’اہل اشراق‘ کے قراء اتِ قرآنیہ پر حالیہ اِعتراضات
مضمون نگار:عمران اسلم٭
’الاشراق‘ کے اکتوبر ۲۰۰۹ء کے شمارہ میں غامدی صاحب کے خوشہ چیں محمد رفیع مفتی صاحب نے قراء اتِ قرآنیہ سے متعلق فتویٰ دیتے ہوئے اپنی بعض نگارشات کا اِظہار کیا ہے، جس کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں :
- قراء توں کے رد و قبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے۔
- بعض قراء توں سے معنی ومفہوم میں فرق واقع ہوجاتا ہے، بلکہ بعض جگہ شریعت کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔
- تمام لوگ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے رہے ہیں اور یہ وہی قراء ت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔
موصوف مفتی صاحب رقمطراز ہیں :
قراء توں کے ردّ وقبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے، بس اہل فن نے مل کر کچھ شرائط طے کر دی ہیں جن پر پورا اترنے والی قراء ت کو قبول کیا جاتا اور باقی کو رد کر دیا جاتا ہے۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں :
- قراء ت مصحف عثمانی کے رسم الخط کے مطابق ہو۔
- لغت، محاورے اور قواعد زبان کے خلاف نہ ہو۔
- اس کی سند معتبر اور مسلسل واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو۔
جناب مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ قراء توں کے ردّ وقبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے بس اہلِ فن نے مل کر کچھ شرائط طے کر دی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم عرض کرتے چلیں کہ وہ تمام قراء ات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ کسی منصوص معیار کے بجائے اہلِ فن کے مقرر کردہ انہی قواعد کی رو سے پہنچی ہیں ،جن میں غامدی صاحب کی اِختیار کر دہ ’قراء ت حفص‘جو اصل میں روایتِ حفص ہے، بھی شامل ہے۔ اگر روایتِ حفص ان قواعد سے ہٹ کر کسی منصوص معیار کے مطابق اہلِ اشراق تک پہنچی ہے تو ضرور آگاہ کریں تاکہ پوری اُمت اپنے اختیار کردہ مؤقف پر نظر ثانی کر سکے۔
ہم ان قواعد سے متعلق کسی قسم کی بحث سے قبل اس قدر وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ ان قواعد کو مقرر کرنے کی ضرورت کیونکر پیش آئی اور صرف انہی قواعد پر پورا اترنے والی قراء ت ہی کو قبولیت کیوں حاصل ہوئی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب مختلف قراء ات سے متعلق فتنہ و فساد رونما ہونے لگا اور ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی تو انہوں نے اُمت کو فتنہ اور اِختلاف سے بچانے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجماع سے تمام وہ قراء ات جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھیں یا وہ تفسیری کلمات جو بعض صحابہ نے اپنے اپنے مصاحف میں بطور حواشی درج کر رکھے تھے،کو ان تمام سے الگ کر دیا۔ پھر یہ مصاحف ماہرینِ قراء ات کی معیت میں مختلف علاقوں میں بھیج دئیے گئے اور باقی تمام مصاحف کو تلف کرنے کا حکم دے کر اس فتنہ کا دروازہ بند کر دیاگیا۔
اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کا ایک جم غفیر جب ان قراء ات کو سیکھ کر اپنے علاقوں میں پہنچا تو ان سے سیکھنے والے ظاہر ہے کہ عدل وثقاہت اور حفظ واتقان میں ایک جیسے نہیں تھے۔ بعض جو عدالت وحفظ کے اس معیار پر نہ تھے، انہوں نے بعض قراء اتِ شاذہ اور ضعیفہ کو قرآن سے ملانا شروع کر دیا، بعض نے اِجماعِ امت سے ہٹ کر اپنے اپنے معیارات مقرر کر لیے ۔چنانچہ ایک دفعہ پھر امت میں اختلافات کا خطرہ پیدا ہوا تو ائمہ عظام کی جانب سے قرآنِ کریم کو غیرِ قرآن سے الگ کرنے کے لیے گہرے غور وخوض اور دقت نظری کے بعد چنداصولی ضوابط اور معیارات مقرر کر دئیے گئے۔پوری امت انہی اصولوں پر اعتماد کا اظہار کرتی رہی ہے اور انہی کو قراء ات کے رد وقبول کا معیار قرار دیتی رہی ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ ان تین شرائط کے متعلق فرماتے ہیں :
