• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

3 سوالات پر فتویٰ جات

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کاتہ،

1۔کیا قرآن پڑھ کر کسی کو بخشوایا جا سکتا ہے؟
2۔اگر بچے کوئی گناہ کریں ، تو روز قیامت کیا والدین سے اس کا سوال کیا جائے گا؟ اگر اولاد کے نیک اعمال والدین کے لیے اجر کے باعث
ہیں ،تو کیا اولاد کے گناہ پر بھی والدین سے پوچھ گچھ ہو گی؟؟
3۔کیا "منزل" پڑھنا جائز ہے؟ جبکہ اس میں قرآنی آیات ے سوا کچھ نہیں!

یہ سوالات کسی نے مجھ سے پوچھے ہیں۔اور
ان سوالات کا جوابات مع دلیل قرآن و حدیث سے مطلوب ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
ميت كو صدقہ كا فائدہ پہنچنا !!!

ميرے والد صاحب رحمہ اللہ تعالى فوت ہو چكے ہيں، ميں ان كى روح كے ليے صدقہ جاريہ كرنا چاہتا ہوں، ہو سكتا ہے اس بنا پر ان كى نيكيوں ميں اضافہ ہو اور رب تعالى كے ہاں ان كے درجات بلند ہوں، مثلا ميں ان كى جانب سے مسجد تعمير كروں، يا علمى كتاب طبع كروں جس سے مسلمانوں كو فائدہ پہنچے، ليكن ايك مولانا صاحب نے ہميں فتوى ديا ہے كہ اس كا كوئى فائدہ نہيں، كيونكہ يہ اس كے مال ميں سے نہيں ہے، صدقہ جاريہ كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اس نے اپنى زندگى ميں وفات سے قبل اپنے مال سے كيا ہو، اور يہ اس كى وفات تك موجود اور جارى رہے، تو كيا مولانا صاحب كى يہ بات صحيح ہے؟

اور اگر صحيح نہيں تو مجھے فتوى ديں اور بتائيں كے ميرے ليے كونسا طريقہ افضل ہے جس سے ہمارے فوت شدہ والد كو فائدہ پہنچ سكتا ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

الحمد للہ :

اہل علم متفق ہيں كہ دعا و استغفار، اور صدقہ، اور حج كا ثواب ميت كو پہنچتا ہے.
دعا و استغفار كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
{اور وہ لوگ جو ان كے بعد آئے وہ يہ دعا كرتے ہيں اے ہمارے رب ہميں اور ہمارے ان بھائيوں كو بخش دے جو ايمان لانے ميں ہم سے سبقت لے چكے ہيں}.
اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اپنے بھائى كے ليے استغفار كرو، اور اس كے ليے ثابت قدمى كى دعا كرو، كيونكہ اس وقت اسے سوال كيا جا رہا ہے"
اور ايك دوسرى حديث ميں فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:
" جب تم نماز جنازہ ادا كرو تو ميت كے ليے اخلاص كے ساتھ دعا كرو"
اور ميت كى جانب سے صدقہ كى دليل صحيحين كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كي ميرى والدہ كو اچانك موت نے آليا، ميرا خيال ہے كہ اگر وہ بولتى تو صدقہ ضرور كرتى، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا اسے اجروثواب حاصل ہو گا؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جى ہاں"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1388 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1004 )
اور صحيح بخارى ميں ہى سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:
" ان كى غير موجودگى ميں ان كى والدہ فوت ہو گئى، تو انہوں نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہو گئى ہے، اور ميں موجود نہيں تھا، اگر ميں اس كى طرف سے صدقہ كروں تو كيا اسے فائدہ ہو گا؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جى ہاں"
تو سعد رضى اللہ تعالى كہنے لگے: آپ گواہ رہيں كہ ميرا مخراف والا باغ اس كى طرف سے صدقہ ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2756 ).
اور ميت كى طرف سے حج كى دليل وہ حديث ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك عورت نے حج كے بارہ سوال كيا تو رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مجھے يہ بتاؤ كہ اگر تمہارى والدہ كے ذمہ قرض ہوتا تو كيا تم اسے ادا كرتيں؟ تو وہ عورت كہنے لگى: جى ہاں،
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تو پھر اللہ تعالى كا قرض ادائيگى كا زيادہ حق ركھتا ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6699 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1148 )
اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس سے آپ كو علم ہو گيا ہو گا كہ ميت كى جانب سے صدقہ كرنا اسے فائدہ ديتا ہے، اور اس كا ثواب اس تك پہنچتا ہے.

