یاسر اسعد
رکن
- شمولیت
- اپریل 24، 2014
- پیغامات
- 158
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 77
یمن میں ’’آپریشن فیصلہ کن طوفان‘‘کیوں ضروری ہوا؟
فیصل جے عباس
ایک طویل عرصے سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی تحریک یمن میں دہشت گردانہ دخل کی مرتکب ہو رہی تھی۔ اب جبکہ ہر کوئی محسوس کرتا ہے کہ کسی مسئلے کے حل کے لیے جنگ کو صرف آخری آپشن کے طور پر ہی لیا جانا چاہیے۔ جنگ سے پہلے مسائل کے حل کے لیے ہرممکن سیاسی اور پرامن ذرائع اختیار کیے جانے چاہئیں۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ایک وقت کے بعد دوسرے وقت کو آنا ہوتا ہے۔
ایران اور اس کے کارندوں نے یہ مسلسل ثابت کیا ہے کہ وہ قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ہمیشہ سےایک بدمعاش کھلاڑی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور انہیں یمن کے برطرف شدہ صدرعلی عبداللہ صالح کی بھی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ سابق صدر صالح شاید بھول گئے ہیں کہ ان پر سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ملکوں کا یہ احسان ہے کہ ان کا یمن سے محفوظ فرار ممکن بنانے کے لیے ضمانت حاصل کرنے میں ان ملکوں کا کردار اہم تھا۔ یاد رہے یہ ۲۰۱۱ء کی بات ہے جب حوثیوں نے طاقت اور دہشت گردی کے ذریعے ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔
ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے اس دوران مفاہمت کے ہر موقعے سے انکار کر دیا اور خلیجی ممالک کو دبانے کی کوشش کی۔ دوسری جانب قومی مکالمے کا انجام یہ ہوا کہ حوثیوں نے یمنی دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ صدرعبدالر بۃمنصور ہادی کےعدن میں پناہ لینے کے بعد سعودی عرب کی کھلی اور دوٹوک وارننگ آچکی تھی۔
صدر ہادی گوشہ نشینی پر مجبور ہو کر یمن کے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے خلیجی ممالک، عرب لیگ اوربین الاقوامی برادری سے حوثیوں کی خونی یلغار کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل کردی۔
طوفان پہلے سے تیاری کے مرحلے میں تھا
سعودی عرب اور اس کے اتحادی (جن میں عمان کے سوا سارے خلیجی ممالک، مصر، مراکش، سوڈان اور پاکستان شامل ہیں) نے صدر ہادی کی اس اپیل کا جواب دیا اور سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت آپریشن فیصلہ کن طوفان شروع کردیا گیا۔ اس معاملے میں نائب ولی عہد اور وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف بھی ان کے ساتھ مل کر اس فوجی کارروائی کی کمانڈ سینٹر سے نگرانی کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے یمنی فضاؤں کا مکمل کنٹرول لینے سے پہلے ہی کئی حوثی رہنما نشانہ بنائے جا چکے ہیں۔
’’آپریشن فیصلہ کن طوفان‘‘ کا شروع ہونا سعودی شہریوں کے لئےحیران کن نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے سعودی سرحدوں کے نزدیک کی جانے والی جنگی مشقوں سے آگاہ ہو چکے تھے جو حوثی باغیوں کے حوالے سے پہلا ’’ریسپانس‘‘ تھا۔ یمنی عوام کی اکثریت نے بھی دہشت گردی کے خلاف وسیع تر اور بہادرانہ سعودی آپریشن کی مسلسل حمایت کی ہے۔ بدترین اور ظالمانہ کارروائیوں کا خود بھی نشانہ بنتے رہنے کی وجہ سے سعودی عرب القاعدہ اور داعش کی دہشت گردی کے خلاف شام، عراق اور یمن میں پہلے سے ایک کلیدی اتحادی رہا ہے۔ لیکن جب یمن میں حوثیوں نے معصوم سنی مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا توسعودی عرب کو فوج استعمال کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ایک چیز جو یاد رکھنے کی ہے سعودی عرب یہ جنگ انسانیت، تہذیب اور پوری دنیا کی طرف سے شروع کر رہا ہے۔
