• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’خارجیت، سبائیت اورشیعیت‘‘ بجواب ’’رافضیت ، ناصبیت اوریزیدیت‘‘ (حصہ اول)۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
کچھ لوگوں نے ایک پوسٹر نشرکیا اورنٹ پربھی اسے عام کیا اس کاعنوان ہے ’’رافضیت ،ناصبیت اوریزیدیت کا تحقیقی جائزہ‘‘ ۔ ہمارا یہ مضمون اسی پوسٹرکاجائزہ ہے۔

ہمارے اس مضمون میں :
خارجیت سے مراد خیرالقرون کے فہم سے بغاوت کرتے ہوئے قران وصحیح حدیث کے نام پر خودساختہ موقف پیش کرنا اوراسی پراصرار کرنا ۔
سبائیت سے مراد اسلام کی خدمت کے نام پر مسلمانوں کے بیچ فتنہ وفساد برپا کرنا یا امت مسلمہ کے بیچ خونریزی کرکے اپنےگناہ دوسروں کے سرلاد دینا یا ایساکرنے والوں کی ہاں میں ہاں ملانا۔
شیعیت سے مراد اہل بیت کی شان میں غلو کرنا ، ابوبکراورعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بالمقابل علی رضی اللہ عنہ کی بڑھ چڑھ کر فضیلت بیان کرنا ، دلائل سے زیادہ جذباتی باتیں کرنا۔

سردست ہم محولہ پوسٹر کے صرف اس حصہ پر رد کررے ہیں جس میں یزید کے خلاف زہراگلاگیا ہے ۔

اس موضوع پر نقد وتبصرے کے لئے درج ذیل دھاگہ میں تشریف لائیں ۔

 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
(’’یزیدبن معاویہ‘‘ قریش کے ’’خطرناک لڑکوں‘‘ میں شامل تھا) اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی ضمن میں چندصحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں:
(١) ترجمہ صحیح حدیث:سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت کی بربادی قریش کے چندنوجوانوں کے ہاتھوں سے ہوگی‘‘۔ پھربنوامیہ کے مروان بن حکم سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اگرچاہوں تو میں ان کے نام بھی بتاسکتاہوں کہ وہ فلاں فلاں قبیلہ سے ہوں گے‘‘۔
[صحیح بخاری: حدیث نمبر3805]۔

(’’یزیدبن معاویہ‘‘ قریش کے ’’خطرناک لڑکوں‘‘ میں شامل تھا) اس عنوان میں بہت بڑا دعوی کیا گیا ہے مگر اس کی دلیل میں کسی صحیح تو درکنار کسی موضوع روایت کو بھی نہیں پیش کیا گیا ۔
غورکریں عنوان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ قریش میں صرف ایک نہیں بلکہ کئی خطرناک لڑکوں کا ظہورہوگا ، یعنی عنوان قائم کرنے والے کو یہ بات تسلیم ہے کہ حدیث میں کسی ایک لڑکے کی بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ کئی لڑکوں کی بات کہی گئی ہے ، یہ بات صحیح ہے اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ خاص دعوی بھی کرلیاگیا کہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ بھی انہیں لڑکوں میں سے تھے ۔

مگراس دعوی کے ثبوت میں کوئی صحیح تو درکنارکوئی موضوع روایت بھی پیش نہیں کی گئی ، اس دعوی کے بعد چار روایات پیش کی گئی ہیں ان پر تبصرہ ملاحظ ہو:

پہلی روایت:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا أحمد بن محمد المكي، حدثنا عمرو بن يحيى بن سعيد الأموي، عن جده، قال: كنت مع مروان وأبي هريرة فسمعت أبا هريرة، يقول: سمعت الصادق المصدوق، يقول «هلاك أمتي على يدي غلمة من قريش» ، فقال مروان: غلمة؟ قال أبو هريرة: إن شئت أن أسميهم بني فلان، وبني فلان[صحيح البخاري: 4/ 199رقم 3605]۔
سعيد بن عمرو رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں مروان بن حکم اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، اس وقت میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے سچوں کے سچے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے کہ میری امت کی بربادی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہو گی۔ مروان نے پوچھا: نوجوان لڑکوں کے ہاتھ پر؟ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں ان کے نام بھی لے دوں کہ وہ بنی فلاں اور بنی فلاں ہوں گے(ترجمہ داؤد راز)
غور فرمائیں کہ اس حدیث میں قریش کے چند بچوں کا ذکرضرور ہے مگران بچوں میں ایک یزید بھی ہوگا اس بات کا اس حدیث میں کوئی نام ونشان ہی نہیں ہے ، معلوم نہیں کس منطق سے اس روایت کو یزید رحمہ اللہ پرفٹ کیا جارہاہے ۔