ميت كى طرف سے نماز كے متعلق ايك ضعيف حديث بيان كى جاتى ہے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم شريف كے مقدمہ ميں عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے اس حديث كو ضعيف كہنے كے بعد كہا:
صدقہ ميں ( يعنى ميت كى جانب سے صدقہ ميں ) كوئى اختلاف نہيں ہے. اھـ

امام نووى رحمہ اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:

قولہ: ( صدقہ ميں كوئى اختلاف نہيں ) اس كا معنى يہ ہوا كہ يہ حديث قابل حجت نہيں، ليكن جو شخص اپنے والدين كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى كرنا چاہتا ہے، تو وہ ان كى جانب سے صدقہ و خيرات كرے، كيونكہ صدقے كا اجروثواب ميت كو پہنچتا ہے، اور اسے اس سے فائدہ ہوتا ہے، اس ميں مسلمانوں كا كوئى اختلاف نہيں، اور صحيح بھى يہى ہے.

اور شافعى فقيہ قاضى القضاۃ ابو الحسن الماروردى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب الحاوى ميں اصحاب كلام سے جو يہ بيان كيا ہے كہ ميت كو ثواب نہيں پہنچتا يہ مذھب قطعا باطل اور واضح غلط اوركتاب وسنت كى نصوص اور اجماع كے خلاف ہے، اس كى طرف التفات نہيں كيا جا سكتا، اور نہ ہى اس پر اعتماد كيا جاسكتا ہے.

اور نماز، اور روزہ كے بارہ ميں امام شافعى رحمہ اللہ تعالى اور جمہور علماء كرام كا مسلك يہ ہے كہ ان دونوں كا ثواب ميت كو نہيں پہنچتا، ليكن اگر ميت كے ذمہ روزے واجب اور فرض ہوں تو اس كى طرف سے اس كا ولى يا جسے ولى اجازت دے قضاء ميں ركھے گا، اس ميں امام شافعى كے دو قول ہيں، ان ميں سے مشہور قول يہ ہے كہ يہ صحيح نہيں، اور ان دونوں اقوال ميں زيادہ صحيح قول يہ ہے كہ يہ صحيح ہے.
اور رہا قرآن مجيد كى تلاوت كا تو امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كا مشہور مذہب يہى ہے كہ اس كا ثواب ميت كو نہيں پہنچتا.

اور ان كے بعض ساتھيوں كا كہنا ہے كہ: اس كا ثواب ميت كو پہنچتا ہے، اور علماء كرام كى ايك جماعت كا مسلك يہ بھى ہے كہ ہر قسم كى عبادت روزہ نماز، اور تلاوت وغيرہ كا ميت كو ثواب پہنچتا ہے.....

پھر امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے بيان كيا ہے كہ: دعا اور صدقہ، اور حج كا ثواب بالاجماع ميت كو پہنچتا ہے. اھـ
كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
اور تحفۃ المحتاج ميں كہتے ہيں:

" اور ميت كى جانب سے كيا گيا صدقہ اسے فائدہ ديتا ہے، اور اس ميں مصحف و قرآن مجيد وقف كرنا بھى شامل ہے، اور كنواں كھودنا، اور درخت لگانا، وہ ميت اپنى زندگى ميں يہ كام كرے يا اس كى موت كے بعد كوئى بھى اس كى جانب سے كرے. اھـ
ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 7 / 72 ).

اور آپ كے والد كو سب سے زيادہ نفع اور فائدہ دينے والا طريقہ يہ ہے كہ آپ كو چاہيے كہ اس كے ليے كثرت سے دعاء استغفار كرے، فرمان بارى تعالى ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
{اور كہہ ديجيے اے ميرے رب ان دونوں ( والدين ) پر رحم كر جس طرح انہوں نے بچپن ميں ميرى پرورش كى}.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب انسان مر جاتا ہے تو اس كے اعمال رك جاتے ہيں، مگر تين اعمال ايسے ہيں جو جارى رہتے ہيں، صدقہ جاريہ، يا فائدہ مند علم، يا نيك اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعاء كرے"
صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 1631 ).
اور صدقہ كے متعلق يہ ہے كہ صدقات ميں سب سے بہتر اور افضل صدقہ جھاد فى سبيل اللہ ميں خرچ كرنا اور مساجد كى تعمير اور كتابيں چھپوا كر طلباء كى مدد و معاونت كرنا، يا انہيں اتنا مال دينا جس كے وہ محتاج اور ضرورتمند ہيں.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
اولاد كو تنگ اور چھوٹا لباس پہنانا اور بيوى كا اس پر اعتراض كرنا

