• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

Let it Grow

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155


عن ابن عمر عن النبي صلی الله عليه وسلم أنه أمر بإحفا الشوارب وإعفا اللحية
It was narrated from Ibn Umar (may Allah be pleased with them) that the Prophet (Allah's peace & blessings be on him) ordered trimming the moustache and letting the beard grow.
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مونچھوں کو کاٹنے اور داڑھی کو بڑھانے کا حکم دیا۔
[Sahih Muslim, the Book of Purification, Hadith: 601]
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہی حضرت عمر بن خطاب ہی ہیں جو ڈاڑی کو کاٹتے بھی تھے بلکہ ڈاڑی کی روایت کرنے والے تمام صحابہ ایک مشظ سے زیادہ ڈاڑی کاٹ ڈالتے تھے کیا ان کے عمل سے دلیل لی جا سکتی ہے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
یہی حضرت عمر بن خطاب ہی ہیں جو ڈاڑی کو کاٹتے بھی تھے بلکہ ڈاڑی کی روایت کرنے والے تمام صحابہ ایک مشظ سے زیادہ ڈاڑی کاٹ ڈالتے تھے کیا ان کے عمل سے دلیل لی جا سکتی ہے

دلیل پیش کریں بھائی۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
دلیل پیش کریں بھائی۔

دلیل کے ساتھ اگر اس بات کی بھی دلیل ہو جائے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور طریقہ موجود ہو اور وہ بھی تاکید سے تو کیا کسی صحابی کی بات کو لیا جا سکتا ہے۔۔؟؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
دلیل کے ساتھ اگر اس بات کی بھی دلیل ہو جائے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور طریقہ موجود ہو اور وہ بھی تاکید سے تو کیا کسی صحابی کی بات کو لیا جا سکتا ہے۔۔؟؟؟

داڑی کے بارے جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں سب کا معنی قریب قریب ہے اور وہ پانچ الفاظ ہیں :
أوفوا، وأرخوا، وأرجوا، ووفروا، وأعفوا
ان میں سے کسی بھی لفظ کا معنی یہ نہیں ہے کہ داڑی کو بالکل ہی چھوڑ دو وہ پانچ روایات درج ذیل ہیں :
1-

حديث عبدالله بن عمر رضي الله عنهما مرفوعاً: ((أحفوا الشوارب وأوفوا اللحى)) رواه مسلم.
2- حديث أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: ((جزوا الشوارب وأرخوا اللحى)) رواه مسلم، وجاء بلفظ (أرجوا) بالجيم.
3- حديث عبدالله بن عمر رضي الله عنهما مرفوعا: ((وفروا اللحى وأحفوا الشوارب)) رواه البخاري
4- حديث عبدالله بن عمر رضي الله عنهما مرفوعا: ((أنهكوا الشوارب وأعفوا اللحى)) رواه البخاري، ومسلم بلفظ (أحفوا الشوارب)

