- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
مضمون نگار: محمد رفيق چودھرى
ارتداد كے لغوى معنى ’لوٹ جانے‘ اور ’پهر جانے‘ كے ہيں- شرعى اصطلاح ميں ارتداد كا مطلب ہے: ”دين اسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كرلينا-“ يہ ارتداد قولى بهى ہوسكتا ہے اور فعلى بهى- ’مرتد‘ وہ شخص ہے جو دين ِاسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كرلے-اسلا م ميں مرتد كى سزا قتل ہے جو صحيح احاديث، تعامل صحابہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے-
جناب جاويد احمد غامدى اس منصوص اور اجماعى امر كو نہيں مانتے اور مرتد كے لئے سزاے قتل ہونے كے منكرہيں- اس مضمون ميں سب سے پہلے ہم مرتد كے واجب القتل ہونے كے شرعى اور عقلى دلائل ديں گے ، پهر اس كے بعد غامدى صاحب كے موقف كا جائزہ ليں گے-
صحيح احاديث
نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كے جن مستند فرامين كى بنا پر علماے اُمت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے، وہ درج ذيل ہيں:
1۔ صحيح بخارى ميں حضرت عبداللہ بن عباس كى روايت:
«من بدّل دينه فاقتلوہ» (صحيح بخارى، رقم:٦٩٢٢)
”جو (مسلمان) اپنا دين بدل لے ، اُسے قتل كردو-“
اسى مضمون كى احاديث بعض جليل القدر صحابہ كرام:حضرت ابوبكر صديق، حضرت على، حضرت ابوموسىٰ اشعرى، حضرت خالد بن وليد اور حضرت معاذ بن جبل سے بهى مروى ہيں- مذكورہ حديث صحيح بخارى كے علاوہ سنن ابوداؤد،سنن ابن ماجہ اور موطا ٴاما م مالك ميں بهى موجود ہے-
2۔ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى ايك متفق عليہ حديث يہ بهى ہے كہ
عن عبدالله قال: قال رسول الله !: «لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله إلا بإحدٰى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني،والمفارق لدينه التارك للجماعة» (صحيح بخارى،رقم: ٢٨٧٨)
”حضرت عبداللہ (بن مسعود) سے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: كسى مسلمان كا خون بہانا جائز نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں اور يہ كہ ميں اللہ كا رسول ہوں، ما سوا تين صورتوں كے:ايك يہ كہ اس نے كسى كو قتل كيا ہو، دوسرى يہ كہ وہ شادى شدہ زانى ہو اور تيسرى يہ كہ وہ اپنا دين چهوڑ كر (مسلمانوں كى) جماعت سے الگ ہوجائے-“
يہ حديث صحيح بخارى كے علاوہ صحيح مسلم، سنن ابوداؤد، جامع ترمذى، سنن نسائى، سنن ابن ماجہ، سنن دارمى اور مسنداحمد بن حنبل ميں بهى موجود ہے اور اسے حضرت عبداللہ بن مسعود كے علاوہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان غنى نے بهى روايت كيا ہے-
3۔ سنن ابو داؤد كى حديث ہے كہ
عن أبي أمامة بن سهل قال: كنّا مع عثمان وهو محصور في الدار، وكان في الدار مدخل من دخله سمع كلام من على البلاط، فدخله عثمان،فخرج إلينا وهو متغير لونه، فقال: إنهم ليتواعدونني بالقتل آنفا، قال: قلنا يكفيكم الله يا أمير المؤمنين! قال: ولم يقتلونني؟ سمعت رسول الله يقول: «لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: كفر بعد إسلام، أو زنا بعد إحصان، أو قتل نفس بغير نفس» فوالله ما زنيت في جاهلية ولا في إسلام قط، ولا أحببت أن لي بديني بدلا منذ هداني الله، ولا قتلتُ نفسا فبم يقتلونني؟ (سنن ابو داؤد، كتاب الديات،رقم: ٤٥٠٢)
