محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۱۸۔ ماضی کے اوراق پلٹنے سے گریز کریں۔
میاں اور بیوی پر ایسے اوقات بھی گزرتے ہیں جو اپنے اندر خلوص، پیار و محبت اور محبوب کے لئے کچھ بھی کر دکھانے کے جذبات اس قدر گہری ہوجاتی ہے کہ دونوں کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ کوئی سیپ یا رکاوٹ ان سے یہ محبت نہیں چھینی نہیں جاسکتی۔ چنانچہ دونوں ایک دوسرے سے اپنے پرانے راز اور قصے پوچھتے ہیں اور ان سوالات میں شادی سے پہلے کے تعلقات کے متعلق بھی سوالات شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ بیوی شوہر سے پوچھتی ہے کہ کیا اسے شادی سے پہلے اس کے علاوہ کسی اور سے محبت ہوئی؟ شوہر کہتا ہے ہاں ہوئی اور اپنے پرانے محبوب کے متعلق باتیں کرتا ہے، اس کی مختلف عادتیں حرکتیں بیان کرتا ہے۔ اس کا خیال ہوتا ہے کہ اس سے اس کے لئے ایسی بیوی کی محبت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ وہ ماضی کا ایک قصۂ پارینہ سمجھتے ہوئے بیان کر رہا ہوتا ہے۔
اسی طرح سے بیوی بھی ان پیار و محبت سے لبریز لمحات میں اپنے شادی سے پہلے کے تعلقات کے بارے میں بات کرتی ہے اور شوہر کے پوچھنے پر اس کو جواب ہاں میں ہوتا ہے چنانچہ وہ بھی اپنے پرانے محبوب کی عادات و صفات بتاتی ہے اگر چہ یہ سب قصے ماضی کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں اور ان کی اس زندگی میں کوئی اہمیت و وقعت باقی نہیں رہتی مگر ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے قصے مستتقبل میں طلاق کا سبب بن جائیں کیونکہ شوہر یہ قصے نہیں بھول سکتا اور نہ ہی عورت اپنے شوہر کی پرانی محبوبہ کو بھول پائے گی اور نتیجہ یہ ہوگا کہ پیار و محبت کی مضبوط دیوار میں شک و شبے کی دراڑ پڑ جائے گی۔ ہر نظر کا مطلب پسندیدگی ہے اور ہر بات کا کوئی نہ کوئی مطلب اور معنی ہوتا ہی ہے۔ اور یہ کوئی ایسی انوکھی چیز نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ بھی ایک کو پسند کر چکا ہے اور بیوی بھی کسی کے سحر انگیز لمحات میں گرفتار ہوچکی ہے اور یہ نظر ان دونوں کے درمیانی رہنی چاہیے۔ چنانچہ اگر میاں بیوی میں سے کوئی دوسرے سے ماضی کے متعلق سوال کرے تو اس کا جواب نفی میں ہونا چاہیے اور شائد یہی جائز جھوٹ ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر میں ایک قصہ ذکر کرتا چلوں جو میں نے دوران مطالعہ ایک کتاب میں پڑھا۔
دو میاں بیوی آدھی رات کے وقت جو کہ چاندنی رات تھی ساحل سمندر کی طرف نکلے اور وہاں جاکر آرام سے براجمان ہوگئے۔ چاند کی نظر میں بھی اسحار و مسانوی جوڑے پر شکی ہوئی تھیں پھر ایک محبت سے لبریز لمحے کے وقت بیوی نے شوہر سے پوچھا کای شادی سے پہلے تمہیں میرے علاوہ کسی اور سے محبت ہوئی۔ شوہر نے انکار کیا۔ اس پر بیوی نے دوبارہ اصرار کیا اور بولی کہ اس سے ہمارے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑھنے والا کیونکہ یہ ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور وہ یہ بات محض وقت گذاری کے لئے کر رہی ہے۔ چنانچہ بیوی کی تمام باتیں سننے کے بعد شوہر نے کہا، ہاں میں اس کے ساتھ ساحلِ سمندر پر بیٹھا کرتا تھا اور وہ اپنے دائیں کندھے پر ایک خوبصورت سا سفید پھول رکھا کرتی تھی۔ بیوی یہ سن کر جلال میں آگئی اور چیخ کر بولی، کتنی متبہ میں نے اپنے کندھے پر تمہارے لیے پھول رکھے لیکن تم نے اسے نوٹ نہیں کیا اور اس کا پھول تم ابھی تک نہیں بھولے؟!!! اس کے بعد دونون میں جھگڑا شروع ہوگیا جو بالآخر طلاق پر ختم ہوا۔