ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
کیا تُم لوگ یہ خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟
.
خلیفہ دوئم أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ """ ایک دفعہ کچھ قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے لائے گئے تو ان میں ایک ایسی عورت بھی تھی ( جو اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے بے تاب تھی اور اس کی حالت کچھ ایسی تھی کہ جیسے )
اس کی چھاتیوں سے دودھ نکل ہی جانے والا تھا اور وہ قیدیوں میں (اپنا) بچہ ڈھونڈھ رہی تھی جو اسے مل گیا تو اس نے فوراً اس کو پکڑ کر اپنے پیٹ کے ساتھ چمٹا لیا اور اسے دودھ پلانے لگی ( یہ منظر دیکھ کر )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہم سے فرمایا
أَتُرَونَ هَذهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا في النَّارِ ::: کیا تُم لوگ یہ خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟
ہم سب نے عرض کیا """ لَا وَهِيَ تَقدِرُ على أَن لَا تَطرَحَهُ ::: جی نہیں باوجود اس کے کہ یہ عورت ایسا کرنے کی طاقت رکھتی ہے ( یہ عورت ایسا نہیں کرے گی ) """ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لَلَّهُ أَرحَمُ بِعِبَادِهِ من هذه بِوَلَدِهَا ,
یہ عورت اپنے بچے پر جس قدر رحم کرتی ہے اللہ تو اپنے بندوں کے ساتھ اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے -
.
متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث5653 /کتاب الادب / باب18 ، صحیح مُسلم /حدیث2754 /کتاب التوبہ /باب 4 ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا !
اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس روک لیے اور زمین میں ایک حصہ نازل فرمایا پس اسی ایک حصے میں سے تمام تر مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک ایک گھوڑی اپنے ناخن تک اپنے بچے سے دور رکھتی ہے کہ کہیں وہ ناخن اس بچے کو تکلیف نہ دیں -
.
.متفقٌ علیہ، صحیح البخاری /حدیث 5654 /کتاب الادب /باب19،صحیح مُسلم/ حدیث2752 /کتاب التوبہ /باب 4 ،(مذکورہ بالا الفاظ صحیح البخاری کی روایت کے ہیں ، صحیح مُسلم کی روایت میں " الفرس " کی جگہ " الدابۃ " ہے )
.
ان دو مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمجھنے کے لیے اللہ کی مخلوق میں سے اس ہستی کی رحمت کا ذکر ہے جسے بلا نزاع دنیا کی ہر قوم سب سے زیادہ رحیم مانتی ہے حتیٰ کہ جانوروں میں بھی اور وہ ہستی ہے """ ماں """ ،
ماں کی اپنی اولاد کے لیے رحمت کی مثال دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے ماں کی رحمت اللہ ارحم الراحمین کی رحمت کے سامنے ایک فیصد بھی نہیں کیونکہ اللہ نے اپنی رحمت میں سے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں اور صرف ایک حصہ اپنی تمام تر مخلوق میں بانٹا ہے ، اور اللہ کی مخلوق میں اربوں کھربوں مائیں ہیں ، اس حساب کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی رحمت کی وسعت کا اندازہ کرنا بھی انسانی عقل کی حدود سے خارج ہے ،
.
خلیفہ دوئم أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ """ ایک دفعہ کچھ قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے لائے گئے تو ان میں ایک ایسی عورت بھی تھی ( جو اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے بے تاب تھی اور اس کی حالت کچھ ایسی تھی کہ جیسے )
اس کی چھاتیوں سے دودھ نکل ہی جانے والا تھا اور وہ قیدیوں میں (اپنا) بچہ ڈھونڈھ رہی تھی جو اسے مل گیا تو اس نے فوراً اس کو پکڑ کر اپنے پیٹ کے ساتھ چمٹا لیا اور اسے دودھ پلانے لگی ( یہ منظر دیکھ کر )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہم سے فرمایا
أَتُرَونَ هَذهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا في النَّارِ ::: کیا تُم لوگ یہ خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟
ہم سب نے عرض کیا """ لَا وَهِيَ تَقدِرُ على أَن لَا تَطرَحَهُ ::: جی نہیں باوجود اس کے کہ یہ عورت ایسا کرنے کی طاقت رکھتی ہے ( یہ عورت ایسا نہیں کرے گی ) """ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لَلَّهُ أَرحَمُ بِعِبَادِهِ من هذه بِوَلَدِهَا ,
یہ عورت اپنے بچے پر جس قدر رحم کرتی ہے اللہ تو اپنے بندوں کے ساتھ اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے -
.
متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث5653 /کتاب الادب / باب18 ، صحیح مُسلم /حدیث2754 /کتاب التوبہ /باب 4 ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا !
اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس روک لیے اور زمین میں ایک حصہ نازل فرمایا پس اسی ایک حصے میں سے تمام تر مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک ایک گھوڑی اپنے ناخن تک اپنے بچے سے دور رکھتی ہے کہ کہیں وہ ناخن اس بچے کو تکلیف نہ دیں -
.
.متفقٌ علیہ، صحیح البخاری /حدیث 5654 /کتاب الادب /باب19،صحیح مُسلم/ حدیث2752 /کتاب التوبہ /باب 4 ،(مذکورہ بالا الفاظ صحیح البخاری کی روایت کے ہیں ، صحیح مُسلم کی روایت میں " الفرس " کی جگہ " الدابۃ " ہے )
.
ان دو مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمجھنے کے لیے اللہ کی مخلوق میں سے اس ہستی کی رحمت کا ذکر ہے جسے بلا نزاع دنیا کی ہر قوم سب سے زیادہ رحیم مانتی ہے حتیٰ کہ جانوروں میں بھی اور وہ ہستی ہے """ ماں """ ،
ماں کی اپنی اولاد کے لیے رحمت کی مثال دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے ماں کی رحمت اللہ ارحم الراحمین کی رحمت کے سامنے ایک فیصد بھی نہیں کیونکہ اللہ نے اپنی رحمت میں سے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں اور صرف ایک حصہ اپنی تمام تر مخلوق میں بانٹا ہے ، اور اللہ کی مخلوق میں اربوں کھربوں مائیں ہیں ، اس حساب کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی رحمت کی وسعت کا اندازہ کرنا بھی انسانی عقل کی حدود سے خارج ہے ،