- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
فقہ السیرۃ النبویہ : سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تنظیمی ، تربیتی اور سیاسی رہنمائی
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))
اسلام کا تصورِ حکومت وسیاست
(1) اسلام میں انفرادی، اجتماعی اور ریاستی تمام امور شریعت کے تابع ہوتے ہیں۔ افکار و نظریات، اقدار و روایات، اخلاق و آداب، اقتصاد و سماجیات اور فنون و سیاست میں بندہ مومن اسلامی تعلیمات کا پابند ہوتا ہے۔
(2) شرعی سیاست کی کامل صورت ریاستی سطح پر غلبہ دین اور حصول اقتدار و سلطہ ہے۔ پیغمبر اسلام نے دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح سیاسی و ریاستی امور کے متعلق بھی مثالی ہدایات تعلیم فرمائی ہیں۔
(3) قرآن کریم میں اسلامی اقتدار و حکومت کے چار بنیادی اہداف و مقاصد بیان کیے گئے: ریاستی سطح پر نظام صلاۃ و زکاۃ نافذ کرنا اور حکومتی و قومی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا،
(4) اسلامی تصور حکومت وسیاست میں نظریاتی وعملی طور پر اقتدار اعلیٰ خالق و مالک کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ حاکم و رعایا میں سے کسی کو منصب و عہدہ کی وجہ سے فرائض و واجبات کی انجام دہی میں استثنا حاصل نہیں ہوتا۔
(5) اسلامی نظام حکومت وسیاست میں جس قدر کوئی بلند منصب و مرتبے پر فائز ہوتا ہے، اسی قدر اس کے فرائض و ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے۔
(6) اسلامی نظام سیاست و حکمرانی میں شرعی امام کا انتخاب اصحاب رائے کی مشاورت سے ہوتا ہے۔ منتخب کردہ فرد ہی تاحیات حاکم ملک و امام ریاست ہوتا ہے۔
(7) اسلامی نظام حکومت وسیاست میں حصول منصب کے خواہش مند کو ذمہ داری سونپے جانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
(8) اسلام ریاست میں شرعی امام کا انتخاب حسب و نسب، خاندانی عزت و وقار، مال و دولت اور شرف و ناموری کی بنیاد پر نہیں ہوتا،بلکہ ایمان و تقویٰ، اخلاق و دینداری، صدق و امانتداری، فہم و فراست اور استعداد و قابلیت جیسی اعلیٰ صفات و کمالات شرعی امام کے بنیادی اوصاف میں شامل ہوتے ہیں۔
(9) اسلامی سیاست میں ہر فرد ذمہ دار ہوتا ہے اور وہ اپنی ذمہ داری اور اپنے ماتحت افراد کے متعلق جواب دہ ہوتا ہے۔ امیر ریاست کو مسلم رعایا کا نگہبان ٹھہرایا گیاہے ۔ مرد کو اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار قرار دیا گیاہے ، عورت کو خاوند کے گھر بار اور بال بچوں کی محافظ بتایا گیا ہے اور خادم کو مالک کے اموال و متاع کا ذمہ دار گردانا گیا ہے۔
(10) شرعی سیاست کے تحت قائم ہونے والی اسلامی ریاست کے باسی مضبوط فکر و عمل کے حامل اور اعلیٰ اخلاق و گفتار کے مالک ہوتے ہیں۔ اخوت و بھائی چارگی، ہمدردی و خیر خواہی، تقویٰ و للہیت اور صبرو قناعت ان کا شعار ہوتا ہے۔
(11) اسلامی ریاست کے باشندے دعوت و جہاد اور جذبہ جاں نثاری سے لبریز ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مطمح نظر رضائے الٰہی، حصول جنت اور غلبہ دین ہوتا ہے۔
(12) اسلام میں ایسی سیاست و دعوت کا کوئی تصور نہیں جس میں دین و دنیا کی تفریق ہو اور انسان انفرادی واجتماعی، سماجی و معاشی اور تہذیبی و سیاسی معاملات میں بالکل آزاد اور شتر بے مہار ہو۔
