عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یوم اساتذہ کے موقع پر
_______________
تحریر : عبدالغفار سلفی، بنارس
آج یعنی 5 ستمبر کو پورے ملک میں یوم اساتذہ ( Teachers Day) منایا جاتا ہے، لوگ اپنے اپنے اساتذہ کو قسم قسم کے تحفے تحائف دیتے ہیں، اسکولوں اور کالجز میں مختلف قسم کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں. حقیقت یہ ہے کہ ایک استاذ معاشرے کو جو کچھ دیتا ہے، ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں اساتذہ کا جو کردار ہے اس کا حق ہم ایک رسمی دن کی تقریبات کے ذریعے کبھی ادا نہیں کر سکتے.
اساتذہ قوم و ملت کے معمار ہوتے ہیں، ماں باپ بچوں کو جنم دہتے ہیں، ان کی پرورش کی راہ میں ڈھیروں مشکلات اٹھاتے ہیں مگر اساتذہ حقیقت میں وہ روحانی باپ ہوتے ہیں جو جسموں کی نہیں روحوں کی نشو و نما کرتے ہیں، یہ وہ کمہار ہوتے ہیں جو دماغوں کے سانچوں میں صلاحیتوں کے رنگ بھرتے ہیں، یہی ہمیں قلم پکڑنا اور پھر اس کا حق ادا کرنا سکھاتے ہیں، یہ ہمیں نہ صرف بولنا سکھاتے ہیں بلکہ اس ہنر سے بھی روشناس کراتے ہیں کہ کب کیا بولنا ہے کیا نہیں بولنا ہے.
اساتذہ کی قدر دانی یہ نہیں کہ ہم سال میں ایک بار انہیں تحفے دے کر خوش ہو جائیں، ان کی خدمات اور احسانات اس سے کہیں زیادہ کے متقاضی ہیں. ہم جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں ہمارے اساتذہ بھی ہماری دعاؤں کا حصہ ہوں، ہم ان کی ضرورتوں میں ان کے کام آئیں. اکثر اساتذہ اپنی عزت نفس کی خاطر اپنے عزیز شاگردوں کو بھی اپنی ضروریات سے آگاہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے. یہاں شاگردوں کی ذمہ داری ہے کہ بنا پوچھے ان کے حالات دیکھ کر اور محسوس کر کے ان کے کام آئیں.
مادیت کے اس دور میں آج جب کہ پیسے کی چمک دمک ہر چیز پر مقدم ہے، ترقی کے چند زینے انسان کو بے قابو کرنے کے لیے کافی ہیں ، ممکن ہے آپ علم و فن کی اس معراج پر پہنچ جائیں جہاں سے آپ کو اپنے اساتذہ بونے نظر آنے لگیں مگر یاد رکھیں کہ علم و فن کی دنیا کے آپ جتنے بڑے بھی مہر تاباں بن جائیں اساتذہ اس آفتاب کی مانند ہیں کہ آپ کی ساری چمک دمک اسی مرکزِ نور کی مرہونِ منت ہے.
اساتذہ کی تعلیم و تربیت کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں، کچھ تادیباً مار بھی دیتے ہیں تو کچھ وہ ہوتے ہیں کہ ان کا شاگردوں کو گھور دینا ہی انہیں شرم سار کرنے کو کافی ہوتا ہے. ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کا بہت کچھ برداشت کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے عقل و آگہی سے روشناس ہوتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اساتذہ ہمارا بہت کچھ برداشت کرتے ہیں، ہماری کتنی بد تمیزیوں اور بے ادبیوں پر وہ درگزر کا جھاڑو پھیر دیتے ہیں. آج ہم کسی بھی فیلڈ میں کسی بھی لائق ہیں تو والدین کے بعد (بلکہ بعض پہلوؤں کے اعتبار سے والدین سے بھی زیادہ) سب سے بڑا سبب ہمارے اساتذہ ہیں، ہماری ترقی کی ہر بنیاد میں ان کی محنتوں اور محبتوں کی خوشبو شامل ہے، علمی دنیا میں بولا جانے والا ہمارا ایک ایک لفظ ان کے احسانات کے تلے دبا ہے، ہمارے قلم سے نکلنے والی ایک ایک سطر ان کی قربانیوں کی آئینہ دار ہے.
الہی! ہمارے تمام اساتذہ پر اپنے رحم و کرم کی بارش فرما، جو با حیات ہیں ان کی عمر میں، مال و منال میں، اہل و عیال میں برکتیں عطا فرما، جو دنیا سے جا چکے ان کی مغفرت فرما اور اپنی رحمتوں میں جگہ دے.
