• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(33)فقہ السیرۃ النبویہ Fiqh Us Seerat Un Nabavia(( ولادت نبوی اور جشن میلاد ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
فقہ السیرۃ النبویہ: سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تربیتی ، تنظیمی اور سیاسی رہنمائی

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))

ولادت نبوی اور جشن میلاد

(1) سرور کونین ﷺ کی ولادت و رسالت انسانیت کے لیے عظیم احسان ربانی ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت پر عرب رواج کے مطابق خوشی منائی گئی۔ آپ کے دادا جان نے عرب دستور کے مطابق آپ کی دعوت عقیقہ کی۔ اونٹ بکریاں ذبح کر کے وافر مقدار میں کھانا پکایا اور شرفائے مکہ کو دعوت عقیقہ میں مدعو کیا۔

(2) عام معمول سے ہٹ کر آپ کی ولادت سعید پر کچھ نہیں کیا گیا۔ آپ کے خاندان کو مستقبل میں آپ کو نبوت سے سرفراز کیے جانے کا علم نہ تھا۔ بصورت علم ممکن تھا کہ آپ کی ولادت پر رائج الوقت طریقے کے علاوہ کوئی خاص انداز خوشی اختیار کر لیا جاتا ، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

(3) تعلیمات نبویہ میں مروجہ میلاد کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ عہد نبوی، عہد صحابہ اور بعد کی کئی صدیوں میں اس کا تذکرہ تک دکھائی نہیں دیتا۔

(4) مروجہ میلاد کا آغاز ہی آپ کے وصال پر ملال کے طویل عرصہ بعد ہوا۔ چوتھی صدی ہجری میں فاطمی حکمرانوں نے اس کی ابتداء کی۔انھوں نے میلاد النبی، میلاد فاطمہ اور میلاد حسن و حسین جیسے کئی ایک میلاد ایجاد کیے۔

(5) تب بھی میلاد النبی کا کوئی خاص اہتمام نہ کیا جاتا تھا۔ اس آغاز کے دو صدیوں بعد چھ ہجری میں شاہِ اربل مظفر الدین کوکبوری نے بڑے اہتمام اور دھوم دھام سے میلاد کا آغاز کیا۔

(6) گرد و نواح کے کثیر لوگ اس کے ہاں اکٹھے ہوتے۔ ماہرین فن ، شعراء ، گویے اور واعظین اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے۔ یہ سلسلہ کئی ایام تک جاری رہتا۔ حاضرین میلاد کی خوب ضیافت کی جاتی اور انھیں مال و دولت سے نوازا جاتا۔ گانے موسیقی کی مجلس میں شاہ اربل بھی شریک ہوتا اور رقص کرنے والوں کے ساتھ خود بھی رقص کرتا۔

(7) ابن دحیہ نامی مفاد پرست آدمی نے میلاد کی تائید میں کتاب لکھ ڈالی۔ بادشاہ نے خوش ہو کر اسے گراں قدر انعام دیا۔ ابن دحیہ پر علمائے جرح و تعدیل نے شدید نقد کیا ہے اور اس کی حقیقت و اصلیت آشکار کی ہے۔ واشگاف انداز میں بتایا ہے کہ اس کی دینی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔

(8) ابن دحیہ بڑے بڑے بے بنیاد دعوے کیا کرتا تھا اور ائمہ دین کی تنقیص و بے ادبی سے بھی باز نہ آتا تھا۔ اس سے ابن دحیہ کی تائید میلاد میں لکھی گئی کتاب کی حیثیت کا بھی اندازا لگایا جا سکتا ہے۔ اس نے بادشاہ کی خوشنودی کے لیے کیا کچھ لکھا ہو گا۔

(9) فی زمانہ مروجہ میلاد کی اس سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں۔ مسلمانوں کے سالانہ خوشی کے دو ہی تہوار ہیں۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ ان دو کے علاوہ تیسری عید میلاد النبی کا کہیں کوئی وجود نہیں ملتا۔

(10) علمائے امت نے مروجہ میلاد بالکل غیر شرعی اور نہ روا قرار دیا ہے۔ میلاد کے انداز خوشی سے بھی اس کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ میلاد کے جلوس، شور و غوغا، بے پردگی، مرد و زن کا اختلاط، کئی طرح کا انداز اسراف و فضول خرچی اور دیگر کئی ایک غیر شرعی امور۔ یہ سب غیر شرعی امور مروجہ میلاد کا حصہ ہیں ،

(11) دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی جشن نبوی کے بجائے مشن نبوی کو اپنانے میں ہے۔ رسول مقبول کی ذات گرامی سے محبت ایمان کا حصہ ہے لیکن آپ سے محبت و عقیدت کے اظہار میں بھی بندہ مومن شرعی ہدایات اور اسوئہ نبوی کا پابند ، یہی حکم ربانی اور شیوہ مسلمانی ہے،
_________
 
Top