• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

masharat

شمولیت
دسمبر 03، 2013
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
2
ایک خطرناک وبا: (غلام نبی مدنی) اکیسویں صدی کے اس پر ہجوم دور میں دنیاانتہائی سبک رفتاری سے آگے بڑھتی جارہی ہے ۔اہل باطل کی طرف سے مادیت کے اس پر فتن دور میں ہر روز نئی نئی ایجادات سے انسانی عقلوں کو خیرہ کرکے اپنے ماتحت کرنے کی روش عام ہوتی جارہی ہے ۔ انسانیت ،با لخصوص امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کے چیلے دن رات مختلف طریقوں سے تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔کبھی سودی نظام کی ترویج کے ذریعہ تو کبھی حیاباختہ مادر پدر آزاد کلچرکے فروغ کے ذریعہ ،کبھی تعلیم کے نام پر فنڈنگ کے ذریعہ تو کبھی انٹرنیٹ ،کیبل ،ڈش ،فحش تصاویر ،موویزاور میوزک کے ذریعہ امت مسلمہ کے گرد اپناحصار تنگ کررہے ہیں۔اہل باطل کی یہ محنت بڑی تیزی سے امت مسلمہ کے سینوں کو چاک کرکے ان کے دلوں سے ایمانی حرارت اور غیرت وحمیت کو نکال رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج خالد بن ولیدؓ،حذیفہ بن یمان ؓ،ضرار بن ازورؓ،محمد بن قاسمؒ ،صلاح الدین ایوبیؒ ،طارق بن زیادؒ جیسی عظیم ہستیوں کواپنا آئیڈیل اورہیرو ماننے والے ناپَید ہوتے جارہے ہیںاور بالی ووڈ،ہالی ووڈ جیسی آماجگاہوں سے جنم لینے والے فنکاروں کی اقتدا کو خوشی خوشی قبول کیا جارہاہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک ایسے عالمگیرمذہب کے نام لیواہیں جس نے زندگی کے ہر ہر موڑ پر پوری انسانیت کے لیے وافرمقدار میں ہدایات دیں ، جس کے سایہ تلے آکر ہم نے زندگی کی امان پائی اور جس کے ذریعہ ہمیں ”بہترین امت “کا لقب ملالیکن ہم اس عظیم الشان مذ ہب کے ناقدری کررہے ہیںاور اس کی آفاقی تعلیمات سے انحراف کررہے ہیں۔ہماری اس ناقدری کی وجہ سے باطل قوتیں ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑتی جارہی ہیں اور اپنے گندے جراثیم سے پورے معاشرے کو آلودہ کررہی ہیں۔اہل ِباطل کے یہ جراثیم انتہائی مہلک اورخطرناک ہیں ۔ان میں سے ایک خطرناک اور مہلک ترین وباءجس سے اکیسویں صدی کا تقریبا ًہر انسان کسی نہ کسی طرح متاثر ہے وہ” میوزک اور گانے باجوںکا نہ تھمنے والے سیلاب ہے“۔ اکیسویں صدی کی یہ خطرناک وباءآج پورے اسلامی معاشرے میں اس قدر سرایت کر گیا ہے کہ مردہو یا عورت، مسافر ہویاراہگیر ،عام نمازی ہو یامولوی ،استادہو یا طالب علم ،سرکاری آفسر ہو یا ڈاکٹر ہردوسرا شخص اس سے متاثر ہے۔اس وباءکا دائرہ اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ مسجدوں میںبھی اس کے اثرات پہنچنے لگے ہیں اور نماز کی ادائی تک مشکل ہوگئی ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ ذان کے وقت ٹی وی ،ریڈیو وغیرہ کو احتراماً بند کردیتے تھے ،پھر رفتہ رفتہ یہ احترام آوازبند کرنے تک آگیا اور اب یہ حالت ہے کہ ادھر مسجد سے ”آﺅ کامیابی کی طرف“کی صدا بلند ہورہی ہوتی ہے، ادھر شیطان کے حواری ڈھول کی تھاپ پررقص کررہے ہوتے ہیں۔ یہی حال ہمارے گھروں کا ہے ،ایک وقت تھا کہ مائیں اپنی اولادوں کو بغیر وضو دودھ پلانا گوارانہیں کرتی تھیں ،انہیں صحابہ کرام ؓکی شجاعت اور بہادری کے واقعات سناکر تربیت دیتی تھیں،لیکن اس کے برعکس آج یہ حا ل ہوچکاہے کہ مائیںبچوں کو خاموش کرانے کے واسطے موبائل پر گانے لگادیتے ہیں ۔اس سے اولاد کی تربیت پربرا اثر پڑتا ہے۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آج پانچ سال کابچہ بھی نہ صرف گانوں کی دھن پر ناچتا ہے بلکہ مارکیٹ میں آئے ہوئے نئے گانے گنگنانے میں فخر محسوس کرتاہے ۔