- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
فقہ السیرۃ النبویہ : سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تنظیمی، تربیتی اور سیاسی رہنمائی
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))
دور جاہلیت اور تصور حکومت وسیاست
(1) عرب قوم کے پاس کوئی عالمی مقصد و منہج نہ تھا۔ نہ تو ان کے پاس کوئی واضح دستور حیات تھا اور نہ ہی نظام معیشت و سیاست۔ نہ کوئی ضابطہ اخلاق اور نہ ہی کوئی باقاعدہ حکومت و سلطنت۔
(2) اہل عرب کی جاہلی سیاست و معاشرت کا محور قبیلہ و خاندان تھا۔ قبیلے کا سردار ہی تمام طرح کے اختیارات کا مالک ہوتا۔ قبیلے کا نام بلند کرنے اور قبائلی عصبیت کی خاطر ہی جنگ و جدال کا سلسلہ جاری رہتا۔ معمولی سی بات پر طویل سلسلۂ جنگ و حرب شروع ہو جاتا۔ کئی نسلیں جنگ کی نظر ہو جاتیں۔
(3) اجتماعی فیصلے باہمی مشاورت سے انجام پاتے ، جس کے لیے ایک خاص مشاورتی جگہ ہوتی۔ مکہ میں قریش کی مشاورت گاہ دارالندوہ تھی۔ مدینہ کے اوس و خزرج کی اجتماع گاہ سقیفہ بنی ساعدہ تھی۔ قریش نے نبی کریم ﷺ کے خلاف جتنے بھی بڑے بڑے فیصلے کیے، وہ سب دارالندوہ میں طے پائے۔ سیدنا صدیق اکبر کا خلیفہ کے لیے انتخاب سقیفہ بنی ساعدہ میں ہی ہوا۔
(4) سیاسی اثر و رسوخ کی مضبوطی اور دفاعی استعداد میں اضافے کے لیے قبائل باہمی اتحاد کرتے۔ مکہ کے گرد و نواح کے بیشتر قبائل قریش کے اتحادی تھے۔ دفاعی، افرادی اور معاشی طور پر مضبوط قبائل سے اتحاد کی ہر ممکن کوشش کی جاتی۔ اتحادی قبائل وقت اتحاد ایک جگہ اکٹھے ہوتے، ان کی ضیافت کا بھرپور انتظام کیا جاتا ۔جیسے حلف الفضول میں کیا گیا۔
(5) عرب کے ہاں باہمی عہد و پیمان کی پاسداری انتہائی اہم ہوتی۔ نقض عہد و پیمان اخلاقی اور سماجی طور پر انتہائی معیوب سمجھا جاتا۔ مضبوط عہد و پیمان کے لیے خون کے برتن میں ہاتھ رکھ کر وفاداری کا عہد کیا جاتا۔ پائیدار میثاق و معاہدات کے لیے اوپر نیچے ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے کا طریقہ بھی رائج تھا۔ اسی طرح بتوں کے پاس اور غلافِ کعبہ کو تھام کر عہد کرنا بہت ہی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ۔
(6) قبائل اپنے افراد کی نصرت و حمایت اپنی جان کی طرح کرتے، اگرچہ ان کا آدمی ظالم اور مجرم ہی ہو۔ سردار ابو طالب اگرچہ بے ایمان تھے، لیکن انھوں نے آپ کی ہر ممکنہ نصرت و حمایت کی۔ اس کی وجہ خاندانی تعلق اور رشتہ داری تھی نہ کہ ایمان۔ شعب ابی طالب میں اکثر محصورین غیر مسلم تھے۔ ان کا آپ کی خاطر مصائب برداشت کرنا خاندانی اور قبائلی تعلق کی بنا پر تھا۔
(7) عرب میں امان و پناہ کی بھی بہت اہمیت تھی۔ پناہ دینے والے پناہ لینے والے کی اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت کرتے۔ پناہ دیے گئے فرد کی حفاظت میں کوتاہی کسی صورت گوارہ نہ کی جاتی۔ اس معاملے میں سستی قبیلے کے لیے باعث ننگ و عار ہوتی۔
(8) عرب دستور کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے مطعم بن عدی کی، سیدنا عثمان بن مظعون نے ولید بن مغیرہ کی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابن دغنہ کی پناہ لی تھی۔ مخالفین پناہ گزینوں کی طرف اسلحہ سے اشارہ بھی نہیں کرسکتے تھے۔
(9) مظلوموں کی داد رسی اور محتاجوں کی تائید و حمایت کے معاہدے بھی ہوتے تھے۔ اس حوالے سے حلف المطیبین اور حلف الفضول نامی معاہدے بہت اہم ہیں۔ ان معاہدات کے کئی طرح کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔
(10) دورِ جاہلیت میں قصاص اور دیت بھی رائج تھی۔ دیت میں قبائل کے اعتبار سے فرق تھا۔ کم تر قبیلے کے مقتول کی دیت کم تھی۔ بلند حسب و نسب اور نمایاں خاندان و قبیلے کے مقتول کی دیت زیادہ تھی۔
(11) عدم قصاص و دیت کی صورت میں ایک مقتول کے بدلے میں کئی کئی بے قصور افراد کو بھی جان کی بازی ہارنی پڑ جاتی۔ مقتول کے بدلے میں قاتل ہی کو قتل کرنا ضروری نہ سمجھا جاتا۔ قاتل کے قبیلے و خاندان کے کسی بھی فرد کو قتل کرکے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کر لیا جاتا۔
