کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
یورپی یونین کا پاکستان سے توہینِ رسالت قانون کی تنسیخ کا مطالبہ
پاکستان کی مسیحی برادری کے ارکان کراچی میں صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں ایک مسیحی جوڑے کو زندہ جلائے جانے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔فائل تصویر
پیرس ۔ ایجنسیاں ،العربیہ ڈاٹ نیٹ جمعہ 5 صفر 1436هـ - 28 نومبر 2014م
یورپی پارلیمان نے پاکستان سے توہینِ رسالت قوانین پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ان قوانین کو منسوخ کیا جائے کیونکہ یہ عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
یوپی پارلیمان نے پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک عیسائی عورت آسیہ بی بی کے کیس پر خاص طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس عورت کو چار سال قبل ایک مسلم عورت کے ساتھ پانی کے ایک کٹورے سے پیدا ہونے والے تنازعے پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز کلمات کہنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور عدالت نے اس کو سزائے موت سنائی تھی۔
عدالت عالیہ لاہور نے گذشتہ ماہ اس کی سزائے موت برقرار رکھی تھی اور اس کی جانب سے ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کو مسترد کردیا تھا۔اس نے گذشتہ سوموار کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اپنی سزا کے خلاف حتمی اپیل دائر کردی ہے۔
یورپی پارلیمان کے ارکان نے فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں منعقدہ اجلاس میں ایک غیر پابند قرار داد منظور کی ہے۔اس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ توہین رسالت کے قوانین کو احمدیوں اور عیسائیوں سمیت اقلیتی گروپوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
قرارداد میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ توہین رسالت سے متعلق قوانین اور ان کے اطلاق کے موجودہ طریق کار کا مکمل باریک بینی سے جائزہ لے کر انھیں منسوخ کرے۔ اس میں حکومتِ پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ توہین رسالت یا ملحد ہونے کے جرم سمیت سزائے موت کو یکسر ختم کر دے۔
درایں اثناء یورپی پارلیمان کے قریباً پچاس ارکان نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا مغرینی کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان سے آسیہ بی بی کے معاملے میں رحم کا معاملہ کرنے کے لیے کہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 2008ء کے بعد سے کسی بھی جرم میں سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے اور نومبر 2012ء میں صرف ایک فوجی کو کورٹ مارشل کے بعد پھانسی دی گئی تھی۔
پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی کو نومبر 2010ء میں ایک ماتحت عدالت نے پیغمبر اسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے الزام میں قصور وار قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی۔ اس نے 2009ء میں ایک مسلم خاتون کے ساتھ لڑائی جھگڑے کے دوران توہین آمیز کلمات ادا کیے تھے۔مجرمہ نے اس سزا کے خلاف عدالتِ عالیہ لاہور میں اپیل دائر کی تھی مگر عدالت کے دو رکنی بنچ نے اس کو سنائی گئی پھانسی کی سزا برقرار رکھی تھی۔
اس عورت کی سزائے موت کے خلاف اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے آواز اٹھائی تھی اور اس سے جیل میں ملاقات بھی کی تھی۔ سلمان تاثیر اور پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے توہین رسالت پر سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔ ان دونوں کو اس قانون کی مخالفت کی بنا پر قتل کر دیا گیا تھا۔
گورنر سلمان تاثیر کو ان کے اپنے ایک محافظ ممتاز قادری نے اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں گولی مار کر قتل کیا تھا۔ وہ اس وقت راول پنڈی کی اڈیالا جیل میں قید ہے اور اس کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ اسی جیل میں قریباً دو ماہ قبل ایک پولیس اہلکار نے توہین رسالت کے جرم میں قید ایک ستر سالہ اسکاٹش شخص کو گولی مار کر زخمی کر دیا تھا۔ اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ذہنی مریض ہے۔ اس کو بھی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی اور جیل میں پھانسی پانے کا منتظر تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں توہین رسالت ایک بہت حساس معاملہ ہے اور ملک کی مذہبی سیاسی جماعتیں اور دینی تنظیمیں یہ سزا ختم کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ ماضی میں ایسی کسی بھی کوشش کی سخت مزاحمت کر چکی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ قانون کو ختم کرنے کے بجائے اس کے نفاذ کے طریق کار کو بہتر بنایا جائے۔