قريب البلوغت اولاد كو شارٹ لباس پہنانے كاحكم كيا ہے ؟

اور اگر ميرى بيٹى پردہ كرنے اور برقع پہننے سے انكار كر دے تو ميں كيا كروں ؟

اپنے خاوند كے ساتھ كيا طريقہ اختيار كروں كيونكہ وہ بہت سخت ہے اور ميں اس سے بہت پريشانى اور تنگ ہوں وہ چاہتا ہے كہ ہمارى اولاد ہر حرام كام سے اجتنناب كرے چاہے وہ خود اس كا ارتكاب كرتا ہو، ميں اس عالم دين كے ساتھ كيا طريقہ اختيار كروں، ان دنوں جتنے لوگ بھى اسلام كى پيروى كر رہے ہيں وہ ہر چيز ميں تشدد اور سختى سے كام ليتے ہيں ان حالات ميں مجھے جو مشكلات اور تعصب كے اوقات ميں كس طرح اسلام كى تعليم حاصل كر سكتى ہوں ؟

كہتے ہيں كہ خاوند كى نافرمانى و معصيت جائز نہيں اگر ميں اس كے علم پر بھروسہ نہيں كرتى تو اس كى بات ماننے كے ليے ميں كيا كروں اور اس كا حل كيا ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

كشتياں اور بحرى جہاز جو سمندروں ميں چلتے ہيں اور اپنے اوپر كئى ايك اشخاص كو اٹھائے ہوئے ہيں وہ تو ان كے چلانے والے قائد اور كيپٹن كے علاوہ نہيں چل سكتے وہى انہيں چلاتے اور حركت ميں لاتے ہيں تا كہ اس ميں سوار لوگ امن و سلامتى كے ساتھ ساحل پر پہنچ سكيں.
اس وقت ايك مسلمان خاندان بھى بالكل ايك ايسى كشتى كى طرح ہى ہے جو فتنہ و فساد كى موجوں كے سمندر ميں چل رہى ہے، اور پھر دين كے دشمن جمع ہو كر مسلمان خاندان كے پيچھے پڑے ہوئے ہيں كہ اسے ہلاك اور قتل كر ديا جائے، اس كے ليے انہوں نے ہر قسم كے وسائل اور طريقہ اختيار كر ركھے ہيں.

كہيں عالمى كانفرنسيں ايك ملك سے دوسرے ملك منعقد كى جا رہى ہيں، اور انہيں عالمى تنظيميں اور منتظمين منعقد كر رہے ہيں، ان سب كا مقصد يہى ہے كہ مسلمان خاندان اور گھرانے كو ضائع اور تباہ كر ديا جائے، اور اس ميں جو ربط پايا جاتا ہے اسے تباہ كر كے خاندان كا شيرازہ بكھير ديا جائے اور اس كے افراد ميں سے شرم و حياء جيسى چيز چھين لى جائے اور ان كى عفت و عصمت قتل كر دى جائے.

اور پھر يہ فضائى چينل اور پرنٹ ميڈيا اور ميگزين اور دوسرے وسائل اعلام سب ہى مسلمان خاندان ميں بہت ہى برا اور قبيح عمل كر رہے، سب كى ايك ہى غرض و غايت اور مقصد ہے پرنٹ اور اليكٹرانك ميڈيا كا مشاہدہ كرنے والے پر يہ چيز مخفى نہيں رہ سكتى.

ان متلاطم موجوں كے سائے ميں مسلمان خاندان كى كشتى چل رہى ہے، اور اگر اسے چلانے والا ملاح عقلمند و حكيم نہ ہو تو يہ كشتى تباہ ہو جائيگى اور سب ہلاك ہو جائيں گے.

خاندان كا سربراہ اس كشتى كا ملاح ہے، ہم اس باپ كو كوئى ملامت نہيں كرتے جو اپنى بيوى اور اولاد كے فتنہ و فساد ميں پڑ جانے كا خوف ركھتا ہو، اس فساد اور خرابيوں نے بہت زيادہ نقصان كيا ہے جسے خاندان كا سربراہ اكيلا روك سكے، اور اگر اس ميں يہ بھى شامل ہو جائے كہ اس كشتى كو كنٹرول كرنے اور چلانے ميں بيوى تعاون نہ كرے، بلكہ اگر وہ خاوند كى مخالفت كرنے لگے اور خاوند خاندان كى كشتى كو ان فتنوں اور خرابيوں سے بچانا اور نجات دلانا چاہے ليكن بيوى اس كى مخالفت كرنے لگے تو كيا حالت ہو جائيگى ؟!

