• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آخری عشرہ کی راتوں میں شب بیداری کے نئے انداز

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ماہِ رمضان کا آخری عشرہ


ویسے تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اوربرکتوں سے لبریز ہے۔ لیکن اس کے آخری دس دن تو بہت ہی زیادہ فضیلت کے حامل ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں عبادت کے لیے کمر کس لیتے تھے۔چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
کان النبي ﷺ إذا دخل العشر شدَّ مئزرہ وأحیا لیله وأیقظ أھله
''جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے اور ان راتوں میں خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کوبھی جگایا کرتے تھے۔'' (صحیح بخاری، کتاب لیلة القدر، رقم:2024 )

اور سیدہ عائشہؓ ہی سے مروی ہے کہ :
کان رسول اﷲ! یجتهد في العشر الأواخر ما لا یجتهد في غیرہ
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت میں ) اتنی محنت کرتے جتنی اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔'' (صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف، رقم:2275 )
اور امام محمد بن نصر المروزیؒ قیام اللیل میں روایت لائے ہیں کہ :
سیدہ زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بقي من الشهر عشرة أيام لم يذر أحدا من أهله يطيق القيام إلا أقامه.
(مختصر قیام اللیل ص 247)

زینب بنت ام سلمہؓ کابیان ہے کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھادیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔

ان احادیث کی تشریح کرتے ہوئے مشہور عربی عالم مفتی محمد صالح المنجد فرماتے ہیں :
وقوله: "وجد" أي: زيادة عن العادة، واجتهد فيما لا يجتهد في غيرها من ليالي الشهر، "وأحيا ليله" أي: بالصلاة، والذكر، وتلاوة القرآن، "وأيقظ أهله" أي: لا يترك أحداً منهم غافلاً، وإنما في عبادة يسهرون لإحياء الليل
کہ ساری ساری رات بیدار رہ کر ذکر و تلاوت ،اور نماز پڑھتے تھے ، اور گھر کا کوئی فرد غفلت کی نیند نہیں سوتا تھا بلکہ سب ہی بیدار رہ عبادت میں مشغول رہتے ،
ان نفلی عبادات کو انفرادی طور اور اختیاری طور پر ادا کیا جاتا تھا ، سوائے نماز تراویح کی جماعت کے ،
یعنی ہر کوئی حسب توفیق ذکر االہی ، تلاوت قرآن ، دعاء و استغفار کرتا ،اور جس کو جہاں میسر آتا وہیں رات کی عبادت ادا کرتا
مسجد ہو یا گھر ۔۔۔ سوائے اعتکاف کے کہ وہ صرف مسجد میں ہوسکتا ہے ،
تراویح کی جماعت کے علاوہ کوئی عبادت اجتماعی صورت میں منقول نہیں ،​
لیکن اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ضمن میں آخری عشرے کے دوران ہمارے ہاں
کچھ نئے کام شروع ہوچکے ہیں ،یعنی اجتماعی اعتکاف کےلئے درخواستیں وصول کی جاتی ہیں اور طاق راتوں میں وعظ و نصیحت کی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اور با جماعت تراویح کے وقفہ میں نوافل کی ترغیب دی جاتی ہے ،
حالانکہ ان اضافی نوافل اور اجتماعی مجالس کے اہتمام کا شرعاً ثبوت نہیں ،
اسی لئے ان کاموں کا اہتمام کرنے والے دفاع میں وہی بدعتی گروہ والا حربہ استعمال کرتے نظر آتے ہیں کہ :
ان اعمال یا اعمال کی اس کیفیت کے منع ہونے پر کوئی دلیل دکھاؤ ،
حالانکہ جس عبادت۔۔۔ یا عبادت کی جس کیفیت و انداز کا شرعی ثبوت نہ ہو
وہ عبادت یا عبادت کی کیفیت یقیناً غلط ہے ۔
نامور مفتی شیخ عبدالستارالحماد ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اعتکاف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی عبادت کےلئے رمضان کے آخری دس دن عباد ت میں گزارے اور یہ دن اللہ کے ذکر کےلئے مختص کردے۔ رسول اللہ ﷺ ہر سال ماہ رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرتے تھے اور جس سال آپ فوت ہوئے اس سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ (صحیح بخاری ،الصوم، الاعتکاف:۲۰۴۴)
احادیث میں اعتکاف کرنے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘جو شخص اللہ کے رضاجوئی کےلئے صرف ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے ،ا للہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو حائل کردیں گے۔ا یک خندق کے دونوں کناروں کا فاصلہ مشرق سے مغرب تک ہوگا۔’’ (قیام رمضان بحوالہ طبرانی باسناد حسن )
رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں بحالت اعتکاف عباد ت کے لئے اتنی محنت اور مشقت اٹھاتے کہ دوسرے دنوں میں اتنی کوشش نہ کرتے تھے۔ (صحیح مسلم ،الاعتکاف:۱۱۷۵)
روایت میں اس کوشش کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کےلئے کمر بستہ ہوجاتے۔ رات کو عبادت کرکے اسے زندہ رکھتے اور اپنے اہل عیال کوعبادت کے لئے بیدار کرتے۔(صحیح بخاری ،الصوم :۲۰۲۴)
حضرت زینب بنت ام سلمہؓ کابیان ہے کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھادیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف اور طاق راتوں کا قیام ایک انفرادی عبادت ہے۔ صرف نماز تراویح کو ادا کرنے میں اجتماعیت کو برقرار رکھنے کی گنجائش ہے،اس کے علاوہ کسی مقام پر اجتماعیت نظر نہیں آتی ، اس لئے ہمیں ان قیمتی دنوں اور سنہری راتوں کو اجتماعی اعتکاف اور اجتماعی مجالس کی نذر نہیں کردینا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ ‘‘ جو شخص ہمارے دین میں کسی نئی چیز کو رواج دیتا ہے جس کا تعلق دین سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔ ’’ (صحیح بخاری ،الصلح :۲۲۹۷)
اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ ‘‘ جو شخص نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے وہ رد کردینے کے قابل ہے۔’’(صحیح بخاری ،باب نمبر :۶۰)
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ایسے اعمال و افعال سے اجتناب کیا جائے، جن کا کتاب وسنت سے ثبوت نہیں ملتا ، کیونکہ بدعات کے ارتکا ب سے ثواب کے بجائے الٹا گناہ کا اندیشہ ہے ۔(واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص414
محدث فتویٰ

