12 ربیع الاول کا دن صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین پر قیامت بن کر گزرا
12 ربیع الاول کو نبی کریم ﷺکا وصال ہوا اور مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ پر مشکل ترین گھڑی تھی۔ دن کو یوں معلوم ہوتا تھاجیسے رات ہو گئی ہو۔صحابہ کرامؓ میں کچھ لوگ بیٹھے تھے وصال کی خبر سنی اوروہیں منجمد ہو گئے پھر ساری زندگی اٹھ نہ سکے۔سید نا فاروق اعظمؓ جیسی ہستی پر بھی جذب آ گیا ۔ اُم ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کی بہت پیاری خادمہ تھیں جب عمر رسیدہ ہو گئیں تونبی کریم ﷺ ان کے گھر خیریت پوچھنے خود تشریف لے جاتے۔حضور ﷺ کے وصال کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اُم ایمن کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لئے گئے۔جب ان کی مزاج پرسی کی تو انہوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ انہوں نے فرمایاکہ بی بی آپ اتنا کیوں رو رہی ہیں؟حضور ﷺ ہم سے دور تو نہیں ہیں۔ام ایمنؓ نے فرمایایہ بات میں جانتی ہوں میں رو اس لئے رہی ہوں کہ اب قیامت تک زمین پرجبرائیل امین ؑ وحی لے کر نہیں آئیں گے ہم تو اس بات کے عادی تھے کہ کوئی مسئلہ ہوتافوراً بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوتے مسئلہ بیان کرتے جواب اﷲ کی طرف سے آتاوحی نازل ہوتی قرآن نازل ہوتا اﷲ کے ذاتی کلام میں جواب آ جاتااب وہ نعمت ختم ہو گئی رسالت ﷺ ، نبوت اورکتاب موجود ہے قیامت تک رہے گی اس با ت پہ رونا نہیں ہے رو اس لئے رہی ہوں کہ حضورﷺ کا وصال وحی کو ختم کر گیا۔
یہ ساری باتیں سامنے ہوں تو کیا جشن اور جلوس کو جی چاہتا ہے؟کیا یہ پٹاخے اورآتش بازی چلانے کو جی چاہتا ہے؟ چندے جمع کر کے ڈھول پیٹ کر کس بات کی خوشی منائی جا رہی ہے؟ایک بات اور عرض کر دوں12 ربیع الاول کو منافقین، مشرکین عرب ،یہود اور عیسائیوں نے خوشی منائی تھی کہ حضور ﷺ کے وصال سے شاید اسلام ختم ہو جائے گا۔جتنے مولوی جشن میں ہوتے ہیں کبھی کسی کے مونہہ سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ جتنے لوگ جلوس میں ہیں انہیں یہ بھی بتا دیں کہ یہ تو حضورﷺ کے وصال کا دن ہے یہ تو وہ دن ہے جس کے بعد کوئی صحابیؓ نہیں بن سکانہ قیامت تک بن سکے گا۔یہ تو وہ دن ہے کہ جس دن وہ نعمت ختم ہو گئی کہ بندہ مسجد نبویﷺ میں حاضر ہوتانگاہ دو چار ہوتی حضور ﷺ کی نگاہ اس پر پڑتی یا اس کی نگاہ وجود عالی ﷺ پہ پڑتی توایک آن میں ایک عام آدمی سے شرف صحابیت پہ متوقن ہو جاتا۔اب اﷲ کسی کو وہ ہمت ، وسائل اورتوفیق دے گاتو محنت کرے گا۔برزخ میں اس کی رسائی ہو گی۔حضور ﷺ کی زیارت سے فیض یاب ہو گا۔لیکن صحابی نہیں بن سکے گا۔
پتہ نہیں کس بات پہ جشن منائے جاتے ہیں؟اس کے جواز میں کیا ثبوت ہے؟دین کے امین تو صحابہؓ ہیں ہمارے پاس سارا دین صحابہؓ سے آیا اور صحابہؓ پر تویہ دن قیامت بن کر گزر گیا۔لیکن یہ حجرووصال کی باتیں وہ جانیں جسے کوئی ذرہ محبت کا نصیب ہوا ہو۔کسی نے اسے حصول زر کا زریعہ بنا دیا۔کسی نے اپنی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیااور اودھم مچا کر، شہروں میں شور شرابا کر کے بازار بند کر کے۔ مریض مر رہا ہے سڑک پر راستہ نہیں ہے۔مزدوروں کی چھٹی ہو گئی۔ جو دہاڑی روز کما کر کھاتے تھے ان کا کام بند ہو گیا۔دکانیں بند ہو گیءں کسی کو نہ دوا مل رہی ہے نہ سودا مل رہا ہے ۔کون سا دین ہے؟ کون مناتا ہے ؟کس نے کہا ہے؟