ان سب الفاظ کا معنی متقارب ہے :الترك والتوفير والتكثير
(أوفوا) کا لفظ ایفاء سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے :پورا ہو جانا اور کثیر ہو جانا چناں چہ تاج العروس میں لکھا ہے :
أوفى الشيء أي تمَّ وكثُر
اور دوسرا لفظ (أرخوا) وارد ہوا ہے جس معنی ہے لٹکانا صاحب تاج العروس رقم طراز ہیں :وأرخى الستر أسدله
اور تیسرا لفظ (أرجو) ہے جس کا معنی تاخیر ہے
اسی طرح چوتھا لفظ (وفِّروا) بولا گیا ہے جس کا معنی ہے : کثرت اور بہتات ہے جیسا کہ اس وضاحت تمام اہل لغت نے اس طرح کی ہے :قال ابن فارس في مقاييس اللغة: ( (وفر) كلمةٌ تدلُّ على كثرةٍ وتَمام)، وفي القاموس المحيط: (وفره توفيراً: كثَّره)، وفي لسان العرب: (وفَّره: كثَّره)
اسی طرح اعفا کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اس معنی بھی کثرت اور توفیر ہے جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نسان دہی کی ہے :لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد) ا.هـ، وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
ان تمام الفاظ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کثرت اور توفیر ہی مراد ہے اور جن صحابہ کرام نے داڑی کی روایت کو بیا ن کیا ہے ان ہی سے کٹوانا بھی ثابت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر کا عمل موجود ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ عبد اللہ بن عمر کو سنت پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے متبع سنت صحابی ہونے کا لقب دیا گیا ایک دفعہ جنگل سے گزر رہے تھے تو ایک جگہ بیٹھ کر آگئے پوچھا تو بتایا کہ یہاں ایک بار اللہ کے نبی نے قضائے حاجت کی تھی اس لیے وہاں جا کر بیٹھا اس صحابی کے بارے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس نے سنت کی مخالفت کی ہے اور کئی بار سنت ہی کی وجہ حضرت عبد اللہ نے اپنے باپ عمر بن خطاب سے جھگڑا بھی کیا ، اور یہی صحابی داڑی کی روایت بھی بیان کر رہے ہیں اور اصول بھی ہی ہے :الراوي أدرى بما روى
اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ نے اس حدیث کا معنی یہی مراد لیا ہے جس پر انھوں نے عمل کیا ہے اورمتعدد صحابہ سے یہ عمل ثابت ہے :حَ

دَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ زَمْعَةَ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: «كَانَ عَلِيٌّ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِمَّا يَلِي وَجْهَهُ»
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَيُّوبَ، مِنْ وَلَدِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، قَالَ: «كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ»
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ يَأْخُذُ مِنْ عَارِضِ لِحْيَتِهِ»
حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ: «أَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ، وَلَا يُوجِبُهُ»
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقُبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، وَوَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ مَا فَوْقَ الْقُبْضَةِ»، وَقَالَ وَكِيعٌ: مَا جَاوَزَ الْقُبْضَةَ "
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ جَابِرٌ: «لَا نَأْخُذُ مِنْ طُولِهَا إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ»
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: «أَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مَا جَاوَزَ الْقُبْضَةَ»
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «كَانُوا يُطَيِّبُونَ لِحَاهُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنْ عَوَارِضِهَا»

اسی طرح جمہور علما اور محدثین نے بھی تمام احادیث اور آثار کو سامنے رکھ کر جواز کا فتوی دیا ہے واللہ اعلم بالصواب
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
قال الطيبي في " شرح المشكاة " عن الأخذ من اللحية : (( هذا لا ينافي قوله صلى الله عليه وسلم : (( أعفوا اللحى )) ؛ لأن المنهي هو قصُّها كفعل الأعاجم ، أو جعلها كذنب الحمام ، فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى - أي رواية : (( وفروا اللحى )) والأخذ من الأطراف قليلاً لا يكون من القص في شيء )) أ.ه‍ . وقال السندي في " حاشية على النسائي " : (( المنهي قصها - أي : اللحية - كصنع الأعاجم ، وشعار كثير من الكفرة ، فلا ينافيه ما جاء من أخذها طولاً وعرضاً للإصلاح )) أ.ه‍. وقال أبو الوليد الباجي في : " المنتقى ": (( ويحتمل عندي أنه يريد أن تعفى من الإحفاء ؛ لأن كثرتها ليس بمأمور بتركه )) أ.ه‍. تمت
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
قال القرطبي في " المفهم ": (( لا يجوز حلق اللحية ولا نتفها ولا قص الكثير منها . فأما أخذ ما تطاير منها وما يُشوه ويدعو إلى الشهرة طولاً وعرضاً فحسنٌ عند مالك وغيره من السلف )) أ.ه‍.
وقال عياض : في " شرح مسلم ": (( وأما الأخذ من طولها وعرضها فحسن ، ويكره الشهرة في تعظيمها وتحليتها كما تُكره في قصها وجزها )) أ.ه‍.
والرواية عن مالك في ذلك مشهورة ، قال الباجي في " المنتقى ": (( روى ابن القاسم عن مالك ( لا بأس أن يؤخذ ما تطاير من اللحية ) قيل لمالك فإذا طالت جداً ؟ قال : أرى أن يؤخذ منها وتقص )) أ.ه‍.
وفسَّر ذلك صاحب " الفواكه الدواني " بقوله : (( وحكم الأخذ الندب ؛ ( فلا بأس ) هنا - أي الرواية - هو خير من غيره ، والمعروف لا حدَّ للمأخوذ ، وينبغي الاقتصار على ما تحسن به الهيئة )) أ.ه‍.
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344