 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ صحیح ہے کہ ہر کسی کی اپنی رائے ہے اور دلیل کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ بدعت وہ چیز ہوتی ہے جسے دین میں نیا وضع کر کے اس کی کوئی اضافی دینی حیثیت بھی سمجھی جائے۔ اب اگر ان مجالس کو کوئی اضافی حیثیت نہ دی جائے تو ان کے ثواب ہونے میں اور دین کا کام ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے۔ ایسی چیز کو منع کرنے کے لیے عدم ثبوت کیسے کافی ہو سکتا ہے؟ جس چیز میں اصل وجود ہو تو اس کے عدم اور ممانعت پر دلیل لانی چاہیے۔
نبی کریم ﷺ سے وعظ و نصیحت کی مجالس تو ثابت ہیں۔ ان اوقات میں یہ مجالس ہوتی تھیں یا نہیں اس کے لیے کچھ چیزیں دیکھنی پڑیں گی۔
اول: مدینہ میں آج کی طرح ان مجالس کی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ راتیں تاریک ہوتی تھیں اور روشنی کا انتظام کم ہوتا تھا۔ اس لیے وہاں تمام کام ہی دن میں ہوتے تھے۔
ثانی: مدینہ طیبہ میں نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کے دس سالوں میں دس عشرے یعنی ایک سو راتیں آئی ہیں۔ ہمارے پاس ایک بھی روایت نہیں کہ آپ ﷺ یہ کام نہیں فرماتے تھے۔ یہ تو ہمارا قیاس ہے کہ جب ایسے کسی کام کا ذکر نہیں آیا تو کرتے بھی نہیں ہوں گے۔
غالباً ایسے ہی مقامات کے لیے قاعدہ ہے کہ عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں ہوتا۔
و اللہ اعلم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دوسرا موقف:


رمضان کے عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں وعظ و تقریر
رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں کو کیسے گذارنا چاہئے، رمضان کے جاتے جاتے یہ چیز بھی بحث کا ایک موضوع بن جاتی ہے۔ بلکہ ہر چہار جانب فتوی بازی بھی شروع ہو جاتی ہے ۔
بات سیر و تفریح ، کھیل کود اور تضییع اوقات کی نہیں بلکہ عبادات اور شرعی امور کو لیکر اختلاف و اتفاق کے ڈنکے بجتے ہیں۔
اصل میں ان ساری بحثوں کے پیچھے یہ مقدمہ فرض کرلیا گیا ہے کہ طاق راتوں میں عبادات کی نوعیت توقیفی ہے یعنی ان راتوں میں صرف انہی عبادتوں کو انجام دے سکتے ہیں جنہیں ان راتوں میں انجام دینے کے لئے صریح دلیل موجود ہو۔
ہماری نظر میں یہ مقدمہ ہی درست نہیں جس سے ساری الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں ۔ یعنی ان راتوں میں مطلوب، عبادات کی نوعیت توقیفی نہیں بلکہ اختیاری ہے۔
ہمیں قرآن وحدیث یا اقوال سلف میں ایسی کوئی بات نہیں ملی، جس سے مستفاد ہوتا ہو کہ ان راتوں میں عام مشروع عبادات میں سے ازخود کوئی عبادت منتخب نہیں کی جاسکتی، بلکہ ان راتوں میں کسی بھی عبادت کو اختیار کرنے کے لئے دلیل درکار ہوگی۔
قرآن وحدیث کے نصوص اس بارے میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان راتوں میں کسی بھی خاص عبادت کی پابندی نہ بتلا کر عمومی طو پر کوئی بھی مشروع عبادت انجام دینے کی ترغیب دلائی ہے۔
قرآن میں سورۃ القدر میں شب قدر کی عبادت کو ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر بتایا گیا لیکن یہ تعیین نہیں کی گئی ہے کہ شب قدر میں کس نوعیت کی مشروع عبادت انجام دینی ہے۔
احادیث میں شب قدر اور طاق راتوں میں عبادات کی ترغیب ملتی ہے لیکن کوئی حد بندی یہاں بھی نظر نہیں آتی۔
لہٰذا ان راتوں میں ہر وہ عام عبادات انجام دی جاسکتی ہیں جو کتاب وسنت سے عمومی اوقات کے لئے ثابت ہیں۔ مثلا نفلی نمازیں، صدقہ و خیرات، تلاوت قرآن، ذکر و اذکار، دعاء و استغفار
تسبیح و تہلیل، تکبیر و تحمید، صلاۃ وسلام، احسان و ہمدردی، دعوت و تذکیر اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ۔
نیز چوں کہ ان راتوں میں دیگر شرعی امور کی اصلا ممانعت بھی وارد نہیں ہے جیسے وعظ و تقریر وغیرہ ۔ لہٰذا ان چیزوں کو محض اس وجہ سے ناجائز کہنا غلط ہے کہ ان راتوں میں ان کے جواز کی صریح دلیل موجود نہیں ہے۔ کیونکہ ان راتوں میں اصل حرمت نہیں، نہ مشروع عبادات میں نہ دیگر شرعی امور میں ۔ اس لئے ان راتوں میں ہر عام عبادت انجام دی جا سکتی ہے اور ہر وہ شرعی کام بھی کیا جاسکتا ہے جس کا دینی فائدہ محسوس ہو جیسے وعظ ونصیحت، تفسیر قرآن وغیرہ۔
اب ان امور کو انجام دینے والے کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ وہ کتاب و سنت سے ان کاموں کو عبادت یا شرعی امر ثابت کر دے ۔ باقی خاص ان راتوں میں ان امور کی انجام دہی کے لئے کسی خاص و صریح دلیل کی ضرورت نہیں بلکہ جو شخص ان امور کے خلاف بات کرے اس کی ذمہ داری ہے کہ ان راتوں میں ان کی ممانعت پر دلائل پیش کرے۔ واللہ اعلم۔
واضح رہے کہ طاق راتوں میں مساجد کے اندر پوری پوری رات یا رات کے اکثر حصوں کو وعظ و تقریر کی نذر کر دینا جس سے نہ صرف یہ کہ عبادت کی غرض سے مساجد کا رخ کرنے والے حضرات پرسکون عبادت کے مواقع سے محروم ہوجائیں بلکہ مساجد میں موجود معتکفین کی عبادتیں بھی خلل انداز ہوں تو اس طرز عمل کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا ۔لیکن مناسب وقت اور مناسب ترتیب کے ساتھ اگر طاق راتوں میں کچھ وعظ و نصیحت کا بھی اہتمام کرلیا جائے تو اسے بدعت و نا جائز اور حرام کہنے کی بھی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی.
واللہ اعلم۔
بشکریہ محترم شیخ @کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
مجھے تو ان علماء کی بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے جو تقریری مجالس وغیرہ کے قائل نہیں ہیں.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آخری عشرے میں کیا کرنا چاہیے ؟
جنہیں پتہ ہے ، وہ تو کر رہے ہیں ، جنہیں پتہ ہی نہیں ، یعنی کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں ، انہیں وعظ و تقریر کی ضرورت بھی ہے اور انہیں کم از کم درس و دروس ہی سن لینا چاہیے ، کیونکہ یہ مبارک راتیں فارغ گزار دینے سے بہتر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی باتیں اور نعتیں کہہ سن لی جائیں ۔
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

(182) شب قدر میں وعظ کرنا کرانا۔ اور سننا سنانا..الخ


سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شب قدر میں وعظ کرنا کرانا۔ اور سننا سنانا رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام اور ائمہ دین کے زمانہ میں پایا جاتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شب قدر میں کبھی کبھی بلا تعیین وعظ و تذکیر کرنا اور سننا جائز ہے، لیکن پابندی کے ساتھ رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں وعظ کہنے کا خیر القرون میں ثبوت نہیں ملتا۔

(اخبار ترجمان دہلی جلد ۱۰ شمارہ ۵۹)
(شیخ الحدیث مولانا عبد السلام بستوی دہلوی رحمہ اللہ )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 06 ص 468
محدث فتویٰ

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

(180) لیلۃ القدر میں وعظ کا اہتمام


سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا رمضان کی شب ہائے لیلۃ القدر میں عہد نبوی یا صحابہ کرام اور زمانہ خیر قرون میں جلسے یا مواعظ ہوتے تھے۔ اب اگر کوئی شخص شب ہائے لیلۃ القدر میں وعظ و تذکیر کرے تو اس پر کیا حکم ہو گا؟
(سراج الدین جودھ پوری)



الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شب قدر کے وعظ اور رمضان کی تیس دن کی وعظ کے جواز عدم جواز سے تھوڑی سی تمہید سن لیں۔ جس حیثیت سے کوئی شئی شریعت میں وارد ہوئی ہے۔ اگر اسی سے لی جائے تو جائز ہے، اس کا شمار بدعت میں نہیں ہو گا۔ مثلاً ایک شخص کسی عالم سے پوچھ کر عمل کر لے۔ تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

﴿فَاسْئَلُوْا اَھْلُ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾
’’یعنی اگر تمہیں علم نہ ہو تو علم والوں سے پوچھ لو۔‘‘

نیز حدیث شریف میں ہے۔
((انما شفاء اُلْحیَّ السَّوال))
’’یعنی جہالت کی شفا پوچھنا ہے۔‘‘
لیکن اگر کوئی اس میں اتنی بات بڑھ لے کہ باوجود اور علماء کے ایک عالم مذہب اپنے ذمے لازم کر لے۔ اور جب پوچھے اسی سے پوچھے تو یہ بدعت اور برا ہو گا۔ اور یہ تقلید ہے جو متنازعہ فیہ ہے۔ اسی بنا پر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
((لا یجعل احدکم للشیطان شیئا من الصلوة یَرٰان حق علیه ان لا ینصرف الا عن یمینه لقد رَیَّیْتُ رسول اللہ ﷺ کثیرا ینصرف عن یسارہٖ))
(متفق علیہ، مشکوٰۃ باب الدعاء فی التشہد ص ۷۹)
’’یعنی کوئی تمہارا اپنی نماز سے شیطان کا کچھ حصہ نہ کرے کہ اپنے اوپر لازم سمجھے کہ (سلام پھیر کر) داہنی طرف ہی پھیروں گا۔ کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ بہت دفعہ بائیں طرف بھی پھیرتے تھے۔‘‘
امام جب نماز سے سلام پھیرتا ہے، تو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا ہے، اس کی بابت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک طرف کو معین کر لینا شیطان کا حصہ ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ بہت دفعہ دوسری طرف بھی پھیرتے تھے۔

اس سے معلوم ہوا کہ جس حیثیت سے کوئی فعل شرع میں وارد ہو اس سے ذرا ادھر اُدھر نہ ہونا چاہیے۔ اگر ذرا ادھر اُدھر ہوگا تو وہ بدعت اور شیطان کا حصہ ہو جائے گا۔ کیونکہ بندہ کو شرع میں کوئی دخل نہیں۔ کہ اپنی طرف سے کوئی شئے معین کرے۔ یا معین کو عام کرے۔ یا کسی اور طرح سے کمی بیشی کرے۔ بلکہ اس کو لازم ہے کہ ہر حکم اپنے انداز میں رہنے دے۔ اور جس طرح وارد ہوا ہو۔ اس کو سمجھ کر ادا کرے۔

اس تفصیل سے شب قدر اور رمضان المبارک کے تیس دنوں کے وعظ کی حقیقت بھی واضح ہو گئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ

وعظ و تبلیغ کے لیے کسی رات یا کسی دن کو ہمیشہ کے لیے خاص اور معین نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن و حدیث اور خیر قرون میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ خاص کر جب ایک محل میں نبی اکرم ﷺ سے ایک ثابت ہو۔ جیسے رمضان المبارک کی عام راتوں میں عموماً اور لیلۃ القدر میں خصوصاً قیام وغیرہ ثابت ہیں۔
تو پھر کسی غیر ثابت شدہ کام کے لیے خاص کرنا خطرہ سے خالی نہیں۔