لطف تو یہ ہے کہ یہی روایت صحیح بخاری میں دوسرے مقام پر بھی موجود ہے وہاں اسی حدیث کے روای نے ان بچوں کا مصداق ایسے بچوں کو قرار دیا جو عہدیزید رحمہ اللہ کے بعد کے زمانے کے تھے ، ملاحظہ ہو یہی روایت صحیح بخاری میں دوسرے مقام سے :
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو بن سعيد، قال: أخبرني جدي، قال: كنت جالسا مع أبي هريرة في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة، ومعنا مروان، قال أبو هريرة: سمعت الصادق المصدوق يقول: «هلكة أمتي على يدي غلمة من قريش» فقال مروان: لعنة الله عليهم غلمة. فقال أبو هريرة: لو شئت أن أقول: بني فلان، وبني فلان، لفعلت. فكنت أخرج مع جدي إلى بني مروان حين ملكوا بالشأم، فإذا رآهم غلمانا أحداثا قال لنا عسى هؤلاء أن يكونوا منهم؟ قلنا: أنت أعلم[صحيح البخاري: 9/ 47]۔
عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی ، کہا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھ سے ہو گی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ کس کس خاندان سے ہوں گے۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں(عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو ) اپنے دادا (سعيد بن عمرو)کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں (سعيد بن عمرو) نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے۔
اورمسند احمد کی روایت میں ہے:
فَإِذَا هُمْ يُبَايِعُونَ الصِّبْيَانَ مِنْهُمْ، وَمَنْ يُبَايِعُ لَهُ، وَهُوَ فِي خِرْقَةٍ [مسند أحمد: 14/ 58واسنادہ صحیح]۔
وہ لوگ بچوں سے بھی بیعت لے رہے تھے ، اور ایسے بچے سے بھی بیعت لے رہے تھے جو کپڑے میں لپٹا ہوا تھا ۔
اس حدیث میں غورکریں کہ سعيد بن عمرو رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کا مصداق یزید رحمہ اللہ کے بجائے دوسرے بچوں کو بتلایا ہے اوریزید کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا ہے اور ان کے پوتے نے بھی اس موقع پر یزید رحمہ اللہ کا کوئی حوالہ نہ دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ تک کسی نے بھی بچوں کی امارت والی حدیث کو یزید رحمہ اللہ پرفٹ ہی نہیں کیا تھا ۔

اہل علم میں یہ بات معروف ہے کہ راوی اپنی روایت کا مفہوم دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ آج ایسے ذہین وفطین لوگ پیداہوگئے ہیں جو نہ صرف روای حدیث کی فہم بلکہ سلف صالحین کی متفقہ فہم کو بھی چیلنج کررہے ہیں ، یادرہے کہ سلف صالحین میں سے کسی ایک نے بھی اس حدیث کو یزید رحمہ اللہ پر فٹ نہیں کیا بلکہ دوسروں پرفٹ کیا ہے جیساکہ بخاری میں دوسرے مقام پرموجود اس روایت میں ذکرہے۔

اب قارئین کو اس بات پربھی غورکرنا چاہئے کہ یہی روایت بخاری میں دوسرے مقام پر مفہوم کی وضاحت کے ساتھ بھی موجود تھی تو اسے نظر انداز کرکے دوسرے مقام کی مختصرروایت کو کیوں منتخب کیا گیا ؟؟؟؟؟

مقصد ظاہر ہے تاکہ اس طرح لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ ہم نے جو مفہوم لیا ہے راوی حدیث کی طرف سے لئے گئے مفہوم کے خلاف ہے بلکہ خیرالقرون کے تمام اہل علم کی فہم کے خلاف ہے کیونکہ عہد یزید رحمہ اللہ کے دور میں کسی بھی صاحب علم سے یہ منقول نہیں کہ اس نے اس حدیث کا یہ مفہوم مراد لیا ہو ۔
حتی کہ آگے چل کر جب اہل مدینہ کے بعض لوگوں نے یزید کی بیعت توڑی تو انہوں نے بھی یزید کے خلاف اس روایت کو پیش نہیں کیا۔

نیز یہ نو مولود مفہوم حقائق کے بھی خلاف ہے کیونکہ یزید رحمہ اللہ امارت سنبھالتے وقت بچے تھے ہی نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
پوسٹر نگاروں نے ’’نوٹ‘‘ میں لکھا:
سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کی حفاظت کی خاطر (اوریہ فرض بھی ہے) قریش (بنو امیہ) کے نوجوانوں کے نام ظاہر نہیں فرمائے ۔[صحیح بخاری:حدیث نمبر120]


اس ’’نوٹ‘‘ میں کئی مغالطات ہیں:

