الطاف الرحمن
رکن
- شمولیت
- جنوری 13، 2013
- پیغامات
- 63
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 64
کیا یہ آدم علیہ السلام کی قبر ہے۔۔۔ ؟
تحریر : الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی
محترم قارئین !! آپ نے کئی ایسی تصویریں دیکھی ہوں گی جس پر لکھا ہوتا ہے یہ آدم علیہ السلام کی قبر ہے ، یہ فلاں نبی کی قبر ہے ، فلاں جگہ پر واقع ہے وغیرہ ۔
تو کیا اس طرح کی تصویروں پر ایک مسلمان کو یقین کرنا چاہئے ؟ اور اسلام میں انبیاء وصالحین کے قبروں کی کیا حیثیت ہے؟
عزیز قارئین! سب سے پہلے ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ دین اسلام میں قبروں کی کوئی ایسی اہمیت نہیں ہے کہ آدمی انبیاء وصالحین کی قبروں کو نا جانے تو آخرت میں کامیاب نہیں ہوسکتا ، اور نہ انبیاء وصالحین کے قبروں کو تلاشنے کی کوئی فضیلت ہے کہ اس کے لئے جستجو کی جائے ۔
بلکہ قبروں کی حقیقت اسلام میں بس اتنی سی ہے کہ مسلمان میت کو اسلامی قبرستان میں دفنایا جائے، موت کی یاد تازہ کرنے کے لئے قبروں کی شرعی زیارت کی جائے، صاحب قبر کے لئے مغفرت کی دعائیں کی جائیں، قبرستان میں جوتے اور چپل وغیرہ پہن کر نہ چلا جائے۔ قبر کی بس اتنی سی حقیقت یے۔
مگر افسوس ! آج لوگوں نے قبروں کو عید گاہ بنا دیا ہے ، شرک و بدعت کا کارخانہ بنا ڈالا ہے ، قبریں تجارت گاہ بن گئی ہیں ۔ جو خود سفارش اور دوسروں کے استغفار کا محتاج ہے اسی کو اپنا حاجت روا سمجھ بیٹھا گیا ہے۔ قبروں پر قبے ، مزارات قائم کرکے غیر اللہ کے لئے عبادت کی دعوت دی جا رہی ہے ۔ بھلا بتائیں تو سہی ان جیسے قبر پرست جماعت اور کفار مکہ کی جماعت میں کیا فرق ہے ؟؟ وہ بھی غیراللہ کی عبادت اس لئے کرتے تھے تاکہ وہ انہیں اللہ کے قریب کردے ۔ وہ اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتے تھے کہ بذات خود اللہ سے دعا کر سکیں۔ آج بھی وہی عقیدہ اس امت میں در کر آیا ہے ۔ یہ سب علم سے دوری اور جہالت کا نتیجہ ہے ، تاریخ گواہ ہے جس دور میں بھی دینی علم سے لوگ دور ہوئے انہیں شیطان نے خوب گمراہ کیا ۔ انسان کو اپنی شیطانی چالوں کے ذریعہ اللہ کی عبادت سے دور کرکے غیر اللہ کی عبادت کا عادی بنا دیا ۔ لہذا ہمیں شیطانی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ کہ وہ ہمارا سب سے بڑا کھلا ہوا دشمن ہے۔ شرک و بدعت کے تمام راستوں سے کوسوں دور رہنا چاہیے، تمام اعمال کتاب و سنت کی روشنی میں ہی انجام دینی چاہئے۔ تبھی جاکے ہمیں کامیابی مل سکتی ہے۔ شریعت نے ہر ایسی چیزیں سے منع کردیا جس سے شرک کا دروازہ کھل سکے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالی یھود و نصاری پرلعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں بنا لیا " [صحیح بخاری و مسلم ]
ایک جگہ آپ نے امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : "ہوشیار رہو تم سے پہلے لوگوں نے انبیاء اورصالحین کی قبروں کو مساجد بنا لیا تھا توتم قبروں کومساجد نہ بنانا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں " [صحیح مسلم ]
محترم قارئین!! جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسلام میں قبروں کی کیا اہمیت ہے ، تو پھر ہمارے لئے انبیاء وصالحین کے غیر معروف قبروں کو ڈھونڈھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور نہ ہی کسی قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز ہے ۔
