• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

1973 کے آئین کے 22 اسلامی نکات

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
1973 کے آئین کے شہرہ آفاق 22 نکات جو اس دور کے 31 علماء کا تاریخی کارنامہ تھا ..!!!

"" ایک مدتِ دراز سے اسلامی دستورِ مملکت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسلام کا کوئی دستورِ مملکت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے اصول کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہوسکتی ہے؟ اور کیا اصول اور عملی تفصیلات میں کوئی چیز بھی ایسی ہے جس پر مختلف اسلامی فرقوں کے علما متفق ہوسکیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے متعلق عام طور پر ایک ذہنی پریشانی پائی جاتی ہے اور اس ذہنی پریشانی میں ان مختلف دستوری تجویزوں نے اور بھی اضافہ کر دیا ہے جو مختلف حلقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تمام اسلامی فرقوں کے چیدہ اور معتمد علما کی ایک مجلس منعقد کی جائے اور وہ بالاتفاق صرف اسلامی دستور کے بنیادی اصول ہی بیان کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان اصولوں کے مطابق ایک ایسا دستوری خاکہ بھی مرتب کردے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے قابل قبول ہو۔

اس غرض کے لیے ایک اجتماع بتاریخ ۱۲، ۱۳، ۱۴اور ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ مطابق ۲۱،۲۲،۲۳ اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء بصدارت مولانا سید سلیمان ندوی، کراچی میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں اسلامی دستور کے جو بنیادی اصول بالاتفاق طے ہوئے، انہیں افائدۂ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔

اسلامی مملکت کے بنیادی اصول
اسلامی مملکت کے دستور میں حسبِ ذیل اصول کی تصریح لازمی ہے:
۱۔ اصل حاکم تشریعی و تکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔

۲۔ ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا، جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔
(تشریحی نوٹ) اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں، جو کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیے جائیں گے۔

۳۔ مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصولوں و مقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطۂ حیات ہے۔

۴۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیا و اعلا اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔

۵۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمانانِ عالم کے رشتہ و اتحاد و اخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی، لسانی، علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کر کے ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کا انتظام کرے۔

۶۔ مملکت بِلاامتیاز مذہب و نسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں، یا نہ رہے ہوں یا عارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یا دوسری وجوہ سے فی الحال سعیٔ اکتساب پر قادر نہ ہوں۔

۷۔ باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں۔ یعنی حدودِ قانون کے اندر تحفظ جان و مال و آبرو، آزادیٔ مذہب و مسلک، آزادیٔ عبادت، آزادیٔ اظہارِ رائے، آزادیٔ نقل و حرکت، آزادیٔ اکتسابِ رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔

۸۔ مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سندِ جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقعۂ صفائی و فیصلۂ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔

۹۔ مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انہیں اپنے پیروئوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کرسکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انہی کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔

۱۰۔ غیرمسلم باشندگانِ مملکت کو حدودِ قانون کے اندر مذہب و عبادت، تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم و رواج کے مطابق کرانے کا حق حاصل ہوگا۔

۱۱۔ غیر مسلم باشندگانِ مملکت سے حدودِ شریعہ کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہوں، ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگانِ ملک اور مسلم باشندگانِ ملک، سب برابر کے شریک ہوں گے۔

۱۲۔ رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے، جس کے تدین، صلاحیت اور اصابتِ رائے پر جمہور کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔

۱۳۔ رئیس مملکت ہی نظمِ مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا۔ البتہ وہ اپنے خیالات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کرسکتا ہے۔

۱۴۔ رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی۔ یعنی وہ ارکانِ حکومت اور منتخب نمائندگانِ جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔

۱۵۔ رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کو کلاً یا جزواً معطل کرکے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔

۱۶۔ جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی وہی کثرتِ آرا سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔

۱۷۔ رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔

۱۸۔ ارکان و عمالِ حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون و ضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔

۱۹۔ محکمۂ عدلیہ، محکمۂ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا، تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔

۲۰۔ ایسے افکار و نظریات کی تبلیغ و اشاعت ممنوع ہوگی جو مملکتِ اسلامیہ کے اساسی اصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔

۲۱۔ ملک کے مختلف ولایات و اقطاع مملکت واحدہ کے اجزا انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی، لسانی، یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں محض انتظامی علاقوں کی ہوگی، جنہیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا، مگر انہیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔

۲۲۔ دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔ ""

(بشکریہ: مفتی سید عدنان کاکاخیل)
 
Top