سائلہ بہن: آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ معاملہ آسان اور سہل نہيں، آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے خاوند كے ليے بہتر معاون بن كر اپنے خاندان كے افراد كى اصلاح كريں، چاہے آپ ان احكامات اور فيصلوں سے متفق نہ بھى ہوں، تو بھى آپ كے ليے خاوند كى مخالفت صحيح نہيں، اور خاص كر جب اولاد سامنے ہو تو مخالفت مت كريں، كيونكہ اس كا اولاد كى تربيت پر غلط اثر پڑتا ہے.

ليكن اگر والد گھر كے افراد كو جو حكم دے رہا ہے اس ميں كوئى نہ كوئى شرعى نص پائى جاتى ہے جس كا شريعت حكم دے رہى ہے تو باپ بھى وہى كہہ رہا ہے.

يا پھر باپ اپنى اولاد كى اس ميں مصلحت ديكھتا ہے تو انہيں وہى حكم ديتا ہے جس ميں ان كى اصلاح ہے، يا پھر انہيں كسى خرابى اور غلط كام سے روكتا ہے.

دوسرے معاملہ ميں اگرچہ مناقشہ كى مجال ہے، ليكن پہلے معاملہ ميں تو بالكل ايسى كوئى مجال نہيں ہے، كيونكہ ہمارے سب معاملات و تصرفات پر شريعت حاكم ہے، اس كو قبول نہ كرنے اور اور نافذ نہ كرنے ميں ہميں كوئى اختيار حاصل نہيں ہے.

دوم:

ہمارى سوال كرنے والى بہن:
آپ علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كو اور آپ كے خاوند كو حكم ديا ہے كہ اپنے آپ كو جہنم كى آگ سے بچاؤ اور اسى طرح اپنى اولاد كو بھى جہنم كى آگ سے بچانے كا حكم ديا ہے، چنانچہ يہ معاملہ كوئى آسان اور سہل نہيں، بلكہ بہت ہى خطرناك ہے، اور آپ كا خاوند ہى اپنى رعايا اور گھر كے افراد كا ذمہ دار اور نگران نہيں بلكہ اسى طرح آپ بھى ذمہ دار ہيں، ان كے بارہ ميں آپ سے بھى باز پرس كى جائيگى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو اپنے آپ كو اور اپنے گھر والوں كو جہنم كى آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر سخت اور شديد فرشتے مقرر ہيں جو اللہ تعالى كى نافرمانى نہيں كرتے اور انہيں جو حكم ديا جاتا ہے اس پر عمل كرتے ہيں }التحريم ( 6 ).

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" تم سب ذمہ دار ہو، اور تم سب سے تمہارى ذمہ دارى اور رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا تم اس كے جوابدہ ہو، حكمران اپنى رعايا كا ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا وہ اس كا جوابدہ ہے، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے اس سے اس كى رعايا اور ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 853 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).

آپ يہ جان ليں كہ نہ تو بچوں كى تربيت شدت اور سختى سے كى جا سكتى ہے اور نہ ہى اس ميں سستى و كوتاہى ہو سكتى ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
والدين اپنى اولاد كى تربيت ميں كيا طريقہ اختيار كريں ؟

تو كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اولاد كى تربيت ميں كاميات ترين طريقہ يہ ہے كہ: اس ميں ميانہ روى اختيار كى جائے جس ميں نہ تو افراط ہو اور نہ ہى تفريط چنانچہ اس ميں نہ تو شدت ہونى چاہيے اور نہ ہى سستى و اہمال اور بےپرواہى.

اس ليے والد اپنى اولاد كى تربيت كرے اور انہيں تعليم دے اور ان كى راہنمائى كرے، اور انہيں اخلاق فاضلہ كى تعليم دے، اور آداب حسنہ سكھائے، اور انہيں ہر برے اورغلط اخلاق سے منع كرے اور روكے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 25 / 290 - 291 ).


سوم:

يہ علم ميں ركھيں كہ شريعت پرحكمت ہے، آپ كو حكم ديتى ہے كہ اپنى اولاد كو سات برس كى عمر ميں نماز كى تعليم دو اور انہيں نماز ادا كرنے كا كہو، اور يہ حكم ديتى ہے كہ جب وہ دس برس كے ہو جائيں تو ان كے بستر عليحدہ كر دو يہ اس ليے ہے كہ ان كى پرورش اچھى ہو، اور آئندہ مستقبل ميں ان كى اصلاح ہو جائے.