اول:
حدیث میں قریش کے بچوں کا ذکر ہے لیکن قریش کے کسی خاندان کاذکر نہیں ہے ، لیکن مضمون نگار کو معلوم نہیں کہاں سے الہام ہوگیا کہ خاندان کی بھی نشاندہی کردی اوربلاجھک کہہ دیا کہ وہ بنوامیہ میں سے ہوں گے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جن لوگوں کے سامنے یہ روایت بیان کی ہے وہ لوگ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی زبان بولنے والے اورسمجھنے والے تھے مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں سمجھا کہ اس روایت میں قریشی بچوں سے مراد بنوامیہ کے بچے ہیں ، نا معلوم آج کل کے لوگ کیا کھاتے پیتے ہیں کہ ان کی فہم و فراست صحابہ و تابعین کی فہم و فراست سے بھی تیز ہے۔

شیخ علي بن نايف الشحود بجاطورپرفرماتے ہیں:
هذا مستبعد إذ لم يحدث هذا في عصر بني أمية أصلاً وإنما حديث في العصور التالية له، وتخصيصه ببني أمية دون مخصص [المفصل في أحاديث الفتن : 536]۔
یہ ناممکن ہے، کیونکہ یہ چیزبنوامیہ کے دورمیں سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی بلکہ بنوامیہ کے دور کے بعد ان چیزوں کا وقوع ہوا اوراس حدیث میں مذکوربات کو بنوامیہ کے ساتھ خاص کرنا بغیرکسی دلیل کے ہے ۔

شیخ علي بن نايف الشحود آگے حافظ ابن حجر پررد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قلت :تعجب مروان أمر طبيعي ، ولكن ربط الأمر ببني أمية فقط خطأ فاحش ، لن الرواية تنص على أنهم من قريش فالعباسيون فعلوا اشد من ذلك وغيرهم ، فتعصيب الجناية ببني أمية وحدهم هو مخالف لنصوص الشرعية وموافق لأقوال الرافضة عليهم من الله ما يستحقون ، فكيف بتسلل مثل هذا لفكر أهل السنة والجماعة ؟!![المفصل في أحاديث الفتن : 537]۔
میں کہتاہوں کہ مروان کا اظہارتعجب فطری بات ہے، لیکن اس معاملہ کو صرف بنوامیہ سے جوڑنا فحش غلطی ہے ، کیونکہ روایت یہ بتلاتی ہے کہ وہ قریش سے ہوں گے اور (قریش میں سے ) عباسیوں وغیرہ نے بنوامیہ سے بھی بھیانک کام کئے ہیں ، لہٰذا صرف بنوامیہ ہی پراس روایت کو فٹ کرنا نصوص شرعیہ کے خلاف اور روافض کے اقوال کے موافق ہے ، نہ جانے اس طرح کی باتیں اہل سنت والجماعت کے افکار میں کیسے داخل ہوجاتی ہیں ؟!!۔

الغرض یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے قریشی بچوں کا ذکر کیا ہے اب ’’قریشی بچوں‘‘ کو ’’بنو امیہ کے بچوں‘‘ بنا دینا دن کو رات اوررات کو دن بنانے کے مترادف ہے۔


دوم:
مضمون نگار نے صرف قریشی خاندان ہی کی صراحت نہیں کی بلکہ ان پر یہاں تک وحی آگئی کہ اس خاندان کے ایک فرد یزید رحمہ اللہ کی بھی نشاندہی کردی، یادر ہے کہ اس بات پر نہ تو کوئی دلیل ہے اورنہ ہی پیش کی گئی ۔


نوٹ : مضمون نگار سے قبل بھی متاخرین میں سے بعض نے ان احادیث سے بنوامیہ کو مراد لیا لیکن انہوں نے اس کے لئے بعض ضعیف روایات کو بنیاد بنا یا ہے جن کے ضعف سے وہ آگاہ نہ ہوسکے ، اس لئے یہ اہل علم اپنی غلط فہمی میں معذور ہیں لیکن مضمون نگار نے صرف صحیح روایات سے حجت پکڑنے کا دعوی کیا ہے اور صحیح احادیث میں ایسے مفہوم کی کوئی تائید نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
دوسری روایت:
(٢)ترجمہ صحیح حدیث: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بازار میں چلتے ہوئے یہ دعامانگا کرتے تھے :’’ اے اللہ مجھے ٦٠ والے سال تک باقی نہ رکھنا ، اے اللہ مجھے لڑکوں کی حکومت تک باقی نہ رکھنا‘‘۔ [جزء ابی العباس الاصم(المتوفی٣٤٦ہجری):حدیث نمبر١٣٣]۔

اس روایت سے متعلق مفصل معلومات کے لئے دیکھئے درج ذیل دھاگہ:

.
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تیسری روایت:
(٣) ترجمہ صحیح حدیث: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا خود بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :’’ اوراہل عرب کے لئے اس شرکے سبب سے ہلاکت ہوگی جو ٦٠ والے سال سے شروع ہوگا۔اس وقت امانت کو مال غنیمت اورصدقہ اورزکوۃ کو تاوان سمجھا جائے گا اورخواہشات نفسانی کاحکم مانا جائے گا‘‘۔[المستدرک للحاکم: حدیث نمبر 8489 , 4/ 530]۔