ارشادات نبوی ﷺ کا مظہر تعامل صحابہؓ ہے۔صحابہؓ نے جو عمل کیاوہ دلیل ہے کہ یہ حضور ﷺ کا حکم ہے اور تمام صحابہؓ کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں جس طرح ستاروں سے لوگ راہ تلاش کرتے ہیںیہ تمہاری راہنمائی کے لئے وہ ستارے ہیں۔ تم جس کا دامن تھام لو گے ہدایت پا جاؤ گے۔یعنی صحابہؓ سارے کے سارے عادل بھی ہیں ہادی بھی ہیں۔جس کا دامن تھام لو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ذرا صحابہؓ سے کوئی جلوس کوئی جشن ثابت کرو۔دنیا میں کسی نے اگر واقعی کسی سے محبت کی ہے تو وہ صحابہؓ محمد الرسول اﷲ ﷺ ہیں۔دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی ان کی مثال نہیں۔اسی لئے آدم علیہ السلام سے لے کرقیامت تک تمام لوگوں سے انبیاء کے بعد افضل ترین لوگ ہیں۔ کافر جسے ایمان ہی نصیب نہیں ہوا اس کی تو بات چھوڑیں وہ تو ہے ہی کافروہ تو اپنی خواہشات سے دین گھڑے گا۔لیکن جوایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کے پاس کیا اختیار رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے دین گھڑ لے۔مومن کاتو قرآن کا تصور یہ ہے کہ جب اﷲ کا نبی ﷺحکم دے دے تو ان کے پاس سوائے تسلیم کے اور کوئی راستہ ہی نہیں اور صرف ظاہری تسلیم نہیں دل میں بھی کوئی کدورت کوئی کھٹ کھٹ محسوس نہ کرے کہ ایسا کیوں ہے؟صدق دل سے اس کی اطاعت کر لے۔
میں نے زندگی میں بڑے حوادث ، دکھ اور تکلیف دہ مناظر دیکھے مجھے کبھی رونا نہیں آیا۔ ہم 1974 میں حضرت رحمۃاﷲ علیہ کے ساتھ حرمین گئے ۔جدے سے مکہ مکرمہ حاضری ہوئی عمرہ کیا۔کچھ دن رہے۔پھر مدینہ منورہ حاضری ہوئی۔آٹھ دن مدینہ منورہ میں رہے۔روزہ اطہر ﷺ پہ سلام کے لئے روز حاضری ہوتی۔ ایک دن روزہ اطہر ﷺسے پہلے ہی اس دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا۔میں اس سوچ میں ڈوب گیا کہ حضور ﷺ کا وصال ہوا ہو گا۔کس دل ،کس جرأت،کس صبر آزما گھڑی سے گزر کر صحابہ کرامؓ نے محمد الرسول اﷲ ﷺ کو دفن کیا ہو گا؟وہ کچھ ایسا منظر میرے دل میں بناکہ میں جو زندگی بھر کبھی نہیں رویا تھا۔تب سے اب تک آنکھیں نم رہتی ہیں۔بات بات پہ رونا آتا ہے۔بلکہ ایک دن کسی نے سوال بھی کیا تھا آپ کو تواب تک روتے نہیں دیکھا اب کیوں روتے ہو؟میں نے کہا تھاکہ جس دل پہ ناز تھا مجھے ،وہ دل نہیں رہا۔
کون سا جشن ہے یار آج کے دن؟کس بات کی خوشی ہے؟آج کا دن تو ہے کہ اطاعت کا عہد تازہ کرو۔جو کمی رہ گئی ہے اس کی معافی مانگوکہ بندہ مسجد میں جائے نوافل ادا کرے۔قرآن کریم پڑھے سارا دن بیٹھ کر درود شریف پڑھتا رہے۔ آج باوضو رہنے کا دن ہے۔ کثرت عبادت اورکثرت سے صلوٰۃ و سلام پڑھنے کا دن ہے۔ صلوٰۃ و سلام اور درود کابھی ایک خاص ادب ایک خاص طریقہ ہے ۔اﷲ کریم ہماری خطا ؤں کو معاف فرمائے۔ہمیں نیکی کی توفیق دے۔
از افادات : حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ العالیٰ
شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ دارلعرفان منارہ ضلع چکوال
12 ربیع الاول کو نبی کریم ﷺکا وصال ہوا اور مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ پر مشکل ترین گھڑی تھی۔ دن کو یوں معلوم ہوتا تھاجیسے رات ہو گئی ہو۔صحابہ کرامؓ میں کچھ لوگ بیٹھے تھے وصال کی خبر سنی اوروہیں منجمد ہو گئے پھر ساری زندگی اٹھ نہ سکے۔سید نا فاروق اعظمؓ جیسی ہستی پر بھی جذب آ گیا ۔ اُم ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کی بہت پیاری خادمہ تھیں جب عمر رسیدہ ہو گئیں تونبی کریم ﷺ ان کے گھر خیریت پوچھنے خود تشریف لے جاتے۔حضور ﷺ کے وصال کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اُم ایمن کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لئے گئے۔جب ان کی مزاج پرسی کی تو انہوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ انہوں نے فرمایاکہ بی بی آپ اتنا کیوں رو رہی ہیں؟حضور ﷺ ہم سے دور تو نہیں ہیں۔ام ایمنؓ نے فرمایایہ بات میں جانتی ہوں میں رو اس لئے رہی ہوں کہ اب قیامت تک زمین پرجبرائیل امین ؑ وحی لے کر نہیں آئیں گے ہم تو اس بات کے عادی تھے کہ کوئی مسئلہ ہوتافوراً بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوتے مسئلہ بیان کرتے جواب اﷲ کی طرف سے آتاوحی نازل ہوتی قرآن نازل ہوتا اﷲ کے ذاتی کلام میں جواب آ جاتااب وہ نعمت ختم ہو گئی رسالت ﷺ ، نبوت اورکتاب موجود ہے قیامت تک رہے گی اس با ت پہ رونا نہیں ہے رو اس لئے رہی ہوں کہ حضورﷺ کا وصال وحی کو ختم کر گیا۔
یہ ساری باتیں سامنے ہوں تو کیا جشن اور جلوس کو جی چاہتا ہے؟کیا یہ پٹاخے اورآتش بازی چلانے کو جی چاہتا ہے؟ چندے جمع کر کے ڈھول پیٹ کر کس بات کی خوشی منائی جا رہی ہے؟ایک بات اور عرض کر دوں12 ربیع الاول کو منافقین، مشرکین عرب ،یہود اور عیسائیوں نے خوشی منائی تھی کہ حضور ﷺ کے وصال سے شاید اسلام ختم ہو جائے گا۔جتنے مولوی جشن میں ہوتے ہیں کبھی کسی کے مونہہ سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ جتنے لوگ جلوس میں ہیں انہیں یہ بھی بتا دیں کہ یہ تو حضورﷺ کے وصال کا دن ہے یہ تو وہ دن ہے جس کے بعد کوئی صحابیؓ نہیں بن سکانہ قیامت تک بن سکے گا۔یہ تو وہ دن ہے کہ جس دن وہ نعمت ختم ہو گئی کہ بندہ مسجد نبویﷺ میں حاضر ہوتانگاہ دو چار ہوتی حضور ﷺ کی نگاہ اس پر پڑتی یا اس کی نگاہ وجود عالی ﷺ پہ پڑتی توایک آن میں ایک عام آدمی سے شرف صحابیت پہ متوقن ہو جاتا۔اب اﷲ کسی کو وہ ہمت ، وسائل اورتوفیق دے گاتو محنت کرے گا۔برزخ میں اس کی رسائی ہو گی۔حضور ﷺ کی زیارت سے فیض یاب ہو گا۔لیکن صحابی نہیں بن سکے گا۔
پتہ نہیں کس بات پہ جشن منائے جاتے ہیں؟اس کے جواز میں کیا ثبوت ہے؟دین کے امین تو صحابہؓ ہیں ہمارے پاس سارا دین صحابہؓ سے آیا اور صحابہؓ پر تویہ دن قیامت بن کر گزر گیا۔لیکن یہ حجرووصال کی باتیں وہ جانیں جسے کوئی ذرہ محبت کا نصیب ہوا ہو۔کسی نے اسے حصول زر کا زریعہ بنا دیا۔کسی نے اپنی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیااور اودھم مچا کر، شہروں میں شور شرابا کر کے بازار بند کر کے۔ مریض مر رہا ہے سڑک پر راستہ نہیں ہے۔مزدوروں کی چھٹی ہو گئی۔ جو دہاڑی روز کما کر کھاتے تھے ان کا کام بند ہو گیا۔دکانیں بند ہو گیءں کسی کو نہ دوا مل رہی ہے نہ سودا مل رہا ہے ۔کون سا دین ہے؟ کون مناتا ہے ؟کس نے کہا ہے؟
