• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ جمہوریت ہے نافرمانی یا ناراضگی نہیں

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
یہ جمہوریت ہے نافرمانی یا ناراضگی نہیں​
[SUP]عبادالحق بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
آخری وقت اشاعت: پير 6 مئ 2013 ,‭ 20:58 GMT 01:58 PST
[/SUP]

ان انتخابات میں بچے والدین کی مرضی کے مطابق امیدوار نہیں چن رہے

پاکستان میں ماضی میں ہونے والے عام انتخابات کےموقع پر کنبے کے سربراہ یا بزرگ کی مرضی سے ووٹ دینے کا رجحان دیکھا جاتا رہا ہے لیکن 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں یہ رجحان بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس مرتبہ ایک ہی گھر کے مکین کسی ایک سیاسی جماعت کو ووٹ دینے پر متفق نظر نہیں آ رہے۔ جہاں بیوی ووٹ دینے کے معاملے پر شوہر کی ’باغی‘ ہیں وہیں ایسے بچے بھی ہیں جو والد یا والدہ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ان کی پسند کے امیدوار یا جماعت کو ووٹ دے دیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انیس سو ستّر کے انتخابات کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب آزاد انداز میں ووٹ دینے کا رحجان پنپتا نظر آ رہا ہے۔

صائمہ اسد بھی ان خواتین میں ایک سے ہیں جو ووٹ دینے کے معاملے پر اپنے شوہر کے فیصلے سے اختلاف کر رہی ہیں۔ وہ خود تحریک انصاف کی حمایت کر رہی ہیں جبکہ ان کے شوہر کا تعلق مسلم لیگ نون کے ساتھ ہے۔

صائمہ اسد کا کہنا ہے کہ جب سے ان کی شادی ہوئی وہ اسی جماعت کو ووٹ دیتی تھیں جس جماعت کو ان کے شوہر ووٹ دیتے رہے ہیں لیکن اس بار وہ ایسا نہیں کر رہیں۔ ان کے بقول انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق اس جماعت یا امیدوار کو ووٹ دیں گی جو ملک کی بہتری کے لیے کام کرے گا۔

ان انتخابات میں بچے بھی والدین کی رائے سے اتفاق نہیں کر رہے اور وہ اپنے والدین کی مرضی کے برعکس اپنی پسند کے امیدوار یا جماعت کو ووٹ دے رہے ہیں۔

لاہور کے نوجوان وقاص بھلی کو بھی اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے ۔وقاص کے والد تحریک انصاف کی حمایت کررہے ہیں جبکہ وہ خود مسلم لیگ نون کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔

وقاص بھلی کا کہنا ہے کہ میڈیا کی وجہ سے اب ہر ایک کو اپنی رائے قائم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ اب ووٹ دیتے وقت گھروالوں کی رائے کے علاوہ دیگر باتوں کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔

ان کے بقول اسی کو جمہوریت کہتے ہیں اور اس میں نافرمانی یا ناراضگی والی کوئی بات نہیں ہے۔

جس طرح ان انتخابات میں کچھ بچے والدین کی مرضی کے مطابق امیدوار نہیں چن رہے اسی طرح کچھ بہن بھائی بھی انتخابی اختلافات کا شکار نظر آتے ہیں۔

ثناء خان کے بھائی اور ان کی بہن تحریک انصاف کو ووٹ دے رہے ہیں لیکن خود نثاء خان مسلم لیگ نون کی حامی ہیں ۔ ان کاکہنا ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دے دیں گی کیونکہ انتخابات کا مطلب ہی ووٹ کے ذریعے اپنی رائے یا پسند کا اظہار ہے۔

سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ گھرانے امیدواروں اور جماعتوں کے چناؤ میں بٹ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے 1970 کے انتخابات میں اس طرح کا رحجان نظر آیا تھا تاہم بعد میں ووٹ ’پرو بھٹو‘ اور ’اینٹی بھٹو‘ میں تقسیم ہوگیا تھا۔

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عکسری رضوی کہتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے یہ رحجان اچھا ہے کہ لوگ سوچ کر ووٹ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اس رحجان میں جوش کا عنصر غالب ہے حالانکہ اس رحجان میں خوش مندی اور منطق کی ضرورت ہے۔

سہیل وڑائچ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ووٹ دینے کا جو رحجان ان انتخابات میں نظر آرہا ہے اور وہ زیادہ دیر نہیں چلے گا اور انتخابات کے بعد نئی سمت اور راہوں کا تعین ہوگا۔

ح
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
یہ جمہوریت ہے نافرمانی یا ناراضگی نہیں​
[SUP]عبادالحق بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
آخری وقت اشاعت: پير 6 مئ 2013 ,‭ 20:58 GMT 01:58 PST
[/SUP]

