اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
واقعہ معراج کے ظہور کی حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس واقعہ کے رونما ہونے کی تاریخ کے بارے میں کم ع بیش ۲۰ سے زائد اقوال ہیں۔جیسا کہ بعض کے نزدیک یہ واقعہ جیسا کہ بعض کے نزدیک یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔بعض کے نزدیک ربیع الاول میں،بعض نے حجرت کے بعد ،بعض نے حجرت سے پہلے کہا۔غرض یہ کہ اس واقعہ کی صحیح تاریخ ،صحیح مہینہ کسی صحیح حدیث سے یقینی طور پر ثابت نہیں ۔ لہذا ۲۷ رجب کو شب معراج سمجھنابلکل غلط ہے۔ اور اگر بالفرض یہ ثابت ہو بھی جائے کہ ۲۷ رجب یہ شب معراج ہے تب بھی اس رات چراغاں کرنا ،نئے کپڑے بنانا ،حلوہ بنانا نا جائز اور حرام ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں واقعہ معراج کے بعد اس رات کسی خصوصی عبادت کا نہ تو اہتمام کیا اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ۲۷ رجب کی شب خصوصی عبادت کےبارے میں ہے ۔نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ،نہ امہات المومنین ،نہ عشرہ مبشرہ نے اس رات خاص کر جاگ کر عبادت کی ۔نئے کپڑے بنائے ،چراغاں کیے ، حلوے بنائے ،قبرستان گئے اور نہ دن کو روزہ رکھا ۔لہذا ایسے تمام طریقوں اور کاموں سے بچنے کی ضرورت ہے جو دین کے نام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایجاد کر لیے گئے ہوں۔
شیخ محمد صالح العثمین رحمۃاللہ فرماتے ہیں۔
"۲۷ رجب یا ۱۵ شعبان کی رات کے دن خوشی و مسرت کے اظہار کی کوئی دلیل نہیں ہے ،بلکہ اس طرح کے کاموں کی مخالفت کی دلیل موجود ہے ۔لہذا جب اس طرح کی محفلوں میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ان میں کسی مسلمان کو شرکت نہیں کرنی چاہیے ،کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
وإياکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة
{ دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔}
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1219
{فتاوٰی اسلامیہ:۴/۵۳۳}