مرگ بر امریکا
ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ حوثیوں کا سرکاری نعرہ ’’ مرگ بر امریکا‘‘ ہے اور وہ امریکی پرچم جلانے کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ حوثی دنیا کے سب سے بڑی دہشت گرد تہران رجیم کے کارندے ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق بلاشبہ ایران شیعہ اور سنی دونوں قسم کے دہشت گرد گروہوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ گروہ اس کے نام نہاد انقلاب اور عدم استحکام کے لیے پورے خطے میں اس کے آلۂ کار ہیں ۔ خصوصاً شام ، لبنان، عراق اور یمن میں۔ اس لیے یہ بھی حیران کن نہیں ہے کہ ایرانیوں نے یمن میں فوجی انداز میں جواب دینے کی مذمت کی ہے۔
مزید یہ کہ حوثیوں کی جنگی اور عسکری صلاحیت کو کمتر سمجھتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی کوششیں ان امکانی بلیسٹک میزائلز اور سکڈ میزائلز کو روکنے کا ایک پیشگی اقدام ہیں، جو خلیجی ممالک کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حرمین الشریفین کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کو لازماً مسجد حرام اور مسجد نبوی کی حوثیوں جیسے دہشت گروپوں سے حفاظت کرنا ہے۔
یمن کے لوگ سعودی عرب کے ساتھ تاریخی ، ثقافتی اور مذہبی نہیں بلکہ خاندانی سطح کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس ناطے یمنی عوام کی مدد کرنا ایک فرض ہے تاکہ یمن کو اس کے اپنے قدموں پر کھڑا کیا جا سکے اور انہیں ایک خوشحال اور پرامن زندگی کی طرف لوٹایا جا سکے۔ اسی مقصد کی خاطر’’فیصلہ کن طوفان‘‘ کے نام سے آپریشن شروع کرنے کی ضرورت تھی۔ اس بنیاد پر جاری سعودی آپریشن کو وسیع تر عالمی حمایت حاصل ہے۔ مسلم دنیا کے علاوہ امریکا اور دوسری بین الاقوامی برادری بھی اس آپریشن کے ساتھ ہے۔
(رعایت اللہ فاروقی، معروف پاکستانی کالم نگار )
سعودی عرب پاکستان کا وہ سٹریٹیجک پارٹنر ہے جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ یہ جن ایٹم بموں اور میزائیلوں پر ہم فخر کرتے نہیں تھکتے انکے پروجیکٹس پر نصف سے زائد رقم سعودی عرب نے ہی خرچ کی ہے۔ اسی لئے 80 کی دہائی میں امریکہ نے ہمارے ایٹم بم کو’’اسلامک بم‘‘ قرار دیا تھا کیونکہ امریکہ جانتا تھا کہ عرب ممالک کوئی صدقہ نہیں بانٹ رہے بلکہ یہ بم ان سب کا ہوگا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگیں تو ایک بار پھر سعودی عرب آگے آیا اور ان مشکلات میں ہماری معیشت کو مضبوط سہارا دیا۔ وزیر اعظم نے صاف کہہ دیا ہے کہ سعودی سلامتی کو لاحق خطرات کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔ یہ پیغام امریکہ اور ایران دونوں کے لئے ہے۔ پاکستان کل وزیر دفاع اور مشیر خارجہ دونوں کو سعودی عرب بھیج رہا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ سفارتی و عسکری دونوں آپشنز کھلے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے گرد گھیرا تنگ کرتی طاقتیں خود انتخاب کر لیں کہ بات چیت کرنی ہے یا جنگ ؟ یہ بات طے ہے کہ اگر سعودی عرب کو براہ راست چھیڑا گیا تو پاکستان اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کا ساتھ دے گا۔ جن لوگوں کا یہ تصور ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب کا ساتھ نہیں دینا چاہئے اللہ ان کے پڑوس اور دوستی سے ہر شریف آدمی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے کہ یہ مشکل میں ساتھ چھوڑ جانے والے مجنوں ہیں۔
( ظفر جی، دوحہ ،قطر)
دنیا کے بت کدوں میں
کس کس نے دیکھا ہے خانہ کعبہ…..کیا اسے دیکھتے ہی دل محبت سے بھر نہیں جاتا ؟ یا وہ محض ایک مقدس عمارت ہے جہاں کھڑے ہوکر سیلفیاں لی جاتی ہیں….
