- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
فقہ السیرۃ النبویہ: سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تربیتی ، تنظیمی اور سیاسی رہنمائی
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
لادت نبوی اور اہل استشراق و الحاد
(1) پیغمبر اسلام ﷺ اور دین اسلام پر ہرزہ سرائی کرنا اہل استشراق و الحاد کی فطرت ہے۔ جہاں حسد و عداوت اور کذب و افترا بازی ہو ، وہاں مخالف فریق پر طعن و تشنیع اور الزام تراشی کا رستہ نکال ہی لیا جاتا ہے۔ کینہ پرور ملحدین کا بھی اسلام کے بارے میں یہی رویہ ہے۔
(2) رسول مکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کا کوئی ایسا گوشتہ نہیں جس پر اہل استشراق نے اعتراض نہ کیا ہو۔ آپ کی حیات مبارکہ کا کوئی ایسا حصہ نہیں جو اہل حقد کے مسموم نشتر سے محفوظ ہو ۔ آپ کی ولادت باسعادت سے لے کر آپ کے وصال پرملال تک کے تمام ادوار و مراحل پر طعنہ جوئی کی گئی۔
(3) آپ کی ولادت طیبہ کے بارے میں اہل کذب و کفر نے زبان درازی کی اور آپ کے نسب مبارک کو ہدف تنقیص بنایا۔ آپ کی والدہ محترمہ پر غلط کاری کا سنگین الزام لگایا۔
(4) اہل الحاد و استشراق کا یہ الزام بھی دیگر کذبات کی طرح بے بنیاد اور کذب و افترا پر مبنی ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ جناب عبداللہ سے نکاح کے بعد امید سے ہوئیں۔
(5) آپ کے والد گرامی تجارت کی غرض سے شام گئے۔طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے واپسی پر مدینہ میں ٹھہر گئے۔ مدینہ ہی میں ان کا انتقال ہوا اور وہی ان کی تدفین ہوئی۔ آپ کی ولادت باسعادت حالت یتیمی میں ہوئی۔
(6) باطل پرست اہل استشراق تو مشرکین مکہ سے بھی بازی لے گئے۔ عہد نبوی کے آپ کے شدید مخالفین نے ایسا کبھی ایک حرف تک ادا نہیں کیا۔ حالانکہ وہ تو ملحدین سے بڑھ کر آپ کو جانتے اور آپ کے حریف تھے۔
(7) اہل عرب کے ہاں حسب و نسب کی بہت اہمیت تھی۔ عرب معاشرے میں تو خاندانی اور آزاد عورتوں کا فعل شنیع کا ارتکاب کرنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس کا انداز سیدہ ہندہ کے وقت اسلام ان کے تاثرات سے لگایا جا سکتا ہے ۔
(8) آپ کے بلند حسب ونسب اور طہارت و پاکیزگی کے تو مشرکین مکہ بھی معترف تھے، شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر بہت اہمیت کی حامل ہے،دربار نجاشی میں انہوں نے آپ کے بلند حسب و نسب کا بھی تذکرہ کیا تھا اور نے کوئی اعتراز نہیں کیا ،
(9) شاہ روم ہرقل کے ساتھ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا تفصیلی مکالمہ کتب احادیث و سیرت میں موجود ہے۔ تب تک سیدنا ابوسفیان مسلمان بھی نہ ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان سے رسول مقبول ﷺ کے بارے میں کئی ایک سوال کیے تھے۔
(10) ایک سوال آپ کے حسب و نسب کے متعلق بھی تھا۔ اس کے جواب میں سیدنا ابوسفیان نے کہا تھا: ھُوَ فِینَا ذُو نَسَبٍ. آپ ہم میں اعلیٰ حسب و نسب کے حامل ہیں۔ شاہ روم نے بھی ان کی اس بات کی تائید کی کہ انبیاء ہمیشہ بلند حسب و نسب ہی کے حامل ہوتے ہیں۔
(11) تب کے حقیقت پسند عیسائی بادشاہ نے آپ کے پاکیزہ نسب کا اقرارکیا،آج کےعیسائیت بیزار کینہ پرور آپ کے نسب مبارک پر انگشت نمائی کرتے ہیں۔
(12) پیغمبر صادق و مصدق ﷺ نے فرمایا کہ میری ولادت شرعی نکاح کی صورت میں ہوئی ہے، نہ کہ عمل بد کے ذریعے۔سیدنا آدم سے لے کر میری ولادت تک میرے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی جاہلیت کے فعل شنیع کا مرتکب نہیں ہوا۔(المعجم الأوسط: 4728)
(13) انبیائے کرام علیہم السلام کی طہارت و جنابت پر انگشت نمائی بدطینت یہود کی روش ہے۔ انھوں نے سیدہ مریم علیہا السلام کی پاکدامنی پر حرف گیری کی۔ عہد حاضر میں مذہب بیزار جدید الحاد و تہذیب کے حامل معترضین بھی یہود ہی کے آلہ کار ہیں۔
