• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ بڑهتے فاصلے :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

دور حاضر کا ایک بڑا چیلنج "جنریشن گیپ" یعنی بڑھتی ہوئی دوریاں ہیں، گھر میں والدین اور اولاد کے درمیان، اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان، معاشرہ میں بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان، اور دینی جماعتوں میں بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان۔ ان دوریوں کو قربتوں میں بدلنا ضروری ہے، ورنہ ہمارے خواب چکنا چور ہوجائیں گے، اور رفتار کا فرق سمتوں اور منزلوں کا فرق بن جائے گا، اور یہ وہ نقصان ہوگا جس کی ذمہ داری سب پر عائد ہوگی

قرآن مجید میں بڑوں کی چھوٹوں سے دوستی اور قربت کے بڑے زبردست مناظر ہیں۔ اور ہر منظر میں ان بڑوں کے لئے بڑا سبق ہے جو اپنے چھوٹوں سے دور ہوگئے، اتنا دور کہ ان کو اس کی خبر نہیں ہے کہ ان کے چھوٹے کس سمت میں سفر کر رہے ہیں، کن مشاغل میں بسر کر رہے ہیں اور کیا خواب دیکھتے ہیں


✔ایک منظر خانہ کعبہ کی تعمیر کا ہے جس میں ایک بوڑھا باپ ابراہیم اور ایک جوان بیٹا اسماعیل مل کر دیواریں اٹھارہے ہیں۔ دونوں میں فکری اور قلبی ہم آہنگی اتنی ہے کہ ایک ہی تمنا ایک ہی خواب اور لفظ بہ لفظ ایک ہی دعائیں


✔دوسرے منظر میں انصاف کی عدالت قائم ہے اور عدل وانصاف قائم کرنے کا سچا جذبہ لے کر ایک ادھیڑ عمر باپ داوود اور ایک جوان بیٹا سلیمان سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ صحیح رائے تک بیٹا پہنچ جاتا ہے، اور باپ اس کی بات کو خوش دلی سے قبول کر لیتا ہے، کیونکہ دونوں کا آپس میں مقابلہ نہیں تھا، بلکہ مل کر حق تک رسائی کے لئے کوشش کر رہے تھے، اپنی ذہانت ثابت نہیں کرنا تھی بلکہ منصفانہ فیصلے تک پہنچنا تھا، ہدف اکیلے جیتنا نہیں تھا، بلکہ مل کر جیتنا تھا


✔تیسرے منظر میں بیٹا یوسف خواب دیکھتا ہے اور سب سے پہلے اپنے ابا کے ساتھ شیئر کرتا ہے، ابا خواب کو غور سے سنتے ہیں، اور خواب کی عملی تعبیر کے سلسلے میں فکر مند ہوجاتے ہیں


✔چوتھے منظر میں باپ ابراہیم خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہا ہے، باپ اپنا خواب بلا جھجک اپنے بیٹے کو سناتا ہے اور بیٹا اس خواب کی تعبیر کی خاطر اپنی گردن پیش کر دیتا ہے


✔پانچوے منظر میں ماں اپنے بیٹے موسی کو صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دیتی ہے، اور پھر پورا مشن اپنی بیٹی کے حوالے کر دیتی ہے، جو بہترین طریقے سے اس مشن کو انجام دیتی ہے۔ ماں بیٹی پر اعتماد کرتی ہے، اور بیٹی اس اعتماد کی لاج رکھ لیتی ہے، اور ماں کی توقعات پر پوری اترتی ہے


