عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
معصوم مرادآبادی
اس حقیقت کو ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل صفحہ ہستی پر ظلم و بربریت ، ناانصافی اور جبر کی ایک زندہ علامت ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کر کے ان پر درندگی اور بربریت کی جو تاریخ رقم کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ہندوستان ان ممالک میں سے ایک ہے جس نے طویل عرصے تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے۔ کیونکہ ہندوستان میں انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی قیام کرتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے سیاسی قیادت نے اسرائیل سے گریز کی راہ اختیار کی۔ لیکن بابری مسجد کی شہادت کے سب سے بڑے مجرم نرسمہا راؤ کے دور اقتدار میں اسرائیل کو نئی دہلی میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ تبھی سے یہاں اسرائیلی سفارت خانہ ہندوستانی مسلمانوں میں دراندازی کرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ مسلمان اس نفرت کو نکال دیں جو اسرائیل کے تعلق سے ان کے دلوں میں بہت اندر تک بیٹھی ہوئی ہے۔
اسرائیل نے اپنی غاصبانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کو سند قبولیت عطا کرانے کے لئے کچھ ایسے ضمیر فروشوں اور نام نہاد مسلمانوں کو کرائے پر لے رکھا ہے جو اس کی مرضی کے مطابق مسلمانوں میں اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
اس مشن کے تحت بعض نام نہاد مسلمانوں کو اسرائیل لے جا کر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ نہ تو فلسطینیوں پر کوئی ظلم ہو رہا ہے اور نہ ہی ان کے لئے زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ امن کے نام پر فرضی تنظیمیں بنانے والے جبہ و دستار کے مالک ضمیر فروش مسلمان اسرائیل کے ساتھ امن کا سمجھوتا بھی کر آئے ہیں۔ اس وقت نام نہاد مسلمانوں کا ایک 8 رکنی وفد اسرائیل کے دورے پر ہے۔ اس وفد میں ایک بےضمیر اور نیم خواندہ اردو صحافی کے علاوہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کا سربراہ ، نام نہاد اماموں کی کل ہند تنظیم کا خودساختہ صدر ، اترپردیش اور بہار کے بعض غیرمعروف علماء شامل کئے گئے ہیں۔ یہ 8 رکنی وفد نہایت خفیہ طریقے سے نئی دہلی سے یروشلم کیلئے روانہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ متذکرہ نام نہاد اردو صحافی گذشتہ دنوں نئی دہلی کے کلیریج ہوٹل میں اجمیر کی درگاہ کے بعض مجاوروں کو ایک اسرائیلی تقریب میں شریک کرانے لے گیا تھا۔