غور کیجئے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دو ثابت شدہ کاموں سے بھی ایک کی تخصیص کرنے کو شیطانی فعل فرماتے ہیں۔ تو غیر ثابت شدہ کی تخصیص کس طرح درست ہوگی۔

اگر کسی خاص یا وقت کی ہمیشہ کے لیے تخصیص نہ ہو۔ بلکہ حسب ضرورت نماز تراویح سے پہلے یا بعد وعظ کیا جائے تو یہ بدعت نہیں ہو گا۔ نبی ﷺ سے ایسا ثابت ہے چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ آپ نے مسائل اعتکاف وغیرہ کی بابت خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ بلا تخصیص حسب ضرورت وعظ کرنا جائز ہے

جیسے رمضان المبارک میں جس رات قرآن مجید ختم ہو۔ لوگ دعا میں شرکت اور حصول برکت وغیرہ کی نیت سے جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ تبلیغ کا عام موقع ہے۔ اگر ایسے موقع پر وعظ و تبلیغ ہو جائے۔ تو یہ جائز ہے، کیونکہ کمی و بیشی یا تغیر و تبدل دو طرح کا ہوتا ہے، ایک خارج میں ایک نفس حکم میں، نفس حکم میں تغیر آنے سے بے شک وہ حکم بدعت ہو جائے گا۔ جیسے اوپر تقلید کی مثال اور عبد اللہ بن مسعود کے قول سے ظاہر ہے

خارج میں تغیر آنے سے وہ حکم بدعت نہیں ہوگا۔

مثلاً ایک جگہ معین تاریخ کو سال بسال عرس ہوتا ہے۔ یا میلہ لگتا ہے، اب کوئی مبلغ یا وعظ کی بھی تاریخ معین ہو گی۔ مگر یہ بدعت نہیں۔ کیونکہ یہ تعین خارج سے ہے، نفس حکم سے نہیں۔ اس طرح کوئی شخص جمعہ جمعہ طالب علموں کو کھانا کھلائے تاکہ طالب علموں کے مطالعہ اور سبقوں کا حرج نہ ہو۔ تو یہ بھی نفس حکم میں تغیر نہیں۔اسی طرح ایک ملازم پیشہ شخص کو اتوار کے دن فراغت ہوتی ہے، وہ اس کو وعظ یا نصحت کے لیے مقرر کرے۔ یا اس دن میں قرآن مجید کی منزل زیادہ کرے۔یا نفل نوافل زیادہ پڑھے۔ تو یہ بھی نفس حکم میں تغیر نہیں بلکہ خارج تغیر ہے، کیونکہ انسان ہمیشہ حسب ضرورت اور حسب فرصت ہی ایسے کاموں میں زیادہ حصہ لے سکتا ہے، اگر کوئی شخص ایسا کرے یا ترغیب دے کہ تم بھی ایسا ہی کرو حالانکہ اُن کے لیے سب دن یکساں ہیں۔ تو یہ نفس حکم میں تغیر ہے،پس یہ برا اور بدعت ہوگا۔ کیونکہ جو کام حسب موقع یا حسب ضروررت یا حسب فرصت ہوتا ہے، وہ سب کے لیے یکساں نہیں رہتا۔ کیونکہ مواقع بدلتے رہتے ہیں۔ ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں فرصت کا وقت ایک نہیں ہوتا مثلاً لوگ وعظ کے لیے جلسہ کرتے ہیں۔ تو جیسا جیسا اپنا موقع دیکھتے ہیں۔ تاریخیں مقرر کر لیتے ہیں۔ وہی دوسرے لوگ کریں۔ بلکہ خود ایک شہر یا گاؤں والے کی سال کی کوئی تاریخ رکھ دیتے ہیں۔ اور کسی سال کوئی پھر بعض کم و بیش مدت میں کر لیتے ہیں۔ کیونکہ جیسا موقع دیکھتے ہیں ویسا کر لیتے ہیں۔سب کے لیے ایک صورت معین نہیں ہو سکتی

دیکھئے ابن عباس فرماتے ہیں۔ ہر جمعہ میں ایک مرتبہ لوگوں کو حدیثیں سنایا کر کہ اگر تیرا زیادہ خیال ہو تو دو مرتبہ اگر اس سے بھی زیادہ خیال ہو تو تین مرتبہ اور اس قرآن سے لوگوں کو سست نہ کر۔ اور کوئی قوم اپنی ضروری بات چیت میں ہو تو اُن کی بات کاٹ کر وعظ شروع نہ کر۔ اس سے وہ سست ہو جائیں گے، لیکن چپ رہ۔ جب وہ تجھے کہیں اس وقت ان کو حدیثیں سنا۔ اس وقت تیرا ان کو حدیثیں سنانا ان کے شوق کی حالت میں ہوگا۔ دعا کے وقت وزن دار کلمات بنا کر دعا مانگنے سے بچے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ایسا نہیں کرتے تھے.
روایت کیا اس کو بخاری نے
(ملاحظہ ہو مشکوٰۃ کتاب العلم فص ۲)
نیز مشکوٰۃ میں ہے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعرات جمعرات وعظ کیا کرتے تھے۔
(ملاحظہ ہو مشکوٰۃ کتاب العلم فصل ۲ ص ۲۵)
اور حضرت ابو ہریرہ ہر جمعہ کو منبر کے پاس کھڑے ہو کر حدیثیں سناتے۔ جب امام نکلتا تو بیٹھ جاتے۔
(ملاحظہ ہو مستدرک حاکم جلد اول ص ۲۵)
اور حضرت ابو ہریرہ ہر جمعہ کو منبر کے پاس کھڑے ہو کر حدیثیں سناتے۔ جب امام نکلتا تو بیٹھ جاتے۔
(ملاحظہ ہو مستدرک حاکم جلد اول ص ۱۰۸)
اور ابن عباس جمعہ کے بعد اپنی خالہ میمونہ کی وفات کے موقع پر ان کے گھر میں لوگوں کو مسائل بتانے کے لیے بیٹھے۔
(ملاحظہ ہو مسند احمد جلد اول ص ۲۶۴)