سب سے پہلے یہ روایت مع سند ومتن ملاحظہ ہو:
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ الصَّنْعَانِيُّ، بِمَكَّةَ حَرَسَهَا اللَّهُ تَعَالَى، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَ مَعْمَرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْوِيهِ، قَالَ: «وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ عَلَى رَأْسِ السِّتِّينَ تَصِيرُ الْأَمَانَةُ غَنِيمَةً، وَالصَّدَقَةُ غَرَامَةً، وَالشَّهَادَةُ بِالْمَعْرِفَةِ وَالْحُكْمُ بِالْهَوَى» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ بِهَذِهِ الزِّيَادَاتِ "[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 530]۔


یہ روایت درج ذیل تین علتوں کی بناپرضعیف ہے:


پہلی علت:
امام عبدالرزاق آخرعمر میں مختلط ہوگئے تھے، اس لئے آخری دور میں انہوں نے جو روایات بیان کی ہیں وہ منکر ہیں:

امام احمد رحمہ اللہ (المتوفی241) نے کہا:
لا يعبأ بحديث من سمع منه وقد ذهب بصره، كان يلقن أحاديث باطلة [سوالات ابن ھانی رقم 2285 ، موسوعة أقوال المام أحمد فی الجرح والتعدیل 4/ 322]۔

امام أبو زرعة الدمشقی رحمہ اللہ (المتوفی281)نے کہا:
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: أَتَيْنَا عَبْدَ الرَّزَّاقِ قَبْلَ الْمِائَتَيْنِ، وَهُوَ صَحِيحُ الْبَصَرِ وَمَنْ سَمِعَ مِنْهُ بعدما ذهب بصرهن فَهُوَ ضَعِيفُ السَّمَاعِ[تاریخ أبی زرعة الدمشقی:ص 457]۔

امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی303)نے کہا:
عبد الرَّزَّاق بن همام فِيهِ نظر لمن كتب عَنهُ بِأخرَة[الضعفاء والمتروکون للنسائی: ص 69]۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی365)نے کہا:
لا بأس به إلاَّ أنه قد سبق منه أحاديث فِي فضائل أهل البيت ومثالب آخرين مناكير[الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 6/ 545]۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی385)نے کہا:
يخطىء على معمر في أحاديث لم تكن في الكتاب [سؤالات ابن بکیر للدارقطنی: ص 2]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی852)نے کہا:
ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع[تقریب التہذیب لابن حجر2/ 354]۔

معلوم کہ امام عبدالرزاق اخیر میں مختلف ہوگئے تھے لہٰذا ان سے جن لوگوں نے اختلاط کے بعد روایت کی ہے وہ حجت نہیں اور زیرتحقیق روایت کو ان اسحاق الدبری نے روایت کیا اورانہوں امام عبدالرزاق کے اختلاط کے بعد ان سے روایت کی ہے۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
استصغره عَبد الرَّزَّاق أحضره أبوه عنده، وَهو صغير جدا فكان يقول: قرأنا على عَبد الرَّزَّاق أي قرأ غيره، وحضر صغيرا وحدث عنه باحادیث منکرۃ .[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 560]۔

امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643)نے کہا:
قَدْ وَجَدْتُ فِيمَا رُوِيَ عَنِ الطَّبَرَانِيِّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الدَّبَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ أَحَادِيثَ اسْتَنْكَرْتُهَا جِدًّا، فَأَحَلْتُ أَمْرَهَا عَلَى ذَلِكَ، فَإِنَّ سَمَاعَ الدَّبَرِيِّ مِنْهُ مُتَأَخِّرٌ جِدًّا[مقدمة ابن الصلاح: ص: 396]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كان الرجل صاحب حديث، وإنما أسمعه أبوه واعتنى به، سمع من عبد الرزاق تصانيفه، وهو ابن سبع سنين أو نحوها، لكن روى عن عبد الرزاق أحاديث منكرة[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 181]۔

علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قلت : ورجاله ثقات ؛ لولا أن الصنعاني - وهو الدبري - سمع من عبد الرزاق في حالة الاختلاط كما قال ابن الصلاح [سلسلة الأحاديث الضعيفة : 9/ 327]۔

ایک اورمقام پرفرماتے ہیں:
أن الإسناد الذي ساقه لا تقوم به حجة ؛ لأنه من رواية الدبري عن عبد الرزاق ؛ فإن الدبري - مع أنه قد تكلم بعضهم فيه ؛ فإنه - ممن سمع من عبد الرزاق بعد اختلاطه ؛ قال ابن الصلاح : "وجدت فيما روى الطبراني عن الدبري عنه أحاديث استنكرتها جداً ، فأحلت أمرها على ذلك" [سلسلة الأحاديث الضعيفة :11/ 521]۔


