی وجہ سے جنت میں داخل کر دیتا ہے‘‘۔ (سلسله احاديث صحيحه: 2277)
پانی کو گندگیوں سے بچانے اور پاک صاف رکھنے کا حکم اسلام نے دیا، فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں جنابت کا غسل کرے“۔ (سنن ابي داود: 70)
ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے کو اسراف اسلام نے کہا۔ رسول اللہ ﷺ سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیسا اسراف ہے؟“، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو“۔ (سنن ابن ماجه: 425)
ماحول کو تحفظ دینے کیلئے پودے اور درخت لگانے کی جس طرح کی ترغیب دین اسلام نے دی ہے ایسی مثال کہیں اور نہیں ملتی، فرمایا: ”اگر قیامت بالکل قریب ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا پودا ہو، اگر وہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے اسے گاڑھ سکتا ہو تو اسے گاڑھ دینا چاہیے‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: 1121 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 9)
بلاضرورت جانوروں اور پرنددوں کو مارنے سے اسلام نے منع کیا، فرمایا: ’’جو شخص ایک چڑیا یا اس سے بڑا جانور ناحق مارے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے باز پرس کرے گا کہ تو نے کس وجہ سے اس کو ناحق جان سے مارا؟ (سنن نسائی: 658)۔ جانوروں کا ناحق قتل کرنا ان کی نسل کشی کرنا ہے جس سے ماحول کا توازن برباد ہوتا ہے۔
مختصر جگہ میں اونچی اونچی بلڈنگیں بنانے کو اسلام نے ناپسند کیا، کیونکہ محدود فضاء میں زیادہ لوگوں کے رہنے سے ماحول آلودہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو علامات قیامت میں شمار کیا ہے۔
یہ تو صرف چند نقاظ ہیں جبکہ دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ دینے کیلئے اسلام نے جو جامع طریقۂ کار وضع کئے ہیں اس کی فہرست کافی لمبی ہے جس کا اس تحریر میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ آج کی جدید دنیا ان ہی اقدامات کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو ماحولیاتی آلودگی (Environmental Pollution) سے پاک کرنا اور آئندہ نسلوں کی بقا کیلئے سازگار بنانے میں لگی ہوئی ہے۔
لیکن افسوس کہ ہم مسلمان اسلام کی ان باتوں کو بھول گئے ہیں۔ ہمیں اس دنیا کو اپنی آئندہ نسل کیلئے بہتر بنانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہمیں تو صرف اپنی آخرت بنانے کی فکر رہتی ہے جس کیلئے ہم عبادت کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور نیکیاں جمع کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کیلئے اس دنیا سنوارنا اور اسے بہتر بنانا بھی صدقۂ جاریہ ہے اور جنت میں لے جانے والے اعمال ہیں۔
کاش! ہم یہ سمجھیں۔ اس دنیا کو بنائیں، سنواریں، اسے آلودگی سے پاک کرنے کا کام کریں اور اپنی آئندہ نسل کو ایک خوبصورت دنیا دے کر دنیا سے رخصت ہوں۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