کیا مدینہ النبی وہی شہر مقدس نہیں ہے جس کی حفاظت کےلئے اللہ کے نبی ﷺ نے یہود قبائل سے بھی معاہدے فرمائے تھے۔
افسوس ان شکستہ ذہنوں پر اور شرمسار جبینوں پر جو اتنی بڑی سعادت ملنے پر بھی اپنے پاؤں پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں….صد افسوس…!!!!
یہ ۱۹۷۹ء کا واقعہ ہے جب ایک مسلح گروپ نے حرم شریف پر قبضہ کر کے کچھ حجاج کو شہید کر دیا تھا…اس وقت فرانس اور سعودیہ کی فوج حرم میں موجود تھی لیکن دہشت گردوں کا قبضہ چھڑانے میں ناکام رہی۔جنرل ضیاءالحق صاحب کا دور تھا۔ انہوں نے حکومت سعودیہ سے خصوصی درخواست کر کے پاک آرمی کے کمانڈو دستے بھجوائے جنہوں نے جان پر کھیل کر دہشت گردوں سے حرم پاک کو واگزار کروایا تھا۔
۱۹۷۹ءکا یہ واقعہ ایک انفرادی نوعیت کا واقعہ تھا جو ایک خودساختہ امام مہدی محمد بن عبداللہ قحطانی کے پیروکاروں کی کارستانی تھی…
لیکن اب ابرہہ خود لشکر لے کر آرہا ہے……
جنگ قادسیہ میں ضرب فاروقی کی چوٹ کھائے ہوئے ایران نے آج تک عربوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا۔ اسلام کے مقابلے میں شیعیت اب محض ایک فرقہ نہیں رہا بلکہ ایک متحارب عسکری قوّت بن چکی ہے۔ یہی قوّت اس وقت عرب ممالک کے سامنے سرچڑھ کر بول رہی ہے…!!!
افغانستان میں طالبان اور عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کا اینٹی عرب کانفیڈنس پہلے سے بہت بڑھ چکا ہے۔ وہ عراق ، شام ، بحرین اور یمن میں شیعہ حکومتیں بنوا کر عربوں کو دباؤ میں لانا چاھتا ہے۔ جس داعش کو (مکروہ اعمال کی بناپر)ہم صبح شام گالیاں دیتے ہیں وہی داعش عراق میں شیعہ حکومت کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی چٹان ہے۔ یمن میں بھی یہی صورتحال ہے۔ وہاں سنی اتحاد القاعدہ داعش سب مل کر شیعیت کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اگر یمن میں اینٹی عرب شیعہ حکومت بن جاتی ہے تو یقیناً باب المندب پر اسی کا قبضہ ہوگا۔وہاں سے اس وقت تین ہزار بحری جہاز سالانہ گزرتے ہیں۔ نہر سویز اور باب المندب عرب ممالک کی وہ شہ رگیں ہیں جو کبھی ایران کے ہاتھ آگئیں تو وہ آگے بڑھ کر حرمین پر قبضہ کرنے میں سیکنڈ نہیں لگائے گا….
