محمد جریر
رکن
- شمولیت
- نومبر 03، 2015
- پیغامات
- 103
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 37
’’دعاء‘‘ کی دو قسمیں
دعائے عبادت کے تحت علماء نے کہا:
ہر عبادت درحقیقت طلبِ التفات ہے: تسبیح دعاء ہے۔ حمد دعاء ہے۔ ذکر دعاء ہے۔ سجدہ دعاء ہے۔ رکوع دعاء ہے۔ قیام دعاء ہے۔ طواف دعاء ہے۔ قربانی دعاء ہے۔ نذر دعاء ہے۔ روزہ دعاء ہے۔ زکات دعاء ہے۔ حج دعاء ہے۔ جہاد دعاء ہے۔ ہجرت دعاء ہے۔ خدا کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور دشمنوں کے ساتھ دشمنی دعاء ہے۔ طلبِ رزقِ حلال دعاء ہے۔ ماں باپ کی خدمت اور اطاعت دعاء ہے۔ ٹھٹھرتی راتوں میں لحاف چھوڑنا اور عمدہ وضو کرنا دعاء ہے۔ خدا سے ڈرنا دعاء ہے۔ خدا سے محبت کرنا دعاء ہے۔ خدا کی حدوں کی پابندی کرنا دعاء ہے۔ خدا سے امید رکھنا اور خدا پر بھروسہ کرنا اور خدا کی طرف اِنابت کرنا دعاء ہے۔ غرض وہ تمام حرکات و سکنات جو اِس فقر کے پتلے کو بذریعہ رسالت الہام کی گئیں کہ ان کے ذریعے یہ خدا کے ہاں پزیرائی پا سکتا اور اس کی رحمت کےلیے درخواست گزار ہو سکتا ہے ان تمام حرکات و سکنات کو ’’دعاء‘‘ کہا گیا۔ یہ ہوئی دعائے عبادت۔
جبکہ دعائے مسئلہ: اپنی کوئی طلب زبان پر ہی لے آنا۔ مثلاً کہنا: خدایا مجھے معاف کردے۔ خدایا مجھ سے راضی ہو جا۔ خدایا مجھ پر رحم فرما۔ مجھ پر کرم کر۔ خدایا دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بچا۔ خدایا مجھے جنت الفردوس عطا کر۔ خدایا دوزخ کے عذاب سے تیری پناہ۔ خدایا مجھے آفتوں اور فتنوں سے محفوظ رکھ۔ خدایا مجھے اچھا رزق دے۔ تندرستی دے۔ عافیت نصیب کر۔ میری اولاد کو نیک کر۔ مجھے نیک عمل کی توفیق دے۔ وغیرہ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ کا فرق کیا ہی خوب بیان کیا۔ فرماتے ہیں:
ولفظ دعاء الله في القرآن يُراد به دعاء العبادة، ودعاء المسألة؛ فدعاء العبادة يكون الله هو المراد به، فيكون الله هو المراد. ودعاء المسألة يكون المراد منه؛ كما في قول المصلّي: {إِيَّاْكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاْكَ نَسْتَعِيْنُ}؛ فالعبادة إرادته، والاستعانة وسيلة إلى العبادة إرادة المقصود، وإرادة الاستعانة إرادة الوسيلة إلى المقصود، ولهذا قدّم قوله: {إِيَّاْكَ نَعْبُدُ} وإن كانت لا تحصل إلا بالاستعانة؛ فإنّ العلّة الغائيّة مقدّمة في التصوّر والقصد، وإن كانت مؤخّرة في الوجود والحصول، وهذا إنّما يكون لكونه هو المحبوب لذاته(کتاب”النبوات” مؤلفه ابن تيمية ج 1 ص 377)
’’اللہ کو پکارنے‘‘ کا لفظ جو قرآن میں وارد ہوا، اس سے مقصود دعائے عبادت بھی ہوتی ہے اور دعائے مسئلہ بھی۔
دعائے عبادت میں: آدمی خدا کی طلب کرتا ہے۔
اور
دعائے مسئلہ میں: آدمی خدا سے طلب کرتا ہے۔
اور یہ دونوں باتیں اس (ایک ہی آیت میں) آئیں جو نمازی کی زبان پر (باربار) آتی ہے:إِيَّاْكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاْكَ نَسْتَعِيْ یعنی ’’تیری ہی ہم عبادت کریں اور تجھ ہی سے استعانت‘‘۔
چنانچہ عبادت ہوئی خدا کو اپنا مقصود بنانا۔ جبکہ استعانت اِس عبادت کا ذریعہ؛ یعنی اِس مقصود کو پانے کی سبیل کرنا۔ استعانت چاہنا دراصل اس مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ اختیار کرنا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ إِيَّاْكَ نَعْبُدُ پہلے آیا۔ گو یہ عبادت، استعانت کے بغیر ہے ناممکن۔ کیونکہ غایت اپنے متصور اور مقصود ہونے کے اعتبار سے مقدم ہی ہوتی ہے، گو وجود میں آنے اور حاصل ہونے کے اعتبار سے وہ (ذریعے کے) بعد آتی ہے۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ خدا آپ اپنی ذات میں محبوب اور مطلوب ہے۔
خود اِس آیت کے تحت، شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
وَعَلَى هَذَا فَقَوْلُهُ: {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ} يَتَنَاوَلُ نَوْعَيْ الدُّعَاءِ. وَبِكُلِّ مِنْهُمَا فُسِّرَتْ الْآيَةُ. قِيلَ: أُعْطِيهِ إذَا سَأَلَنِي. وَقِيلَ: أُثِيبُهُ إذَا عَبَدَنِي. وَالْقَوْلَانِ مُتَلَازِمَانِ. (مجموع الفتاوى ج 15 ص 11)
بنابریں آیتوَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَا
دعاء کی ہر دو قسم کو شامل ہے۔ (دعائےعبادت و دعائےمسئلہ)۔ ہر دو سے ہی آیت کی تفسیر ہوئی ہے۔ یہ بھی تفسیر ہوئی کہ: ’’میں اسے دوں جب بھی وہ مجھ سے مانگے‘‘۔ اور یہ بھی تفسیر ہوئی کہ: ’’میں اس کو نوازوں جب بھی وہ مجھے پوجے‘‘۔ درحقیقت یہ ہر دو اقوال لازم و ملزوم ہیں۔
*****