یوم اساتذہ کے موقع پر
_______________
تحریر : عبدالغفار سلفی، بنارس
آج یعنی 5 ستمبر کو پورے ملک میں یوم اساتذہ ( Teachers Day) منایا جاتا ہے، لوگ اپنے اپنے اساتذہ کو قسم قسم کے تحفے تحائف دیتے ہیں، اسکولوں اور کالجز میں مختلف قسم کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں. حقیقت یہ ہے کہ ایک استاذ معاشرے کو جو کچھ دیتا ہے، ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں اساتذہ کا جو کردار ہے اس کا حق ہم ایک رسمی دن کی تقریبات کے ذریعے کبھی ادا نہیں کر سکتے.
اساتذہ قوم و ملت کے معمار ہوتے ہیں، ماں باپ بچوں کو جنم دہتے ہیں، ان کی پرورش کی راہ میں ڈھیروں مشکلات اٹھاتے ہیں مگر اساتذہ حقیقت میں وہ روحانی باپ ہوتے ہیں جو جسموں کی نہیں روحوں کی نشو و نما کرتے ہیں، یہ وہ کمہار ہوتے ہیں جو دماغوں کے سانچوں میں صلاحیتوں کے رنگ بھرتے ہیں، یہی ہمیں قلم پکڑنا اور پھر اس کا حق ادا کرنا سکھاتے ہیں، یہ ہمیں نہ صرف بولنا سکھاتے ہیں بلکہ اس ہنر سے بھی روشناس کراتے ہیں کہ کب کیا بولنا ہے کیا نہیں بولنا ہے.
اساتذہ کی قدر دانی یہ نہیں کہ ہم سال میں ایک بار انہیں تحفے دے کر خوش ہو جائیں، ان کی خدمات اور احسانات اس سے کہیں زیادہ کے متقاضی ہیں. ہم جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں ہمارے اساتذہ بھی ہماری دعاؤں کا حصہ ہوں، ہم ان کی ضرورتوں میں ان کے کام آئیں. اکثر اساتذہ اپنی عزت نفس کی خاطر اپنے عزیز شاگردوں کو بھی اپنی ضروریات سے آگاہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے. یہاں شاگردوں کی ذمہ داری ہے کہ بنا پوچھے ان کے حالات دیکھ کر اور محسوس کر کے ان کے کام آئیں.
مادیت کے اس دور میں آج جب کہ پیسے کی چمک دمک ہر چیز پر مقدم ہے، ترقی کے چند زینے انسان کو بے قابو کرنے کے لیے کافی ہیں ، ممکن ہے آپ علم و فن کی اس معراج پر پہنچ جائیں جہاں سے آپ کو اپنے اساتذہ بونے نظر آنے لگیں مگر یاد رکھیں کہ علم و فن کی دنیا کے آپ جتنے بڑے بھی مہر تاباں بن جائیں اساتذہ اس آفتاب کی مانند ہیں کہ آپ کی ساری چمک دمک اسی مرکزِ نور کی مرہونِ منت ہے.
اساتذہ کی تعلیم و تربیت کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں، کچھ تادیباً مار بھی دیتے ہیں تو کچھ وہ ہوتے ہیں کہ ان کا شاگردوں کو گھور دینا ہی انہیں شرم سار کرنے کو کافی ہوتا ہے. ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کا بہت کچھ برداشت کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے عقل و آگہی سے روشناس ہوتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اساتذہ ہمارا بہت کچھ برداشت کرتے ہیں، ہماری کتنی بد تمیزیوں اور بے ادبیوں پر وہ درگزر کا جھاڑو پھیر دیتے ہیں. آج ہم کسی بھی فیلڈ میں کسی بھی لائق ہیں تو والدین کے بعد (بلکہ بعض پہلوؤں کے اعتبار سے والدین سے بھی زیادہ) سب سے بڑا سبب ہمارے اساتذہ ہیں، ہماری ترقی کی ہر بنیاد میں ان کی محنتوں اور محبتوں کی خوشبو شامل ہے، علمی دنیا میں بولا جانے والا ہمارا ایک ایک لفظ ان کے احسانات کے تلے دبا ہے، ہمارے قلم سے نکلنے والی ایک ایک سطر ان کی قربانیوں کی آئینہ دار ہے.
الہی! ہمارے تمام اساتذہ پر اپنے رحم و کرم کی بارش فرما، جو با حیات ہیں ان کی عمر میں، مال و منال میں، اہل و عیال میں برکتیں عطا فرما، جو دنیا سے جا چکے ان کی مغفرت فرما اور اپنی رحمتوں میں جگہ دے.