• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احمد بن علی ابو بکر الجصاص الحنفی کون تھے؟

شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم۔ کیا یہ ثقہ تھے؟
کیا انہوں کوئی روایت بھی بیان کی ھے؟
ان کے حوالے سے تقلید کو ثابت کیا جاتا ھے۔

تو پوچھنا یہ ھے کہ ان کا اپنا منھج کیا تھا؟ اور اِن کے معاصرین ان کے بارے کیا رائے رکھتے تھے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام علیکم۔ کیا یہ ثقہ تھے؟
کیا انہوں کوئی روایت بھی بیان کی ھے؟
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ابو بکر جصاص رازی حنفی جلیل القدر ائمہ فقہ و تفسیر میں شمار ہوتے ہیں ، احکام القرآن کے نام سے ان کی تفسیر مشہور ہے ۔
مشہور محدث امام طبرانی وغیرہ سے آپ نے علم حدیث بھی حاصل کیا۔
ابو بکر الخطیب نے انہیں تاریخ بغداد میں ان الفاظ سے ذکر کیا ہے:
إمام أصحاب الرأي فِي وقته، كَانَ مشهورا بالزهد والورع، ورد بغداد فِي شبيبته ودرس الفقه على أَبِي الْحَسَن الكرخي ولم يزل حتى انتهت إليه الرياسة، ورحل إليه المتفقهة، وخوطب فِي أن يلي قضاء القضاة فامتنع، وأعيد عَلَيْهِ الْخَطَّاب فلم يفعل، وله تصانيف كثيرة مشهورة ضمنها أحاديث رواها عَنْ أَبِي الْعَبَّاس الأصم النَّيْسَابُورِيّ، وَعَبْد اللَّهِ بْن جعفر بْن فارس الأصبهاني، وعبد الباقي بْن قانع الْقَاضِي، وسليمان بْن أَحْمَدَ الطَّبَرَانِيّ، وغيرهم.
تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية (5/ 72)
ان کے حوالے سے تقلید کو ثابت کیا جاتا ھے۔
تو پوچھنا یہ ھے کہ ان کا اپنا منھج کیا تھا؟ اور اِن کے معاصرین ان کے بارے کیا رائے رکھتے تھے؟
اللہ اعلم۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
[باب القول في تقليد المجتهد]
قال أبو بكر: إذا ابتلي العامي الذي ليس من أهل الاجتهاد بنازلة، فعليه مساءلة أهل العلم عنها. وذلك لقول الله تعالى: {فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون.} [الأنبياء: 7] وقال تعالى: {فلولا نفر من كل فرقة منهم طائفة ليتفقهوا في الدين ولينذروا قومهم إذا رجعوا إليهم لعلهم يحذرون} [التوبة: 122] . فأمر من لا يعلم بقبول قول أهل العلم فيما كان من أمر دينهم من النوازل، وعلى ذلك نصت الأمة من لدن الصدر الأول، ثم التابعين، إلى يومنا هذا، إنما يفزع العامة إلى علمائها في حوادث أمر دينها. ويدل على ذلك أيضا: أن العامي لا يخلو عند بلواه بالحادثة من أن يكون مأمورا بإهمال أمرها، وترك المسألة عنها، وترك أمره على ما كان عليه قبل حدوثها، وأن يتعلم حتى يصير من حدود من يجوز له الاجتهاد، ثم يمضي بما يؤديه إليه اجتهاده، أو يسأل غيره من أهل العلم بذلك، ثم يعمل على فتياه، ويلزمه قبولها منه. وغير جائز للعامي إهمال أمر الحادثة، ولا الإعراض عنها، وترك الأمر على ما كان عليه قبل حدوثها، لأنه مكلف لأحكام الله تعالى الثابت منها بالنص وبالدليل، ولأنه لا يعلم بوجوب تركها على ما كان عليه قبل حدوثها، إذا كان ذلك سببا مختلفا فيه بين أهل العلم، وإنما يصار إلى معرفة الحق فيه من جهة النظر والاستدلال، وليس معرفة ذلك في طوق العامي.
وغير جائز أيضا أن يقال: إن عليه أن يتعلم الأصول، وطرق الاجتهاد، والمقاييس، حتى يصير في حد من يجوز له الاستنباط، لأن ذلك ليس في وسعه، وعسى أن ينفذ عمره قبل بلوغ هذه الحالة. وقد يكون المبتلى بالحادثة غلاما في أول حال بلوغه، وامرأة رأت دما شكت في أنه حيض، أو ليس بحيض، وقد حضرهما وقت إمضاء الحكم حيث لا يسع تأخيره، فثبت أن عليه مسألة أهل العلم بذلك وقبول قولهم فيه. قال أبو بكر: فإذ قد ثبت أن على العامي مسألة أهل العلم بذلك، فليس يخلو إذا كان عليه ذلك من أن يكون له أن يسأل من شاء منهم، أو أن يجتهد، فيسأل أوثقهم في نفسه، وأعلمهم عنده. فقال بعض أهل العلم: له أن يسأل من شاء منهم، من غير اجتهاد في أوثقهم في نفسه، وأعلمهم عنده. وقال آخرون: لا يجوز له الإقدام على مسألة من شاء منهم إلا بعد الاجتهاد منه في حالهم، ثم يقلد أوثقهم لديه، وأعلمهم عنده. فإن تساووا عنده، أخذ بقول من شاء منهم. وهذا القول هو الصحيح عندنا، وذلك لأن عليه الاحتياط (لدينه) ، وهو قد يمكنه الاجتهاد في تغليب الأفضل والأعلم في ظنه، وأوثقهم في نفسه، فغير جائز إذا أمكنه الاحتياط بمثله أن يعدل عنه فيقلد بغير اجتهاد منه، إذ كان له هذا الضرب من الاجتهاد.
الفصول للجصاص