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
++++++++++++++++++++
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))
دور جاہلیت اور تصور حکومت وسیاست
(1) عرب قوم کے پاس کوئی عالمی مقصد و منہج نہ تھا۔ نہ تو ان کے پاس کوئی واضح دستور حیات تھا اور نہ ہی نظام معیشت و سیاست۔ نہ کوئی ضابطہ اخلاق اور نہ ہی کوئی باقاعدہ حکومت و سلطنت۔
(2) اہل عرب کی جاہلی سیاست و معاشرت کا محور قبیلہ و خاندان تھا۔ قبیلے کا سردار ہی تمام طرح کے اختیارات کا مالک ہوتا۔ قبیلے کا نام بلند کرنے اور قبائلی عصبیت کی خاطر ہی جنگ و جدال کا سلسلہ جاری رہتا۔ معمولی سی بات پر طویل سلسلۂ جنگ و حرب شروع ہو جاتا۔ کئی نسلیں جنگ کی نظر ہو جاتیں۔
(3) اجتماعی فیصلے باہمی مشاورت سے انجام پاتے ، جس کے لیے ایک خاص مشاورتی جگہ ہوتی۔ مکہ میں قریش کی مشاورت گاہ دارالندوہ تھی۔ مدینہ کے اوس و خزرج کی اجتماع گاہ سقیفہ بنی ساعدہ تھی۔ قریش نے نبی کریم ﷺ کے خلاف جتنے بھی بڑے بڑے فیصلے کیے، وہ سب دارالندوہ میں طے پائے۔ سیدنا صدیق اکبر کا خلیفہ کے لیے انتخاب سقیفہ بنی ساعدہ میں ہی ہوا۔
(4) سیاسی اثر و رسوخ کی مضبوطی اور دفاعی استعداد میں اضافے کے لیے قبائل باہمی اتحاد کرتے۔ مکہ کے گرد و نواح کے بیشتر قبائل قریش کے اتحادی تھے۔ دفاعی، افرادی اور معاشی طور پر مضبوط قبائل سے اتحاد کی ہر ممکن کوشش کی جاتی۔ اتحادی قبائل وقت اتحاد ایک جگہ اکٹھے ہوتے، ان کی ضیافت کا بھرپور انتظام کیا جاتا ۔جیسے حلف الفضول میں کیا گیا۔
(5) عرب کے ہاں باہمی عہد و پیمان کی پاسداری انتہائی اہم ہوتی۔ نقض عہد و پیمان اخلاقی اور سماجی طور پر انتہائی معیوب سمجھا جاتا۔ مضبوط عہد و پیمان کے لیے خون کے برتن میں ہاتھ رکھ کر وفاداری کا عہد کیا جاتا۔ پائیدار میثاق و معاہدات کے لیے اوپر نیچے ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے کا طریقہ بھی رائج تھا۔ اسی طرح بتوں کے پاس اور غلافِ کعبہ کو تھام کر عہد کرنا بہت ہی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ۔
(6) قبائل اپنے افراد کی نصرت و حمایت اپنی جان کی طرح کرتے، اگرچہ ان کا آدمی ظالم اور مجرم ہی ہو۔ سردار ابو طالب اگرچہ بے ایمان تھے، لیکن انھوں نے آپ کی ہر ممکنہ نصرت و حمایت کی۔ اس کی وجہ خاندانی تعلق اور رشتہ داری تھی نہ کہ ایمان۔ شعب ابی طالب میں اکثر محصورین غیر مسلم تھے۔ ان کا آپ کی خاطر مصائب برداشت کرنا خاندانی اور قبائلی تعلق کی بنا پر تھا۔
(7) عرب میں امان و پناہ کی بھی بہت اہمیت تھی۔ پناہ دینے والے پناہ لینے والے کی اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت کرتے۔ پناہ دیے گئے فرد کی حفاظت میں کوتاہی کسی صورت گوارہ نہ کی جاتی۔ اس معاملے میں سستی قبیلے کے لیے باعث ننگ و عار ہوتی۔
(8) عرب دستور کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے مطعم بن عدی کی، سیدنا عثمان بن مظعون نے ولید بن مغیرہ کی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابن دغنہ کی پناہ لی تھی۔ مخالفین پناہ گزینوں کی طرف اسلحہ سے اشارہ بھی نہیں کرسکتے تھے۔
(9) مظلوموں کی داد رسی اور محتاجوں کی تائید و حمایت کے معاہدے بھی ہوتے تھے۔ اس حوالے سے حلف المطیبین اور حلف الفضول نامی معاہدے بہت اہم ہیں۔ ان معاہدات کے کئی طرح کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔
(10) دورِ جاہلیت میں قصاص اور دیت بھی رائج تھی۔ دیت میں قبائل کے اعتبار سے فرق تھا۔ کم تر قبیلے کے مقتول کی دیت کم تھی۔ بلند حسب و نسب اور نمایاں خاندان و قبیلے کے مقتول کی دیت زیادہ تھی۔
(11) عدم قصاص و دیت کی صورت میں ایک مقتول کے بدلے میں کئی کئی بے قصور افراد کو بھی جان کی بازی ہارنی پڑ جاتی۔ مقتول کے بدلے میں قاتل ہی کو قتل کرنا ضروری نہ سمجھا جاتا۔ قاتل کے قبیلے و خاندان کے کسی بھی فرد کو قتل کرکے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کر لیا جاتا۔
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
++++++++++++++++++++