ارشادات نبوی ﷺ کا مظہر تعامل صحابہؓ ہے۔صحابہؓ نے جو عمل کیاوہ دلیل ہے کہ یہ حضور ﷺ کا حکم ہے اور تمام صحابہؓ کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں جس طرح ستاروں سے لوگ راہ تلاش کرتے ہیںیہ تمہاری راہنمائی کے لئے وہ ستارے ہیں۔ تم جس کا دامن تھام لو گے ہدایت پا جاؤ گے۔یعنی صحابہؓ سارے کے سارے عادل بھی ہیں ہادی بھی ہیں۔جس کا دامن تھام لو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ذرا صحابہؓ سے کوئی جلوس کوئی جشن ثابت کرو۔دنیا میں کسی نے اگر واقعی کسی سے محبت کی ہے تو وہ صحابہؓ محمد الرسول اﷲ ﷺ ہیں۔دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی ان کی مثال نہیں۔اسی لئے آدم علیہ السلام سے لے کرقیامت تک تمام لوگوں سے انبیاء کے بعد افضل ترین لوگ ہیں۔ کافر جسے ایمان ہی نصیب نہیں ہوا اس کی تو بات چھوڑیں وہ تو ہے ہی کافروہ تو اپنی خواہشات سے دین گھڑے گا۔لیکن جوایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کے پاس کیا اختیار رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے دین گھڑ لے۔مومن کاتو قرآن کا تصور یہ ہے کہ جب اﷲ کا نبی ﷺحکم دے دے تو ان کے پاس سوائے تسلیم کے اور کوئی راستہ ہی نہیں اور صرف ظاہری تسلیم نہیں دل میں بھی کوئی کدورت کوئی کھٹ کھٹ محسوس نہ کرے کہ ایسا کیوں ہے؟صدق دل سے اس کی اطاعت کر لے۔
میں نے زندگی میں بڑے حوادث ، دکھ اور تکلیف دہ مناظر دیکھے مجھے کبھی رونا نہیں آیا۔ ہم 1974 میں حضرت رحمۃاﷲ علیہ کے ساتھ حرمین گئے ۔جدے سے مکہ مکرمہ حاضری ہوئی عمرہ کیا۔کچھ دن رہے۔پھر مدینہ منورہ حاضری ہوئی۔آٹھ دن مدینہ منورہ میں رہے۔روزہ اطہر ﷺ پہ سلام کے لئے روز حاضری ہوتی۔ ایک دن روزہ اطہر ﷺسے پہلے ہی اس دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا۔میں اس سوچ میں ڈوب گیا کہ حضور ﷺ کا وصال ہوا ہو گا۔کس دل ،کس جرأت،کس صبر آزما گھڑی سے گزر کر صحابہ کرامؓ نے محمد الرسول اﷲ ﷺ کو دفن کیا ہو گا؟وہ کچھ ایسا منظر میرے دل میں بناکہ میں جو زندگی بھر کبھی نہیں رویا تھا۔تب سے اب تک آنکھیں نم رہتی ہیں۔بات بات پہ رونا آتا ہے۔بلکہ ایک دن کسی نے سوال بھی کیا تھا آپ کو تواب تک روتے نہیں دیکھا اب کیوں روتے ہو؟میں نے کہا تھاکہ جس دل پہ ناز تھا مجھے ،وہ دل نہیں رہا۔
کون سا جشن ہے یار آج کے دن؟کس بات کی خوشی ہے؟آج کا دن تو ہے کہ اطاعت کا عہد تازہ کرو۔جو کمی رہ گئی ہے اس کی معافی مانگوکہ بندہ مسجد میں جائے نوافل ادا کرے۔قرآن کریم پڑھے سارا دن بیٹھ کر درود شریف پڑھتا رہے۔ آج باوضو رہنے کا دن ہے۔ کثرت عبادت اورکثرت سے صلوٰۃ و سلام پڑھنے کا دن ہے۔ صلوٰۃ و سلام اور درود کابھی ایک خاص ادب ایک خاص طریقہ ہے ۔اﷲ کریم ہماری خطا ؤں کو معاف فرمائے۔ہمیں نیکی کی توفیق دے۔
از افادات : حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ العالیٰ
شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ دارلعرفان منارہ ضلع چکوال