خلاصہ یہ ہے کہ عامی آدمی کو جس کے علم و تفقہ پر اعتماد ہوگا اس سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرے گا۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم۔ بھائی یہ جو ابوبکر الجصاص ہیں۔ یہ تو اپنی کتاب ہی سے معروف ہیں۔ ان کی توثیق یا تضعیف تو کہیں موجود نہیں ؟ البتہ انہیں اہل الرائے کے اصحاب میں شمار کیا ھے امام خطیب نے؟
خلاصہ یہ ہے کہ عامی آدمی کو جس کے علم و تفقہ پر اعتماد ہوگا اس سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرے گا۔
میں سمجھتی ھوں عامی کا اعتماد چنداں معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ عامی کو چاہییے کہ ایسا عالم تلاش کرے جس سے وہ صحیح علم حاصل کرسکیں۔ وگرنہ اگر عامی کو اُسی کے اعتماد پر چھوڑ دینگے۔ تو پھر تو الله کا ظالم ھونا لازم نہیں آتا؟ کیونکہ جو انسان جہاں بھی پیدا ھوتا ھے۔ والدین اُسے اپنے دین پر چلا دیتے ھیں۔ اور پھر وہ انسان بھی فقط اپنے والدین کے نظریات کے حامل علماء پر ہی اعتماد کرتا رھتا ھے۔ یہاں تک کہ والدین کا دین اُسی کا دین بن جاتا ھے۔
اس طرح تو الله کا ظالم ھونا لازم آتا ھے۔ کہ الله ہی ہمیں مختلف نظریات کے حامل لوگوں میں پیدا کرتے ہیں؟۔تو کیا عامی کو اتنا سینس استعمال کرنا چاہییے یا نہیں ، کہ وہ اتنا شعور حاصل کرے۔ کہ مجھے کہاں سے علم حاصل کرنا چاہییے؟
میں کہیں غلط کہہ گئی ہوں تو اصلاح کردیں۔
@اشماریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں سمجھتی ھوں عامی کا اعتماد چنداں معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ عامی کو چاہییے کہ ایسا عالم تلاش کرے جس سے وہ صحیح علم حاصل کرسکیں۔
یہی عامی کا اجتہاد ہے، یعنی کہ عالم کا انتخاب، کہ جسے وہ علمائے حق میں شمار کرتا ہے! اور عامی کے حق میں یہ معتبر ہے!
وگرنہ اگر عامی کو اُسی کے اعتماد پر چھوڑ دینگے۔ تو پھر تو الله کا ظالم ھونا لازم نہیں آتا؟ کیونکہ جو انسان جہاں بھی پیدا ھوتا ھے۔ والدین اُسے اپنے دین پر چلا دیتے ھیں۔ اور پھر وہ انسان بھی فقط اپنے والدین کے نظریات کے حامل علماء پر ہی اعتماد کرتا رھتا ھے۔ یہاں تک کہ والدین کا دین اُسی کا دین بن جاتا ھے۔
