ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
’’فَاقْرَءُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ‘‘
’’جتناقرآن آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لیا کرو۔‘‘
شیخ الحدیث حافظ عبدالستار حماد
(۷۵۵۰) حدثنا یحیی بن بکیر قال حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شہاب قال:حدثنی عروۃ أن المسور بن مخرمۃ وعبد الرحمن بن عبد القاري حدَّثاہ أنھما سمعا عمر بن الخطاب یقول: سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسولِ اﷲ! فاستَمَعْتُ لقراء تہ فإذا ھو یقرأ علی حروفٍ کثیرۃ لم یقرئنیھا رسولُ اﷲ! فکِدْتُ أساورہ فی الصلاۃ فتصبَّرتُ حتی سلَّم فلبَبْتُہ بردائہ فقلت : من أقرأکَ ھذہ السورۃ التی سمعتُکَ تَقْرأ؟ قال: أقرأنِیْھَا رسولُ اﷲ! فقلت:کذبت أقرأنیھا علی غیر ما قرأت فانطلقتُ بہ أقودُہ إلی رسولِ اﷲ! فقلت:إنِّی سمعتُ ھذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف لم تقرئنیھا فقال: (أرسلہ،اقرأ یا ھشام) فقرأ القراء ۃ التي سمعتُہ فقال رسولُ اﷲ!:(کَذَلِکَ أنْزِلَتْ)ثم قال رَسُوْلُ اﷲِ! (إقْرَأ یَا عُمَرُ) فقرأتُ الَّتِيْ أقْرَأنِیْ فقال:(کَذَلِکَ أنْزِلَتْ،إنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ أنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ أحْرُفٍ فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ) ( صحیح البخاري:۲۴۱۹)شیخ الحدیث مولانا ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ کا ’درس ِحدیث‘ صحیح بخاری کی ’کتاب التوحید‘ سے متعلق ان کی تصنیف سے ماخوذ ہے۔ محترم حافظ صاحب حفظہ اللہ کو اللہ تعالی نے اس امتیاز سے نوازا ہے کہ آپ جہاں حدیث وعلوم حدیث پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہاں قرآن وعلوم قرآن کے بھی متخصص ہیں، کیونکہ آں جناب حفظہ اللہ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ کے کلِّیۃ القرآن الکریم سے سند ِفضیلت رکھتے ہیں اور آپ نے عالم مصر کے مشائخ اَہل فن اور کبار اساتذہ سے قراء ات و علوم ِقراء ات کا درس لیا ہے۔ مدینہ منورہ یونیورسٹی میں آپ نے مولانا حافظ عبد الغفار اعوان حفظہ اللہ ( مرکزی راہنما جماعۃ الدعوۃ)، مولانا حافظ عبد الرشید خلیق حفظہ اللہ (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ)، شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ اور شیخ القراء قاری اَحمد میاں تھانوی حفظہ اللہ وغیرہ کے ہمراہ درس ِ قراء ات لیا۔ (ادارہ)
’’حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کورسول اللہﷺکی زندگی میں سورۃ الفرقان پڑھتے سنا، میں نے ان کی قراء ت کی طرف کان لگایاتو وہ قرآن مجید بہت سے ایسے طریقوں سے پڑھ رہے تھے جو رسول اللہﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے، قریب تھاکہ میں نماز ہی میں ان پرحملہ کردیتا، لیکن میں نے صبر سے کام لیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی گردن میں چادر کاپھندا ڈال دیااور کہاکہ تمہیں یہ سورت اس طرح کس نے پڑھائی ہے انہوں نے کہا مجھے اس طرح رسول اللہ1 نے پڑھائی ہے میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو، مجھے تورسول اللہﷺنے یہ سورت اس طرح نہیں پڑھائی چنانچہ میں انہیں کھینچتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس لے گیا اورعرض کیا یارسول اللہﷺ! میں نے اس شخص کو سورۃ الفرقان ایسے حروف پرپڑھتے سناہے جو آپﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے ہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو،ہشام! تم پڑھ کر سناؤ، تو اس نے وہی قراء ت پڑھی جو میں نے اس سے سنی تھی۔رسول اللہﷺنے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے عمر! اب تم پڑھو،میں نے اس قراء ت کے مطابق پڑھا جو آپؐنے مجھے سکھائی تھی۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:اس طرح بھی نازل ہوئی ہے۔یہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے اس لیے تمہیں جس قراء ت میں سہولت ہو اس کے مطابق پڑھ لیا کرو۔‘‘
فوائد:امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے آخری حصہ سے عنوان ثابت کیا ہے کہ جس قراء ت میں سہولت ہو اس کے مطابق پڑھو، رسول اللہﷺ نے ’پڑھنے‘ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کیا ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن پڑھناان کا فعل ہے، کیونکہ اس میں سہولت کا وصف پایا جاتاہے، لوگ اس میں مختلف ہوتے ہیں، قراء ت میں اختلاف ہوسکتا ہے جیساکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں ہوامگر قرآن کریم اختلاف کا محل نہیں ہے، کیونکہ وہ اللہ کا کلام ہے اور قرآن مجید سہولت کے مطابق پڑھنا بندوں کافعل ہے جومخلوق ہے۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جہاں سے قرآن یاد ہو وہاں سے قراء ت کرسکتے ہو اورجس قدر آسانی سے پڑھاجائے اتنا ہی پڑھناچاہئے البتہ امام کو ہدایت ہے کہ وہ قراء ت کرتے وقت اپنے مقتدیوں کا ضرور خیال رکھے۔