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))
اسلام کا تصورِ حکومت وسیاست
(1) اسلام میں انفرادی، اجتماعی اور ریاستی تمام امور شریعت کے تابع ہوتے ہیں۔ افکار و نظریات، اقدار و روایات، اخلاق و آداب، اقتصاد و سماجیات اور فنون و سیاست میں بندہ مومن اسلامی تعلیمات کا پابند ہوتا ہے۔
(2) شرعی سیاست کی کامل صورت ریاستی سطح پر غلبہ دین اور حصول اقتدار و سلطہ ہے۔ پیغمبر اسلام نے دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح سیاسی و ریاستی امور کے متعلق بھی مثالی ہدایات تعلیم فرمائی ہیں۔
(3) قرآن کریم میں اسلامی اقتدار و حکومت کے چار بنیادی اہداف و مقاصد بیان کیے گئے: ریاستی سطح پر نظام صلاۃ و زکاۃ نافذ کرنا اور حکومتی و قومی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا،
(4) اسلامی تصور حکومت وسیاست میں نظریاتی وعملی طور پر اقتدار اعلیٰ خالق و مالک کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ حاکم و رعایا میں سے کسی کو منصب و عہدہ کی وجہ سے فرائض و واجبات کی انجام دہی میں استثنا حاصل نہیں ہوتا۔
(5) اسلامی نظام حکومت وسیاست میں جس قدر کوئی بلند منصب و مرتبے پر فائز ہوتا ہے، اسی قدر اس کے فرائض و ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے۔
(6) اسلامی نظام سیاست و حکمرانی میں شرعی امام کا انتخاب اصحاب رائے کی مشاورت سے ہوتا ہے۔ منتخب کردہ فرد ہی تاحیات حاکم ملک و امام ریاست ہوتا ہے۔
(7) اسلامی نظام حکومت وسیاست میں حصول منصب کے خواہش مند کو ذمہ داری سونپے جانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
(8) اسلام ریاست میں شرعی امام کا انتخاب حسب و نسب، خاندانی عزت و وقار، مال و دولت اور شرف و ناموری کی بنیاد پر نہیں ہوتا،بلکہ ایمان و تقویٰ، اخلاق و دینداری، صدق و امانتداری، فہم و فراست اور استعداد و قابلیت جیسی اعلیٰ صفات و کمالات شرعی امام کے بنیادی اوصاف میں شامل ہوتے ہیں۔
(9) اسلامی سیاست میں ہر فرد ذمہ دار ہوتا ہے اور وہ اپنی ذمہ داری اور اپنے ماتحت افراد کے متعلق جواب دہ ہوتا ہے۔ امیر ریاست کو مسلم رعایا کا نگہبان ٹھہرایا گیاہے ۔ مرد کو اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار قرار دیا گیاہے ، عورت کو خاوند کے گھر بار اور بال بچوں کی محافظ بتایا گیا ہے اور خادم کو مالک کے اموال و متاع کا ذمہ دار گردانا گیا ہے۔
(10) شرعی سیاست کے تحت قائم ہونے والی اسلامی ریاست کے باسی مضبوط فکر و عمل کے حامل اور اعلیٰ اخلاق و گفتار کے مالک ہوتے ہیں۔ اخوت و بھائی چارگی، ہمدردی و خیر خواہی، تقویٰ و للہیت اور صبرو قناعت ان کا شعار ہوتا ہے۔
(11) اسلامی ریاست کے باشندے دعوت و جہاد اور جذبہ جاں نثاری سے لبریز ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مطمح نظر رضائے الٰہی، حصول جنت اور غلبہ دین ہوتا ہے۔
(12) اسلام میں ایسی سیاست و دعوت کا کوئی تصور نہیں جس میں دین و دنیا کی تفریق ہو اور انسان انفرادی واجتماعی، سماجی و معاشی اور تہذیبی و سیاسی معاملات میں بالکل آزاد اور شتر بے مہار ہو۔
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے