ولید رضا فاروقی
مبتدی
- شمولیت
- جنوری 27، 2016
- پیغامات
- 10
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 9
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم فحاشی اور بے حیائ کے راستے پر چل نکلتی ہے اس قوم کے نوجوان طبقہ سے عزت غیرت جرات و بہادری اٹھ جاتی ہے نوجوان طبقہ ناکارہ ہو جاتا ہے- -
اور بے حیائ فحاشی کو جب اجتماعیت میسر ہو تب اس کو گناہ ناسور اور برائ کی بجاۓ فیشن ضرورت جمہوریت اور ماڈرن ازم کا نام دے دیا جاتا ہے
اسی نام نہاد فحاشی اور بے حیائ کے فیشن نے ہزاروں گھروں کو برباد کر دیا آۓ دن آپ سنتے ہیں کہ فلاں لڑکی فلاں کے ساتھ بھاگ گئ
اس ماڈذن ازم کے کرتوتوں نے ایک شریف باپ کو رسوا کر دیا
صرف اس لئیے کہ اس کو ہم آج کے دور کی ضرورت سمجھ کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں- -
حالانکہ ایک اسلامی ملک کا شہری ہونے کی حثیت سے ایک مسلمان کی حثیت سے ہمیں اس ناسور فحاشی بے حیائ کے روک تھام کے لئیے عملی اقدامات کرنے چاہیے تھے
لیکن خاموشی سے دوسروں کے ساتھ اہل علم بھی اس ناسور پر چپ سادھے ہوۓ ہیں--
میں ایک پچھلے تین سالوں سے مسلسل صبح کالج جاتا اور شام کو واپس آتا ہوں
اور بسوں میں سفر کے دوران جو میں نے دیکھا وہ آج آپ کے سامنے لکھ رہا ہوں
بسوں میں تقریبا ہر عمر اور ہر طبقہ کے لوگ سفر کرتے ہیں اور مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اسی سفر کا حصہ ہوتیں ہیں
اب اس ٹرانسپورٹ میں ان بسوں میں فلمیں ایک فیشن یا شائد مجبوری بن چکی ہے
ان فلموں میں انتہائ حیاء سوز مناظر دیکھاۓ جاتے ہیں
ان فحش مناظر کو اس بھری گاڑی میں عورتیں مرد بیٹھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں
اور ذرا سوچا جاۓ تو بہن بھائ باپ بیٹی سفر کر رہیں ہوں اکٹھے اور انتہائ حیاء سوز کلمات سن کر بھائ بہن سے نظریں چراتا ہے بہن بھائ سے باپ بیٹی سے اور بیٹی باپ سے
آج جب میں کالج سے واپس گھر آ رہا تھا تو انڈیا کی انتہائ بے حیائ پر مبنی فلم چل رہی تھی جس میں ایک شخض بار بار عورت کی عزت لوٹ رہا تھا
کبھی عورت کو اکسا رہا تھا ہمبستری کرنے کے لئیے
خدا کی قسم جوان لڑکیاں اور چالیس برس کی عورتیں بس میں تھیں فلم کی آواز اتنی زیادہ تھی کہ اور کچھ سنائ ہی نہیں دے رہا تھا
تقریبا چالیس کلومیٹر کا سفر طے کر چکا تھا میں اور یہ فحش مناظر بڑی آب وتاب سے چل رہے تھے
پر کوئ بھی نہیں بولا اس پر
کیا اس کام کے لئیے ہمارے اکابر ہمارۓ بڑوں نے قربانیاں دیں تھیں الگ اسلامی ریاست صرف نام کی بن گئ کام کی کب بنے گی
میں آج حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر سکول و کالج یونیورسٹیوں میں تبلیغ اسلام پر پابندی ہے علما کی تقریروں پر پابندی ہے اسلامی جلسوں پر پابندی ہے
تو پھر پبلک ٹراسپورٹ میں ان حیاء سوز فلموں پر بھی پابندی لگائ جاۓ
قلم کار : ولید رضا فاروقی
اور بے حیائ فحاشی کو جب اجتماعیت میسر ہو تب اس کو گناہ ناسور اور برائ کی بجاۓ فیشن ضرورت جمہوریت اور ماڈرن ازم کا نام دے دیا جاتا ہے
اسی نام نہاد فحاشی اور بے حیائ کے فیشن نے ہزاروں گھروں کو برباد کر دیا آۓ دن آپ سنتے ہیں کہ فلاں لڑکی فلاں کے ساتھ بھاگ گئ
اس ماڈذن ازم کے کرتوتوں نے ایک شریف باپ کو رسوا کر دیا
صرف اس لئیے کہ اس کو ہم آج کے دور کی ضرورت سمجھ کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں- -
حالانکہ ایک اسلامی ملک کا شہری ہونے کی حثیت سے ایک مسلمان کی حثیت سے ہمیں اس ناسور فحاشی بے حیائ کے روک تھام کے لئیے عملی اقدامات کرنے چاہیے تھے
لیکن خاموشی سے دوسروں کے ساتھ اہل علم بھی اس ناسور پر چپ سادھے ہوۓ ہیں--
میں ایک پچھلے تین سالوں سے مسلسل صبح کالج جاتا اور شام کو واپس آتا ہوں
اور بسوں میں سفر کے دوران جو میں نے دیکھا وہ آج آپ کے سامنے لکھ رہا ہوں
بسوں میں تقریبا ہر عمر اور ہر طبقہ کے لوگ سفر کرتے ہیں اور مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اسی سفر کا حصہ ہوتیں ہیں
اب اس ٹرانسپورٹ میں ان بسوں میں فلمیں ایک فیشن یا شائد مجبوری بن چکی ہے
ان فلموں میں انتہائ حیاء سوز مناظر دیکھاۓ جاتے ہیں
ان فحش مناظر کو اس بھری گاڑی میں عورتیں مرد بیٹھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں
اور ذرا سوچا جاۓ تو بہن بھائ باپ بیٹی سفر کر رہیں ہوں اکٹھے اور انتہائ حیاء سوز کلمات سن کر بھائ بہن سے نظریں چراتا ہے بہن بھائ سے باپ بیٹی سے اور بیٹی باپ سے
آج جب میں کالج سے واپس گھر آ رہا تھا تو انڈیا کی انتہائ بے حیائ پر مبنی فلم چل رہی تھی جس میں ایک شخض بار بار عورت کی عزت لوٹ رہا تھا
کبھی عورت کو اکسا رہا تھا ہمبستری کرنے کے لئیے
خدا کی قسم جوان لڑکیاں اور چالیس برس کی عورتیں بس میں تھیں فلم کی آواز اتنی زیادہ تھی کہ اور کچھ سنائ ہی نہیں دے رہا تھا
تقریبا چالیس کلومیٹر کا سفر طے کر چکا تھا میں اور یہ فحش مناظر بڑی آب وتاب سے چل رہے تھے
پر کوئ بھی نہیں بولا اس پر
کیا اس کام کے لئیے ہمارے اکابر ہمارۓ بڑوں نے قربانیاں دیں تھیں الگ اسلامی ریاست صرف نام کی بن گئ کام کی کب بنے گی
میں آج حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر سکول و کالج یونیورسٹیوں میں تبلیغ اسلام پر پابندی ہے علما کی تقریروں پر پابندی ہے اسلامی جلسوں پر پابندی ہے
تو پھر پبلک ٹراسپورٹ میں ان حیاء سوز فلموں پر بھی پابندی لگائ جاۓ
قلم کار : ولید رضا فاروقی