اس سے بڑھ کر ہماری بے حسی اور بے حمیتی کیا ہوگی کہ ہم بسوں میں اپنی ماﺅ ں ،بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر سفر کررہے ہوتے ہیں لیکن سامنے فحش تصاویر ،غلیظ گانوں سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے اور ہم اسے مجبوری کانام دے کر بس چپ سادھ لیتے ہیں۔ ایک طرف اکیسویں صدی کی اس خطرنا ک وباءکے بھیانک نتائج سے پورے معاشرے میں تعفن پھیل رہاہے، تودوسری طرف ہمارے معاشرے کے کچھ” نا سمجھ“ لوگ اسے روح کی غذا قراردینے کے واسطے دن رات ایک کررہے ہیں۔گانا بجانا ہو یا سننا،میوزیکل مجالس ومحافل میں شرکت کرناہو یا اس میں گانے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اسلام میں سب ناجائز ہیں۔ارشاد باری ہے کہ ”اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیںتاکہ اُن کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیںاور اس کا مذاق اڑائیں۔ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھدے گا“(سورہ لقمان)۔ قرآن کریم کی یہ آیت گانے اور راگ باجوں کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ظاہر بات ہے کہ گانے سننے اور گانے میں نہ صرف اللہ کی یادسے غفلت ہوتی ہے بلکہ اس سے دلوں میں کدورت اور ظلمت بھی پیداہوتی ہے ۔بیسیوں احادیث ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرناک وائرس کے مہلک اثرات سے بچنے کی تلقین فرمائی اور جان بوجھ کراس گند میں منہ مارنے والوں کو سخت قسم کے عذاب سے ڈرایا ، آپ نے فرمایا کہ ”میری امت میں لوگ زمین میں دھنسیں گے ،شکلیں تبدیل ہوں گی ،اور پتھروں کی بارش ہوگی “حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہ کیا وہ لوگ لاالہ الا اللہ کہنے والے ہوں گے ؟آپ نے فرمایاہاں!جب مغنیات (گاناگانے والوں ) کا عام رواج ہوگا،سود کا کاروبار خوب چمک پر ہوگا ،شراب کا رواج عام ہوگا اور لوگ ریشم کو حلال سمجھ کر پہنیں گے“۔ اللہ عزوجل اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی میں ہمیں نہ صرف اپنا محاسبہ کرنا چاہئے بلکہ اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کی، جو اس وباءسے متاثر ہیں ان کی بھی فکر کرنی چاہیے۔کیوں کہ گناہ کوئی بھی ہو ا س کی سزا اوراس کا نقصان انتہائی خطرناک ہوتاہے۔گانے سننے اور گاناگانے کے نقصانات بھی اسی طرح شدید ہیں۔اُخروی نقصانا ت کے علاوہ دنیاوی نقصانا ت میں بے حیائی ،فحاشی وعریانی کا فروغ ،دولت او ر وقت کا ضیاع اور باطل قوتوں کی غلامی اور مشابہت شامل ہیں۔آج ہمارے ملک میں جو افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور جن جرائم میں باالخصوص زیادتی اور درندگی کے المناک واقعات میں جس طرح اضافہ ہورہا ہے اس کا ایک بڑا سبب یہی” خطرناک وائرس “ہے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں پھیلے جتنے گندگی کے ڈھیر ہیں اور جتنے خطرناک وائرس ہیں،انہیں صاف کرنے کے لیے موثر حکمت عملی اور مضبوط پالیسی بنائی جائے تاکہ ہمار ی نوجوان نسل بے راہ روی سے محفوظ رہے ،ہمار ی ثفاقت ہماری پہچان ،ہماری شناخت باقی رہے ،ہمارے ملک میں قہر ِ الٰہی کے سبب پے درپے اترنے والے مسائل سے نجات ملے۔یہ وقت ہے کہ ہم ان مسائل پرغور وفکر کریں اور ایک” اے پی سی “ان مسائل کے حل کے لیے بھی بلائیں۔خدانخواستہ اگر آج ہم اس گندگی کے ڈھیر کو صاف نہ کرسکے تو پھر اندلس اورہندوستان کی طرح ہمیں بھی سقوط َمملکت کے زخم کھانے پڑسکتے ہیں ۔خدار ا! اس دن کے آنے سے پہلے سنبھل جائیںاور اکیسویں صدی کی اس خطرناک وباءکے خاتمے کے لیے بھر پور مہم چلا کر اپنا کردار ادا کریں۔
 
Top