اب آئیے انبیاء علیہم السلام کے قبروں کے بارے میں کچھ پڑھتے ہیں۔
سو معلوم ہونا چاہئے کہ روئے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں جس کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جا سکے کہ یہاں فلاں نبی کی قبر ہے سوائے مدینہ منورہ کے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں۔
البتہ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کچھ علماء کا کہنا ہے کہ آپ کی قبر فلسطین کے شہر خلیل میں ہے ، جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے : ان کی موت جہاں ہوئی تھی وہ تو معلوم ہے مگر آپ دفن کہاں کئے گئے یہ نہیں معلوم ۔
لہذا ان کے علاوہ نبیوں کی قبروں کے بارے میں بیان کردہ ساری باتیں جھوٹ اور بے بنیاد ہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : انبیاء کرام کے قبروں کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ تمام علماء کا صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے معلوم ہونے پر اتفاق ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر تواتر کے ساتھ منقول ہے ، اسی طرح آپ کے دونوں صحابی ابو بکر وعمر کی قبر بھی ۔
لیکن ابراہیم خلیل علیہ السلام کی قبر کے بارے میں زیادہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ جو معروف ہے ( فلسطین کے شہر خلیل میں) وہی ہے ۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت نے اس کا رد کیا یے، امام مالک سے بیان کیا گیا ہے: وہ کہتے ہیں: " روئے زمین پر سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے کسی نبی کی قبر معروف نہیں" ۔ حالانکہ جمہور (اکثر) علماء کہتے ہیں ابراہیم علیہ السلام کی قبر فلسطین میں یے۔ اس کے بہت سارے دلائل ہیں ، اور اہل کتاب کے پاس بھی یہی بات مسلم ہے۔
لیکن انبیاء کے قبروں کے بارے میں جگہ کی تعیین کے ساتھ جاننے کا کوئی شرعی فائدہ نہیں ہے ، ان کی قبروں کا جاننا دین میں سے نہیں ہے ۔ اگر دین ہوتا تو اللہ تعالٰی اس کی حفاظت کرتا ، جیسا کہ تمام دینی اعمال کو محفوظ کیا ہے ۔
سو جو لوگ ان کی قبروں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہاں جاکر نماز پڑھیں ، اور ان سے دعائیں مانگیں وغیرہ اعمال بدعات جو شریعت میں ممنوع ہیں۔ [مجموع الفتاوى :27 / 444 ]
أمام ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے علاوہ کسی نبی کی قبر یقینی طور پر معلوم نہیں ہے۔ لہذا جو یہ دعوٰی کرے کہ فلاں جگہ "عمان " میں یا کسی اور جگہ انبیاء کی قبریں ہیں تو وہ جھوٹا ہے، اس کا یہ کہنا درست نہیں ہے ، سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ۔ اور اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کی قبر کے جو فلسطین میں یے۔ اور اس کی جگہ بھی معروف یے، لیکن دوسرے انبیاء کی قبریں معلوم نہیں ہیں۔
[نور على الدرب :شريط 642 ]
آدم علیہ السلام کی قبر کے بارے میں کچھ آثار منقول ہیں مگر سب کے سب موضوع و منگھڑت ہیں ۔ لہذا ایسی باتوں پر یقین کیا جانا درست نہیں ہے۔ علامہ البانی لکھتے ہیں اس طرح کے تمام آثار معضل اور واہیات ہیں ۔
[تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد :ص 69 ] .