ان انتخابات میں بچے والدین کی مرضی کے مطابق امیدوار نہیں چن رہے

پاکستان میں ماضی میں ہونے والے عام انتخابات کےموقع پر کنبے کے سربراہ یا بزرگ کی مرضی سے ووٹ دینے کا رجحان دیکھا جاتا رہا ہے لیکن 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں یہ رجحان بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس مرتبہ ایک ہی گھر کے مکین کسی ایک سیاسی جماعت کو ووٹ دینے پر متفق نظر نہیں آ رہے۔ جہاں بیوی ووٹ دینے کے معاملے پر شوہر کی ’باغی‘ ہیں وہیں ایسے بچے بھی ہیں جو والد یا والدہ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ان کی پسند کے امیدوار یا جماعت کو ووٹ دے دیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انیس سو ستّر کے انتخابات کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب آزاد انداز میں ووٹ دینے کا رحجان پنپتا نظر آ رہا ہے۔

صائمہ اسد بھی ان خواتین میں ایک سے ہیں جو ووٹ دینے کے معاملے پر اپنے شوہر کے فیصلے سے اختلاف کر رہی ہیں۔ وہ خود تحریک انصاف کی حمایت کر رہی ہیں جبکہ ان کے شوہر کا تعلق مسلم لیگ نون کے ساتھ ہے۔

صائمہ اسد کا کہنا ہے کہ جب سے ان کی شادی ہوئی وہ اسی جماعت کو ووٹ دیتی تھیں جس جماعت کو ان کے شوہر ووٹ دیتے رہے ہیں لیکن اس بار وہ ایسا نہیں کر رہیں۔ ان کے بقول انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق اس جماعت یا امیدوار کو ووٹ دیں گی جو ملک کی بہتری کے لیے کام کرے گا۔

ان انتخابات میں بچے بھی والدین کی رائے سے اتفاق نہیں کر رہے اور وہ اپنے والدین کی مرضی کے برعکس اپنی پسند کے امیدوار یا جماعت کو ووٹ دے رہے ہیں۔

لاہور کے نوجوان وقاص بھلی کو بھی اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے ۔وقاص کے والد تحریک انصاف کی حمایت کررہے ہیں جبکہ وہ خود مسلم لیگ نون کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔

وقاص بھلی کا کہنا ہے کہ میڈیا کی وجہ سے اب ہر ایک کو اپنی رائے قائم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ اب ووٹ دیتے وقت گھروالوں کی رائے کے علاوہ دیگر باتوں کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔

ان کے بقول اسی کو جمہوریت کہتے ہیں اور اس میں نافرمانی یا ناراضگی والی کوئی بات نہیں ہے۔

جس طرح ان انتخابات میں کچھ بچے والدین کی مرضی کے مطابق امیدوار نہیں چن رہے اسی طرح کچھ بہن بھائی بھی انتخابی اختلافات کا شکار نظر آتے ہیں۔

ثناء خان کے بھائی اور ان کی بہن تحریک انصاف کو ووٹ دے رہے ہیں لیکن خود نثاء خان مسلم لیگ نون کی حامی ہیں ۔ ان کاکہنا ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دے دیں گی کیونکہ انتخابات کا مطلب ہی ووٹ کے ذریعے اپنی رائے یا پسند کا اظہار ہے۔

سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ گھرانے امیدواروں اور جماعتوں کے چناؤ میں بٹ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے 1970 کے انتخابات میں اس طرح کا رحجان نظر آیا تھا تاہم بعد میں ووٹ ’پرو بھٹو‘ اور ’اینٹی بھٹو‘ میں تقسیم ہوگیا تھا۔

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عکسری رضوی کہتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے یہ رحجان اچھا ہے کہ لوگ سوچ کر ووٹ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اس رحجان میں جوش کا عنصر غالب ہے حالانکہ اس رحجان میں خوش مندی اور منطق کی ضرورت ہے۔

سہیل وڑائچ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ووٹ دینے کا جو رحجان ان انتخابات میں نظر آرہا ہے اور وہ زیادہ دیر نہیں چلے گا اور انتخابات کے بعد نئی سمت اور راہوں کا تعین ہوگا۔

ح
ابھی ہماری قوم کی بیداری میں بہت دیر ہے۔ویسے تو کچھ پتانہی ہوتاکہ قوموں کےاندر کب کوئی لہر آجائے تو وہ بیدار ہوجائیں۔لیکن بظاہر یہی لگتاہےکہ ابھی بہت دیرہے۔
 
Top