• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ سبق ہمارا تھا ۔ ۔ ۔ یہ سبق ہم بھول گئے

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
یہ سبق ہمارا تھا ۔ ۔ ۔ یہ سبق ہم بھول گئے
’’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘ ۔ ۔ ۔ کہنا ایک جھوٹ ہے ایک فریب ہے۔ خود فریبی کا شکار شخص ہی ایسا کہہ سکتا ہے۔ دنیا میں کچھ بھی خود بخود ٹھیک نہیں ہوتا بلکہ اسے ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو اپنی محنت سے ہی اپنی تقدیر بنانی پڑتی ہے۔ کسی قوم کے افراد جب مثبت سوچ کے تحت اعلٰی کارکردگی کا مظاہرہ کر تے ہیں تب ہی اس قوم کی حالت بدلتی ہے۔
اللہ تعالٰی نے یہی فرمایا ہے:
۔ ۔ ۔ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ ۔ ۔ ۔ (١١) سورة الرعد
’’ بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے ‘‘(١١) سورة الرعد
قوم کے عروج و زوال میں احکم احاکمنین اللہ رب العالمین کا یہی قانون کارفرما ہے اور انسان کی زندگی میں ترقی و تننزلی بھی اسی قانون کے تحت ہے۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ لہذا یہ جھوٹ ہے کہ ’’سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘، سب کچھ یوں ہی ٹھیک نہیں ہوگا۔
ہم مسلمان اور خاص کر پاکستانی مسلمان منافقت کے جس گہرے کھائی میں گر گئے ہیں وہاں سے ایمان اور عمل صالح کی روشنی میں آئے بغیر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے اور ہم بس بڑی بڑی باتیں بنانے کیلئے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے منافقت کا ہر دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔
آج دنیا کا کوئی بھی ایسا بڑا ادارہ نہیں ہوگا جہاں ہمارے ہمسایہ دشمن ملک انڈیا کا کوئی بندہ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہ ہو۔ آج دنیا میں کوئی ایسی بڑی تجارتی منڈی نہیں ہوگی جس میں ہمارے ہمسایہ دشمن ملک انڈیا کا حصہ نہ ہو۔
اور اپنا حال دیکھ لیں۔ ہم برادر اسلامی ممالک میں بھی اپنے لوگوں کو کسی اونچے عہدے پر لگا نہ سکے اور دنیا کی تجارتی منڈیوں میں ہمارا نام و نشان بھی نہیں ہے۔
کیا ان حقائق کو کوئی جھٹلا سکتا ہے؟
آج ہم تنزلی کی اتھاہ گھہرائی میں گرتے جا رہے بلکہ گر چکے ہیں لیکن ہماری اذہان میں تو بس یہی بات بٹھا دی گئی ہے کہ ہم اور ہماری افواج غزوۂ ہند کے فاتح ہوں گے۔ اب ہمیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت؟ بس ’’سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔
دنیا میں ہمیشہ وہی ملک و قوم ترقی پر پہنچی جس نے تجارت کو فروغ دیا، جس نے بین الاقوامی تجارت میں اپنا سکہ منوایا۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد ہمارے پیارے نبی ﷺ نے دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تاجر بنانے اور انہیں تجارت کی طرف مائل کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جس کی برکت سے محض چند سالوں میں صدیوں کے کامیاب یہودی تاجروں کا مدینہ سے قلع قمع ہوگیا اور نہ صرف مدینہ میں بلکہ پورے عرب و عجم کے بڑے بڑے ممالک تک یعنی اس وقت کے بین الاقوامی منڈی تک صحابہ کرام نے اپنی تجارت کا دائرہ وسیع کیا۔ جن دس صحابہ کرام کو حضور اکرم ﷺ نے جنت کی بشارت دی ان میں پانچ اس وقت کے بڑے بڑے تاجر تھے جن کی تجارت اس وقت کی معروف دنیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم سب بڑے تاجر تھے جو مدینہ کی ریاست کو ہر طرح کی مالی معاونت فراہم کرتے تھے اور ان کے رقوم سے جہاد کا بڑا حصہ پورا ہوتا تھا۔ اور ان ہی تاجروں کے بدولت دین اسلام مستحکم ہوا، مسلمانوں نے فتوحات حاصل کئے اور عرب و عجم کے مالک بن گئے۔
