محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
24 گھنٹے مومن
چوری ثابت ہو چکی ہے اور شرعی حد نافذ ہو چکا ہے۔
قبیلہ بنو مخزوم کی ایک خاتون نے چوری کی ہے۔ اب اسکا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
قبائلی نظام میں یہ بڑی شرم کی بات ہے‘ قبیلہ بنو مخزوم کے سر کردہ افراد کسی کو منھ دکھلانے کے قابل نہیں رہیں گےاور یہ سونچ سونچ کر قبیلہ کا ایک ایک فرد پریشان ہے۔
باہمی مشورے ہو رہے ہیں کہ کسی طرح یہ سزا ٹل جاےٴاور بنو مخزوم کی عزت خاک میں ملنے سے بچ جائے۔
لیکن منصب اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔
حد اللہ کے رسول ﷺ نے قائم کی ہے۔
کس میں اتنی جرأت ہےجوآپ ﷺ سے بات کرے ؟
کون ہے آپ ﷺکااتنا پیارا جو سزا ٹالنے کی سفارش کرنے کی جسارت کرے ؟
آپ ﷺ کے کسی پیارے کو ڈھونڈھا جا رہا ہے اور بالآخر انہوں نے اللہ کے محبوبﷺ کے سب سے محبوب کو ڈھونڈ ہی لیا۔
یہ ہیں سیدنا اسامہ بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ.
رسول اللہ ﷺ اسامہ بن زید ؓ سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں ممکن ہے آپؓ کی سفارش مان لیں اور چوری کی حد نافذ کرنے کا حکم صادر نہ کریں۔
کیونکہ آپ ﷺ نے خود ہی تو فرمایا ہے:
’’ اے میرے صحابہ ! اسامہ مجھے تم سب سے زیادہ پیارا ہے‘ اس سےاچھاسلوک کرنا۔ ‘‘
’’ مخزومیہ عورت‘ جس پر چوری کی حد نافذ ہے اسکی ہاتھ نہ کاٹی جاے۔ “
حضرت اسامہؓ بنو مخزوم کی لجاجت‘ پشیمانی وپریشانی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوےٴشاہ امم سلطانہ مدینہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مخزومیہ عورت کے حق میںسفارش پیش کر دی۔
لیکن حضرت اسامہؓ کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس بات کی جسارت کرنے جا رہے ہیںیہ اللہ کی حدود میں صریحا مداخلت کی جسارت تھی -
شفارش سنتے ہی آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو۔‘‘
’’یا رسول اللہ ! میرے لئے دعائے مغفرت کیجئے -‘‘
’’ تم میں سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺکی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرلے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا‘‘۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کے لئے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کرلی اور شادی بھی کر لی ۔ (صحیح البخاری و مسلم )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ بعد میں وہ میرے پاس آتی تھیں اوراگر ان کو کوئی ضرورت ہوتی تو میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کر دیتی۔ (صحیح البخاری و مسلم )
چوری اتنا بڑا جرم ہےاور ایک ایسی معاشرتی برائی ہےکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اس کی سزا ’’ ہاتھ کاٹنا ‘‘ مقررہے اور اس سزا کو ’’ نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے "عبرت ناک سزا " کہاگیاہے۔یعنی چوری کرنے والے شخص کو معاشرے میں عبرت کا نمونہ بنا کر چھوڑ دیا جائے تاکہ کوئی اور چوری کرنے کی جراٴت نہ کر سکے۔
للہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ (سورة المائدة: آیت نمبر۳۸)
’’ اورچور، خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ ان کے کر توتوں کے عوض میں اللہ کی طرف سے بطور عبرتناک سزا کے ۔ اللہ زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے“۔
یعنی اللہ کا حکم ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو اور نبی کریم ﷺ نے اس حکم کو عملی طور پر نافظ کیا ۔۔۔
لیکن اب مسلم ملک و معاشرے میں چور کا ہاتھ کاٹنا تو دور کی بات بلکہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو چور کا ہاتھ کاٹنے کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں کہ آج سب ہی چور ہیں۔۔۔کیا عام ہو یا خاص ‘ سب ہی چوری کرنے کے گھناوٴنے جرم میں ملوث ہیں۔
کوئی بجلی چور ہے تو کوئی گیس چور اور کوئی پانی چور۔
کوئی مال و دولت کا چور ہے تو کوئی عزت و آبرو کا چور۔
کوئی ٹیکس چوری کرتا ہے تو کوئی اکاوٴنٹ میں خرد برد کرتا ہے۔
کوئی بنک میں ڈاکہ ڈالتا ہے تو کوئی دوکان و مکان کا صفایا کرتا ہے۔
کوئی موبائل و پرس چھینتا ہے تو کوئی کار چوری کرتا ہے۔
کوئی کمپیوٹر سافٹ ویر چراتا ہے تو کوئی کمپیوٹر سے لوگوں کی شناخت کی چوری کرتا ہے۔
کوئی آفس اسٹیشنری چراتا ہے تو کوئی آفس دیر سے آکر وقت کی چوری کرتا ہے۔
کوئی بازار میں لوٹتا ہے تو کوئی محلے کے نکڑ اور گھر کی دہلیز پر۔
کوئی مال و دولت کا چور ہے تو کوئی عزت و آبرو کا چور۔
کوئی ٹیکس چوری کرتا ہے تو کوئی اکاوٴنٹ میں خرد برد کرتا ہے۔
کوئی بنک میں ڈاکہ ڈالتا ہے تو کوئی دوکان و مکان کا صفایا کرتا ہے۔