دوسری علت:
عبدالرزاق سے نقل کرے والے ’’اسحاق بن ابراہیم الدبری ‘‘ یہ خود بھی متکلم فیہ ہیں۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حدث عنه بحديث منكر[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 560]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كان الرجل صاحب حديث، وإنما أسمعه أبوه واعتنى به، سمع من عبد الرزاق تصانيفه، وهو ابن سبع سنين أو نحوها، لكن روى عن عبد الرزاق أحاديث منكرة[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 181]

علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فیہ کلام معروف [الضعیفة:ج ٧ ص١٠٤ رقم (٣١٠٣)أیضاً الضعیفةتحت الرقم(٥٧٨٢)]۔

حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
مصنف کا راوی الدبری ضعیف ومصحف ہے جیساکہ سمیع صاحب نے اپنے خط میں اشارۃ لکھاہے ، مزیدتفصیل کے لئے لسان المیزان(1/ 531 ,532 ت 1098) اورمقدمہ ابن الصلاح بحث المختلطین کا مطالعہ کریں۔[قیام رمضان: ص 47]۔

تیسری علت:
یہ روایت منکربھی ہے کیونکہ کی روایت دیگرصحیح طرق سے مروی ہے لیکن اس میں ساٹھ ہجری سے متعلق کوئی بات نہیں ہے بلکہ قرب قیامت کی علامات کاذکر ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہ روایت متعددعلتوں کی بناپرضعیف ہے اسی وہ تمام روایت ضعیف ہیں وغیرثابت شدہ ہیں جن میں یہ ملتاہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سن ساٹھ ہجری سے پناہ مانگی اوریزید رحمہ اللہ کے دورکی خاص برائیوں کو بیان کیا ۔

نوٹ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سن ٦٠ ہجری ےسے پہلے ہی وفات پاگئے جبکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ٦٠ ہجری میں وفات پائی اوریوں یزید حکمران بن گیا [تمام کتب اسماء الرجال]۔
اول تو یہ روایت ضعیف ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں تفصیلات پیش کی گئیں ۔
دوم سن ٦٠ میں یزید کے حکمران بن جانے سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ سن ساٹھ کے فتنہ کا ذمہ دار یہی حکمراں ہے !!
بعض روایات میں علی رضی اللہ عنہ کے دور میں رونما ہونے والے فتنوں کی طرف بھی اشارہ ہے اوران اشاروں کے عین مطابق فتنے رونماہوئے چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کے پورے دورمیں صرف مسلمان آپس میں ہی لڑتے رہے صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی ،تو کیا ان تمام فتنوں کی ذمہ داری علی رضی اللہ عنہ پر ہے کیونکہ ان دور میں یہی حکمراں تھے؟؟؟؟

صاف صاف بات یہ ہے کہ مذکورہ روایت کو صحیح بھی مان لین تب بھی اس سے یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کی مذمت قطعا ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس حدیث میں ایک خاص دور کے فتنوں سے متعلق پیشین گوئی ہے لیکن یہ فتنہ کن کی طرف سے ہوگا اس بارے میں یہ حدیث خاموش ہے اس لئے حدیث کے مصداق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جن سے حدیث میں مذکور بداعمالیوں کے صدور ہوگا اوروہ سبائی کوفی اورعراقی لوگ ہی ہوسکتے ہیں ۔
جہاں تک یزید کی بات ہے تو ان سے حدیث میں مذکور بداعمالیوں کا صدور ہی نہیں ہوا تو وہ کیونکر اس حدیث کے مصداق ہوسکتے ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
چوتھی روایت:
(٤) ترجمہ صحیح حدیث: سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے خاندان بنوامیہ سے متعلق فرمایا: ’’ان کی حکومت شریرترین بادشاہت میں سے ایک ہے‘‘ [جامع ترمذی:حدیث نمبر 2226]۔


اولا:
اول تو اس روایت میں جو یہ اضافہ ہے کہ سفینہ رضی اللہ عنہ نے کہا : بنوزرقاء جھوٹ بولتے ہیں ان کی بادشاہت تو بدترین بادشاہت میں سے ایک بادشاہت ہے۔
اس روایت میں یہ اضافی حصہ ضعیف وغیرثابت ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کے ابتدائی ٹکڑے کو تو صحیح قرار دیا مگر اس کے جس طریق میں مذکورہ اضافہ ہے اسے ضعیف قراردیاہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
زاد الترمذي: " قال سعيد: فقلت له: إن بنى أمية يزعمون أن الخلافة فيهم، قال: كذبوا بنو الزرقاء، بل هم ملوك من شر الملوك ". قلت: وهذه الزيادة تفرد بها حشرج بن نباتة عن سعيد بن جمهان، فهي ضعيفة لأن حشرجا هذا فيه ضعف، أورده الذهبي في " الضعفاء " وقال:" قال النسائي: ليس بالقوي ". وقال الحافظ في " التقريب ": " صدوق يهم ". قلت: وأما أصل الحديث فثابت.[سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 1/ 821]۔