اس طرح تو الله کا ظالم ھونا لازم آتا ھے۔ کہ الله ہی ہمیں مختلف نظریات کے حامل لوگوں میں پیدا کرتے ہیں؟۔تو کیا عامی کو اتنا سینس استعمال کرنا چاہییے یا نہیں ، کہ وہ اتنا شعور حاصل کرے۔ کہ مجھے کہاں سے علم حاصل کرنا چاہییے؟
میں کہیں غلط کہہ گئی ہوں تو اصلاح کردیں۔
آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عامی کو بھی علم حاصل کر کے عالم بننے کا مکلف بنایا جائے!
جبکہ شریعت میں یہ حکم نہیں کہ ہر مسلمان پر عالم بننا واجب قرار پاتا ہو!
جبکہ انسان کو اللہ نے اس قدر ہی مکلف ٹھہرایا ہے، جس کی اسے استطاعت ہو، لہٰذا عامی بھی اپنے علم کے موافق ہی مکلف ہے! اور اس پر واجب ہے کہ وہ علماء سے رجوع کرے!
اس پر ملون الفاظ جیسا کلام کردینا جسارت ہے!
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
یہی عامی کا اجتہاد ہے، یعنی کہ عالم کا انتخاب، کہ جسے وہ علمائے حق میں شمار کرتا ہے! اور عامی کے حق میں یہ معتبر ہے!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ بھائی یہ عامی کا اجتجاد کس طرح کہلائے گا۔ جبکہ عامی تو چلتے ہی انہی علماء کے پیچھے ھیں جن کے مذھب پر وہ پرورش پائے ہوئے ھوتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
ہمارے امی ابو بریلوی ھیں۔ تو میں بھی صرف اسی وجہ سے بریلوی تھی چونکہ امی ابو بریلوی تھے۔ پھر کہیں جاکرکے 25 سال کی عمر میں کچھ سیکھا اور نظریات تبدیل کیئے۔ ابو ابھی تک بریلویت پر قائم ھیں۔ جبکہ امی کو سمجھا سکھلا چکی ہوں میں۔
تو یہ تو عامی کا صرف اپنے والدین کے نظریات (دین/مسلک/فرقے) کو حق سمجھنا عامی کا ظن ھوا نہ؟
۔
اور اگر اسے حسن ظن کہیں گے۔ تو یہی حسنِ ظن تو یہود ونصاریٰ بھی تو اپنے والدین علماء وغیرہ سے رکھتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ یھود ونصاریٰ ھیں؟۔
۔
آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عامی کو بھی علم حاصل کر کے عالم بننے کا مکلف بنایا جائے!
جبکہ شریعت میں یہ حکم نہیں کہ ہر مسلمان پر عالم بننا واجب قرار پاتا ہو!
نہیں بھائی۔ ایسا سمجھ کر ہرگز نہیں کہا میں نے۔ نہ ہی ایسا کچھ لکھا تھا میں نے۔
میں تو یہ کہنا چاہ رہی ہوں۔ کہ نبی علیہ اسلام کے فرامین بھی ھیں اس ضمن میں۔ اور سلف نے بھی تاکید کی ھے۔
جیسے۔