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
لادت نبوی اور اہل استشراق و الحاد
(1) پیغمبر اسلام ﷺ اور دین اسلام پر ہرزہ سرائی کرنا اہل استشراق و الحاد کی فطرت ہے۔ جہاں حسد و عداوت اور کذب و افترا بازی ہو ، وہاں مخالف فریق پر طعن و تشنیع اور الزام تراشی کا رستہ نکال ہی لیا جاتا ہے۔ کینہ پرور ملحدین کا بھی اسلام کے بارے میں یہی رویہ ہے۔
(2) رسول مکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کا کوئی ایسا گوشتہ نہیں جس پر اہل استشراق نے اعتراض نہ کیا ہو۔ آپ کی حیات مبارکہ کا کوئی ایسا حصہ نہیں جو اہل حقد کے مسموم نشتر سے محفوظ ہو ۔ آپ کی ولادت باسعادت سے لے کر آپ کے وصال پرملال تک کے تمام ادوار و مراحل پر طعنہ جوئی کی گئی۔
(3) آپ کی ولادت طیبہ کے بارے میں اہل کذب و کفر نے زبان درازی کی اور آپ کے نسب مبارک کو ہدف تنقیص بنایا۔ آپ کی والدہ محترمہ پر غلط کاری کا سنگین الزام لگایا۔
(4) اہل الحاد و استشراق کا یہ الزام بھی دیگر کذبات کی طرح بے بنیاد اور کذب و افترا پر مبنی ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ جناب عبداللہ سے نکاح کے بعد امید سے ہوئیں۔
(5) آپ کے والد گرامی تجارت کی غرض سے شام گئے۔طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے واپسی پر مدینہ میں ٹھہر گئے۔ مدینہ ہی میں ان کا انتقال ہوا اور وہی ان کی تدفین ہوئی۔ آپ کی ولادت باسعادت حالت یتیمی میں ہوئی۔
(6) باطل پرست اہل استشراق تو مشرکین مکہ سے بھی بازی لے گئے۔ عہد نبوی کے آپ کے شدید مخالفین نے ایسا کبھی ایک حرف تک ادا نہیں کیا۔ حالانکہ وہ تو ملحدین سے بڑھ کر آپ کو جانتے اور آپ کے حریف تھے۔
(7) اہل عرب کے ہاں حسب و نسب کی بہت اہمیت تھی۔ عرب معاشرے میں تو خاندانی اور آزاد عورتوں کا فعل شنیع کا ارتکاب کرنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس کا انداز سیدہ ہندہ کے وقت اسلام ان کے تاثرات سے لگایا جا سکتا ہے ۔
(8) آپ کے بلند حسب ونسب اور طہارت و پاکیزگی کے تو مشرکین مکہ بھی معترف تھے، شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر بہت اہمیت کی حامل ہے،دربار نجاشی میں انہوں نے آپ کے بلند حسب و نسب کا بھی تذکرہ کیا تھا اور نے کوئی اعتراز نہیں کیا ،
(9) شاہ روم ہرقل کے ساتھ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا تفصیلی مکالمہ کتب احادیث و سیرت میں موجود ہے۔ تب تک سیدنا ابوسفیان مسلمان بھی نہ ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان سے رسول مقبول ﷺ کے بارے میں کئی ایک سوال کیے تھے۔
(10) ایک سوال آپ کے حسب و نسب کے متعلق بھی تھا۔ اس کے جواب میں سیدنا ابوسفیان نے کہا تھا: ھُوَ فِینَا ذُو نَسَبٍ. آپ ہم میں اعلیٰ حسب و نسب کے حامل ہیں۔ شاہ روم نے بھی ان کی اس بات کی تائید کی کہ انبیاء ہمیشہ بلند حسب و نسب ہی کے حامل ہوتے ہیں۔
(11) تب کے حقیقت پسند عیسائی بادشاہ نے آپ کے پاکیزہ نسب کا اقرارکیا،آج کےعیسائیت بیزار کینہ پرور آپ کے نسب مبارک پر انگشت نمائی کرتے ہیں۔
(12) پیغمبر صادق و مصدق ﷺ نے فرمایا کہ میری ولادت شرعی نکاح کی صورت میں ہوئی ہے، نہ کہ عمل بد کے ذریعے۔سیدنا آدم سے لے کر میری ولادت تک میرے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی جاہلیت کے فعل شنیع کا مرتکب نہیں ہوا۔(المعجم الأوسط: 4728)
(13) انبیائے کرام علیہم السلام کی طہارت و جنابت پر انگشت نمائی بدطینت یہود کی روش ہے۔ انھوں نے سیدہ مریم علیہا السلام کی پاکدامنی پر حرف گیری کی۔ عہد حاضر میں مذہب بیزار جدید الحاد و تہذیب کے حامل معترضین بھی یہود ہی کے آلہ کار ہیں۔