خلیج کی اس کشیدہ صورتحال میں پاکستان کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ سعودیہ کی بھرپور عسکری اور سیاسی حمایت ہے…اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے…….کیونکہ ان کا کچھ اعتبار نہیں کہ کب پھر جائیں۔
دوسرا راستہ وہی ہے جو جناب عبدالمطلب نے ابرہہ کی فوج کے سامنے اختیار کیا تھا۔ یعنی میرے اونٹ مجھے لوٹا دو …..باقی کعبہ جانے اور کعبے کا مالک….جناب عبدالمطلب دفاعی لحاظ سے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ ابرہہ کی طاقتور فوج کا مقابلہ کرتے چنانچہ انہوں نے حالات کو رب کعبہ کے بھروسے پر چھوڑنا مناسب سمجھا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں وسائل کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے۔اور ہم دنیا کی بہترین فوج رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان کڑے حالات میں حرمین کے ساتھ نہیں کھڑے ہونگے تو رب کعبہ یہ سعادت کسی اور کو بخش دے گا….اور ہم محروم محض رہ جائیں گے۔
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
(محمد الفیصل ، لاہور ، کراچی )
یمن کے حوثی دہشت گردوںپر سعودین فضائی حملے سے ایران کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھ رہے ہیں؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ خلیج میں جاری خانہ جنگی میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ایران کی بدمعاشانہ مداخلت کوئی نکتہ مکنونہ نہیں، کل پرسوں ہی کے اخبارات میں برطانوی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ حوثیین کی طرف سے جنگی طیارے ایرانی پائلیٹ اڑا رہے ہیں۔ دس ملکوں کا یہ اشتراک عمل، جسے عرب میڈیا میں التحالف العشری کا عنوان دیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ برسوں سے اس خطے میں کارفرما ایران کے استعماری عزائم سے پیدا ہونی والی صورت حال کا رد عمل ہے۔سر کش ایرانی عفریت کا سر کچلنے کے لئے یہ اقدام ضروری تھا۔ وہ برسوں سے جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے، اس کا جواب بھی اسی شدت سے جارحانہ ہی ہونا چاہئے تھا۔
(صھیب نسیم)
اس امر سے قطع نظر کہ عالم عرب میں پھیلتی آگ اور عرب و فارس کے مابین تنازع میں قصور وار کون ہے اور کتنا؟ ایک نسبتاً خوش آیند اور قدرے مخفی پہلو اس سنگین صورتحال کا یہ بھی نکل رہا ہے کہ کثیر القومی اور متنوع بیک گراؤنڈ کی حامل مسلم ریاستیں [فی الوقت سنی] ایک مخصوص ایجنڈے کو لیکر ایک اسٹیج پہ ہیں، سیکولزم سے جان چھڑاتا ترکی ہو یا داخلی خلفشار کا شکار ایٹمی پاکستان سیسی کی اَمریت والا مصر ہو کہ شیخ سلمان کی نئ پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتا سعودی عرب، غرضیکہ حالات کی افتاد نے سب کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا ہے، کیا ایسا ہونا ممکنات میں سے نہیں کہ پیش آمدہ چومکھی لڑائی کہ جو صرف خارجی نہیں بلکہ داخلی محاذوں پہ بھی لڑی جانی ہے اسکو خلافت کے ادارے کے زیر کمان لڑا جائے؟ بطور ادارہ ایک ایسی خلافت کہ جسکی چھتری تلے کئ ایک اسلامی ریاستیں اپنی داخلی پالیسیاں ازخود وضع کرنے کی مختار ہوں فقط بین الاقوامی مسائل اور عامۃ المسلمین کے فلاحی امور اور پہر کچھ عرصے بعد جداگانہ مالیاتی نظام اسکے اولیں خدو خال ہوں، افراتفری کی موجودہ کیفیت میں یہ بات فقط مجنون کی بڑ ھے مگر کیا معلوم آنے والا کل کیا خبر لائے آخر کو امید پہ دنیا قائم ہے۔
فیصل جے عباس