إنَّ من أشراطِ الساعةِ أنْ يُلتمسَ العلمُ عند الأصاغرِ
الراوي: أبو أمية الجمحي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2207
قیامت کی نشانیوں میں یہ ہے کہ چھوٹے (بدعتی یا لا علم) لوگوں سے علم تلاش کیا جائے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (صحیح البخاری)

محمد بن سیرین رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :بے شک یہ علم تمہارا دین ہے تو آدمی کو چاہئے کے وہ یہ ضرور دیکھے کہ وہ اپنا دین کس سے حاصل کر رہا ہے.

ابن ابی اویس کہتے ہیں کہ امام مالك رحمه الله نے فرمایا :بے شک یہ علم تمہارا گوشت اور خون ہے (زندگی ہے)،اور اسی کہ متعلق تم سے سوال کیا جائے گا تو یہ ضرور دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو.

میں بس اتنا کہنا چاہ رہی ہوں۔ کہ جو جہاں لگا ھے اُسے وہیں نہیں لگے رھنا چاہییے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو عقل دی ھے اسے دنیا کے باقی کام کاجوں میں استعمال کے ساتھ ساتھ۔ اپنی استطاعت کے مطابق دین میں غوروفکر کے لیئے بھی استعمال کرنی چاہییے۔۔
یعنی عامی کم از کم اتنا تو شعور رکھنا چاہییے کہ وہ دیکھے کس سے علم حاصل کیا جارہا ھے۔۔
۔
اگر آپ سمجھتے ھیں کہ عامی کو اتنا شعور نہیں رکھنا چاہییے۔ تو نتیجہ یہ آئے گا۔
کہ جو جہاں لگے ھیں۔ وہ وہیں لگے رہیں۔ اپنے اپنے ظن کے مطابق۔ (یعنی والدین کے دین پر)
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
میں نے اس فورم میں آپ سے بہت کچھ سیکھا ھے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ @ابن داود الله آپ کی عمر علم رزق میں برکتیں عطا فرمائے۔ الله آپ سے راضی ھو۔ اٰمین
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ بھائی یہ عامی کا اجتجاد کس طرح کہلائے گا۔ جبکہ عامی تو چلتے ہی انہی علماء کے پیچھے ھیں جن کے مذھب پر وہ پرورش پائے ہوئے ھوتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
ہمارے امی ابو بریلوی ھیں۔ تو میں بھی صرف اسی وجہ سے بریلوی تھی چونکہ امی ابو بریلوی تھے۔ پھر کہیں جاکرکے 25 سال کی عمر میں کچھ سیکھا اور نظریات تبدیل کیئے۔ ابو ابھی تک بریلویت پر قائم ھیں۔ جبکہ امی کو سمجھا سکھلا چکی ہوں میں۔
تو یہ تو عامی کا صرف اپنے والدین کے نظریات (دین/مسلک/فرقے) کو حق سمجھنا عامی کا ظن ھوا نہ؟
۔
اور اگر اسے حسن ظن کہیں گے۔ تو یہی حسنِ ظن تو یہود ونصاریٰ بھی تو اپنے والدین علماء وغیرہ سے رکھتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ یھود ونصاریٰ ھیں؟۔
۔
جی! اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو اسلام کے لئے مکلف ٹھہرایا ہے، الا کہ کوئی عاقل نہ ہو، یا پاگل ہو!
لہٰذا اس میں عامی و عالم کی تمیز نہیں!
اور یہ امر تمام مسلمانوں میں متفقہ ہے، خواہ وہ تقلید کے قائل ہوں یا نہ ہوں!
نہیں بھائی۔ ایسا سمجھ کر ہرگز نہیں کہا میں نے۔ نہ ہی ایسا کچھ لکھا تھا میں نے۔
میں تو یہ کہنا چاہ رہی ہوں۔ کہ نبی علیہ اسلام کے فرامین بھی ھیں اس ضمن میں۔ اور سلف نے بھی تاکید کی ھے۔
جیسے۔

إنَّ من أشراطِ الساعةِ أنْ يُلتمسَ العلمُ عند الأصاغرِ
الراوي: أبو أمية الجمحي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2207
قیامت کی نشانیوں میں یہ ہے کہ چھوٹے (بدعتی یا لا علم) لوگوں سے علم تلاش کیا جائے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (صحیح البخاری)

محمد بن سیرین رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :بے شک یہ علم تمہارا دین ہے تو آدمی کو چاہئے کے وہ یہ ضرور دیکھے کہ وہ اپنا دین کس سے حاصل کر رہا ہے.

ابن ابی اویس کہتے ہیں کہ امام مالك رحمه الله نے فرمایا :بے شک یہ علم تمہارا گوشت اور خون ہے (زندگی ہے)،اور اسی کہ متعلق تم سے سوال کیا جائے گا تو یہ ضرور دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو.