اگرچہ وہ ابھى مكلف نہيں ـ كيونكہ ابھى وہ بالغ نہيں ہوئے ـ ليكن يہ چيز اس ميں مانع نہيں كہ ان كے والدين اور گھر والے انہيں ان اصلاح والے كام كا حكم نہ ديں، بلكہ يہاں انہيں حكم دينے ميں تمہارے ليے بھى اور ان كے ليے بھى بہتر اور اصلاح كا باعث ہے.

اسى طرح ان كى بہتر معاملہ كرنے اور حسن اخلاق پر عمومى پرورش كرنا اور خاص كر شرم و حياء اور عفت و عصمت پر پرورش كرنى چاہيے، اس ميں شرمگاہ كى حفاظت بھى شامل ہے اور اسى طرح تنگ اور چھوٹا لباس پہننا بھى شرم و حياء اور عفت و عصمت پر اثرانداز ہوتا ہے يہ نہيں پہنانا چاہيے.

اور دوسرى جانب ايسا لباس پہنانے ميں دوسرے كے ليے شہوات انگيزى كا باعث بنتا ہے چاہے وہ گھر والے ہوں يا دوسرے اقرباء اور رشتہ دار جو بھى انہيں ديكھےگا شہوت انگيزى پيدا ہوگى.
شريعت اسلاميہ نے اس عمر ميں ان كے بستر عليحدہ كرنے كا حكم ديا ہے تو يہ كيسى ممكن ہو سكتا ہے كہ تمہارے يہ جائز قرار دے كہ تم انہيں اس عمر ميں بيدارى كى حالت ميں تنگ اور چست اور چھوٹا لباس پہناؤ ؟!

اس ليے آپ اس معاملہ كى علت كو سمجھيں اور ايسے كام اور فتنہ و فساد بننے كے سبب سے بچيں جس كا انجام سوائے سمندر كے پانى جتنے آنسوؤں كے كچھ نہيں ہے، اور نہ ہى كوئى ايسى فضا ہے جو غم و حسرت كو خوش آمديد كہے گى.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

ہم اكثر عورتوں كى مجلس ميں ديكھتى ہيں كہ نوجوان لڑكيوں اور چھوٹى بچياں جو سات برس كى عمر سے كم يا اس سے اوپر ہوتى ہيں انہوں نے چھوٹا يا تنگ لباس پہن ركھا ہوتا ہے، يا پھر انہوں نے يورپى سٹائل كا لباس زيب تن كر ركھا ہوتا ہے، يا چھوٹى بچيوں كے بالوں كى كٹنگ بچوں جيسى كى ہوتى ہے.

اور جب ہم ان سے اس سلسلہ ميں بات كرتى اور انہيں نصيحت كرتى ہيں تو جواب ديا جاتا ہے كہ ابھى تو يہ چھوٹى ہيں، برائے مہربانى آپ بچوں كے لباس اور ان كے بالوں كى كٹنگ كے بارہ ميں شافى جواب عنائت فرمائيں، اللہ تعالى آپ كو بركت سے نوازے.

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" يہ تو معلوم ہے كہ انسان صغر سنى ميں كسى چيز سے متاثر ہوتا ہے تو اس كا اثر بڑے ہو جانے كے بعد بھى باقى رہتا ہے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے كہ ہم اپنے بچوں كو سات برس كى عمر ميں نماز كا حكم ديں اور جب دس برس كى عمر كے ہو جائيں تو نماز ادا نہ كرنے پر انہيں ماريں؛ تا كہ وہ نماز كے عادى بن جائيں.

كيونكہ بچہ جس چيز كا عادى ہو جاتا ہے اس پر عمل كرتا ہے، اس ليے جب چھوٹى بچى تنگ اور چست اور گھٹنوں تك يا پھر كہنى يا كندھے تك چھوٹا لباس پہننے كى عادى بن جائيگى تو اس كى شرم و حياء جاتى رہےگى، اور وہ بڑى ہو كر اس طرح كے لباس كو جائز سمجھےگى.

اسى طرح بال كے متعلق بھى ہوگا، عورت كے ايسے بال ہونا ضرورى ہيں جن سے وہ مرد سے ممتاز ہو سكے، يعنى مردوں كے بالوں سے عورت كے بالوں ميں امتياز ہونا ضرورى ہے، اگر وہ عورت بھى مرد كے بالوں جيسے بال ركھتى ہے تو مردوں سے مشابہت ہوگى اور مردوں سے مشابہت كرنے والى عورت پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے.