عرض ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا اس اضافہ کو ضعیف قراردینا مبنی بر انصاف اوراصول جرح وتعدیل کے عین موافق ہے ، جزاہ اللہ خیرا ، ان شاء اللہ اس روایت کے سند و متن پر تفصیلی بحث کسی الگ تھریڈ میں پیش کروں گا۔

ثانیا:
دوم اگرہم اس اضافی حصہ کو صحیح بھی مان لین تو درج ذیل باتیں قابل ملاحظہ ہیں:

(الف) :
بنوامیہ میں سب سے پہلے بادشاہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ ہیں تو کیا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نعوذ باللہ مذکورہ بات کے سب سے پہلے مصداق ہوں گے؟؟ اگرنہیں تو یزید کو بھی اس بات کا مصداق بنانے کے لئے دلیل درکارہے۔

(ب):
کبھی کھبار جوش میں اس طرح کی مبالغہ آمیز باتوں کا صدور ہوجاتا ہے اسے اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے چنانچہ بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو جھوٹا ، ظالم ، گناہگار ، دھوکے باز اورخائن قرردیا ہے ملاحظہ ہو بخاری ومسلم کی یہ حدیث:

صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:
فَأَذِنَ لَهُمَا، قَالَ العَبَّاسُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ الظَّالِمِ [صحيح البخاري:-كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ:بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ ، 7305 رقم]۔
سب لوگ اندر آ گئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آکرپوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم (علی) کے درمیان فیصلہ کر دیجئے۔
صحیح مسلم کے الفاظ ہیں:
ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ، وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ[صحيح (مسلم 3/ 1377):-كتاب الجهاد والسير: باب حكم الفيء ، رقم 1757]
پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! میرا اور اس (علی) جھوٹے، گنہگار، دغاباز اور چور کا فیصلہ کر دیجئے لوگوں نے کہا ہاں اے امیر المومنین ان کے درمیان فیصلہ کر دیں۔
عرض ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جوکچھ کہا ، کیا کوئی بھی مسلمان اس پر ایمان لاسکتاہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ اس طرح کی باتیں جوش کے نتیجے میں بطور مبالغہ صادر ہوجایاکرتی ہیں ، اورایسی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح بخاری کی حدیث نمبر3605 کی شرح میں مندرجہ بالا احادیث نقل کرکے فرمایا: ’’ان لڑکوں میں پہلا شخص یزید ہے‘‘ [13/ 8]۔

تعجب ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی جو عبارت دلیل کی حیثیت رکھتی ہے اس کے سامنے تو صم بکم عمی کی کیفیت طاری ہے اوراس برخلاف حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی جوانفرادی اوربے دلیل بلکہ دلیل کے برعکس بات ہے اورخود حافظ موصوف بھی اس پر مطمئن نہیں ہیں اسے مزے لے لے کریوں پیش کیا جاتا ہے جیسے وحی من اللہ ہو۔

قارئیں نوٹ فرمالیں کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے پہلے لشکر میں یزید شریک تھے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق [فتح الباري لابن حجر: 6/ 103]۔
یزید رحمہ اللہ اس پہلے لشکرکے امیرتھے، اس پرسب کا اتفاق ہے۔
اوراجماعی باتیں کبھی غلط نہیں ہوتیں بلکہ پوسٹ نگارنے بھی اجماع کو حجت تسلیم کیا ہے ، دریں صورت حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی یہ صراحت کہ یزید قسطنطنیہ کے پہلے لشکر میں شریک تھا ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی رائے ہونے کے ساتھ ساتھ بجائے خود ایک دلیل بھی ہے۔اوراس سے یزید رحمہ اللہ کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

اس کے برخلاف پوسٹ نگاروں نے حافظ ابن حجر سے جو یہ نقل کیا کہ یزید قریش کے خطرناک لڑکوں میں سے پہلا تھا یہ بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی انفرادی رائے ہے نیز عقل ونقل دونوں کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ سلف کے فہم وفکر کے خلاف بھی ہے، اورخود حافظ ابن حجررحمہ اللہ بھی اس پرمطئن نہیں ہیں بلکہ دور کی کوڑی سے اسے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

