• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’دعاء‘‘ کی دو قسمیں

شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
’’دعاء‘‘ کی دو قسمیں
دعائے مسئلہ اور دعائے عبادت۔
دعائے عبادت کے تحت علماء نے کہا:
ہر عبادت درحقیقت طلبِ التفات ہے: تسبیح دعاء ہے۔ حمد دعاء ہے۔ ذکر دعاء ہے۔ سجدہ دعاء ہے۔ رکوع دعاء ہے۔ قیام دعاء ہے۔ طواف دعاء ہے۔ قربانی دعاء ہے۔ نذر دعاء ہے۔ روزہ دعاء ہے۔ زکات دعاء ہے۔ حج دعاء ہے۔ جہاد دعاء ہے۔ ہجرت دعاء ہے۔ خدا کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور دشمنوں کے ساتھ دشمنی دعاء ہے۔ طلبِ رزقِ حلال دعاء ہے۔ ماں باپ کی خدمت اور اطاعت دعاء ہے۔ ٹھٹھرتی راتوں میں لحاف چھوڑنا اور عمدہ وضو کرنا دعاء ہے۔ خدا سے ڈرنا دعاء ہے۔ خدا سے محبت کرنا دعاء ہے۔ خدا کی حدوں کی پابندی کرنا دعاء ہے۔ خدا سے امید رکھنا اور خدا پر بھروسہ کرنا اور خدا کی طرف اِنابت کرنا دعاء ہے۔ غرض وہ تمام حرکات و سکنات جو اِس فقر کے پتلے کو بذریعہ رسالت الہام کی گئیں کہ ان کے ذریعے یہ خدا کے ہاں پزیرائی پا سکتا اور اس کی رحمت کےلیے درخواست گزار ہو سکتا ہے ان تمام حرکات و سکنات کو ’’دعاء‘‘ کہا گیا۔ یہ ہوئی دعائے عبادت۔

جبکہ دعائے مسئلہ: اپنی کوئی طلب زبان پر ہی لے آنا۔ مثلاً کہنا: خدایا مجھے معاف کردے۔ خدایا مجھ سے راضی ہو جا۔ خدایا مجھ پر رحم فرما۔ مجھ پر کرم کر۔ خدایا دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بچا۔ خدایا مجھے جنت الفردوس عطا کر۔ خدایا دوزخ کے عذاب سے تیری پناہ۔ خدایا مجھے آفتوں اور فتنوں سے محفوظ رکھ۔ خدایا مجھے اچھا رزق دے۔ تندرستی دے۔ عافیت نصیب کر۔ میری اولاد کو نیک کر۔ مجھے نیک عمل کی توفیق دے۔ وغیرہ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ نے دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ کا فرق کیا ہی خوب بیان کیا۔ فرماتے ہیں:
ولفظ دعاء الله في القرآن يُراد به دعاء العبادة، ودعاء المسألة؛ فدعاء العبادة يكون الله هو المراد به، فيكون الله هو المراد. ودعاء المسألة يكون المراد منه؛ كما في قول المصلّي: {إِيَّاْكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاْكَ نَسْتَعِيْنُ}؛ فالعبادة إرادته، والاستعانة وسيلة إلى العبادة إرادة المقصود، وإرادة الاستعانة إرادة الوسيلة إلى المقصود، ولهذا قدّم قوله: {إِيَّاْكَ نَعْبُدُ} وإن كانت لا تحصل إلا بالاستعانة؛ فإنّ العلّة الغائيّة مقدّمة في التصوّر والقصد، وإن كانت مؤخّرة في الوجود والحصول، وهذا إنّما يكون لكونه هو المحبوب لذاته(کتاب”النبوات” مؤلفه ابن تيمية ج 1 ص 377)
’’اللہ کو پکارنے‘‘ کا لفظ جو قرآن میں وارد ہوا، اس سے مقصود دعائے عبادت بھی ہوتی ہے اور دعائے مسئلہ بھی۔
دعائے عبادت میں: آدمی خدا کی طلب کرتا ہے۔
اور
دعائے مسئلہ میں: آدمی خدا سے طلب کرتا ہے۔
اور یہ دونوں باتیں اس (ایک ہی آیت میں) آئیں جو نمازی کی زبان پر (باربار) آتی ہے:إِيَّاْكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاْكَ نَسْتَعِيْ یعنی ’’تیری ہی ہم عبادت کریں اور تجھ ہی سے استعانت‘‘۔
چنانچہ عبادت ہوئی خدا کو اپنا مقصود بنانا۔ جبکہ استعانت اِس عبادت کا ذریعہ؛ یعنی اِس مقصود کو پانے کی سبیل کرنا۔ استعانت چاہنا دراصل اس مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ اختیار کرنا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ
إِيَّاْكَ نَعْبُدُ پہلے آیا۔ گو یہ عبادت، استعانت کے بغیر ہے ناممکن۔ کیونکہ غایت اپنے متصور اور مقصود ہونے کے اعتبار سے مقدم ہی ہوتی ہے، گو وجود میں آنے اور حاصل ہونے کے اعتبار سے وہ (ذریعے کے) بعد آتی ہے۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ خدا آپ اپنی ذات میں محبوب اور مطلوب ہے۔
خود اِس آیت کے تحت، شیخ الاسلام﷫ فرماتے ہیں:
وَعَلَى هَذَا فَقَوْلُهُ: {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ} يَتَنَاوَلُ نَوْعَيْ الدُّعَاءِ. وَبِكُلِّ مِنْهُمَا فُسِّرَتْ الْآيَةُ. قِيلَ: أُعْطِيهِ إذَا سَأَلَنِي. وَقِيلَ: أُثِيبُهُ إذَا عَبَدَنِي. وَالْقَوْلَانِ مُتَلَازِمَانِ.
(مجموع الفتاوى ج 15 ص 11)
بنابریں آیتوَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَا
دعاء کی ہر دو قسم کو شامل ہے۔ (دعائےعبادت و دعائےمسئلہ)۔ ہر دو سے ہی آیت کی تفسیر ہوئی ہے۔ یہ بھی تفسیر ہوئی کہ: ’’میں اسے دوں جب بھی وہ مجھ سے مانگے‘‘۔ اور یہ بھی تفسیر ہوئی کہ: ’’میں اس کو نوازوں جب بھی وہ مجھے پوجے‘‘۔ درحقیقت یہ ہر دو اقوال لازم و ملزوم ہیں۔