ذكره ابن حجر في "الفتح " بقوله : (( والذي يظهر أن ابن عمر كان لا يخص هذا التخصيص بالنسك ، بل كان يحمل الأمر بالإعفاء على غير الحالة التي تتشوه فيها الصورة بإفراط طول شعر اللحية أو عرضه ))
جاء في " الإحياء " للإمام أبي حامد الغزالي قوله : « وقد اختلفوا فيما طال منها ، فقيل : إن قبض الرجل على لحيته وأخذ ما فضل عن القبضة فلا بأس . فقد فعله ابن عمر وجماعة من التابعين ، واستحسنه الشعبي وابن سيرين
وقال النخعي : عجبتُ لرجل عاقل طويل اللحية كيف لا يأخذ من لحيته ويجعلها من لحيتين ، فإن التوسط في كل شيء حسن ؛ ولذلك قيل : كلما طالت اللحية تشمر العدل ))
وبه جزم شيخ الإسلام - يرحمه الله - في " شرح العمدة " حيث قال : « وأما إعفاء اللحية فإنه يترك ، فلو أخذ ما زاد على القبضة لم يكره . نصَّ عليه »
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344

ذكره ابن حجر في "الفتح " بقوله : (( والذي يظهر أن ابن عمر كان لا يخص هذا التخصيص بالنسك ، بل كان يحمل الأمر بالإعفاء على غير الحالة التي تتشوه فيها الصورة بإفراط طول شعر اللحية أو عرضه ))
جاء في " الإحياء " للإمام أبي حامد الغزالي قوله : « وقد اختلفوا فيما طال منها ، فقيل : إن قبض الرجل على لحيته وأخذ ما فضل عن القبضة فلا بأس . فقد فعله ابن عمر وجماعة من التابعين ، واستحسنه الشعبي وابن سيرين
وقال النخعي : عجبتُ لرجل عاقل طويل اللحية كيف لا يأخذ من لحيته ويجعلها من لحيتين ، فإن التوسط في كل شيء حسن ؛ ولذلك قيل : كلما طالت اللحية تشمر العدل ))
وبه جزم شيخ الإسلام - يرحمه الله - في " شرح العمدة " حيث قال : « وأما إعفاء اللحية فإنه يترك ، فلو أخذ ما زاد على القبضة لم يكره . نصَّ عليه »

