• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ وہیل چیئرز پر بیٹھے جماعت کے چیئرمین

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
مسجد میں داخل ہوا تو اس سے پہلے باہر ایک معذور کی ہاتھ سے چلنے والی سائیکل نما وہیل چیئر کو دیکھا۔ اندر پہنچا تو مسجد کے ہال میں دیکھا کہ سبھی لوگ ایک معذور سے جھک جھک کر عزت و احترام سے مل رہے ہیں کہ وہ اٹھ نہیں سکتا تھا۔یہ سب دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ سبھی ایسا کیوں کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں تو ایسے معذوروں سے اور ہی طرح کا سلوک ہوتا ہے… نماز ادا کی… قریبی گھر میں کھانا کھانے پہنچے تو میں نے پوچھ لیا کہ یہ صاحب کون تھے…؟ تو بتایا گیا کہ جناب یہ حافظ ارشد صاحب ہیں، جماعۃ الدعوۃ تلواڑہ وزیر آباد کے سب سے زیادہ متحرک و فعال کارکن… میرے تجسس میں اور بھی اضافہ ہوا کیونکہ اس سے قبل بھی جب تھوڑا عرصہ پہلے اس مسجد میں آنا ہوا تھا تو یہ صاحب سب سے پہلے مسجد میں موجود تھے۔ اس وقت بھی انہیں سبھی ایسے ہی عقیدت سے مل رہے تھے، اسی لئے تو وہ میری یادوں میں نقش ہو گئے تھے۔ بات آگے بڑھی تو مجھے بتایا گیا کہ یہ اپنی اسی سائیکل والی وہیل چیئر پر سارے علاقے میں دعوت دین کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ ہر ہفتے اپنے ہاتھ سے آپ کا اخبار ہفت روزہ ’’جرار‘‘ 100کی تعداد میں تقسیم کرتے ہیں۔ گھر گھر جا کر بچوں کا رسالہ روضۃ الاطفال بھی 100کی تعداد میں بچوں کو خود دے کر آتے ہیں۔ ماہنامہ الحرمین کی 25کاپیاں بھی یونہی تقسیم کرتے ہیں اور ان سبھی کا فنڈز بھی لے کر ہمیں جمع کرواتے ہیں۔
میرے یہ پوچھنے کہ ان کا کام کاروبار کیا ہے…؟ بتایاگیا کہ یہ تھوڑے ہی فاصلے پر واقع صابن ساز فیکٹری اس وہیل چیئر پر جاتے ہیں، وہیں کام کرتے ہیں جس سے ان کی گزر بسر ہوتی ہے۔ وہاں سے چھٹی کے بعد سارا وقت جماعت اور دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ انہوں نے آج تک جماعت تو دور کسی شخص کے سامنے کبھی ہاتھ پھیلانا تو کجا اس کا سوچا بھی نہیں۔ سارا علاقہ اسی لئے تو ان کا اسی طرح گرویدہ ہے۔ اب گندم کی فصل تیار ہے۔ یہ اسی وہیل چیئر پر اسی طرح اپنے ہاتھ سے خود چلاتے ہوئے زمین داروں اور کسانوں کے پاس جائیں گے اور جماعت و مجاہدین کے لئے گندم کا عشر اکٹھا کریں گے۔ رمضان اور دیگر مواقع پر بھی ان کا جمع کردہ و عطیہ کردہ فنڈ ہمارے علاقے میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر بھی یہ ہم سب سے آگے آگے ہوتے ہیں اور اسی وہی چیئر پر کھالیں بھی اٹھا اٹھا لاتے ہیں۔ بات یہیں تک نہیں، نماز کا وقت ہو، تو سب سے پہلے مسجد میں آن موجود ہوتے ہیں، ان کی زبان پر کبھی کسی نے شکوہ و شکایت کا حرف نہیں سنا۔ میں باتیں سنتا جا رہا تھا اور سوچتا جا رہا ھا کہ جس جماعت کے ساتھ ایسے لوگوں کی رب کے حضور دعائیں، التجائیں ہوں… تو بھلا کوئی کیسے اسے نقصان پہنچا سکتا ہے…؟ اس جماعت کے قائدین کیوں سروں کی قیمتیں مقرر ہونے کے باوجود پریشان و رنجور نہیں بلکہ شاداں و مسرور ہیں اور ان کی مسکراہٹوں سے ایک جہاں حیران ہے کہ انہیں موت سے ڈر کیوں نہیں لگتا… ہاں ان کے اوپر تو حافظ ارشد جیسوں کی دعائیں اور ان کا دن رات بہتا پاک پسینہ سایہ فگن ہے… میں نے پھر پوچھا کہ ان کی شادی ہوئی کہ نہیں، تو بتایا گیا کہ نہیں… کیوں…؟ میرے سوال پر بتایا گیا کہ یہ توآپ جانتے ہی ہیں کہ ان کی یہ معذوری ہی اس حوالے سے مسئلہ نظر آتی ہے، کوشش کر رہے ہیں… ابھی تک کامیابی نہیں ملی، دعا کیجئے، اللہ آسانی کرے۔
کھانے کے بعد جب دوبارہ مسجد پہنچا تو دیکھا کہ حافظ ارشد ایک بار پھر براجمان تھے، اب تو انہیں ملنا ہی تھا اور جب انہیں ملا تو یوں لگا کہ جیسے آج ایسے شخص سے مل رہا ہوں کہ جسے بہت پہلے ملنا چاہئے تھا۔
اس دفعہ کا جمعہ نارووال کے علاقے بدوملہی میں تھا، خطبہ جمعہ کے بعد حسب روایت لوگوں نے سلام لینا شروع کیا تو اچانک سامنے ویسی ہی وہیل چیئر موجود تھی جیسی کا ذکر پہلے کر چکا ہوں… اس پر ایک اور باریش و باشرع بزرگ بیٹھے تھے۔ ساتھ موجود علاقائی مسئول رانا اسلم بتانے لگے کہ یہ ماسٹر بوٹا صاحب ہیں۔ ہمارے علاقے میں جماعت کے سب سے پہلے ساتھی اور سارے علاقے میں جماعت کے کام اور تحریک کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی ہے۔ دوسری طرف ساتھ ہی بوٹا صاحب نے جیب سے ایک ہزار روپے نکال کر مجھے تھما دیئے کہ آپ لوگ مولانا امیر حمزہ کی کتاب ’’میں نے بائبل سے پوچھا، قرآن کیوں جلے…؟‘‘ دنیا بھر میں لوگوں کو بھیج رہے ہیں، میرے ان پیسوں سے بھی اس کار خیر میں حصہ ڈال دیجئے… ان کے تعارف اور پھر ان الفاظ نے دل و دماغ میں ایک طوفان و ہیجان پیدا کر دیا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں…؟ ہم تو سنتے دیکھتے آئے ہیں کہ لوگ اپنے معذوروں کوبھیک مانگنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں اور انہیں کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں لیکن یہ تو مانگتے نہیں بلکہ اپنے رب کو اس جسم، اس حالت و نزع میں قرض دے رہے ہیں، پھر ان کی دعائیں رب کیوں نہ قبول کرے…؟
ماسٹر بوٹا کی کہانی بھی عجب ہے۔ جوانی میں سرکاری محکمہ میں ملازم تھے، لگ بھگ 22سال قبل حادثے کا شکار ہوئے اور پھر ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے معذور… سرکار سے جو پیسے ملے ان سے چھوٹے موٹے کاروبار کرتے، کسی کو جانور لے دیتے اور کسی کو معمولی سے کاروبار میں حصہ دار بنا لیتے اور یوں اپنا گھر چلاتے، زندگی کی گاڑی کو دھکیلتے رہے، انہیں جیسے ہی پتہ چلا کہ کوئی تحریک، جہاد کی دعوت لئے دنیا سے مسلمانوں کی غلامی و مظلومیت کو ختم کرنے کے لئے میدان میں آئی ہے تو وہ اسی حال میں اس کے ساتھ چل دیئے۔ تعارف تو علاقے میں خوب تھا، یہیں انہیں ایک دو نوجوان میسر میں آ گئے۔ وہ ان نوجوانوں کو موٹرسائیکل پر سوار کرتے، خود ہاتھ سے سائیکل وہیل چیئر چلاتے ہوئے گائوں گائوں، محلہ محلہ جاتے، اپنے جاننے والوں سے ملاتے، تعارف کرواتے، دعوت و جہاد کا لٹریچر پہنچاتے جاتے اور بتلاتے جاتے کہ آئندہ یہ نوجوان آیا کریں گے، اس سارے کام کے بعد اگر انہیں کہا جاتا کہ آپ کچھ وظیفہ وغیرہ رکھ لیں تو پکار اٹھتے ’’ساری مزدوری تو اپنے رب سے لیں گے، کہیں وہ کم نہ ہو جائے‘‘ گھرمعذوری کے ساتھ ہی چلانے کے لئے انہوں نے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا تھا اور پھر اسی سے ماسٹر مشہور ہو گئے۔ اللہ کی طرف سے ایک اور آزمائش آئی۔ سگا بھائی پولیس میں تھا، ڈاکوئوں سے مقابلے میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اب اس کا بوجھ بھی انہی کے وہیل چیئر پر سوار کندھوں پر تھا۔ خوش اسلوبی سے اسے بھی سہار لیا۔ اللہ کی راہ میں برسرپیکا فدائیوں کیلئے پیسہ پیسہ، پائی پائی اکٹھا کرتے اور پھر کئی مرتبہ بھرے مجمع میں لوگوں کے سامنے اللہ کی راہ میں اسے پیش کردیتے کہ سب کو ترغیب ہو کہ اگر ماسٹر بوٹا یوں اللہ کے راستے میں دے سکتا ہے تو باقی لوگ کیوں نہیں…؟ اس سارے علاقے میں آج انہی کا لگایا ’’بوٹا‘‘ ثمرآور درخت بن چکا ہے کہ جس کی چھائوں میں ہم سب بیٹھے ہیں لیکن ہمیں شاید پتہ نہیں کہ اس درخت کو کیسے کیسے اور کن کن لوگوں نے سینچا ہے… ماسٹر بوٹا کا گھر عید قربان کے دنوں میں آج بھی کھالوں کا کیمپ بن جاتا ہے۔ وہ جہاں جا نہ سکیں، فون پر بیٹھے کھالیں ہی نہیں عشر بھی جمع کرتے اور پھر آگے روانہ کر دیتے ہیں۔
یہاں سے آگے بڑھے… کھانا چودھری نصیر عتیق ملہی کے گھر تھا۔ کھاتا پیتا متمول گھرانہ (اللہ آباد رکھے) خطبہ جمعہ کے اشتہارات بھی ان کے نام کے ساتھ چھپے ہوئے تھے۔ باتوں باتوں میں اپنا ایک گھریلو واقعہ بیان کرتے بتانے لگے کہ میری اکلوتی بیٹی ہے۔ اس کے گھر تھا، لیکن بیٹھنے سے انکار کر دیا، بیٹی نے پوچھا ابو جی! یہ کیا…؟ میں نے کہا کہ تمہارا سرتاج اور میرا داماد بے شک دیندار ہے۔ نمازی ہے لیکن ساتھ ہی قرآن کے آٹھ پاروں کا ’’منکر‘‘ ہے، اس لئے تمہیں ملنے تو آ سکتا ہوں لیکن اس کے گھر بیٹھ سکتا ہوں نہ کچھ کھا سکتا ہوں نہ پی سکتا ہوں… میں حیران سا رہ گیا کہ ’’آٹھ پاروں کا منکر… اور آپ کا داماد، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ تو بولے کہ قرآن میں جس قدر جہاد کا ذکر ہے وہ آٹھ پاروں کے برابر ہی تو ہے اور میرا داماد تحریک دعوت و جہاد کے ساتھ وابستہ نہیں تو لامحالہ وہ آٹھ پاروں کا منکر ہی ہوا ناں… ان کی اس منطق اور نکتے نے تو حیران و ششدر ہی کر دیا کہ اتنی پیرانہ سالی میں بھی یہ جذبہ و محبت…
ہاں… سوچتا ہوں کہ یہ باتیں خوشی کی تو ہیں لیکن ہم سب کے ذمہ تو ان کا بوجھ ہے، اس بوجھ سے جان چھڑائیں گے تو آٹھ پاروں کے ’’منکر‘‘ کہلائیں گے اور بوجھ اٹھائیں تو اس کا حق ادا کرنا پڑے گا… ہم جس درخت کے سائے تلے بیٹھے ہیں، اسے پانی تو حافظ ارشد اور محمد بوٹا جیسے دے رہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس کا حق کیسے ادا ہو گا…؟ یہی آج کا میرا درد ہے… ایک سوچ ہے… ایک فکر ہے… جہاں تک پہنچے۔