ایک جگہ پر فرماتے ہیں :’’اس اصول کے مطابق جو بھی قراء ت ہوگی وہ قراء تِ صحیحہ اور ان حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا، مسلمانوں پر اس کو قبول کرنا واجب ہے اور اگر تینوں شرائط میں سے کسی ایک شرط میں خلل آ جائے تو وہ قراء ت شاذہ، ضعیف یا باطل ہوگی۔‘‘ [النشر: ۲؍۹]
ان تین قواعد کی مختصر وضاحت پیش خدمت ہے:’’ہر وہ قراء ت جو عربی( نحوی) وجہ کے موافق ہو، رسم مصحف کے مطابق ہو( خواہ یہ مطابقت تقدیری ہو) اور اس کی سند صحیح ہو تو وہ قراء ت صحیح ہوگی۔ اس کو رد کرنا جائز نہیں ہوگا۔‘‘ [منجد المقرئین: ۱۵]
سند متواتر
کسی قراء ت کے صحیح ہونے کے لیے اولین معیار یہ ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک متواتر ہو۔ جو قراء ت سنداً اس معیار پر پوری نہ اترے اسے قرآن نہیں کہا جا سکتا ، ہمارے ہاں تواتر کا وہی مفہوم درست ہے جو کہ جمہور اہل الحدیث کے ہاں معروف ہے یعنی ’ما أفاد القطع فہو متواتر‘ (اس ضمن میں تفصیلی بحث کے لیے رشد قراءات نمبر حصہ اول میں مضمون ’تواتر کا مفہوم اور ثبوت قراء ات کا ضابطہ‘ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے نیز اس شمارہ میں مکتوب بنام حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ میں بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔)
مصحف عثمانی کے رسم کی موافقت
وہ مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک کے رسم کے موافق ہو۔ یہ موافقت حقیقی بھی ہوسکتی ہے اور تقدیری بھی۔ مصحفِ عثمانی کے رسم کی اس قدر اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کے مشورہ سے جب تمام اُمت کو ایک رسم پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھا کہ مصاحف کا رسم ان تمام حروف پر مشتمل ہو جو عرضۂ اَخیرہ کے وقت باقی رکھے گئے تھے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھئے کہ سورۃ فاتحہ کی آیت { مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ }[الفاتحۃ:۳] میں [مٰلِکِ] کو[مَلِکِ ]اور [مٰلِکِ ]دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور یہ دونوں قراء ات ، متواترہ ہیں ، روایتِ حفص میں اسے [مٰلِکِ] میم پر کھڑا زبر اور روایت ورش میں [مَلِکِ] میم پر زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ لیکن جس مقام میں اختلاف قراء ت کے متعلق متواتر سند نہ ہو وہاں رسم الخط میں گنجائش کے باوجود دوسری قراء ت پڑھنا ناجائز اور حرام ہے مثلاً سورۃ الناس کی دوسری آیت رسم عثمانی کے مطابق اس طرح ہے، {مَلِکِ النَّاسِ} [الناس:۲] اس مقام پر تمام قراء مَلِکِ النَّاسِ ہی پڑھتے ہیں اسے کوئی بھی مٰلِکِ النَّاسِ نہیں پڑھتا، کیونکہ یہاں اختلافِ قراء ت منقول نہیں ہے۔
ابوبکر الانباری فرماتے ہیں :
اجتمع القراء علی ترک کل قراء ۃ مخالف المصحف۔ [البحر المحیط:۷؍۶۰]
لغتِ عرب کی کسی وجہ کی موافقت’’تمام ائمہ قراء کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر وہ قراء ۃ متروک(شاذ) قرار پائے گی جو رسم عثمانی کے مخالف ہوگی۔‘‘
اس شرط کو دوسری دونوں شروط کا لوازمہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ ہر وہ قراء ت جو متواتر سند کے ساتھ منقول ہو مصحف عثمانی کے خط کے بھی موافق ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ لغتِ عرب میں بھی اس کی کوئی وجہ موجود ہو، اگرچہ وہ زیادہ معروف نہ بھی ہو۔