*****

 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي
روزہ خدا کا التفات پانے کی ایک قوی تعبیر ہے۔ لہٰذا دعاء کا ایک عظیم مبحث قرآنِ مجید میں کسی اور مقام کی بجائے یہیں پر بیان ہوا:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
حادیث میں بھی روزہ دار کی دعاء کی قبولیت کا خصوصی ذکر ہوا ہے۔

جان لو: انسان کا خدا کو پکارنا بجائےخود عبادت ہے۔ یہ توحید کا ایک مرکزی مضمون ہے۔ کسی ہستی کے آگے اپنا فقر اور ضرورت رکھنا، اور اُس کی عنایت اور مہربانی کا سوالی ہونا عبادت کا ایک نمایاں مظہر ہے اور اُس کی خدائی و فرماں روائی کا ایک کھلا اعتراف۔ اسی لیے؛ حق تعالیٰ نے یہ بات اپنے لیے خاص رکھی۔ روزہ دار، بھوکا پیاسا، جب خدا کو پکارتا ہے تو اس میں فقر و حاجتمندی کے کچھ اضافی معانی شامل ہو جاتے ہیں؛ پھر جبکہ وہ بھوک اور پیاس بھی مجبوری کی نہیں؛ بلکہ اختیاری ہو؛ اور خدا کا التفات پانے اور خدا کو اپنا شوق اور محبت دکھانے ہی کےلیے اٹھا رکھی گئی ہو۔
صحابِ ذوق نے اِس قرآنی مقام پر بڑے بڑے لطیف مباحث اور راز و نیاز کے نکتے بیان کیے ہیں۔ ذرا اِس آیت کا اسلوب دیکھو:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي
’’میرے بندے جب میرا پوچھیں‘‘!
ماں کسی وقت بچے سے چھپ جاتی ہے؛ یہ دیکھنے کےلیے کہ بچہ ماں کو کیونکر ڈھونڈتا اور کیسےکیسے اس کےلیے بےتاب ہوتا ہے! کیا کبھی تمہیں کسی ننھے توتلے بچے کو دیکھنے کا تجربہ ہوا جو اپنی ماں کا پوچھتا اور گھر میں ہر طرف اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہے؟! وہ ایک بار نہیں بیس بار تمہارے پاس آ کر اور موٹےموٹے آنسو بھر کر اپنی ’ماں‘ کا پوچھتا ہے! اس بچے کے چہرے پر چاہت، بےچینی اور جستجو کے رنگ آتے جاتے کبھی ملاحظہ کرو تو خود تمہارے قلب میں عبدیت کے ہزاروں معانی چھلک پڑیں! یہاں بھی عین وہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے: ایک بےتابی خدا کو پانے کےلیے۔ جوکہ شرط ہے خدا کو پا لینے کی!

