• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید اور ”جیش مغفور“ میں مغفرت کی نوعیت سے متعلق ایک شبہہ کا ازالہ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
564
ری ایکشن اسکور
174
پوائنٹ
77
یزید اور ”جیش مغفور“ میں مغفرت کی نوعیت سے متعلق ایک شبہہ کا ازالہ

تحریر : کفایت اللہ سنابلی

ایک صاحب نے یزید کو ”جیش مغفور“ کی بشارت سے محروم کرنے کے لئے انتہائی بھونڈی اور بھدی بات کہہ ڈالی اور وہ یہ کہ اس حدیث میں ”مغفرت“ کی بات ایسے ہی ہے جیسے بہت سارے اعمال پر ”مغفرت“ کی بشارت ہے مثلاً:

جو سنت کے مطابق وضوء کرکے مسجد میں نماز کے لئے آئے اس کے لئے مغفرت کی بات کہی گئی ہے اسی طرح حج کرنے والے کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ جس نے حج کیا اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے تو ان احادیث کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہر حاجی جنتی ہے یا ہر نمازی جنتی ہے۔

جوابا عرض ہے کہ:
یہ پرجہالت بکواس ایسے ہی ہے جیسے کوئی خلفاء راشدین ابوبکر و عمر فاروق و عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اور بقیہ عشرہ مبشرہ والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بشارت جنت کے بارے میں یہ بکواس کرے کہ ان سے متعلق بشارت والی احادیث ایسے ہی ہیں جیسے اور بھی کئی دیگر اعمال پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

مثلا یہ حدیث:
«ما من مسلم يتوضأ فيحسن وضوءه، ثم يقوم فيصلي ركعتين، مقبل عليهما بقلبه ووجهه، إلا وجبت له الجنة»
جو مسلمان وضو کرے پس اچھی طرح ہو اس کا وضو اور پھر کھڑا ہو پس دو رکعتیں نماز ادا کرے اس طرح کہ اپنے دل اور چہرہ سے پوری توجہ کرنے والا ہو تو اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے“ [صحيح مسلم 234]

اب اس جیسی روایات کی بنیاد پر کوئی خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی بشارت کا انکار کردے اور یہ کہے کہ ان کے لئے جنت کی بشارت ایسے ہی ہے جیسے دیگر احادیث میں حاجی اور نمازی کے لئے جنت کی بشارت ہے تو بھلا بتلائیے ایسے شخص کی جہالت میں کیا شک وشبہہ رہ جاتا ہے۔

یہ منفرد شخصیات کی مثال ہوئی اجتماعی بشارت کی مثال میں اہل بدر واہل حدیبیہ کی بشارت کو لیجئے ان تمام صحابہ کرام کو جو بدر وحدیبیہ میں شریک ہوئے تھے ان کے لئے مغفرت کی بشارت ہے چنانچہ:

عن جابر، أن عبدا لحاطب جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يشكو حاطبا فقال: يا رسول الله ليدخلن حاطب النار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كذبت لا يدخلها، فإنه شهد بدرا والحديبية»

صحابی رسول جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام رسول اللہ کی خدمت میں حاطب رضی اللہ عنہ کی شکایت کرنے کے لئے حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول حاطب تو جہنم میں داخل ہو جائے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے غلط کہا وہ جہنم میں داخل نہ ہوں گے کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوئے“ [صحيح مسلم 2495]

ٹھیک اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قاتل عمار رضی اللہ عنہ کی بابت لکھا ہے کہ:
فنحن نشهد لعمار بالجنة، ولقاتله إن كان من أهل بيعة الرضوان بالجنة
ہم عمار کے لئے جنت کی گواہی دیتے ہیں اور عمار کا قاتل اگر اہل بیعت رضوان میں سے ہیں تو اسکے لئے بھی جنت کی گواہی دیتے ہیں۔
[منهاج السنة النبوية 6/ 205]

ملاحظہ فرمائیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ صاف کہہ رہے ہیں کہ اگر ”ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ“ اہل بیعت رضوان میں سے ہیں تو ہم ان کے جنتی ہونے کی بھی شہادت دیتے ہیں۔

