بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
پاکستان میں بجلی و پانی کے نگراں وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ ملک میں جاری طویل لوڈشیڈنگ کا فوری حل پیداوار میں اضافے کے لیے ان بجلی گھروں کو ایندھن فراہم کرنا ہے جو اپنی پوری استعداد پر کام نہیں کر رہے۔مصدق ملک نے کہا کہ ’ہم اپنی صلاحیت سے 23 فیصد کم بجلی بنا رہے ہیں اور اس میں سے 17 سے 18 فیصد بجلی ہماری پیداوار ساڑھے بارہ سے 13 ہزار میگا واٹ تک لے جا سکتی ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ اگر بجلی گھروں کو ’تیل اور گیس فراہم کر دیں تو آج کی پیداوار میں ہی ڈھائی ہزار میگا واٹ کا اضافہ ہو سکتا ہے جس سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ قابلِ ذکر حد تک کم ہو کر سات سے آٹھ گھنٹے تک آ سکتا ہے۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آٹھ سو سے ایک ہزار میگا واٹ کے یونٹ تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے بند ہیں اور جنگی بنیادوں پر اگر انہیں بحال کر لیا جائے تو چند ماہ میں یہ اضافی بجلی بھی مل سکتی ہے۔ مصدق ملک کا کہنا تھا کہ اگر قوم کو ریلیف دینا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ 16 سے 18 ہزار ٹن تیل، 150 ملین مکعب فٹ گیس یا اس کے متبادل ڈیزل کی فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کو ریلیف دینا ہے تو وہ ہوا سے نہیں آئے گا۔‘ تاہم نگراں وزیر نے وزارتِ خزانہ کی جانب سے رقم ریلیز نہ کرنے کی شکایت کی اور کہا کہ ’وزیراعظم کے دفتر سے ساڑھے 23 ارب روپے کی رقم منظور کروا کر نکلے تھے لیکن وزارت تک یہ رقم پہنچ نہیں پائی۔ ہم آج دس ہزار دو سو میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں اور اب تک تو مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ اس رقم کے اجراء کی منظوری کے دو دن بعد بھی ان کی وزارت کو صرف 5 ارب روپے ملے ہیں جن کے بارے میں پہلے سے طے ہے کہ یہ پی ایس او کو ملیں گے۔ ’اگر یہ فیصلہ پہلے سے ہونا ہے کہ وزیراعظم جو بھی کہیں ہم پانچ ارب ہی دیں گے اور وہ بھی لکھ کر دیں گے کہ کہاں جانیں ہیں تو پھر یہ وزارت بھی انہیں ہی چلا لینی چاہیے۔‘ انہوں نے تسلیم کیا کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بیشتر اقدامات میں نگراں حکومت کو ناکامی ہی ہوئی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دستیاب وقت میں مسائل کی نشاندہی کر لی ہے۔ مصدق ملک نے بتایا کہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے 76 ارب روپے کی رقم کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر ماہ 13 ارب روپے بجلی بنانے والے سرکاری کارخانوں کو دیے جاتے ہیں اور ان سے 650 میگا واٹ بجلی ملتی ہے۔ اگر اس کی جگہ دس ارب نجی بجلی گھروں کو دیں تو یہ پیداوار 650 کی جگہ 1150 ہو جائے گی۔ ’صرف دس ارب روپے نقد کا معاملہ ہے جو ہم تیل خرید کر نجی پلانٹس کو دیں تو نہ صرف بجلی زیادہ ملے گی بلکہ اربوں روپے کی قوم کو بچت بھی ہوگی۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہم وزارتِ خزانہ کو ڈیڑھ ماہ میں دس ارب دینے کے لیے قائل نہیں کر سکے تاکہ قوم کا 76 ارب روپے بچ سکے۔‘ انہوں نے کہا کہ اس وقت ’ملک میں بجلی کا شدید بحران ہے، لوگ پریشان اور لاچار ہیں۔ اب یہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور اسے ترجیح نہ دینا سیاسی خودکشی ہوگی۔‘ انہوں نے اس خیال کو مسترد کیا کہ گردشی قرضے موجودہ بحران کی بڑی وجہ ہیں۔ مصدق ملک نے کہا کہ ’توانائی کی معیشت کی تنظیمِ نو سب سے ضروری ہے۔ گردشی قرضے ہمارا مسئلہ نہیں۔ جس دن یہ قرض ختم ہوگا اسی دن سے دوبارہ چڑھنے لگے گا۔ یہ وہ کنواں ہے جس کی کوئی تہہ نہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ پہلے اپنی معیشت کا ڈھانچہ ٹھیک کریں اور پھر اس قرض کو ختم کریں۔‘ نگراں وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ توانائی کے بحران کے حل کے لیے قلیل یا طویل مدتی منصوبے اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتے جب تک بجلی کے ٹیرف پر نظرِ ثانی نہیں کی جاتی۔’جب تک سبسڈی سب کو ملتی رہے گی بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’اس صورتحال میں کوئی سنجیدہ سرمایہ کار کیوں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرے گا۔ صرف وہ لوگ جو 2 سال میں اپنا سرمایہ لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہی آئیں گے۔‘ خیال رہے کہ پاکستان گزشتہ کئی برس سے بجلی کے شدید بحران کا شکار ہے اور موسم گرم ہوتے ہی اس بحران میں شدت آ جاتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال چھ سے سات ہزار میگاواٹ کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ آج کل ملک کے بیشتر شہروں میں بارہ گھنٹے سے زائد کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ دیہات میں یہ دورانیہ بیس گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔گرم موسم میں بجلی کی اس طویل بندش کی وجہ سے جہاں گھریلو صارفین مشکلات کا شکار ہیں وہیں صنعتی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