الإمام مالك والإمام أحمد وعطاء وابن عبدالبر وابن تيمية وغيرهم وعندهم أن ما زاد على القبضة تحقق فيه الإعفاء والتوفير والإرخاء:
قال أبو الوليد الباجي في (المنتقى شرح الموطأ) (4/367): ((روى ابن القاسم عن مالك: لا بأس أن يؤخذ ما تطاير من اللحية وشذ، قيل لمالك: فإذا طالت جداً قال: أرى أن يؤخذ منها وتقص، وروي عن عبد الله بن عمر وأبي هريرة رضي الله عنهم أنهما كانا يأخذان من اللحية ما فضل عن القبضة))
وقال ابن هانئ في مسائله (2/151): ((سألت أبا عبد الله عن الرجل يأخذ من عارضيه ؟ قال: يأخذ من اللحية ما فضل عن القبضة، قلت: فحديث النبي صلى الله عليه وسلم: (أحفوا الشوارب وأعفوا اللحى) قال: يأخذ من طولها ومن تحت حلقه، ورأيت أبا عبدالله يأخذ من عارضيه ومن تحت حلقه)) أ.هـ
وقال الخلال في كتاب (الوقوف والترجل) (ص129): ((أخبرني حرب قال: سئل أحمد عن الأخذ من اللحية؟ قال: إن ابن عمر يأخذ منها ما زاد على القبضة، وكأنه ذهب إليه، قلت ما الإعفاء: قال: يروى عن النبي صبى الله عليه وسلم، قال: كأن هذا عنده الإعفاء))أ.هـ
و قال المرداوي في (الإنصاف) (1/121): ((ويعفي لحيته ... ولا يكره أخذ ما زاد على القبضة، ونصه -يعني أحمد- لا بأس بأخذ ذلك وأخذ ما تحت الحلق ...)) أ.هـ
وقال ابن بطال في شرح البخاري (9/147): ((قال عطاء: لا بأس أن يأخذ من لحيته الشيء القليل من طولها وعرضها إذا كثرت)).
وقال الحافظ ابن عبد البر في (الاستذكار) (4/317): ((وفي أخذ ابن عمر من آخر لحيته في الحج دليل على جواز الأخذ من اللحية في غير الحج لأنه لو كان غير جائز ما جاز في الحج ...وابن عمر روى عن النبي - صلى الله عليه وسلم -: (وأعفوا اللحى) وهو أعلم بمعنى ما روى، فكان المعنى عنده وعند جمهور العلماء الأخذ من اللحية ما تطاير والله أعلم)).
وقال شيخ الإسلام في (شرح العمدة) (1/236): ((وأما إعفاء اللحية فإنه يترك، ولو أخذ ما زاد على القبضة لم يكره، نص عليه كما تقدم عن ابن عمر، وكذلك أخذ ما تطاير منها))أ.هـ
وقال الحافظ ابن حجر في (الفتح) (10/ 36): ((قلت: الذي يظهر أن ابن عمر كان لا يخص هذا التخصيص بالنسك بل كان يحمل الأمر بالإعفاء على غير الحالة التي تتشوه فيها الصورة بإفراط طول شعر اللحية أو عرضه)) ا.هـ
وفي حاشية ابن عابدين (2/459): ((لا بأس بأخذ أطراف اللحية إذا طالت)) أ.هـ
وقال الغزالي في (الإحياء) (1/143): ((وقد اختلفوا فيما طال منها فقيل إن قبض الرجل على لحيته وأخذ ما فضل عن القبضة فلا بأس فقد فعله ابن عمر وجماعة من التابعين واستحسنه الشعبي وابن سيرين وكرهه الحسن وقتادة وقالا: تركها عافية أحب لقوله صلى الله عليه وسلم: ((أعفوا اللحى)) والأمر في هذا قريب إن لم ينته إلى تقصيص اللحية وتدويرها من الجوانب)) أ.هـ
وقال العراقي في (طرح التثريب) (2/49): (إعفاء اللحية، وهو توفير شعرها وتكثيره وأنه لا يأخذ منه كالشارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد ... واستدل به الجمهور على أن الأولى ترك اللحية على حالها وأن لا يقطع منها شيء))
وقال ابن الهمام في (فتح القدير) (2/270): ((يحمل الإعفاء على إعفائها من أن يأخذ غالبها أو كلها كما هو فعل مجوس الأعاجم ... فيقع بذلك الجمع بين الروايات)) أ.هـ
وأقوال أهل العلم في جواز الأخذ مما زاد على القبضة كثيرة جداً، ولم يأت عن أحد من الصحابة ولا من التابعين فيما أعلم تحريم ذلك.
 
Top