عزیز قاریئین ! اس طرح کے سوالات اور اس قسم کا علم کوئی فائدہ نہیں دینے والا ، لوگوں کو دین حق اور اصل تعلیم سے دور کرنے کا یہ ایک ذریعہ ہے ، جس سے انجانے میں لوگ دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ بھی شیطان کی ایک چال ہے۔ جب مسلمان غیر مفید علم کو حاصل کرنے میں زندگی گزار دے گا تو صحیح تعلیم حاصل کرنے کہ فرصت کہاں ملے گی ، کہ جس کے ذریعہ صحیح ڈھنگ سے اللہ کی عبادت کرسکے ۔ اور جب لوگوں کو بنیادی تعلیم حاصل نہ ہو تو شیطان انہیں بہت آسانی کے ساتھ اپنے گروہ میں شامل کرسکتا یے ۔ لہذا اپنے وقت کی قدر کریں ، اسے غنیمت سمجھتے ہوئے ضروری اور واجبی علم کو حاصل کرنے میں صرف کریں ، جس سے دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیابی حاصل ہوسکے ۔
اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین ۔
تحریر : الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی
محترم قارئین !! آپ نے کئی ایسی تصویریں دیکھی ہوں گی جس پر لکھا ہوتا ہے یہ آدم علیہ السلام کی قبر ہے ، یہ فلاں نبی کی قبر ہے ، فلاں جگہ پر واقع ہے وغیرہ ۔
تو کیا اس طرح کی تصویروں پر ایک مسلمان کو یقین کرنا چاہئے ؟ اور اسلام میں انبیاء وصالحین کے قبروں کی کیا حیثیت ہے؟
عزیز قارئین! سب سے پہلے ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ دین اسلام میں قبروں کی کوئی ایسی اہمیت نہیں ہے کہ آدمی انبیاء وصالحین کی قبروں کو نا جانے تو آخرت میں کامیاب نہیں ہوسکتا ، اور نہ انبیاء وصالحین کے قبروں کو تلاشنے کی کوئی فضیلت ہے کہ اس کے لئے جستجو کی جائے ۔
بلکہ قبروں کی حقیقت اسلام میں بس اتنی سی ہے کہ مسلمان میت کو اسلامی قبرستان میں دفنایا جائے، موت کی یاد تازہ کرنے کے لئے قبروں کی شرعی زیارت کی جائے، صاحب قبر کے لئے مغفرت کی دعائیں کی جائیں، قبرستان میں جوتے اور چپل وغیرہ پہن کر نہ چلا جائے۔ قبر کی بس اتنی سی حقیقت یے۔
مگر افسوس ! آج لوگوں نے قبروں کو عید گاہ بنا دیا ہے ، شرک و بدعت کا کارخانہ بنا ڈالا ہے ، قبریں تجارت گاہ بن گئی ہیں ۔ جو خود سفارش اور دوسروں کے استغفار کا محتاج ہے اسی کو اپنا حاجت روا سمجھ بیٹھا گیا ہے۔ قبروں پر قبے ، مزارات قائم کرکے غیر اللہ کے لئے عبادت کی دعوت دی جا رہی ہے ۔ بھلا بتائیں تو سہی ان جیسے قبر پرست جماعت اور کفار مکہ کی جماعت میں کیا فرق ہے ؟؟ وہ بھی غیراللہ کی عبادت اس لئے کرتے تھے تاکہ وہ انہیں اللہ کے قریب کردے ۔ وہ اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتے تھے کہ بذات خود اللہ سے دعا کر سکیں۔ آج بھی وہی عقیدہ اس امت میں در کر آیا ہے ۔ یہ سب علم سے دوری اور جہالت کا نتیجہ ہے ، تاریخ گواہ ہے جس دور میں بھی دینی علم سے لوگ دور ہوئے انہیں شیطان نے خوب گمراہ کیا ۔ انسان کو اپنی شیطانی چالوں کے ذریعہ اللہ کی عبادت سے دور کرکے غیر اللہ کی عبادت کا عادی بنا دیا ۔ لہذا ہمیں شیطانی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ کہ وہ ہمارا سب سے بڑا کھلا ہوا دشمن ہے۔ شرک و بدعت کے تمام راستوں سے کوسوں دور رہنا چاہیے، تمام اعمال کتاب و سنت کی روشنی میں ہی انجام دینی چاہئے۔ تبھی جاکے ہمیں کامیابی مل سکتی ہے۔ شریعت نے ہر ایسی چیزیں سے منع کردیا جس سے شرک کا دروازہ کھل سکے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالی یھود و نصاری پرلعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں بنا لیا " [صحیح بخاری و مسلم ]
ایک جگہ آپ نے امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : "ہوشیار رہو تم سے پہلے لوگوں نے انبیاء اورصالحین کی قبروں کو مساجد بنا لیا تھا توتم قبروں کومساجد نہ بنانا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں " [صحیح مسلم ]
محترم قارئین!! جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسلام میں قبروں کی کیا اہمیت ہے ، تو پھر ہمارے لئے انبیاء وصالحین کے غیر معروف قبروں کو ڈھونڈھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور نہ ہی کسی قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز ہے ۔
