ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
ہشام بن عروہ رحمہ اللہ نے انہوں نے اپنےوالد ( عروہ بن زبیررضی رحمہ اللہ ) اور وہب بن کیسان رحمہ اللہ سے انہوں نے کہا شام کے لوگ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر طعنہ مارتے تھے ان کو کہتے تھے دو کمر بند والی کے بیٹے ، اس وقت ان کی والدہ ( سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما ) نے کہا بیٹا شام والے تجھ پر یہ طعنہ کرتے ہیں کہ تو دو کمر بند والی کا بیٹا ہے تو جانتا ہے اس کا کیا مطلب ہے ہوا یہ تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرنے لگے میں نے اپنی کمر بند پھاڑ کر دو ٹکڑے کیا ایک ٹکڑے سے تو آپ کا مشکیزہ ( پانی کا ) باندھا اور ایک ٹکڑے کو آپکا دسترخوان بنایا ( اس میں توشہ لپیٹا ) وہب نے کہا اس کے بعد میں شام والے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر طعنہ مارتے کہ وہ دو کمر بند والی کا بیٹا ہے تو وہ کہتے بے شک سچ ہے پروردگار کی قسم
اور یہ مصرع پڑھتے
یہ تو ایسا طعنہ ہے جس میں نہیں کچھ عیب ہے ۔
صحیح بخاری کتاب الأطعمة
٭٭٭
اس روایت میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کا ذکر ہے آپ خود بھی بے مثال بہادر تھے اور بے مثال بہادر باپ کے صاحبزادے تھے آپ جانبازوں کے بھی سردار تھے اور عابدوں کے بھی ۔
آپ مدینہ منورہ میں 2 ھ کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے مہاجرین کے ہاں چونکہ کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی،لٰہذا آپ کی پیدائش پر مسلمانوں نے خوب خوشیاں منائیں۔
آپ کی والدہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا (بچے) آپ کو گود میں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اپنی آغوش مبارک میں لے لیا۔ ایک کھجور اپنے دہن مبارک میں ڈال کر چبائی اور پھر اسے اپنے لعابِ دہن کے ساتھ ملا کر ننھے عبداللہ کے منہ میں ڈالا۔ اسکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے دعائے خیروبرکت مانگی۔ امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے انہی بھانجے کے نام پر اپنی کنّیت ''امّ عبداللہ'' رکھی تھی۔
اصاغر صحابہ میں چار افراد ایسے تھے جو عبادت، زہد و تقوی اور علم دین میں غیر معمولی مقام رکھتے تھے اور اتفاق سے ان چاروں کا نام عبداللہ تھا۔ اس وجہ سے یہ عباد لہ (عبداللہ کی جمع) کہلاتے تھے۔ یہ سیدنا ابن عمر، سیدناابن عباس، سیدناابن عمرو بن عاص اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہم تھے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ ساٹھ سال کے ہو چکے تھے۔ انہوں نے یزید کی حکومت کو پسند نہیں کیا اور اس کی بیعت نہیں کی۔ آپ مکہ مکرمہ میں مقیم رہے تاہم آپ نے حکومت کے خلافت بغاوت بھی نہیں کی۔ شامی افواج نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا جو کہ کئی دن جاری رہا مگر ابن زبیر رضی اللہ عنہھمانے صرف اپنا دفاع ہی کیا۔ یزید کی وفات کے بعد ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور سوائے شام کے، تقریباً سبھی علاقوں پر ان کی خلافت قائم ہو گئی جو کہ 73/693 تک قائم رہی۔
اھل سنت مورخین مثلاً ابن کثیر ،ابن اثیر اور طبری رحمھم اللہ کا کہنا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر کی خلافت شرعی اعتبار سے درست تھی کہ عالم اسلام کے اکثر علاقوں میں آپ کو خلیفہ مان لیا گیا اسی لیے ان بزرگوں نے آپ کا نام خلفاء میں شمار کیا ہے۔
اپنی آخری لڑائی جس میں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنھما شہید ہوئے اس سے پہلے اپنی والدہ کے پاس آئےاور مشورہ طلب کیا
سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا جو سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں نے جواب دیا
''بیٹا تم کو اپنی حالت کا اندازہ خود ہوگا۔ اگر تم حق پر ہو اور حق کے لیے لڑتے رہے ہو تو اب بھی اس کے لیے لڑو کیونکہ تمہارے بہت سے ساتھیوں نے اس کے لیے جان دی ہے اور اگر دنیا طلبی کے لیے لڑتے تھے تو تم سے برا کون اللہ کا بندہ ہوگا۔ تم نے خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا اور اپنے ساتھ کتنوں کو ہلاک کیا۔ اگر یہ عذر ہے کہ حق پر ہو لیکن اپنے مددگاروں کی وجہ سے مجبور ہو تو یاد رکھو شریفوں اور دینداروں کا یہ شیوہ نہیں ہے۔ تم کو کب تک دنیا میں رہنا ہے۔ جاؤ حق پر جان دینا دنیا کی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔''
یہ جواب سن کر ابن زبیررضی اللہ عنہ نے کہا ماں مجھے ڈر ہے کہ میرے قتل کے بعد بنو امیہ میری لاش کو مثلہ کرکے سولی پر لٹکائیں گے ۔ اس بہادرخاتون نے جواب دیا۔ ''ذبح ہو جانے کے بعد بکری کی کھال کھینچنے سے تکلیف نہیں ہوتی۔ جاؤ اللہ سے مدد مانگ کر اپنا کام پورا کرو۔''