لازم ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان اتنا گہرا رشتہ ہو کہ بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر جیسے بڑے بڑے کام انجام دیں، بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر گمبیر ترین مسائل کے حل تلاش کریں، بڑے اپنے خوابوں میں چھوٹوں کو شریک کریں، اور چھوٹے اپنے خواب بڑوں کو بلا جھجک بتا سکیں۔ نصیحت کا موقعہ آئے تو بڑے چھوٹوں کو نصیحت بھی کریں، لیکن اس طرح جیسے لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے تھے سمجھداری، حکمت، محبت اور پیار بھری نصیحتیں۔ کہ کوئی نصیحت بار خاطر نہ ہو۔ چھوٹے بھی موقعہ آنے پر بڑوں کو ضرور نصیحت کریں لیکن احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جس طرح بیٹے ابراہیم نے اپنے باپ کو نصیحت کی تھی احترام اور خیر خواہی کا پیکر بن کر


کتنے ہی کروڑ پتی لوگوں کے اپنے جوان بچوں کے بگڑے ہوئے کیس سنے، ان کی اس زندگی پر رونا آیا جو انہوں نے بچوں سے دور دولت کمانے کی دھن میں گزار دی، وہ بچوں کے لئے دولت کماتے رہے، مگر خود بچوں کو کھوتے رہے، دولت بچوں کے ہاتھ لگی اور بچے شیطان کے ہاتھ لگے، ان بیچاروں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا سوائے خالی لرزتے ہاتھ اور حسرت زدہ ٹوٹے دل کے۔ ان سب کے برے حال کی ایک بڑی وجہ تھی بچوں سے دوری، میری مراد جگہ کی دوری نہیں ہے، کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو گھر میں رہ کر دور ہوتے ہیں اور کتنے ہی لوگ ہزاروں میل دور رہ کر بھی قریب ہوتے ہیں


اکثر بڑوں کو گلہ کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ چھوٹے ان کی پسند کا خیال نہیں کرتے، وہ رشتہ بھی اپنی پسند کا، پیشہ بھی اپنی پسند کا اور لائف اسٹائل بھی اپنی پسند کا چاہتے ہیں۔ میں چھوٹوں سے تو یہی کہوں گا کہ بڑوں کی پسند کا احترام تم کو ممکنہ حد تک کرنا چاہئے، ساتھ ہی بڑوں سے بھی ادب سے کہوں گا، کہ وقت آنے پر اپنی پسند کو ان پر زبردستی تھوپنے کی اور نہ ماننے پر ناراض ہو جانے کی بجائے، آپ بچپن سے ہی پسند کے وہ اعلی معیارات ان کی شخصیت میں بسا دیجئے، کہ تاحیات وہ ان اعلی معیارات کو رہنما بنائیں اور آپ کو کسی کشمکش کی ضرورت ہی نہیں پڑے۔ اور یہ تبھی ہو سکے گا جب آپ چھوٹوں کے ہم درد، ہم راز اور زندگی کے ہم سفر بلکہ خوابوں کے ہم نظر بن جائیں گے


میں نے تربیت کے سلسلے میں کڑی آمریت سے زیادہ نقصان دہ، نری ناصحیت سے زیادہ بے اثر اور بامقصد دوستی سے زیادہ مفید طریقہ کوئی نہیں پایا

الدين النصيیحة !


واٹس اپ پر ایک میسیج موصول ہوا اتنا لمبا لکهنا میرے لیے مشکل اس لیے یہاں پیسٹ کر دیا یہ حقیقت ہے کہ یہ فاصلے بڑهتے ہی جا رہے ہیں ضرورت بڑوں کو احتیاط اور صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے .یہ فاصلے نہ صرف خاندانی زندگی کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں بلکہ دین کی تعلیم میں بهی رکاوٹ ہیں اور ایسے میں ایک اسلامی معاشرے کے قیام کا خیال محض خیال ہی رہ جائے گا.دوسروں کو سکهانے کے لیے سوچنا ہو گا کہ واقعی ہم عمل میں اللہ کے لیے کتنے خالص ہیں اور اخلاق کے کس درجے پر ہیں ؟


اور سوچنا ہے اپنی جگہ پر کہ یہ کرنا میں نے ہی ہے ہر رویے سے بالا تر ہو کر .


اللہ تعالی سب کو عمل کی توفیق دے آمین یا رب العالمین

ام محمد
 
Top