مزید عرض ہے کہ مذکورہ عبارت میں پوسٹرنگاروں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے مذکورہ بات صحیح بخاری کی حدیث نمبر سے مستنبط کرتے ہوئے کہی ہے بالفاظ دیگر یزید کا قریشی کے خطرناک لڑکوں میں شامل ہونا بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن ایسا قطعا نہیں ہے اورحقیقت اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ کی مراد کچھ اورہے ۔
چانچہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اپنی مذکورہ بات کے لئے بخاری کی حدیث کو دلیل نہیں بنایاہے بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کودلیل بنایا ہے جیساکہ خود حافظ ابن حجررحمہ اللہ مذکورہ بات کہنے کے فورا بعد لکھتے ہیں:
كَمَا دَلَّ عَلَيْهِ قَوْلُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَأْسُ السِّتِّينَ وَإِمَارَةُ الصِّبْيَانِ [فتح الباري لابن حجر: 13/ 10]۔
جیساکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس پردلالت کرتا ہے کہ اے اللہ ! مجھے سن ساٹھ کا زمانہ نہ ملے ، اے اللہ ! مجھے بچوں کی امارت کادور نہ ملے ۔
اس حقیقت کی نقاب کشائی کے بعد عرض ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول مختلف الفاظ میں مروی ہے اور اکثر ضعیف ہی ہے غالبا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مجموعی اعتبار سے اس قول کو صحیح باور کرلیا اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ کا یہ طرز عمل یقینا موجب تعجب اورباعث حیرت ہے ۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی جانب سے اسی طرح کے طرز عمل پر اظہارتعجب کرتے ہوئے شیخ علي بن نايف الشحود لکھتے ہیں:
قلت : وعجبت لشراح البخاري كابن بطال والحافظ ابن حجر كيف يحتجان بمثل هذا الحديث الساقط ؟![المفصل في أحاديث الفتن : 531]۔
صحیح بخاری کے شارحین ابن بطال اورحافظ ابن حجر رحمہما اللہ پرتعجب ہے کہ وہ کیسے اس ساقط حدیث سے احتجاج کرتے ہیں۔
اوراس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا جو قول ثابت ہے اس سے مذکورہ مطلب لینا قطعا درست نہیں اورنہ ہی سلف سے ایسا کچھ منقول ہے بلکہ سلف سے اس کے برعکس ثابت ہے۔

تفصیل کے لئے درج ذیل موضوع کا بامعان مطالعہ فرمائیں:


.
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
حدیث قسطنطنیہ


یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو قطنطنیہ کی بشارت کا مصداق بتلانا علمی غلطی نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے ۔

مدینہ قیصر(قسطنطنیہ) پر سب سے پہلے لشکرکشی کرنے والے سب مغفورہوں گے یہ بھی بخاری ہی میں ہے اور اس پہلے حملہ کے امیر یزید رحمہ اللہ تھے یہ بھی بخاری ہی میں ہے ، ملاحظہ ہو:

قال محمود بن الربيع: فحدثتها قوما فيهم أبو أيوب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوته التي توفي فيها، ويزيد بن معاوية عليهم بأرض الروم [صحيح البخاري: 2/ 60]
محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے۔(ترجمہ داؤدراز)
بخاری کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ امیریزید رحمہ اللہ کی امارت میں مدینہ قیصر (قسطنطنیہ) پر حملہ ہوا ۔
اب اس سے پہلے کسی بھی حملہ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اس لئے بخاری کی اس روایت سے ثابت ہوا کہ یزید رحمہ اللہ ہی کی امارت میں مدینہ قیصر پرسب سے پہلے حملہ ہوا ۔

بخاری کی شرح کرنے والے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس پر پوری امت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ یزید رحمہ اللہ کی امارت میں سب سے پہلے غزوہ قیصر پرحملہ ہو ملاحظہ ہو:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق [فتح الباري لابن حجر: 6/ 103]۔
یزید رحمہ اللہ اس پہلے لشکرکے امیرتھے، اس پرسب کا اتفاق ہے۔
ظاہر ہے کہ ان اہل علم کے سامنے بھی ابوداؤد کی محولہ صحیح حدیث موجود تھی تو کیا پوری امت نے ابوداؤد کی اس صحیح حدیث کا متفقہ طوپر انکار کردیا ؟؟ ہرگز نہیں بلکہ سچائی یہ ہے کہ سلف کی نظر میں ابوداؤد کی حدیث کا وہ مفہوم ہے ہی نہیں جسے آج کے دورمیں سمجھا جارہاہے، تفصیل کے لئے درج ذیل موضوع کا مطالعہ مفیدہوگا:

.
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
’’جلیل القدر صحابی سیدنا عبداللہ بن زبیرکے خلاف مکہ مکرمہ پرحملہ کرکے بیت اللہ کو آگ لگاکر شہید کردیا ۔(مسلم :٣٢٤٥)‘‘[ پوسٹر ’’رافضیت ، ناصبیت اوریزیدیت۔۔ص: ٤].