براعظم افریقہ میں اسلام پھیلنے کا ذریعہ عرب تاجر تھے۔ وہ اپنا تجارتی سامان لے کر افریقہ جاتے۔ بحیرہ روم کے ساحلوں پر لنگر اندازہوتے۔ ان تاجروں کی برکت سے سارا کا سارا ملک اسلام لے آتا۔
یہ مسلمان تاجر ہی تھے کہ جس وقت مسلمانوں کا سورج یورپ (اسپین) میں غروب ہو رہا تھا، اس وقت یہ لوگ نئی سرزمین میں اسلام کی کرنیں پھیلا رہے تھے۔ یمن اور عراق سے کشتیوں پر سامان ڈال کر مسلمان تاجر چلے اور سماٹرا، انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن جیسے دور دراز کے جزیروں تک پہنچ گئے۔ آج یہی انڈونیشیا آبادی میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔
یہ سبق ہمارا تھا، یہ سبق ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں پڑھایا تھا کہ دنیا میں حکومت کرنا ہے تو عسکری قوت کے ساتھ ساتھ تجارت میں بھی ترقی کرو، ساری دنیا میں اپنی تجارت کا جال بچھا دو۔ صحابہ کرام نے یہی کچھ کیا اور عرب و عجم کے حکمران بن گئے، اس وقت کے عالمی طاقت بن گئے۔
یہ سبق ہم بھول گئے اور ہمارے دشمنوں نے پڑھ لیا۔ انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے تجارت کی اور اسی تجارتی کمپنی کی وجہ کر دنیا کے حکمران بنے اور مسلمانوں کو غلام بنایا۔ آج کی عالمی طاقت امریکہ بھی اسی تجارتی اور عسکری قیادت کی مرہونِ منت ہے۔
آج پوری دنیا تجارت کی جنگ ہی لڑ رہی ہے۔ ایک طرف یہودی لابی ساری دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر کے سکنجے میں جکڑ رہی ہے تو دوسری طرف امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی رسہ کشی عروج پر ہے۔ درمیان میں انڈیا پوری دنیا میں اپنا تجارتی سکہ جمانے کے چکر میں ہے اور نہ صرف ہم پاکستانی بلکہ پوری مسلم دنیا اپنی ساری وسائل ہنود، یہود اور عیسائیوں کے ہاتھوں میں دے کر عالمی تجارت سے دست بردار ہوئے بیٹھے ہیں۔
پھر بھی سوچ ہے کہ ’’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔
سب کچھ یوں ہی ٹھیک نہیں ہوگا بلکہ سب کچھ مال سے ٹھیک ہوگا اور مال تجارت سے آتا ہے۔ مسلمانوں کو تجارت کے میدان میں آگے آنا ہوگا۔ اپنے ملک میں لوٹ کھسوٹ کے بجائے ساری دنیا میں تجارتی جال بچھانا ہوگا۔ اسلامی اصولوں کے مطابق دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے بچ کر دیانتداری کے ساتھ تجارت کرنی ہوگی۔ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم جیسے بڑے بڑے تاجر پیدا کرنے ہوں گے۔ پھر مدینہ منورہ جیسی ریاست وجود میں آئے گی، مسلمان عروج پر پہنچیں گے اور ساری دنیا کی حکمرانی کریں گے۔
ورنہ ہم خود فریبی میں پڑے یہی سوچتے اور کہتے رہیں گے کہ ’’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘ اور اپنے دشمنوں سے پٹتے رہیں گے۔
اللہ تعالٰی ہم مسلمانوں کو اس خود فریبی سے نکالے اور ہمیں صادق و امین تاجر بنائے۔ ہمیں پوری دنیا میں تجارت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان​
 
Last edited by a moderator:
Top