اب کوئی یہ بکواس کرے کہ اہل بدر و اہل بیعت رضوان کی ”مغفرت“ کی بات ایسے ہی ہے جیسے بہت سارے اعمال پر ”مغفرت“ کی بشارت ہے تو بھلا بتلائیے جہالت کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔

دراصل اس طرح کی بات کہنے والا ”عمل سے متعلق بشارت“ اور ”شخصیت و جماعت سے متعلق بشارت“ کے فرق کو نہیں سمجھ پا رہا ہے اور دونوں کو خلط ملط کررہا ہے ۔

دراصل قران وحدیث میں بشارتیں دو قسم کی ہیں
① پہلی قسم کی بشارت کا تعلق ”مخصوص اعمال“ سے ہے ۔
② دوسری قسم کی بشارت کا تعلق ”مخصوص افراد یا جماعت“ سے ہے۔

● بشارت کی پہلی قسم میں جن ”مخصوص اعمال سے متعلق بشارت“ ہوتی ہے ان اعمال کا تعلق کسی خاص شخصیت یا جماعت یا کسی خاص علاقہ یا کسی خاص زمانہ سے نہیں ہوتا ہے بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام لوگوں کے لئے اس پر عمل ممکن ہوتاہے۔ جو بھی ان اعمال کے تقاضوں کو پورا کرے گا وہ اس بشارت کا مستحق ہوگا اور اس استحقاق کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔ کیونکہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس نے کماحقہ ان اعمال کو انجام دیا ہے اور کون اس کا مستحق ہے۔الغرض یہ کہ یہ بشارت اعمال سے متعلق ہوتی ہے اور اس کا مقصد اعمال کی فضیلت بتلانا ہوتا ہے ۔ جیسے حج کی فضیلت، اور نماز و روزے وغیرہ کی فضیلت۔

لیکن بشارت کی دوسری قسم جس میں ”مخصوص افراد یا جماعت سے متعلق بشارت“ ہوتی ہے وہ صرف خاص افراد اور خاص جماعت ہی کے لئے ہوتی ہے ، اسی طرح وہ خاص زمانہ اور خاص علاقہ ہی کے لئے ہوتی ہے۔ اس بشارت میں خاص زمانہ اور خاص علاقہ کے خاص افراد یا خاص جماعت کو متعین کردیا جاتا ہے ۔ جیسے خلفاء راشدین اور عشرہ مبشرہ سے متعلق بشارت یا اصحاب بدر اور اصحاب حدیبیہ سے متعلق بشارت وغیرہ۔

● پہلی قسم کی بشارت میں ”اعمال کی فضیلت“ طے ہوتی ہے لیکن افراد متعین نہیں ہوتے اس لئے ہر فرد کو اس کا مستحق نہیں کہا جاسکتا ہے۔

لیکن دوسری قسم کی بشارت میں ”افراد ہی کو متعین کردیا جاتا ہے“ اس لئے جن افراد کو متعین کر دیا گیا ان کا اس بشارت سے خارج ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

● پہلی قسم کی بشارت میں جن ”اعمال کی فضیلت“ بتائی جاتی ہے ان اعمال کی حقیقت اللہ کے علم میں ہوتی ہے اسی لئے ناممکن ہے کہ یہ اعمال کسی بھی زمانہ کسی بھی دور میں اپنی حقیقت کھو بیٹھیں ۔

دوسری قسم کی بشارت میں جن ”افراد یا جماعت کی فضیلت“ بتائی جاتی ہے ان افراد یا جماعت کی حقیقت اور ان کی پوری زندگی کے کارناموں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہوتا ہے اس لئے ناممکن ہے کہ ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی ایسی برائی جڑ جائے جو انہیں اس بشارت سے محروم کردے کیونکہ ایسی صورت میں اللہ کے علم میں نقص لازم آئے گا جو ناممکن ہے۔

● پہلی قسم کی بشارت میں ”شرط“ کی صورت میں فضیلت بیان ہوتی ہے لہٰذا جب شرط پائی جائے گی تبھی فضیلت حاصل ہوگی ۔

اور دوسری قسم کی بشارت میں ”خبر“ کی صورت میں فضیلت بیان ہوتی ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ”خبر“ کبھی غلط ہوہی نہیں سکتی۔