ایک طویل عرصے سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی تحریک یمن میں دہشت گردانہ دخل کی مرتکب ہو رہی تھی۔ اب جبکہ ہر کوئی محسوس کرتا ہے کہ کسی مسئلے کے حل کے لیے جنگ کو صرف آخری آپشن کے طور پر ہی لیا جانا چاہیے۔ جنگ سے پہلے مسائل کے حل کے لیے ہرممکن سیاسی اور پرامن ذرائع اختیار کیے جانے چاہئیں۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ایک وقت کے بعد دوسرے وقت کو آنا ہوتا ہے۔
ایران اور اس کے کارندوں نے یہ مسلسل ثابت کیا ہے کہ وہ قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ہمیشہ سےایک بدمعاش کھلاڑی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور انہیں یمن کے برطرف شدہ صدرعلی عبداللہ صالح کی بھی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ سابق صدر صالح شاید بھول گئے ہیں کہ ان پر سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ملکوں کا یہ احسان ہے کہ ان کا یمن سے محفوظ فرار ممکن بنانے کے لیے ضمانت حاصل کرنے میں ان ملکوں کا کردار اہم تھا۔ یاد رہے یہ ۲۰۱۱ء کی بات ہے جب حوثیوں نے طاقت اور دہشت گردی کے ذریعے ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔
ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے اس دوران مفاہمت کے ہر موقعے سے انکار کر دیا اور خلیجی ممالک کو دبانے کی کوشش کی۔ دوسری جانب قومی مکالمے کا انجام یہ ہوا کہ حوثیوں نے یمنی دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ صدرعبدالر بۃمنصور ہادی کےعدن میں پناہ لینے کے بعد سعودی عرب کی کھلی اور دوٹوک وارننگ آچکی تھی۔
صدر ہادی گوشہ نشینی پر مجبور ہو کر یمن کے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے خلیجی ممالک، عرب لیگ اوربین الاقوامی برادری سے حوثیوں کی خونی یلغار کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل کردی۔
طوفان پہلے سے تیاری کے مرحلے میں تھا
سعودی عرب اور اس کے اتحادی (جن میں عمان کے سوا سارے خلیجی ممالک، مصر، مراکش، سوڈان اور پاکستان شامل ہیں) نے صدر ہادی کی اس اپیل کا جواب دیا اور سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت آپریشن فیصلہ کن طوفان شروع کردیا گیا۔ اس معاملے میں نائب ولی عہد اور وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف بھی ان کے ساتھ مل کر اس فوجی کارروائی کی کمانڈ سینٹر سے نگرانی کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے یمنی فضاؤں کا مکمل کنٹرول لینے سے پہلے ہی کئی حوثی رہنما نشانہ بنائے جا چکے ہیں۔
’’آپریشن فیصلہ کن طوفان‘‘ کا شروع ہونا سعودی شہریوں کے لئےحیران کن نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے سعودی سرحدوں کے نزدیک کی جانے والی جنگی مشقوں سے آگاہ ہو چکے تھے جو حوثی باغیوں کے حوالے سے پہلا ’’ریسپانس‘‘ تھا۔ یمنی عوام کی اکثریت نے بھی دہشت گردی کے خلاف وسیع تر اور بہادرانہ سعودی آپریشن کی مسلسل حمایت کی ہے۔ بدترین اور ظالمانہ کارروائیوں کا خود بھی نشانہ بنتے رہنے کی وجہ سے سعودی عرب القاعدہ اور داعش کی دہشت گردی کے خلاف شام، عراق اور یمن میں پہلے سے ایک کلیدی اتحادی رہا ہے۔ لیکن جب یمن میں حوثیوں نے معصوم سنی مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا توسعودی عرب کو فوج استعمال کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ایک چیز جو یاد رکھنے کی ہے سعودی عرب یہ جنگ انسانیت، تہذیب اور پوری دنیا کی طرف سے شروع کر رہا ہے۔
مرگ بر امریکا
ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ حوثیوں کا سرکاری نعرہ ’’ مرگ بر امریکا‘‘ ہے اور وہ امریکی پرچم جلانے کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ حوثی دنیا کے سب سے بڑی دہشت گرد تہران رجیم کے کارندے ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق بلاشبہ ایران شیعہ اور سنی دونوں قسم کے دہشت گرد گروہوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ گروہ اس کے نام نہاد انقلاب اور عدم استحکام کے لیے پورے خطے میں اس کے آلۂ کار ہیں ۔ خصوصاً شام ، لبنان، عراق اور یمن میں۔ اس لیے یہ بھی حیران کن نہیں ہے کہ ایرانیوں نے یمن میں فوجی انداز میں جواب دینے کی مذمت کی ہے۔
مزید یہ کہ حوثیوں کی جنگی اور عسکری صلاحیت کو کمتر سمجھتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی کوششیں ان امکانی بلیسٹک میزائلز اور سکڈ میزائلز کو روکنے کا ایک پیشگی اقدام ہیں، جو خلیجی ممالک کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حرمین الشریفین کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کو لازماً مسجد حرام اور مسجد نبوی کی حوثیوں جیسے دہشت گروپوں سے حفاظت کرنا ہے۔
یمن کے لوگ سعودی عرب کے ساتھ تاریخی ، ثقافتی اور مذہبی نہیں بلکہ خاندانی سطح کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس ناطے یمنی عوام کی مدد کرنا ایک فرض ہے تاکہ یمن کو اس کے اپنے قدموں پر کھڑا کیا جا سکے اور انہیں ایک خوشحال اور پرامن زندگی کی طرف لوٹایا جا سکے۔ اسی مقصد کی خاطر’’فیصلہ کن طوفان‘‘ کے نام سے آپریشن شروع کرنے کی ضرورت تھی۔ اس بنیاد پر جاری سعودی آپریشن کو وسیع تر عالمی حمایت حاصل ہے۔ مسلم دنیا کے علاوہ امریکا اور دوسری بین الاقوامی برادری بھی اس آپریشن کے ساتھ ہے۔
(رعایت اللہ فاروقی، معروف پاکستانی کالم نگار )
سعودی عرب پاکستان کا وہ سٹریٹیجک پارٹنر ہے جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ یہ جن ایٹم بموں اور میزائیلوں پر ہم فخر کرتے نہیں تھکتے انکے پروجیکٹس پر نصف سے زائد رقم سعودی عرب نے ہی خرچ کی ہے۔ اسی لئے 80 کی دہائی میں امریکہ نے ہمارے ایٹم بم کو’’اسلامک بم‘‘ قرار دیا تھا کیونکہ امریکہ جانتا تھا کہ عرب ممالک کوئی صدقہ نہیں بانٹ رہے بلکہ یہ بم ان سب کا ہوگا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگیں تو ایک بار پھر سعودی عرب آگے آیا اور ان مشکلات میں ہماری معیشت کو مضبوط سہارا دیا۔ وزیر اعظم نے صاف کہہ دیا ہے کہ سعودی سلامتی کو لاحق خطرات کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔ یہ پیغام امریکہ اور ایران دونوں کے لئے ہے۔ پاکستان کل وزیر دفاع اور مشیر خارجہ دونوں کو سعودی عرب بھیج رہا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ سفارتی و عسکری دونوں آپشنز کھلے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے گرد گھیرا تنگ کرتی طاقتیں خود انتخاب کر لیں کہ بات چیت کرنی ہے یا جنگ ؟ یہ بات طے ہے کہ اگر سعودی عرب کو براہ راست چھیڑا گیا تو پاکستان اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کا ساتھ دے گا۔ جن لوگوں کا یہ تصور ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب کا ساتھ نہیں دینا چاہئے اللہ ان کے پڑوس اور دوستی سے ہر شریف آدمی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے کہ یہ مشکل میں ساتھ چھوڑ جانے والے مجنوں ہیں۔
( ظفر جی، دوحہ ،قطر)
دنیا کے بت کدوں میں
کس کس نے دیکھا ہے خانہ کعبہ…..کیا اسے دیکھتے ہی دل محبت سے بھر نہیں جاتا ؟ یا وہ محض ایک مقدس عمارت ہے جہاں کھڑے ہوکر سیلفیاں لی جاتی ہیں….