اور یہاں پردہ اٹھتا ہے:

فَإِنِّي قَرِيبٌ
’’میں پاس ہی ہوں‘‘!
اور رحمتِ خداوندی اِس پوچھتے بِلکتے بندے کو فی الفور اپنی آغوش میں لے لیتی ہے:
أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
دعاء میں ویسی ہی چاہت، طلب اور جستجو جو محبت اور عبدیت کے وجود سے خودبخود پھوٹ کر آتی ہے جیسی ہم نے ’ماں‘ کا پوچھتے پھرتے اُس بچے کے اندر دیکھی تھی… خاص ایسے عبد کی پزیرائی ہی کےلیے خالقِ بےنیاز نے دنیا کے اندر یہ منادی کروائی ہے… اور اس کی قدر بس یہ عبد ہی جان سکتا ہے!

سچ پوچھو تو ان چند الفاظ (وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي) میں معانی کا ایک سمندر ہے؛ ذرا اِس میں کچھ غوطے لو تو تمہیں محبت، عبادت، چاہت اور جستجو کے وہ نایاب موتی ہاتھ لگیں کہ تم دنیا کی ہر مخلوق کےلیے قابل رشک ہو جاؤ!

اور یہ بھی یاد رکھو: خدا کی تلاش تمہیں اگر نبی کے در تک لے کر نہیں پہنچتی… خالق کا پتہ پانے کےلیے تمہارے اندر اگر وہ سوال نہیں مچلتے جو وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي سے اپنا پتہ دیتے ہیں؛ اُس حقیقتِ منتظر کےلیے تمہاری جبینِ نیاز میں اگر وہ ’ہزاروں سجدے‘ نہیں تڑپ رہے… تو تم اس پیاس سے ناآشنا ہو جس کا مداوا کرانے کےلیے دنیا میں رسالت کا حوضِ کوثر مہیا کر رکھا گیا ہے؛ اور جہاں سے قسمت والے بھر بھر پیتے رہے۔
خوب جان لو! انسان پر وجود کے کچھ ناقابلِ تصور مرحلے بیت چکے اور کچھ لامتناہی مرحلے ابھی اِس کی راہ تک رہے ہیں۔ وجود کے ان لامتناہی ادوار کے مقابلے پر ’’دنیا‘‘ گویا محض ایک گھڑی ہے۔ دنیا کی یہ مختصر سی گھڑی دراصل اِس لیے ہے کہ یہ مخلوقِ ناطق اپنی طلب آزادانہ زبان پر لائے۔ اِس کے سوا ’دنیا‘ کی سمجھو کوئی حقیقت نہیں۔ یعنی کوئی ایسا جہان جہاں بندہ خود اپنے منہ سے بول کر خدا کو بتائے کہ یہ کیا چاہتا ہے۔ لب کشائی کا ایک آزادانہ موقع کہ اُس لامحدود فضل کے مالک سے کبھی یہ مانگے تو کیا مانگے گا۔ واحد محل جہاں یہ خدا کےلیے اظہارِمحبت کرے تو وہ اُس کے ہاں سنا جاتا ہے۔ خدا کی رحمت کےلیے یہ درخواست کرے تو وہ اُس کے ہاں قبول ہوتی ہے۔ اُس کے غضب اور قہر سے یہ اُس کی پناہ مانگے تو وہ اِسے پناہ دیتا ہے۔ آج وہ اِس کی سنتا ہے۔ کل وہ اِس کی نہیں سنے گا۔ ایسا کمال موقع! پس ضروری تھا کہ وہ اپنی رسالت کے ذریعے اِس نایاب ترین موقع کی خوب خوب منادی کروا دے: کہ اُس کے ہاں پزیرائی پانے کا وقت آج ہے؛ کل نہیں ہوگا۔ اور ہمت والوں کو خوب خوب یقین دلائے کہ یہ جتنا اُس کو پکاریں وہ اتنا اِن کی سنے گا۔ آج یہ جتنا اُس کا التفات پانا چاہیں، اس کا خوب خوب موقع ہے:
فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
 
Top