سو اس طریق سے جیسا کوئی اپنا موقع دیکھتا۔ کام کرتا۔ اہل بدعت کی طرح نہیں کہ ہمیشہ میت کے تیسرے، ساتویں، دسویں دن کو روٹی کے لیے مقرر کرلیں۔ یا چالیس دن روٹی دیں۔ یا ششماہی سالانہ حساب رکھیں۔ یا اس قسم کا کوئی اور تعین کریں۔ جو تقلید کی طرح سب کے لیے یکساں قرار دیا جائے۔ یہ سرا سر دین میں تصرف اور حکم میں تغیر ہے، اور اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو بدعت سے محفوظ رکھے۔ (آمین)

(فتاویٰ اہل حدیث جلد دوم صفحہ ۵۷۲)
(عبد اللہ امر تسری روپڑی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 06 ص 460-463
محدث فتویٰ

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

(181) لیلۃ القدر کی رات وعظ کرنا


سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ لیلۃ القدر کی راتوں میں بعض علماء کچھ دیر تک لوگوں کو وعظ و نصحیت کرتے ہیں۔ اس طرح سے کہ تقریباً دس بجے شب سے ایک بجے تک قرآن و حدیث کا بیان ہوتا ہے۔ لوگ بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ لیلۃ القدر کے فضائل بیان ہوتے ہیں۔ توحید و سنت کا بیان ہوتا ہے، بعد ازاں دعا مانگی جاتی ہے، اور وعظ ختم ہو جاتا ہے، کچھ لوگ مسجد میں تراویح و تہجد شروع کر دیتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ اپنے گھروں میں جا کر نماز میں لگ جاتے ہیں۔ لیلۃ القدر کی پانچوں راتوں میں ایسے ہی ہوتا ہے، اور لوگ برابر ذکر اللہ و عبادت الٰہی میں لگے رہتے ہیں۔

بکر کہتا ہے کہ یہ وعظ کہنا اور سننا بدعت ہے، یہ عبادت نہیں۔

زید کہتا ہے کہ وعظ و نصیحت کیسے بدعت ہو سکتا ہے، جس طرح سے کہ ہمیشہ وعظ و نصیحت ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح سے لیلۃ القدر میں بھی وعظ کہنا اور سننا درست ہے۔

لہٰذا دونوں میں کس کا قول صحیح ہے۔ بینوا توجروا



الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وعظ کہنا و سننا بھی عبادت ہے،
حدیث شریف میں ہے،
((تدارس العلم ساعة خیر من احیائِه))
بوقت شب ایک گھڑی علمی بات چیت کرنا ساری رات کی عبادت سے اچھا ہے،

اس حدیث سے ہی ہمارا مدعا ثابت ہے کہ وعظ گوئی اور وعظ شسنوی سب عبادت ہے، لہٰذا زید کا قول صحیح ہے،

ابو الوفا ثناء اللہ کفاہ امر تسری۔ مولوی فاضل۔ ماکتبۂ الشیخ الفاضل الاجل المؤلینا ثناء اللہ المحتر فی ہذاہ المسئلۃ فہو صحیح۔ حررہ شیخ احمد دہلوی مدنی۔ الجواب صحیح عبد الرحمٰن آزاد دہلوی کان اللہ لہٗ الجواب ہو الصحیح۔ ابو البشیر پنجابی سوہدری۔


وعظ کہنا شب قدر میں جائز ہے، بلکہ جاگنا لازم ہے، اور یہ وعظ و تذکیر اس کے لیے مفضی اور سبب ہے، لہٰذا یہ بھی موجب ثواب، کار خیر ہے،
ہذا ما عندی واللہ اعلم۔
محمد حسین امرتسری


ہندوستان میں بہت سی اہل حدیثوں کی مذہبی انجمنیں ہیں۔ جن کا سالانا جلسہ اکثر بعد جمعہ کے شروع ہوتا ہے، ہندوستان میں اکثر مدارس عربیہ کے جلسے شعبان کے مہینے میں ہوتے ہیں۔ اور تعلیمی حالت سنائی جاتی ہے، ہندوستان میں اکثر ہر مہینے کی ابتداء میں دینی رسالے و اخبارات نکالے جاتے ہیں۔ دہلی میں عام قاعدہ بطور لزوم کے ہے کہ سارے رمضان کے دنوں میں گھر گھر وعظ ہوتا ہے، اور علماء دہلی وعظ کہتے پھرتے ہیں۔ حتی کہ اگر پنجاب یا یورپ سے کوئی مولوی صاحب آجاتے ہیں۔ تو وہ بھی گھر گھر وعظ شروع کر دیتے ہیں۔
اب ذرا تفصیل کے ساتھ بالترتیب سنو!

قرآن مجید میں ہے کہ بعد نماز جمعہ زمین میں پھیل جائو۔ اور روزی کمائو اللہ نے بعد نماز جمعہ جلسہ کرنے کو نہیں فرمایا۔
آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اگر کسی گھر میں میت ہو جاتی۔ تو آپ صبر کی تلقین فرماتے نہ کہ ہیئت کذائیہ کے ساتھ وعظ کرتے۔
شعبان کے مہینے میں آنحضرت ﷺ کثرت سے روزے رکھتے۔ اور لوگوں کو روزوں کی ترغیب دیتے۔ نہ کہ آپ جلسے کرتے، اور امتحان لیتے اور چندے کرتے۔
نبی اکرم ﷺ ہر مہینے کی ابتداء میں کچھ نہ کچھ نفلی روزے رکھتے تھے، نہ کہ اخبارات چھاپتے، اور صحیفے فروخت کرتے۔
نبی اکرم ﷺ اور جملہ صحابہ کرام اور سلف صالحین رمضان کے دنوں میں روزے رکھتے، اور قرآن پڑھتے تھے نہ کہ گھر گھر وعظ کہتے پھرتے۔
کسی ایک حدیث صحیح سے ثابت نہیں۔ رمضان کے دن کا وعظ۔ لہٰذا یہ جملہ امور بطور لزوم کے حضرات علماء کرام کرتے ہیں، اور یہ مشابہ مولود کے نہ ہوئے۔ بدعت کہنے والوں کو چاہیے کہ پہلے اپنی بدعتوں کو ترک کر دیں۔ اس کے بعد دوسروں کو ہدایت کریں۔
یہ نرالی منطق میری اب تک سمجھ میں نہیں آئی کہ رمضان کے تیسوں دنوں کا وعظ بدعت نہ ہو، اور صرف پانچ راتوں کا وعظ بدعت اور میلاد ہو جائے۔
﴿تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیزٰی﴾
اگر شب قدر کے وعظ بدعت اور مولود ہیں۔ تو رمضان کے دنوں میں وعظ بدرجہ اولیٰ بدعت اور مولود ہیں۔
دلیلیں ان کے قول کے جواز کے علماء کے پاس ہوں گی۔ وہی دلائل شب قدر کے وعظ کے بھی سمجھ لینے چاہئیں۔