کیا مدینہ النبی وہی شہر مقدس نہیں ہے جس کی حفاظت کےلئے اللہ کے نبی ﷺ نے یہود قبائل سے بھی معاہدے فرمائے تھے۔
افسوس ان شکستہ ذہنوں پر اور شرمسار جبینوں پر جو اتنی بڑی سعادت ملنے پر بھی اپنے پاؤں پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں….صد افسوس…!!!!
یہ ۱۹۷۹ء کا واقعہ ہے جب ایک مسلح گروپ نے حرم شریف پر قبضہ کر کے کچھ حجاج کو شہید کر دیا تھا…اس وقت فرانس اور سعودیہ کی فوج حرم میں موجود تھی لیکن دہشت گردوں کا قبضہ چھڑانے میں ناکام رہی۔جنرل ضیاءالحق صاحب کا دور تھا۔ انہوں نے حکومت سعودیہ سے خصوصی درخواست کر کے پاک آرمی کے کمانڈو دستے بھجوائے جنہوں نے جان پر کھیل کر دہشت گردوں سے حرم پاک کو واگزار کروایا تھا۔
۱۹۷۹ءکا یہ واقعہ ایک انفرادی نوعیت کا واقعہ تھا جو ایک خودساختہ امام مہدی محمد بن عبداللہ قحطانی کے پیروکاروں کی کارستانی تھی…
لیکن اب ابرہہ خود لشکر لے کر آرہا ہے……
جنگ قادسیہ میں ضرب فاروقی کی چوٹ کھائے ہوئے ایران نے آج تک عربوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا۔ اسلام کے مقابلے میں شیعیت اب محض ایک فرقہ نہیں رہا بلکہ ایک متحارب عسکری قوّت بن چکی ہے۔ یہی قوّت اس وقت عرب ممالک کے سامنے سرچڑھ کر بول رہی ہے…!!!
افغانستان میں طالبان اور عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کا اینٹی عرب کانفیڈنس پہلے سے بہت بڑھ چکا ہے۔ وہ عراق ، شام ، بحرین اور یمن میں شیعہ حکومتیں بنوا کر عربوں کو دباؤ میں لانا چاھتا ہے۔ جس داعش کو (مکروہ اعمال کی بناپر)ہم صبح شام گالیاں دیتے ہیں وہی داعش عراق میں شیعہ حکومت کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی چٹان ہے۔ یمن میں بھی یہی صورتحال ہے۔ وہاں سنی اتحاد القاعدہ داعش سب مل کر شیعیت کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اگر یمن میں اینٹی عرب شیعہ حکومت بن جاتی ہے تو یقیناً باب المندب پر اسی کا قبضہ ہوگا۔وہاں سے اس وقت تین ہزار بحری جہاز سالانہ گزرتے ہیں۔ نہر سویز اور باب المندب عرب ممالک کی وہ شہ رگیں ہیں جو کبھی ایران کے ہاتھ آگئیں تو وہ آگے بڑھ کر حرمین پر قبضہ کرنے میں سیکنڈ نہیں لگائے گا….