تاہم حالیہ برسوں کے دوران اس قانون کے تحت کسی مجرم کو دی گئی سزائے موت پر تو عمل درآمد نہیں کیا گیا لیکن مشتعل ہجوم نے توہین رسالت کے الزام میں متعدد افراد کو اپنے طور پر تشدد کا نشانہ بنا کر موت کی نیند سلا دیا ہے اور ان کے خلاف عدالت میں مقدمات چلنے کی نوبت ہی نہیں آئی ہے۔ حال ہی میں پنجاب کے ضلع قصور میں ایک عیسائی جوڑے کو قرآن کی توہین کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ ملک کی دینی و سیاسی جماعتوں نے بھی شدی مذمت کی ہے۔
ح
===========
جنید جمشید کے خلاف توہین مذہب کی تحقیقات کا آغاز
ایک ویڈیو پیغام میں ممتاز دینی شخصیت نے معافی مانگ لی
اسلام آباد، کراچی ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ، ایجنسیاں: بدھ 10 صفر 1436هـ - 3 دسمبر 2014م
جنید جمشید نے انتہائی جذباتی انداز میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی کی اپیل کی ہے
پاکستانی پولیس نے توہین مذہب کے الزامات کے تحت ملک کی مشہور شخصیت اور سابق پاپ اسٹار جنید جمشید کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک متنازعہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد انہیں تنقید کا سامنا ہے۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں ’تبلیغی جماعت‘ سے منسلک جنید جمشید کو ’عورتوں کے ساتھ سلوک کرنے‘ سے متعلق ایک بیان ديتے ديکھا جا سکتا ہے اور اسی بیان میں وہ پیغمبر اسلام کی اہلیہ حضرت عائشہ سے متعلق ایک روایت بیان کرتے ہیں۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اس بیان میں توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس پاکستان میں میڈیا اور شو بزنس سے وابستہ شخصیات پر توہینِ مذہب کے مقدمے کا دوسرا واقعہ ہے۔ توہین مذہب پاکستان میں انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ توہین مذہب کی روک تھام کے لیے پاکستان میں قوانین بھی موجود ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اکثر ان قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں مذہبی جماعت ’سُنی تحریک‘ کے ایک ترجمان فہیم الدین شیخ کا کراچی میں نیوز ایجنسی ‘اے ایف پی’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم نے ڈسٹرکٹ کورٹ کے جسٹس احمد صبا کے حکم پر رسالہ پولیس اسٹیشن میں جنید جمشید کے خلاف توہین مذہب کا کیس دائر کرا دیا ہے۔‘‘ رسالہ پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار محمد شفیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔
اس سے قبل جنید جمشید کی طرف سے فیس بک پر ایک ویڈیو بھی ریلیز کی گئی تھی، جس میں انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ان سے غلطی سر زد ہوئی ہے اور انہیں معاف کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ میں ام المومنین اماں عائشہ کی شان میں ایسی باتیں کہہ گیا جو ان کی شان کے خلاف تھیں، یہ میری غلطی ہے اور یہ میری نادانی اور جہالت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں، میں تمام امت مسلمہ کے سامنے معافی چاہتا ہوں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں نے یہ غلطی قصداﹰ نہیں کی، میں ایک مرتبہ پھر آپ سے معافی مانگتا ہوں اور اس بات کی امید بھی رکھتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کر دیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ ان لوگوں کے دل سے شکر گزار ہیں، جنہوں نے انہیں متنبہ کیا اور ان کی غلطی کی نشاندہی کی۔
تبلیغی جماعت میں شمولیت سے پہلے جنید جمشید کا شمار پاکستان کے مشہور ترین پاپ سنگرز میں ہوتا تھا۔ ان کو سب سے زیادہ شہرت ان کے گانے ’دل دل پاکستان‘ کی وجہ سے ملی۔ اب پچاس سالہ جنید جمشید نے داڑھی رکھی ہوئی ہے اور روایتی لباس پہنتے ہیں۔ وہ فیشن بوتیک کی ایک چین بھی چلاتے ہیں۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں توہین مذہب کے مقدمات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اکثر غیر ثابت شدہ الزامات کی بعد ہجوم کی طرف سے انتقامی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ ابھی چار نومبر ہی کو ایک مشتعل ہجوم کی طرف سے ایک مسیحی اور اس کی حاملہ بیوی کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
حال ہی میں گلگت بلتستان کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نجی ٹی وی جیو کے ایک پروگرام میں برگزیدہ مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے جانے پر چینل کے مالک میر شکیل الرحمٰن، پروگرام کی میزبان شائشتہ لودھی، اداکارہ وینا ملک اور ان کے شوہر کو 26، 26 سال قید اور 13 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
چند روز پہلے یورپی پارلیمنٹ نے بھی پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ ’توہین رسالت و مذہب‘ سے متعلق قوانین پر نظر ثانی کرے۔ یورپی رہنماؤں کے مطابق ان قوانین کی وجہ سے مسیحیوں اور دیگر اقلیتوں کو ’نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘۔
ح
28 نومبر کو یورئین یونئین کا پریشر اور دو دن بعد جنید جمشید اشو ۔۔۔۔۔۔؟ کچھ تو چل رہا ھے۔