”حضرت ابو اُمامہ بن سہل روايت كرتے ہيں كہ ميں اور دوسرے لوگ حضرت عثمان كے پاس موجود تهے، جب وہ اپنے گهر ميں محصور تهے- اس گهر كا ايك راستہ تها جس كے اندر كهڑا آدمى گهر كى بالكونى پر كهڑے لوگوں كى بات آسانى سے سن سكتا تها- حضرت عثمان وہاں تشريف لائے، ان كے چہرے كا رنگ بدلا ہوا تها- وہ باہر نكلے اور فرمايا: ابهى يہ لوگ مجهے قتل كردينے كى دھمكى دے رہے تهے- ہم نے عرض كيا: اے اميرالمومنين! ان كے مقابلے ميں اللہ آپ كے لئے كافى ہے- پهر فرمايا: يہ لوگ مجهے كيوں قتل كردينا چاہتے ہيں؟ ميں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم كو يہ فرماتے سنا ہے كہ كسى مسلمان كا خون حلال نہيں،سوائے اس كے كہ تين صورتوں ميں سے كوئى ايك صورت ہو۔
اللہ كى قسم! ميں نہ تو جاہليت ميں زنا كا مرتكب ہوا اور نہ اسلام لانے كے بعد- دوسرے يہ كہ ميں نے اپنا دين بدلنا كبهى پسند نہيں كيا جب سے اللہ نے مجهے ہدايت عطا فرمائى ہے- تيسرے يہ كہ ميں نے كسى كو ناحق قتل بھى نہيں كيا- پهر يہ لوگ كس بنا پر مجهے قتل كرنا چاہتے ہيں؟“
مذكورہ بالا صحيح احاديث سے يہ امر بالكل واضح ہوجاتا ہے كہ اسلام ميں مرتد شخص مباح الدم اور واجب القتل ہوتا ہے- چنانچہ انہى احاديث ِصحيحہ كى بنا پر تمام فقہاے اسلام كا اس پر اجماع ہے كہ اسلامى شريعت ميں مرتد كى سزا قتل ہے-
كتب ِاحاديث(جن ميں صحيح بخارى بھى شامل ہے) اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفائے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ليكن طوالت كے خوف سے ہم يہاں ان واقعات كى تفصيل نہيں دے رہے-
اسى طرح خلفائے بنواُميہ اور خلفاے بنو عباس نے بهى مرتد پر سزائے قتل نافذ كى-
’اسلام ميں مرتد كى سزا‘ اور جاويد غامدى
ارتداد كے لغوى معنى ’لوٹ جانے‘ اور ’پهر جانے‘ كے ہيں- شرعى اصطلاح ميں ارتداد كا مطلب ہے: ”دين اسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كرلينا-“ يہ ارتداد قولى بهى ہوسكتا ہے اور فعلى بهى- ’مرتد‘ وہ شخص ہے جو دين ِاسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كرلے-اسلا م ميں مرتد كى سزا قتل ہے جو صحيح احاديث، تعامل صحابہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے-
جناب جاويد احمد غامدى اس منصوص اور اجماعى امر كو نہيں مانتے اور مرتد كے لئے سزاے قتل ہونے كے منكرہيں- اس مضمون ميں سب سے پہلے ہم مرتد كے واجب القتل ہونے كے شرعى اور عقلى دلائل ديں گے ، پهر اس كے بعد غامدى صاحب كے موقف كا جائزہ ليں گے-
صحيح احاديث
نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كے جن مستند فرامين كى بنا پر علماے اُمت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے، وہ درج ذيل ہيں:
1۔ صحيح بخارى ميں حضرت عبداللہ بن عباس كى روايت:
«من بدّل دينه فاقتلوہ» (صحيح بخارى، رقم:٦٩٢٢)
”جو (مسلمان) اپنا دين بدل لے ، اُسے قتل كردو-“
اسى مضمون كى احاديث بعض جليل القدر صحابہ كرام:حضرت ابوبكر صديق، حضرت على، حضرت ابوموسىٰ اشعرى، حضرت خالد بن وليد اور حضرت معاذ بن جبل سے بهى مروى ہيں- مذكورہ حديث صحيح بخارى كے علاوہ سنن ابوداؤد،سنن ابن ماجہ اور موطا ٴاما م مالك ميں بهى موجود ہے-
2۔ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى ايك متفق عليہ حديث يہ بهى ہے كہ