اور يہ بھى علم ميں رہنا چاہيے كہ گھر والےان بچوں كے بارہ ميں جوابدہ ہيں، اور ان كى راہنمائى اور پرورش كے ذمہ دار ہيں انہيں اس كا جواب دينا ہوگا.

جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار اور راعى ہے اور اس سے اس كى رعايا اور ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا "
اس ليے اس ميں كوتاہى اور سستى كرنے سے بچا جائے، اور انسان كو اپنى اولاد كى تربيت كرنے ميں حقيقت سے كام لينا چاہيے اور اس كى حرص ركھے حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى ان كى اصلاح فرما دے، اور وہ اس كى آنكھوں كى ٹھنڈك بن سكيں " انتہى
ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 66 / 10 ).

چہارم:

جب بچى صغر سنى اور بچپن ميں شرم و حياء اور عفت و عصمت پر پرورش پائيگى تو بلوغت سے قبل ہى وہ سر پر چادر اوڑھنے اور برقع پہننے كى رغبت ركھےگى، اور بچپن ميں والدين كى سستى اور كوتاہى كى بنا پر اگر بڑى ہونے كے بعد وہ ساتر اور عفت و حشمت والا لباس زيب تن نہيں كرتى تو والدين كو اس كا علاج وعظ و نصيحت كے ساتھ كرنا چاہيے اور اگر يہ فائدہ مند نہ ہو تو پھر اس كے ساتھ ذرا سخت اسلوب اختيار كيا جائے تا كہ اسےاس كى رغبات سے باز ركھا جائے اور اسے اپنى مرضى نہ كرنے دى جائے.

كيونكہ اگر تم اس كے لباس كے بارہ ميں خاموشى اختيار كروگے تو پھر وہ برقع پہننے اور پردہ كرنے سے بھى انكار كر دے گى، اور ساتر لباس بھى زيب تن نہيں كريگى، اور بعض دوسرى اشياء كے ارتكاب پر بھى جرات كرنے لگےگى.

اور يہى كشتى ڈوبنے كى علامت و نشانى ہے! كہ فيصلے بچوں كے ہاتھ ميں چھوڑ ديے جاتے ہيں، ہم تاكيدا كہتے ہيں كہ ابتدا نرمى اور شفقت كے ساتھ كى جائے، اور ان كى اصلاح سے نااميدى نہ ركھى جائے، اور نہ ہى ابتدائى طور پر شديد سختى سے كام ليا جائے، ليكن جب كشتى كا ملاح ديكھے كے سختى كے بغير كام نہيں چلتا تو پھر عقلمندى سے استعمال كرے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بچى كے ليے كس عمر ميں پردہ كرنا واجب ہے، اور كيا ہم طالبات پر پردہ كرنا لازم كر ديں چاہے وہ ايسا كرنا ناپسند بھى كرتى ہوں ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" جب بچى بالغ ہو جائے تو اس پر ايسا لباس پہننا واجب ہو جاتا ہے جو اس كے ستر كو چھپائے، اور اس ميں چہرہ اور سر اور دونوں ہاتھ شامل ہيں، چاہے وہ شاگرد طالبات ہوں يا نہ لڑكى كے ولى كو چاہيے كہ وہ اپنى بچى پر اسے لازم كرے چاہى بچى ناپسند بھى كرتى ہو.

بچى كے اولياء كو چاہيے كہ وہ بچى بالغ ہونے سے قبل ہى بچى كى تربيت كرے تا كہ وہ بالغ ہونے سے قبل ہى پردہ اور ساتر لباس پہننے كى عادى بن جائے، اور بالغ ہونے پر اس كے ليے اطاعت كرنے ميں كوئى مشكل پيش نہ آئے " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 219 - 220 ).

اس ليے آپ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى اور اپنى اولاد كى تربيت ميں اپنے خاوند كى بہتر معاون بنيں، اور شريعت پر عمل كرنے كے متعلق دشمنان دين كى بات يہ تشدد پسندى اور سختى ہے جيسے الفاظ كہہ كر دين كے دشمنوں كے ساتھ مت مليں.

اور آپ كا خاوند اپنے بارہ ميں جو كوتاہى كرتا ہے اس كے بارہ ميں آپ اسے وعظ و نصيحت كريں اور اسے سمجھائيں اور اللہ رب العالمين كا خوف دلائيں، اور اس كى اس كوتاہى اور كمى كو اولاد كى كمى اور كوتاہى كے ليے جواز مت بنائيں.