کوئی موبائل و پرس چھینتا ہے تو کوئی کار چوری کرتا ہے۔
کوئی کمپیوٹر سافٹ ویر چراتا ہے تو کوئی کمپیوٹر سے لوگوں کی شناخت کی چوری کرتا ہے۔
کوئی آفس اسٹیشنری چراتا ہے تو کوئی آفس دیر سے آکر وقت کی چوری کرتا ہے۔
کوئی بازار میں لوٹتا ہے تو کوئی محلے کے نکڑ اور گھر کی دہلیز پر۔
کوئی ریوالور دکھا کر چھینتا ہے تو کوئی اپنے عہدے کا دھونس جما کر۔
کوئی سرکاری اداروں میں رہ کر چوری کرتا ہے تو کوئی پرائیویٹ اداروں میں رہ کر۔
کوئی دفتروں و بازاروں میں چوری کرتا ہے تو کوئی کارخانوں و کھَلْیانوں میں۔
کوئی تھا نہ میں چوری کرتا ہے تو کوئی کوٹ کچہری میں۔
کوئی غریب کا بچہ چرا کر بیچ ڈالتا ہے تو کوئی امیر کا بچہ چرا کر تاوان مانگتا ہے۔
کوئی غربت مٹانے کے لئے چوری کرتا ہے تو کوئی امارت بڑھانے کے لئےچوری کرتا ہے۔
غریب اپنے بچے کو روٹی کپڑا دینے کے لئے چراتا ہے تو امیر اپنے بچے کو ٹھاٹ باٹ کرانے کے لئےچراتا ہے۔
کوئی غربت مٹانے کے لئے چوری کرتا ہے تو کوئی امارت بڑھانے کے لئےچوری کرتا ہے۔
غریب اپنے بچے کو روٹی کپڑا دینے کے لئے چراتا ہے تو امیر اپنے بچے کو ٹھاٹ باٹ کرانے کے لئےچراتا ہے۔
یہاں چوربھی چور ہیں اور محافظ و پہرے دار بھی چور۔
یہاں غریب بھی چور ہیں اور امیر بھی چور۔
یہاں کے منصب بھی چور ہیں اور حکمراں بھی چور۔
یہاں جو جتنا بڑا ہےوہ اُتنا بڑا چور ہے۔
۔۔۔ لیکن تمام تر چوری کرنے کے باوجود بھی ۔۔۔ سب مسلمان ہیں ۔۔۔ سب مومن ہیں ۔۔۔
جی ہاں ۔۔۔ سب مسلمان ہیں ۔۔۔ سب مومن ہیں ۔۔۔
لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے تو کچھ اور ہی نے فرمایا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا ہے :
" چور جب چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا "
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں وطنِ عزیز میں عام و خاص جو اُوپر بیان کئے گئے چوری کے گھناوٴنے جرم میں ملوث ہیں ‘ آج خود ہی اپنا محاسبہ کرلیں اور دیکھیں کہ وہ کتنے وقت کے لئے ’’ مومن ‘‘ ہیں اور کتنے وقت کے لئے ’’ مومن ‘‘ نہیں ہیں:
گیس‘ بجلی اور پانی کی چوری ۔۔ چوبیس (24) گھنٹے کی چوری ہے۔
لہذا جو لوگ ان میں یا ان جیسی دوسری چوبیس (24) گھنٹے کی چوریوں میں ملوث ہیں‘ وہ مذکورہ حدیث کے مطابق ۔۔۔ چوبیس (24) گھنٹے " مومن " نہیں ہوتے۔
لہذا
24 گھنٹے چوری کرنے کی عمل سے گزرنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کے بجلی سے 24 گھنٹے آرام دہ زندگی گزارنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی تھنڈی تھنڈی پانی 24 گھنٹے استعمال کرنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی گیس سے 24 گھنٹے مزے مزے کی کھانے پکا کر کھانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی دولت سے غربت مٹانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی دولت سے امارت بڑھانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی دولت سے اپنے بچوں کو ٹھاٹ باٹ کرانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کے بجلی سے 24 گھنٹے آرام دہ زندگی گزارنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی تھنڈی تھنڈی پانی 24 گھنٹے استعمال کرنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی گیس سے 24 گھنٹے مزے مزے کی کھانے پکا کر کھانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی دولت سے غربت مٹانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی دولت سے امارت بڑھانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی دولت سے اپنے بچوں کو ٹھاٹ باٹ کرانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق تو ایسے لوگ " مومن " نہیں رہتے کیوں کہ یہ ہر وقت ’’ چوری ‘‘ کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اور ان پر ہر وقت اللہ کی ’’ لعنت ‘‘ پڑ رہی ہے کیوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے چور پر ’’ لعنت ‘‘ بھیجی ہے ۔ ( صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، ح: 6783)
لعنت کا مطلب ہے اللہ کی رحمت سے دوری اور جسے اللہ اپنی رحمت سے دور کر دے اس کا ٹھکانا کہاں ہو سکتا ہے۔ تو اللہ کے بندوں! اگرچہ چوری کرنے پہ آج چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا لیکن اللہ کی لعنت تو ہر آن برس رہی ہے۔
اللہ کی رحمت سے دوری کی وجہ کر آج ایسے گھر وں میں بے سکونی ہی بے سکونی ہے‘ دنیا کی مال اسباب اور ہر آشائش ہونے کے باوجود بے سکونی ہے۔
سکون تو اللہ کی رحمتوں سے ملتی ہے‘ لعنتوں سے نہیں۔
لہذا سکون کے لئے ہر طرح کی چوری کرنا چھوڑنا ہوگا اور " 24 گھنٹے مومن " بنے رہنا ہوگاں اور لعنتوں کی بجائے ہر وقت اللہ کی رحمتوں میں میں رہنا ہوگا۔