بالفاظ دیگر پہلی قسم کی بشارت میں شرطیہ بات ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم کی بشارت میں خبر ہوتی ہے۔ یہ فرق سمجھنا بہت ضروری ہے اسی فرق کی وجہ سے پہلی قسم کی بشارت میں عمل کرنے والوں کے لئے مغفرت کا مطلب عامل کا قطعی طور سے جنتی نہیں ہوتا ہے کیوں کہ شرط کی تکمیل ٹھیک طرح سے ہوئی یا نہیں اس کا علم ہمیں نہیں ہوتا لیکن دوسری قسم کی بشارت میں مغفرت کا مطلب قطعی طور پر جنتی ہوتا ہے کیونکہ اس میں اللہ کی طرف سے خبر ہوتی ہے جو مغفرت کی قطعیت پر دلالت کرتی ہے ۔

بشارت کی ان دونوں قسموں کو اچھی طرح واضح کرنے کے بعد عرض ہے کہ حدیث قسطنطنیہ میں جوبشارت دی گئی ہے وہ دوسری قسم میں سے ہے۔

یعنی اس بشارت کا تعلق مخصوص افراد و جماعت سے ہے ، اس کا مقصد مخصوص افراد اور جماعت کی فضیلت بتانا ہے ، اس کا تعلق خاص علاقہ اور خاص زمانہ اور خاص افراد وجماعت سے ہے ، اس میں افراد وجماعت کا تعین کردیا گیا ہے ، اس میں بتائے گئے افراد کی پوری حقیقت اللہ کے علم میں ہے ، اس میں خبر ہے جو کبھی غلط ہوہی نہیں سکتی اس لئے یہ مغفرت کی قطعیت پر یعنی ان افراد کے جنتی ہونے پر دلالت کرتی ہے جیسے اہل بدر کی مغفرت کا معاملہ ہے۔

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
«والجيش عدد معين لا مطلق»
جیش (لشکر) یہ معین اور خاص عدد ہے یہ مطلق اور عام نہیں ہے“ [منهاج السنة النبوية 4/ 572]

اس وضاحت سے بعض لوگوں کی اس بات کی بھی تردید ہوگئی جو یہ کہتے ہیں یہاں یزید کی مغفرت مان بھی لیں تو صغائر کی مغفرت ہے کبائر کی نہیں ۔

عرض ہے کہ صغائر و کبائر کی جو بحث ہے وہ پہلی قسم کی بشارت سے متعلق ہے یعنی جن آیات واحادیث میں مخصوص اعمال پر مغفرت کی بات ہے اس سے متعلق بعض علماء نے صغائر وکبائر کی بحث کی ہے لیکن جن آیات واحادیث میں بشارت کی دوسری قسم ہے یعنی مخصوص افراد اور جماعت کی مغفرت کی بات ہے وہاں علماء نے صغائر وکبائر کی بحث نہیں کی ہے بلکہ یہاں بالاتفاق کلی مغفرت یعنی جنتی ہونا مراد ہے جیسے اہل بدر کا معاملہ ہے۔

صحیح بخاری ہی میں ایسی بہت ساری احادیث ہیں جن میں کسی خاص شخص کے لئے اللہ نے مغفرت کی بات کہی ہے اور اس سے کلی مغفرت یعنی اس کا جنتی ہونا ہی مراد ہے مثلاً (بخاری حدیث نمبر ٣٤٧٠) میں سو قتل کرنے والے شخص کا جو واقعہ بیان ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا اس کے لئے ”فغفرله“ کے الفاظ ہیں لیکن اس کا مطلب کلی مغفرت ہی اور جنتی ہونا ہی ہے۔

معلوم ہوا کہ جب افراد اور جماعت کے لئے مغفرت کی بات ہو تو اس سے کلی مغفرت ہی مراد ہوتی ہے اہل بدر کے لئے بھی ”فقد غفرت لكم“ ہی کے الفاظ ہیں لیکن یہاں کلی مغفرت ہی مراد ہے کوئی احمق ہی ہوگا جو یہ کہے کہ اہل بدر کی مغفرت سے مراد صرف صغائر کی مغفرت مراد ہے۔
 
Top