(محمد یونس پھاٹک حبشخاں دہلی)
(مولانا محمد صاحب ایڈیٹر اخبار محمد دہلی کا فتویٰ)


بدعت کہنے والوں سے کوئی پوچھے کہ رمضان کے دنوں میں صرف عورتوں کے مجمع میں وعظ کہنا اس صراحت سے کس حدیث میں ہے، ذکر اللہ کا کرنا حدیث سے ثابت ہے، اور وعظ بہترین ذکر اللہ ہے، پھر اسے اس رات میں بدعت کیوں کہتے ہو۔ اور اگر ہر جزء کو اس طرح حدیث میں ٹٹولنا شروع کیا تو بڑی مشکل ہو گی۔ یہ بخاریوں کے ختم یہ صبح کے ترجمے۔ یہ مدرسے۔ یہ جلسے۔ اور یہ کانفرنسیں وغیرہ سلف سے کہاں لا سکو گے۔ اور وعظ تو ایک حد تک ثابت بھی ہے۔
بیہقی وغیرہ میں ہے۔
((فیحث جبرائیل علیه السلام الملائکة فی ھذہ اللیلة))
’’یعنی لیلۃ القدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اور فرشتوں کو رغبت دلاتے ہیں۔‘‘

اسی کا نام وعظ ہے۔ یہی واعظ اس رات میں کرتے ہیں کہ لوگوں کو رغبت دلاتے ہیں۔

اور روایت میں ہے کہ اس رات جو فرشتے اترتے ہیں وہ ہر قائم و قاعد اور نمازی اور ذاکر سے سلام کرتے ہیں۔ مصافحہ کرتے ہیں وغیرہ۔ پس ذکر خدا عام ہے، اور وعظ ذکر خدا کا اعلیٰ طریقہ ہے

حضور سے بھی ثابت ہے کہ آپ اپنے گھر والوں کو ان راتوں کو جگاتے رہتے ہیں۔ اور خود بھی ساری رات جاگتے تھے۔ الفاظ حدیث یہ ہیں۔
((اشتد میزرہ وایقظ اھله واحی اللیل کله))

وعظ خدا کا کام فرماتا ہے۔ ﴿یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ﴾
وعظ رسول اللہ ﷺ کا کام ہے، فرمان ہے۔
((انما اعظکم بواحدة))
وعظ کا عام حکم ہے فرمان
﴿اُدْعُ اِلٰٰی سَبِیْلِ رَبَّكَ﴾
پس کسی وقت بھی وعظ بدعت نہیں۔ دن رات صبح ظہر عصر، مغرب رمضان غیر رمضان کسی وقت کے کسی حصے میں وعظ ممنوع نہیں۔
وعظ کی مجلس کو حدیث میں
((ریاض جنۃ))
باغیچہ جنت کہا گیا ہے۔
وعظ کی مجلس دنیا کی تمام مجلسوں سے عند اللہ بہتر و افضل ہے، پس اس سے روکنا اسے بدعت کہنا اپنے نفس پر ظلم کرنا۔ دین خدا میں اپنی رائے کو دخل دینا {مَنَّاعٌ لَّلْخَیْرِ} بننا ہے،
مولود نہ حضرت ﷺ کے وقت میں ہوئی۔ نہ اس کی کوئی دلیل۔ وعظ تو آپ نے سن لیا کہ ہر وقت ہوتا رہا۔ اسے افضل ترین عبادت کہا گیا۔ گو اس کے لیے کسی جزئی کا پیش کرنا ضروری نہ تھا۔

تاہم میں آپ کے سامنے شب قدر میں رسول اللہ ﷺ کا وعظ کہنا پیش کرتا ہوں۔
اللہ ان مانعین خیر کو نیک ہدایت دے۔
مسند احمد میں ہے کہ تیئسویں رات حضور ﷺ نے تہائی رات تک نماز پڑھائی، پھر متقدیوں کی طرف منہ کر کے یہ بھی فرمایا
((لَا اَحْسَبُ مَا تَطْلُبُوْنَ اِلَّا وَرَائَکُمْ الخ))
’’یعنی جسے تم سب طلب کر رہے ہو۔ لیلۃ القدر۔‘‘

وہ میرے خیال سے تو ابھی آگے آئے گی۔ الخ مجمع کو مخاطب کر کے کچھ فرمانا۔ اور انہیں رغبت دلانا یہی مفہوم وعظ ہے،
نماز کے بعد کی ایسی تقریروں کو امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وعظ کے ضمن میں ہی وارد کی ہیں۔ اور ان پر وعظ کا باب باندھا ہے،

اسی قسم کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں۔ لیکن میں آپ کو صرف ایک صریح حدیث صحیح مسلم شریف سے سنا دوں اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اسے بدعت کہے تو خدا کے ہاں کیا جواب دے گا اسے سونچ گئے۔