اور آپ صيحح طرح امانت كى ادائيگى كے ليے اللہ رب العالمين سے مدد مانگيں.

اللہ رب العالمين سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو وہ كام كرنے كى توفيق دے جس ميں اللہ كى رضا اور خوشنودى ہے.


واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
فوت شدگان كے ليے قرآن خوانى كا حكم

ميرے والد صاحب فوت ہو چكے ہيں اپنى عمر كے آخرى چار برس بيمار رہے اور رمضان المبارك ميں فوت ہوئے تو ان كى عمر باون برس ( 52 ) تھى وہ فالج اور شوگر اور بلڈ پريشر كے مريض تھے نہ تو حركت كر سكتے تھے اور چلنے پھرنے سے بھى قاصر تھے.

ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ آيا ان كے ليے نمازوں سے چھٹكارا يا خلاصى كى كوئى صورت ہے، بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ اس طرح ہو سكتا ہے كہ كوئى مشائخ اور پيروں كے ذريعہ ان پر قرآن مجيد پڑھا جائے يہ كام وہى كر سكتے تھے تو ايسا ہو سكتا ہے، ليكن بعض رائے اس كے مخالف ہيں، ميں سوال كا جواب چاہتا ہوں، اور پھر والد صاحب پر آخرى ايام كے روزوں كا كفارہ بھى ہے يا نہيں كيونكہ وہ خطرناك مرض كا شكار تھے يا كہ ان كے ليے نمازوں سے چھٹكارا كے ليے لوگوں كے كہنے كے مطابق قرآن خوانى كى جائے ؟

الحمد للہ:

اول:

قرآن مجيد كى تلاوت كرنا خالصتا بدنى عبادات ميں شامل ہوتا ہے، فوت شدہ كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كر كے اجرت لينا جائز نہيں، اور قرآن خوانى كرنےوالے كو اجرت دينا بھى جائز نہيں ہے، بلكہ اس ميں اجروثواب بھى نہيں ہے، اور اس حالت و صورت ميں اجرت دينے اور لينے والا دونوں ہى گنہگار ہونگے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قرآت پر كسى شخص كو اجرت اور مزدورى پر لانا اور قرآت فوت شدہ شخص كو ہديہ كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ كسى بھى امام سے منقول نہيں، بلكہ علماء كرام كا كہنا ہے:

" مال كى بنا پر قرآت كرنے والے قارئ كو كوئى اجروثواب نہيں ملتا، تو جب اسے ہى ثواب حاصل نہيں ہو رہا تو وہ ميت كو كيا دے گا " انتہى

اس ميں اصل يہ ہے كہ: عبادات حظر و ممانعت پر مبنى ہيں، اس ليے عبادت اسى صورت ميں ہى كى جائيگى جب اس كى مشروعيت پر كوئى شرعى دليل مل جائے.

فرمان بارى تعالى ہے:
{ اور تم اللہ تعالى كى اطاعت كرو، اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت كرو }.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "
اور ايك روايت ميں فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم كچھ اس طرح ہے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس امر ( دين ) ميں كوئى نيا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

اور يہ عمل فوت شدگان كے ليے قرآن خوانى كے ليے اجرت اور قرآن خوانى ايسا عمل ہے ہمارے علم كے مطابق تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ خود ايسا عمل كيا اور نہ ہى آپ كے صحابہ كرام ميں سے كسى نے، اور پھر سب سے بہتر اور اچھا طريقہ تو محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے اور برا ترين طريقہ دين ميں بدعات ہيں.

اور سارى خير و بھلائى تو اسى ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كى اچھے قصد كے ساتھ پيروى كى جائے.

فرمان بارى تعالى ہے:
{ اور جو كوئى اپنے آپ كو اللہ كے مطيع كر دے اور وہ مسحن ہو تو اس نے مظبوط رسى كو تھاما }.
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
{ ہاں بلكہ جو اپنے آپ كو اللہ كا مطيع كر دے اور وہ احسان كرنے والا ہو تو اس كے ليے اس كے پروردگار كے ہاں اجروثواب ہے اور نہ تو اسے كوئى غم ہو گا اور نہ ہى وہ پريشان ہونگے }.
اور سارے كا سارا شر و برائى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كى مخالفت اور اللہ كے علاوہ كسى دوسرے كے ليے عمل كرنا ہے. انتہى
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ.