اب آئیے انبیاء علیہم السلام کے قبروں کے بارے میں کچھ پڑھتے ہیں۔
سو معلوم ہونا چاہئے کہ روئے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں جس کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جا سکے کہ یہاں فلاں نبی کی قبر ہے سوائے مدینہ منورہ کے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں۔
البتہ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کچھ علماء کا کہنا ہے کہ آپ کی قبر فلسطین کے شہر خلیل میں ہے ، جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے : ان کی موت جہاں ہوئی تھی وہ تو معلوم ہے مگر آپ دفن کہاں کئے گئے یہ نہیں معلوم ۔
لہذا ان کے علاوہ نبیوں کی قبروں کے بارے میں بیان کردہ ساری باتیں جھوٹ اور بے بنیاد ہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : انبیاء کرام کے قبروں کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ تمام علماء کا صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے معلوم ہونے پر اتفاق ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر تواتر کے ساتھ منقول ہے ، اسی طرح آپ کے دونوں صحابی ابو بکر وعمر کی قبر بھی ۔
لیکن ابراہیم خلیل علیہ السلام کی قبر کے بارے میں زیادہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ جو معروف ہے ( فلسطین کے شہر خلیل میں) وہی ہے ۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت نے اس کا رد کیا یے، امام مالک سے بیان کیا گیا ہے: وہ کہتے ہیں: " روئے زمین پر سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے کسی نبی کی قبر معروف نہیں" ۔ حالانکہ جمہور (اکثر) علماء کہتے ہیں ابراہیم علیہ السلام کی قبر فلسطین میں یے۔ اس کے بہت سارے دلائل ہیں ، اور اہل کتاب کے پاس بھی یہی بات مسلم ہے۔
لیکن انبیاء کے قبروں کے بارے میں جگہ کی تعیین کے ساتھ جاننے کا کوئی شرعی فائدہ نہیں ہے ، ان کی قبروں کا جاننا دین میں سے نہیں ہے ۔ اگر دین ہوتا تو اللہ تعالٰی اس کی حفاظت کرتا ، جیسا کہ تمام دینی اعمال کو محفوظ کیا ہے ۔
سو جو لوگ ان کی قبروں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہاں جاکر نماز پڑھیں ، اور ان سے دعائیں مانگیں وغیرہ اعمال بدعات جو شریعت میں ممنوع ہیں۔ [مجموع الفتاوى :27 / 444 ]
أمام ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے علاوہ کسی نبی کی قبر یقینی طور پر معلوم نہیں ہے۔ لہذا جو یہ دعوٰی کرے کہ فلاں جگہ "عمان " میں یا کسی اور جگہ انبیاء کی قبریں ہیں تو وہ جھوٹا ہے، اس کا یہ کہنا درست نہیں ہے ، سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ۔ اور اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کی قبر کے جو فلسطین میں یے۔ اور اس کی جگہ بھی معروف یے، لیکن دوسرے انبیاء کی قبریں معلوم نہیں ہیں۔
[نور على الدرب :شريط 642 ]
آدم علیہ السلام کی قبر کے بارے میں کچھ آثار منقول ہیں مگر سب کے سب موضوع و منگھڑت ہیں ۔ لہذا ایسی باتوں پر یقین کیا جانا درست نہیں ہے۔ علامہ البانی لکھتے ہیں اس طرح کے تمام آثار معضل اور واہیات ہیں ۔
[تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد :ص 69 ] .
عزیز قاریئین ! اس طرح کے سوالات اور اس قسم کا علم کوئی فائدہ نہیں دینے والا ، لوگوں کو دین حق اور اصل تعلیم سے دور کرنے کا یہ ایک ذریعہ ہے ، جس سے انجانے میں لوگ دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ بھی شیطان کی ایک چال ہے۔ جب مسلمان غیر مفید علم کو حاصل کرنے میں زندگی گزار دے گا تو صحیح تعلیم حاصل کرنے کہ فرصت کہاں ملے گی ، کہ جس کے ذریعہ صحیح ڈھنگ سے اللہ کی عبادت کرسکے ۔ اور جب لوگوں کو بنیادی تعلیم حاصل نہ ہو تو شیطان انہیں بہت آسانی کے ساتھ اپنے گروہ میں شامل کرسکتا یے ۔ لہذا اپنے وقت کی قدر کریں ، اسے غنیمت سمجھتے ہوئے ضروری اور واجبی علم کو حاصل کرنے میں صرف کریں ، جس سے دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیابی حاصل ہوسکے ۔
اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین ۔