عن عبدالله قال: قال رسول الله !: «لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله إلا بإحدٰى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني،والمفارق لدينه التارك للجماعة» (صحيح بخارى،رقم: ٢٨٧٨)
”حضرت عبداللہ (بن مسعود) سے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: كسى مسلمان كا خون بہانا جائز نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں اور يہ كہ ميں اللہ كا رسول ہوں، ما سوا تين صورتوں كے:ايك يہ كہ اس نے كسى كو قتل كيا ہو، دوسرى يہ كہ وہ شادى شدہ زانى ہو اور تيسرى يہ كہ وہ اپنا دين چهوڑ كر (مسلمانوں كى) جماعت سے الگ ہوجائے-“
يہ حديث صحيح بخارى كے علاوہ صحيح مسلم، سنن ابوداؤد، جامع ترمذى، سنن نسائى، سنن ابن ماجہ، سنن دارمى اور مسنداحمد بن حنبل ميں بهى موجود ہے اور اسے حضرت عبداللہ بن مسعود كے علاوہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان غنى نے بهى روايت كيا ہے-
3۔ سنن ابو داؤد كى حديث ہے كہ
عن أبي أمامة بن سهل قال: كنّا مع عثمان وهو محصور في الدار، وكان في الدار مدخل من دخله سمع كلام من على البلاط، فدخله عثمان،فخرج إلينا وهو متغير لونه، فقال: إنهم ليتواعدونني بالقتل آنفا، قال: قلنا يكفيكم الله يا أمير المؤمنين! قال: ولم يقتلونني؟ سمعت رسول الله يقول: «لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: كفر بعد إسلام، أو زنا بعد إحصان، أو قتل نفس بغير نفس» فوالله ما زنيت في جاهلية ولا في إسلام قط، ولا أحببت أن لي بديني بدلا منذ هداني الله، ولا قتلتُ نفسا فبم يقتلونني؟ (سنن ابو داؤد، كتاب الديات،رقم: ٤٥٠٢)
”حضرت ابو اُمامہ بن سہل روايت كرتے ہيں كہ ميں اور دوسرے لوگ حضرت عثمان كے پاس موجود تهے، جب وہ اپنے گهر ميں محصور تهے- اس گهر كا ايك راستہ تها جس كے اندر كهڑا آدمى گهر كى بالكونى پر كهڑے لوگوں كى بات آسانى سے سن سكتا تها- حضرت عثمان وہاں تشريف لائے، ان كے چہرے كا رنگ بدلا ہوا تها- وہ باہر نكلے اور فرمايا: ابهى يہ لوگ مجهے قتل كردينے كى دھمكى دے رہے تهے- ہم نے عرض كيا: اے اميرالمومنين! ان كے مقابلے ميں اللہ آپ كے لئے كافى ہے- پهر فرمايا: يہ لوگ مجهے كيوں قتل كردينا چاہتے ہيں؟ ميں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم كو يہ فرماتے سنا ہے كہ كسى مسلمان كا خون حلال نہيں،سوائے اس كے كہ تين صورتوں ميں سے كوئى ايك صورت ہو۔
- وہ اسلام لانے كے بعد كفر اختيار كرے (مرتد ہوجائے)
- يا شادى كے بعد زنا كرے،
- يا كسى كو ناحق قتل كردے-
اللہ كى قسم! ميں نہ تو جاہليت ميں زنا كا مرتكب ہوا اور نہ اسلام لانے كے بعد- دوسرے يہ كہ ميں نے اپنا دين بدلنا كبهى پسند نہيں كيا جب سے اللہ نے مجهے ہدايت عطا فرمائى ہے- تيسرے يہ كہ ميں نے كسى كو ناحق قتل بھى نہيں كيا- پهر يہ لوگ كس بنا پر مجهے قتل كرنا چاہتے ہيں؟“
مذكورہ بالا صحيح احاديث سے يہ امر بالكل واضح ہوجاتا ہے كہ اسلام ميں مرتد شخص مباح الدم اور واجب القتل ہوتا ہے- چنانچہ انہى احاديث ِصحيحہ كى بنا پر تمام فقہاے اسلام كا اس پر اجماع ہے كہ اسلامى شريعت ميں مرتد كى سزا قتل ہے-
كتب ِاحاديث(جن ميں صحيح بخارى بھى شامل ہے) اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفائے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ليكن طوالت كے خوف سے ہم يہاں ان واقعات كى تفصيل نہيں دے رہے-
اسى طرح خلفائے بنواُميہ اور خلفاے بنو عباس نے بهى مرتد پر سزائے قتل نافذ كى-