بشکریہ۔۔۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔۔ علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یہاں سے آگے بڑھے… کھانا چودھری نصیر عتیق ملہی کے گھر تھا۔ کھاتا پیتا متمول گھرانہ (اللہ آباد رکھے) خطبہ جمعہ کے اشتہارات بھی ان کے نام کے ساتھ چھپے ہوئے تھے۔ باتوں باتوں میں اپنا ایک گھریلو واقعہ بیان کرتے بتانے لگے کہ میری اکلوتی بیٹی ہے۔ اس کے گھر تھا، لیکن بیٹھنے سے انکار کر دیا، بیٹی نے پوچھا ابو جی! یہ کیا…؟ میں نے کہا کہ تمہارا سرتاج اور میرا داماد بے شک دیندار ہے۔ نمازی ہے لیکن ساتھ ہی قرآن کے آٹھ پاروں کا ’’منکر‘‘ ہے، اس لئے تمہیں ملنے تو آ سکتا ہوں لیکن اس کے گھر بیٹھ سکتا ہوں نہ کچھ کھا سکتا ہوں نہ پی سکتا ہوں… میں حیران سا رہ گیا کہ ’’آٹھ پاروں کا منکر… اور آپ کا داماد، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ تو بولے کہ قرآن میں جس قدر جہاد کا ذکر ہے وہ آٹھ پاروں کے برابر ہی تو ہے اور میرا داماد تحریک دعوت و جہاد کے ساتھ وابستہ نہیں تو لامحالہ وہ آٹھ پاروں کا منکر ہی ہوا ناں… ان کی اس منطق اور نکتے نے تو حیران و ششدر ہی کر دیا کہ اتنی پیرانہ سالی میں بھی یہ جذبہ و محبت…
ہاں… سوچتا ہوں کہ یہ باتیں خوشی کی تو ہیں لیکن ہم سب کے ذمہ تو ان کا بوجھ ہے، اس بوجھ سے جان چھڑائیں گے تو آٹھ پاروں کے ’’منکر‘‘ کہلائیں گے اور بوجھ اٹھائیں تو اس کا حق ادا کرنا پڑے گا… ہم جس درخت کے سائے تلے بیٹھے ہیں، اسے پانی تو حافظ ارشد اور محمد بوٹا جیسے دے رہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس کا حق کیسے ادا ہو گا…؟ یہی آج کا میرا درد ہے… ایک سوچ ہے… ایک فکر ہے… جہاں تک پہنچے۔
ہر شخص اپنی زندگی میں اپنا ایک دینی مقصد متعیّن کرتا ہے، اور ظاہر سی بات ہے کہ اس کی مشروعیت اور اہمیت سے متعلق دلائل بھی رکھتا اور پیش کرتا ہے، لیکن غلو کسی طور پر مناسب نہیں۔

دیندار اور نمازی داماد لیکن تحریک دعوت وجہاد سے وابستہ نہیں لہٰذا وہ آٹھ پاروں کا منکر؟؟؟!!!

ایسے شخص کے گھر میں بیٹھنا اور کھانا پینا جائز نہیں

البتہ!!

بیٹی کا رشتہ دینا جائز ہے!!

عقیدہ الولاء والبراء کا یہ کون سا تصوّر ہے جو ہم پیش کر رہے ہیں؟!
 
Top