لہذا اس عمل كى شريعت ميں كوئى دليل اور اصل نہيں ملتى، بلكہ يہ مذموم بدعت ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو خود ايسا كيا اور نہ ہى اس عمل كى طرف ہمارى راہنمائى فرمائى، اور پھر آپ كے بعد صحابہ كرام ميں سے بھى كسى ايك نے ايسا عمل نہيں كيا، اس ليے ايسے عمل كو مومن اور مسلمان شخص كے ليے سرانجام دينا جائز نہيں.

دوم:

ميت كے ليے تو مشروع يہ ہے كہ اس كے ليے دعا كى جائے اور اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كى جائے، جيسا كہ درج ذيل روايت ميں مذكور ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس كے اعمال منقطع ہو جاتے ہيں ليكن تين قسم كے عمل جارى رہتے ہيں: صدقہ جاريہ يا پھر نفع مند علم جس سے فائدہ حاصل كيا جاتا رہے، يا نيك و صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1631 ).
امام نووى رحمہ اللہ اس حديث كي شرح ميں كہتے ہيں:
" اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ دعا كا ثواب ميت كو پہنچتا ہے، اور اسى طرح صدقہ كا بھى، ليكن قرآن خوانى كرنا اور ميت كو ايصال ثواب اور قرآن خوانى كا ثواب ميت كو ہديہ كرنا، اور اس كى جانب سے نماز ادا كرنا امام شافعى اور جمہور علماء كے ہاں يہ ميت كو نہيں پہنچتا " انتہى مختصرا

لہذا آپ اپنے والد كے زيادہ سے زيادہ اور بكثرت دعا كريں اور جتنى استطاعت ركھتے ہوں ان كى جانب سے صدقہ كريں، اور اگر والد نے حج يا عمرہ نہيں كيا تھا اور آپ كے ليے والد كى جانب سے حج اور عمرہ كرنا ممكن ہو اور استطاعت ركھتے ہوں تو حج و عمرہ بھى كريں، ان شاء اللہ يہ اسے فائدہ ديگا.

اور فوت شدہ والد كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى ميں يہ بھى شامل ہے كہ والد كے دوست و احباب اور رشتہ داروں سے صلہ رحمى كى جائے.

اور مومن شخص كے ليے مرض و بيمارى تو اللہ تعالى گناہوں سے كفارہ بنا ديتا ہے، اور اسى طرح يہ اس كے درجات كى بلندى كا باعث ہے ليكن اس كے صبر و تحمل اور اجروثواب كى نيت ركھنا شرط ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مسلمان شخص كو جو بھى تكليف اور مصيبت اور غم و پريشانى اوراذيت آتى ہے، حتى كہ اسے جو كانٹا لگتا ہے اسے اللہ تعالى اس كے گناہوں كا كفارہ بنا ديتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5642 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2573 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمان فوت شدگان پر رحم فرمائے.

واللہ اعلم.
الاسلام سوال و جواب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا کثیرا بھائی
منزل کے متعلق بھی حکم مطلوب ہے۔۔۔کیا پڑھنی جائز ہے؟
کوئی اس کے متعلق علم رکھتا ہو تو ضرور شئیر کریں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
منزل خواتین مین بہت “مقبول” ہے۔ خود میری بیگم بھی اسے پڑھتی ہیں (ابتسامہ)
یہ درست ہے کہ منزل میں سب کی سب قرآنی آیات ہیں۔ لیکن اس میں ایک خاص ترتیب سے آیات لکھی گئی ہیں اور یہ ترتیب غیر مسنون ہے۔ اس ترتیب سے قرآن کو کسی خاص مقصد کے لئے پڑھنا اور اسے نافع سمجھنا ۔۔۔ کم سے کم الفاظ میں “نامناسب” ہے۔ قرآن کی تلاوت اسی ترتیب سے کرنی چاہئے، جیسی کے مصحف میں موجود ہے۔ یا پھر اپنے معمولات میں ان سورتوں کی تلاوت کو شامل کریں جس کے متعلق احادیث موجود ہیں۔ جیسے سونے سے قبل معوذتین پڑھنا۔ سورۃ واقعہ پڑھنا، صبح شام سورۃ یسٰین پڑھنا وغیرہ یعنی اگر قرآن کی مخصوص سورتوں کی مخصوص اوقات میں تلاوت کاشیڈیول بنایا جائے تو یہ مسنون ہونا چاہئے، خودساختہ یا کسی بزرگ کا بنایا ہوا نہیں ہونا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top