اس عبارت میں جو دعوے کرکے صحیح مسلم کا حوالہ دیا گیا ہے صحیح مسلم کی اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں مکمل تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو درج ذیل موضوع :



.
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773

واقعہ حرہ پر توہم کسی اورموقع سے تفصیلی گفتگو کریں گے یہاں صرف چندسطور پیش خدمت ہیں:
مدینہ کی حرمت کی پامالی سے اگریہ مراد ہے کہ اہل مدینہ کی بغاوت پرفوجی قوت استعمال کی گی تو یہ درست ہے لیکن اس میں یزید کا کیا قصور ہے ؟ یزید نے تو اہل مدینہ کے ساتھ وہی کیا جو اس سے قبل علی رضی اللہ عنہ نے اہل جمل و اہل صفین کے ساتھ کیا ، اوراسی پوسٹر میں اہل جمل وصفین کے خلاف علی رضی اللہ عنہ کی کارروائی کو برحق بتلایا گیا ہے اوران کے مخالفین کو اجتہادی خطاء کا مرتکب گردانا گیا ہے۔
ہم کہتے ہیں بالکل یہی معاملہ یہاں بھی ہے ، اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑدی اوریہ ان کی اجتہادی غلطی تھی پھر یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانے تو مجبورا یزید رحمہ اللہ کو ان کے خلاف فوجی قوت استعمال کرنی ، اب اس میں یزید کا کیا قصور ہے ۔
اگراہل جمل وصفین کے خلاف علی رضی اللہ عنہ فوجی قوت استعمال کرسکتے ہیں تو اہل مدینہ کے خلاف یزید فوجی قوت کیوں نہیں استعمال کرسکتے ۔
ہم تو کہتے ہیں کہ یزید رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ ہی کے نقش قدم کی پیروی کی اورعلی رضی اللہ عنہ ہی کی سنت کو دھرایا ، اب اگریہ اقدام غلط تھا تو یہی غلطی یزید سے قبل علی رضی اللہ عنہ سے بھی سرزد ہوئی ہے اوراگر علی رضی اللہ عنہ کی کارروائی درست تھی تو یزید کا طرزعمل بھی بالکل درست تھا۔


یادرہے کہ اہل جمل واہل صفین جن پر علی رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا تھا وہ ان اہل مدینہ سے کئی گنا افضل وبہترتھے جن پر یزید رحمہ اللہ نے حملہ کیا۔

اہل مدینہ کا طرزعمل غلط تھا اس بات کی دلیل وہ تمام تر روایات ہیں جن میں حکام کے خلاف خروج سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ، ایک عظیم صحابی اورفقیہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے ایسی احادیث کو اہل مدینہ کے طرزعمل پرمنطبق کیا اور ان کے اقدام کو باغیانہ تصورکیا اورانہیں یزید کی بیعت پرباقی رہنے کا حکم دیا ۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کامقام ومرتبہ بیان کا محتاج نہیں ہے خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری صراحت کے ساتھ انہیں نیک اوردیندار قراردیا ہے چنانچہ بخاری ومسلم کی حدیث ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَجُلٌ صَالِحٌ»
[صحيح البخاري 5/ 25 رقم 3740 مسلم4/ 1927 رقم2478]۔
عبداللہ نیک آدمی ہیں۔
یہی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ یزید رحمہ اللہ کی مخالفت نہ کی بلکہ یزیدرحمہ اللہ کے مخالفین سے اظہار برآت کیا اوران تمام لوگوں سے رشتہ ناطہ ترک کرنے کا اعلان کیا جو لوگ یزید رحمہ اللہ کی مخالفت سے باز نہ آئیں، چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ المَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ، حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ القِيَامَةِ» وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُنْصَبُ لَهُ القِتَالُ، وَإِنِّي لاَ أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْكُمْ خَلَعَهُ، وَلاَ بَايَعَ فِي هَذَا الأَمْرِ، إِلَّا كَانَتِ الفَيْصَلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ [صحيح البخاري 9/ 57 رقم 7111]۔
نافع روایت کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اوربچوں کو اکٹھا کیا اورکہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ : ہروعدہ توڑنے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا،اورہم اس (یزید) کی بیعت اللہ اوراس کے رسول کے موافق کرچکے ہیں ، میں نہیں جانتا کہ اس سے بڑھ کر کوئی بے وفائی ہوسکتی ہے کہ ایک شخص کی بیعت اللہ اوراس کے رسول کے موافق ہوجائے پھر اس سے جنگ کی جائے ، تم میں سے جوشخص یزید کی بیعت توڑے گا ، اوراس کی اطاعت سے روگردانی کرے گا تو میرا اس سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہے گا۔
الغرض یہ کہ مدینہ میں جو کچھ ہوا اس کے اصل ذمہ دار خود اہل مدینہ ہی تھے لیکن چونکہ اہل مدینہ کی یہ اجتہادی غلطی تھی اس لئے اہل مدینہ کو تکلیف دینے سے متعلق وعید والی جو احادیث ہیں وہ ان پر فٹ نہیں ہوں گی ، کیونکہ اجتہادی خطاء معاف ہے۔

رہی بات یہ کہ اہل شام نے جب مدینہ پر حملہ کیا تو تین دن تک خوب لوٹ مار کی ، اوربے شرمی اوربے حیائی کی انتہاء کردی تو یہ ساری باتیں مکذوب ہیں ان میں سے کچھ ثابت ہی نہیں اس کی تفصیل ہم کسی اورموقع پر کریں گے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top