((عن ابی سعید الخدری قال کان رسول اللہ ﷺ یجاور فی العشر التی فی وسط الشھر فاذا کان من حین یمضی عشرون لیلة ویستقبل احدی وعشرین یرجع الٰی مسکہنه ورجع من کان یجاور معه ثم انه اقام فی شھر جاور فیه تلك اللیلة اللتی کان یرجع فیھا فخطب الناس فامرھم بما شآء اللّٰہ ثم قال انی کنت اجاور ھذاہ العشرة۔ ثم بدأ الی اان اجاور ھذہٖ العشر الاواخر فمن کان اعتکف مَعِیَ فلیبث فی معتکفه وقد رأیت ھذہ اللیلة فانسیتھا فالتمسوھا فی العشر الا واخر فی کل وتروقد رأیتین اسجد فی ماء وطین قال ابو سعید الخدری مطرنا لیلة احدیٰ وعشرین فوکف المسجد فی مصلی رسول اللّٰہ فنظرت الیه وقت انسرف من صلوة الصبح ووجہه مبتل طینا وماء))
(مسلم)

’’یعنی رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے درمیانی دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ جب بیسویں رات گذر جاتی۔ اوراکیسویں رات آ جاتی تو آپ اپنے گھر کو لوٹ جاتے، اور آپ کے ساتھی بھی جو اعتکاف میں ہوتے تھے، لیکن ایک مہینہ میں آپ اس رات بھی جس رات کو لوٹ کر جاتے تھے۔ یعنی اکیسویں رات ٹھہرے رہے۔ پھر لوگوں کو خطبہ دیا وعظ سنایا۔ اور جو کچھ منظور خدا تھا انہیں حکم احکام سنائے۔ پھر یہ بھی فرمایا۔ میں اس درمیانی دہے کا اعتکاف کیا کرتا تھا۔ لیکن اب مجھ پر یہ کھلا ہے کہ میں اس آخری عشرے کا اعتکاف کروں۔ پس جن لوگوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے، وہ اپنے اعتکاف میں رہیں۔ سنو میں نے اُس رات کو یعنی لیلۃ القدر کو بھی دیکھ لیا ہے، لیکن پھر بھلا دیا گیا ہوں۔ پس تم اُسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ یعنی اکیس۔ تیئس۔ پچیس۔ ستائیس۔ اُنتیس میں۔ میں نے اس رات اپنے تئیں کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی راوی حدیث کا بیان ہے۔ کہ اُسی اکیسویں رات بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹپکی، اور پانی حضور ﷺ کی نماز کی جگہ بھی ٹپکا، اور جب نماز صبح سے فارغ ہو کر آپ لوٹے تو میں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی نورانی پر پانی اور مٹی لگی ہوئی تھی۔ کیچڑ آلود تھی۔‘‘

اس حدیث میں صاف ہے کہ اکیسویں رات رسول اکرم ﷺ نے وعظ فرمایا۔

مولانا عبد الحکیم صاحب نصیر آبادی نے بھی ان راتوں کے وعظ کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔ لیکن جب میں نے انہیں یہ حدیث لکھ کر بھیجی تو آپ نے رجوع فرمایا، اور رجوع نامہ لکھ کر بھیجا جو بصورت اشتہار دہلی میں تقسیم ہو گیا ہے، اُمید ہے کہ یہ علماء کرام بھی اس حدیث کے ملاحظہ کے بعد اپنے سابقہ فتویٰ سے رجوع کر لیں گے۔

ہاں ضدی اشخاص سے یہ اُمید بہت کم ہے، وہ تو شان امامت میں پڑ کر اس چیز کو اپنی پوزیشن کے خلاف سمجھتے ہیں۔ واللہ الہادی

(محمد مدرس مدرسہ محمدیہ ایڈیٹر اخبار محمدی دہلی)



قرآن و حدیث عوام الناس کو پہنچانے کے واسطے آیا ہے، اور مسائل سنانے کے واسطے رات ہو یا دن رمضان ہو یا غیر رمضان شب قدر ہو یا غیر شب قدر ہر وقت میں تبلیغ افضل ہے عبادت نفلیہ سے اس واسطے کہ یہ فرض ہے، اور وہ نفل ہے اور ظاہر ہے کہ نفل فرض سے بڑھ نہیں سکتا

حدیث میں ہے کہ ایک شخص خالی فرض پڑھ کر علم کے پڑھانے میں مشغول رہتا تھا۔ اور دوسرا عبادت کرتا تھا۔ فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نے کہ علم پڑھانے والا افضل ہے عبادت کرنے والے اور حدیث میں ہے کہ سکھانے والا بہت ہے کہ بخشش مانگتے ہیں۔ واسطے اس کے وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ یہاں تک کہ مچھلیاں بھی دریا میں۔

﴿قال اللہ تعالیٰ یَااَیَّھَا الرَّسُْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَبِّكَ﴾

اور حدیث میں ہے۔
((بلغوا عنی ولو اٰیة وقالَ اللّٰہُ تعالیٰ قَالَ رَبِّ اِنَّنِیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَنَھَارًا))
یہ کام بدعت نہیں بالکل جائز اور ثواب کار خیر ہے۔ بلکہ افضل ہے۔ ہم خربا ہم ثواب۔

(اخبار محمدی دہلی جلد ۱۷ ش ۶۔ ۲۰ شوال ۱۳۵۸ھ۔ ۱۹۳۹ء)
(المجیب عبد الرحمن دہلی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 06 ص 463-468
محدث فتویٰ

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
سوال
شب قدر میں رات کو حمد نعت، قرآن کی تلاوت، تفسیر اور دینی تقاریر کرنا کیسا ہے؟؟؟

~؛

الجواب بعون الملک الوہاب:
شب قدر کی اصل عبادت دعائیں، قیام ا للیل ( تہجد یا تراویح کی نماز ) ہے.
رسول اللہ ﷺ فرمایا:
" من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ " ( متفق علیہ )
جس نےشب قدر میں ایمان کےساتھ اور اللہ سےاجر و ثواب حاصل کرنےکی نیت سےقیام اللیل کیا ( یعنی تراویح یا تہجد کی نماز پڑھی ) اس کےگذشتہ گناہ معاف کر دئےجائیں گے.

اور جن حدیثوں میں طاق راتوں میں صحابہ کرام کےساتھ رسول اللہ ﷺ کی شب بیداری کا تذکرہ ہے، ان میں نماز تراویح ہی پڑھنےکا تذکرہ ہے.