ماں کے اس جواب سے سیدنا ابن زبیررضی اللہ عنہ ایک نئے ولولہ اور جذبہ سے اٹھے ۔ ماں کو آخری بار الوداع کہہ کر دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور ان کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ لیکن بالآخر میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ حجاج آپ کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا۔ جو تین دن وہیں لٹکتی رہی
آپ کی والدہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھ کر بولیں :
''شہسوار ابھی اپنی سواری سے نہیں اترا۔''
بقول علامہ شہید کے '' ابھی اس خطیب کے منبر سے اترنے کا وقت نہیں آیا ہے ''
رضی اللہ عنہ وارضاہ
اور یہ مصرع پڑھتے
یہ تو ایسا طعنہ ہے جس میں نہیں کچھ عیب ہے ۔
صحیح بخاری کتاب الأطعمة
٭٭٭
اس روایت میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کا ذکر ہے آپ خود بھی بے مثال بہادر تھے اور بے مثال بہادر باپ کے صاحبزادے تھے آپ جانبازوں کے بھی سردار تھے اور عابدوں کے بھی ۔
آپ مدینہ منورہ میں 2 ھ کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے مہاجرین کے ہاں چونکہ کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی،لٰہذا آپ کی پیدائش پر مسلمانوں نے خوب خوشیاں منائیں۔
آپ کی والدہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا (بچے) آپ کو گود میں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اپنی آغوش مبارک میں لے لیا۔ ایک کھجور اپنے دہن مبارک میں ڈال کر چبائی اور پھر اسے اپنے لعابِ دہن کے ساتھ ملا کر ننھے عبداللہ کے منہ میں ڈالا۔ اسکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے دعائے خیروبرکت مانگی۔ امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے انہی بھانجے کے نام پر اپنی کنّیت ''امّ عبداللہ'' رکھی تھی۔
اصاغر صحابہ میں چار افراد ایسے تھے جو عبادت، زہد و تقوی اور علم دین میں غیر معمولی مقام رکھتے تھے اور اتفاق سے ان چاروں کا نام عبداللہ تھا۔ اس وجہ سے یہ عباد لہ (عبداللہ کی جمع) کہلاتے تھے۔ یہ سیدنا ابن عمر، سیدناابن عباس، سیدناابن عمرو بن عاص اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہم تھے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ ساٹھ سال کے ہو چکے تھے۔ انہوں نے یزید کی حکومت کو پسند نہیں کیا اور اس کی بیعت نہیں کی۔ آپ مکہ مکرمہ میں مقیم رہے تاہم آپ نے حکومت کے خلافت بغاوت بھی نہیں کی۔ شامی افواج نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا جو کہ کئی دن جاری رہا مگر ابن زبیر رضی اللہ عنہھمانے صرف اپنا دفاع ہی کیا۔ یزید کی وفات کے بعد ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور سوائے شام کے، تقریباً سبھی علاقوں پر ان کی خلافت قائم ہو گئی جو کہ 73/693 تک قائم رہی۔
اھل سنت مورخین مثلاً ابن کثیر ،ابن اثیر اور طبری رحمھم اللہ کا کہنا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر کی خلافت شرعی اعتبار سے درست تھی کہ عالم اسلام کے اکثر علاقوں میں آپ کو خلیفہ مان لیا گیا اسی لیے ان بزرگوں نے آپ کا نام خلفاء میں شمار کیا ہے۔
اپنی آخری لڑائی جس میں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنھما شہید ہوئے اس سے پہلے اپنی والدہ کے پاس آئےاور مشورہ طلب کیا
سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا جو سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں نے جواب دیا
''بیٹا تم کو اپنی حالت کا اندازہ خود ہوگا۔ اگر تم حق پر ہو اور حق کے لیے لڑتے رہے ہو تو اب بھی اس کے لیے لڑو کیونکہ تمہارے بہت سے ساتھیوں نے اس کے لیے جان دی ہے اور اگر دنیا طلبی کے لیے لڑتے تھے تو تم سے برا کون اللہ کا بندہ ہوگا۔ تم نے خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا اور اپنے ساتھ کتنوں کو ہلاک کیا۔ اگر یہ عذر ہے کہ حق پر ہو لیکن اپنے مددگاروں کی وجہ سے مجبور ہو تو یاد رکھو شریفوں اور دینداروں کا یہ شیوہ نہیں ہے۔ تم کو کب تک دنیا میں رہنا ہے۔ جاؤ حق پر جان دینا دنیا کی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔''
یہ جواب سن کر ابن زبیررضی اللہ عنہ نے کہا ماں مجھے ڈر ہے کہ میرے قتل کے بعد بنو امیہ میری لاش کو مثلہ کرکے سولی پر لٹکائیں گے ۔ اس بہادرخاتون نے جواب دیا۔ ''ذبح ہو جانے کے بعد بکری کی کھال کھینچنے سے تکلیف نہیں ہوتی۔ جاؤ اللہ سے مدد مانگ کر اپنا کام پورا کرو۔''
ماں کے اس جواب سے سیدنا ابن زبیررضی اللہ عنہ ایک نئے ولولہ اور جذبہ سے اٹھے ۔ ماں کو آخری بار الوداع کہہ کر دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور ان کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ لیکن بالآخر میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ حجاج آپ کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا۔ جو تین دن وہیں لٹکتی رہی
آپ کی والدہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھ کر بولیں :
''شہسوار ابھی اپنی سواری سے نہیں اترا۔''
بقول علامہ شہید کے '' ابھی اس خطیب کے منبر سے اترنے کا وقت نہیں آیا ہے ''
رضی اللہ عنہ وارضاہ