خلیج کی اس کشیدہ صورتحال میں پاکستان کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ سعودیہ کی بھرپور عسکری اور سیاسی حمایت ہے…اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے…….کیونکہ ان کا کچھ اعتبار نہیں کہ کب پھر جائیں۔
دوسرا راستہ وہی ہے جو جناب عبدالمطلب نے ابرہہ کی فوج کے سامنے اختیار کیا تھا۔ یعنی میرے اونٹ مجھے لوٹا دو …..باقی کعبہ جانے اور کعبے کا مالک….جناب عبدالمطلب دفاعی لحاظ سے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ ابرہہ کی طاقتور فوج کا مقابلہ کرتے چنانچہ انہوں نے حالات کو رب کعبہ کے بھروسے پر چھوڑنا مناسب سمجھا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں وسائل کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے۔اور ہم دنیا کی بہترین فوج رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان کڑے حالات میں حرمین کے ساتھ نہیں کھڑے ہونگے تو رب کعبہ یہ سعادت کسی اور کو بخش دے گا….اور ہم محروم محض رہ جائیں گے۔
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
(محمد الفیصل ، لاہور ، کراچی )
یمن کے حوثی دہشت گردوںپر سعودین فضائی حملے سے ایران کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھ رہے ہیں؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ خلیج میں جاری خانہ جنگی میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ایران کی بدمعاشانہ مداخلت کوئی نکتہ مکنونہ نہیں، کل پرسوں ہی کے اخبارات میں برطانوی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ حوثیین کی طرف سے جنگی طیارے ایرانی پائلیٹ اڑا رہے ہیں۔ دس ملکوں کا یہ اشتراک عمل، جسے عرب میڈیا میں التحالف العشری کا عنوان دیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ برسوں سے اس خطے میں کارفرما ایران کے استعماری عزائم سے پیدا ہونی والی صورت حال کا رد عمل ہے۔سر کش ایرانی عفریت کا سر کچلنے کے لئے یہ اقدام ضروری تھا۔ وہ برسوں سے جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے، اس کا جواب بھی اسی شدت سے جارحانہ ہی ہونا چاہئے تھا۔
(صھیب نسیم)
اس امر سے قطع نظر کہ عالم عرب میں پھیلتی آگ اور عرب و فارس کے مابین تنازع میں قصور وار کون ہے اور کتنا؟ ایک نسبتاً خوش آیند اور قدرے مخفی پہلو اس سنگین صورتحال کا یہ بھی نکل رہا ہے کہ کثیر القومی اور متنوع بیک گراؤنڈ کی حامل مسلم ریاستیں [فی الوقت سنی] ایک مخصوص ایجنڈے کو لیکر ایک اسٹیج پہ ہیں، سیکولزم سے جان چھڑاتا ترکی ہو یا داخلی خلفشار کا شکار ایٹمی پاکستان سیسی کی اَمریت والا مصر ہو کہ شیخ سلمان کی نئ پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتا سعودی عرب، غرضیکہ حالات کی افتاد نے سب کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا ہے، کیا ایسا ہونا ممکنات میں سے نہیں کہ پیش آمدہ چومکھی لڑائی کہ جو صرف خارجی نہیں بلکہ داخلی محاذوں پہ بھی لڑی جانی ہے اسکو خلافت کے ادارے کے زیر کمان لڑا جائے؟ بطور ادارہ ایک ایسی خلافت کہ جسکی چھتری تلے کئ ایک اسلامی ریاستیں اپنی داخلی پالیسیاں ازخود وضع کرنے کی مختار ہوں فقط بین الاقوامی مسائل اور عامۃ المسلمین کے فلاحی امور اور پہر کچھ عرصے بعد جداگانہ مالیاتی نظام اسکے اولیں خدو خال ہوں، افراتفری کی موجودہ کیفیت میں یہ بات فقط مجنون کی بڑ ھے مگر کیا معلوم آنے والا کل کیا خبر لائے آخر کو امید پہ دنیا قائم ہے۔