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےرسول اللہ ﷺ سےشب قدر کی دعا کےبارےمیں دریافت کرتےہوئےکہا
اگر مجھےشب قدر کا علم ہو جائےتو میں کیا کہوں ؟؟
یعنی کون سی دعا پڑھوں؟ تو
آپ ﷺ نےفرمایا کہو:
" اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی "
( رواہ احمد و ابن ماجہ و الترمذی و قال الألبانی اسنادہ صحیح )
اےاللہ ! تو عفو و درگذر کرنےوالا ہےاور عفو درگذر کو پسند کرتا ہےپس تو میری غلطیوں اور گناہوں کو معاف فرما اور ہمارےساتھ عفو و درگذر کا سلوک فرما.

اور حضرت ابوذر رض فرماتےہیں کہ ہم نےرسول اللہ ﷺ کےساتھ ( رمضان کے) روزےرکھے، آپ اس مہینےمیں ہمارےساتھ قیام نہیں کیا یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں ( یعنی تیئسویں شب آئی ) تو آپ نےہمارےساتھ تہائی رات تک قیام کیا. ( یعنی ہمیں تراویح کی نماز پڑھائی ) جب چھ راتیں باقی رہ گئیں ( یعنی چوبیس کی شب آئی ) تو آپ نےہمارےساتھ قیام نہیں کیا، پھر جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں ( یعنی پچیسویں شب آئی ) تو آپ نےہمارےساتھ آدھی رات تک قیام کیا، میں نےعرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کاش آج پوری رات آپ ہمیں نفلی نماز ( تراویح ) پڑھاتے، آپ نےفرمایا کہ جب کوئی امام کےساتھ نماز پڑھتا ہےاور اس کےفارغ ہونےتک اس کےساتھ نماز میں شریک رہتا ہے، تو اس کےلئےپوری رات کی عبادت کا ثواب شمار کیا جاتا ہے، پھر جب چار راتیں باقی رہ گئیں ( یعنی چھبیسویں کی شب آئی ) تو آپ نےہمارےساتھ قیام نہیں کیا حالانکہ ہم نےثلث رات باقی رہنےتک آپ کا انتظار کیا، جب تین راتیں باقی رہ گئیں ( یعنی ستائسویں کی شب آئی ) تو رسول اللہ ﷺ نےاپنےگھر والوں، اپنی عورتوں اور سب لوگوں کو جمع کیا اور ہمارےساتھ اتنی دیر تک قیام کیا ( نماز پڑھائی ) کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں فلاح فوت نہ ہو جائے، راوی کہتےہیں کہ ہم نےابوذر رض سےپوچھا " فلاح کیا ہے؟ " انہوں نےفرمایا: " سحری " پھر رسول اللہ ﷺ نےباقی راتوں میں ہمارےساتھ قیام نہیں کیا.
( رواہ ابوداؤد، و النسائی و ابن ماجہ و الترمذی و قال حسن صحیح، و قال الألبانی سندہ صحیح )

ان روایتوں سےمعلوم ہوتا ہےکہ رمضان کےآخری عشرہ کی طاق راتوں کی اصل عبادت تراویح یا تہجد کی نماز پڑھنا، دعائیں مانگنا، ذکر و اذکار کرنا اور توبہ و استغفار کرنا ہے،

لیکن اس کےعلاوہ دوسری عبادتیں جیسےقرآن کی تلاوت وعظ و نصیحت وغیرہ بھی جائز ہیں، کیونکہ " لیلۃالقدر خیر من ألف شھر " کی تفسیر میں علماء کرام نےیہی کہا ہےکہ شب قدر کی عبادت ہزار مہینہ کےعبادت سےبہتر ہےیعنی عبادت کو عام رکھا ہے.

اسی طرح حضرت ابو ھریرہ رض کی حدیث:
" فیہ لیلۃ القدر خیر من ألف شھر، من حرم خیرھا فقد حرم "
( رواہ احمد و النسائی و ھو حدیث جید لشواھدہ ) میں " خیر " عام ہےجو تمام نیکیوں اور عبادتوں کو شامل ہے.

اور ابو سعید خدری رض کی لمبی حدیث جو رسول اللہ ﷺ کےیکےبعد دیگرےتینوں عشروں میں اعتکاف کرنےکےسلسلےمیں ہےاس میں دوسرےعشرےکےاعتکاف کےبعد ( ایکسویں کی رات میں ) اپنےمعتکف سےسر نکال کر لوگوں سےایک مختصر خطاب کرنےکا تذکرہ ہے.
( صحیح البخاری مع الفتح: 280 / 4 کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف و خروج النبی ﷺ صبیحۃ عشرین )
اس سےبھی بعض علماء نےطاق راتوں میں دینی تقاریر اور وعظ و نصیحت کےجواز کےلئےاستدلال کیا ہے.

خلاصہ کلام یہ ہےکہ رمضان کےآخری عشرہ کی طاق راتوں میں اصل عبادت تراویح یا تہجد کی نماز دیر تک پڑھنا اور زیادہ سےزیادہ دعائیں مانگنا ہے.
مگر دوسری عبادتیں بھی جائز ہیں جن میں وعظ و نصیحت اور تقریر کرنا اور سننا بھی داخل ہے. خاص طور سےجب ان تقریروں کہ افادیت زیادہ ہو اور اکثریت کو ان سےشب بیداری میں مدد ملتی ہو.
البتہ جہاں تک ہو سکےاس کا نظم اس طرح کریں کہ دوسروں کی عبادت و راحت میں خلل نہ ہو اور نہ یہ سلسلہ رات بھر جاری رکھیں.
ہذا ماعندی و اللہ اعلم بالصواب
کتبہ
دکتور فضل الرحمن المدنی
رئیس المجلس العلمی والافتاء وعضو ھیئۃ التدریس بالجامعۃ المحمدیۃ بمنصورہ مالیغاؤں.
رحمہ اللہ
رائٹر: یاسر ممتاز محمدی
سکریٹری: دار الافتاء جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں.

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/3467

.
 
Top