میں بس اتنا کہنا چاہ رہی ہوں۔ کہ جو جہاں لگا ھے اُسے وہیں نہیں لگے رھنا چاہییے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو عقل دی ھے اسے دنیا کے باقی کام کاجوں میں استعمال کے ساتھ ساتھ۔ اپنی استطاعت کے مطابق دین میں غوروفکر کے لیئے بھی استعمال کرنی چاہییے۔۔
یعنی عامی کم از کم اتنا تو شعور رکھنا چاہییے کہ وہ دیکھے کس سے علم حاصل کیا جارہا ھے۔۔
۔
اگر آپ سمجھتے ھیں کہ عامی کو اتنا شعور نہیں رکھنا چاہییے۔ تو نتیجہ یہ آئے گا۔
کہ جو جہاں لگے ھیں۔ وہ وہیں لگے رہیں۔ اپنے اپنے ظن کے مطابق۔ (یعنی والدین کے دین پر)
جی ! عامی پر ان ہی امور کو مد نظر رکھتے ہوئے علماء کا انتخاب کرنا ہے! اور وہ اپنی معلومات اور علم کے مطابق خلوص نیت سے کرے!
تقلید کے قائل بھی اس بات پر متفق ہیں کہ عقائد ضروریہ اور مسائل ضروریہ کا سیکھنا عامی کو بھی لازم ہے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے بنیادی سوال کے حوالہ سے عرض ہے:

1- أحكام القرآن - للجصَّاص (الحنفى)
* ترجمة المؤلف:
هو أبو بكر، أحمد بن علىّ الرازى، المشهور بالجصَّاص. وُلِد رحمه الله تعالى ببغداد سنة 305 هـ (خمس وثلاثمائة من الهجرة).
كان إمام الحنفية فى وقته، وإليه انتهت رياسة الأصحاب. أخذ عن أبى سهل الزجَّاج، وعن أبى الحسن الكرخى، وعن غيرهما من فقهاء عصره. واستقر التدريس له ببغداد، وانتهت الرحلة إليه، وكان على طريق الكرخى فى الزهد، وبه انتفع، وعليه تخرَّج، وبلغ من زهده أنه خُوطِبَ فى أن يلى القضاء فامتنع، وأُعيد عليه الخطاب فلم يقبل. أما مصنفاته فكثيرة. أهمها كتاب "أحكام القرآن" وهو ما نحن بصدده الآن، وشرح مختصر الكرخى، وشرح مختصر الطحاوى، وشرح الجامع الكبير للإمام محمد ابن الحسن الشيبانى، وكتاب أُصول الفقه، وآخر فى أدب القضاء، وعلى الجملة فقد كان
الجصَّاص من خيرة العلماء الأعلام، وإليه يرجع كثير من الفضل فى تدعيم مذهب الحنفية على البراهين والأدلة.
هذا وقد ذكره المنصور بالله فى طبقات المعتزلة، وسيأتيك فى تفسيره ما يؤيد هذا القول.
أما وفاته فكانت سنة 370 هـ (سبعين وثلاثمائة من الهجرى) ، فرحمه الله ورضى عنه.
* *
* التعريف بهذا التفسير وطريقة مؤلفه فيه:
يُعَد هذا التفسير من أهم كتب التفسير الفقهى خصوصاً عند الحنفية، لأنه يقوم على تركيز مذهبهم والترويج له، والدفاع عنه. وهو يعرض لسور القرآن كلها ولكنه لا يتكلم إلا عن الآيات التى لها تعلق بالأحكام فقط، وهو - وإن كان يسير على ترتيب سور القرآن - مبوب كتبويب الفقه، وكل باب من أبوابه معنون بعنوان تندرج فيه المسائل التى يتعرَّض لها المؤلف فى هذا الباب.
* *
* استطراده لمسائل فقهية بعيدة عن فقه القرآن:
هذا.. وإن المؤلف - رحمه الله - لا يقتصر فى تفسيره على ذكر الأحكام التى يمكن أن تُستنبط من الآيات - بل نراه يستطرد إلى كثير من مسائل الفقه والخلافيات بين الأئمة، مع ذكره للأدلة بتوسع كبير، مما جعل كتابه أشبه ما يكون بكتب الفقه المقارن، وكثيراً ما يكون هذا الاستطراد إلى مسائل فقهية لا صلة لها بالآية إلا عن بُعْد.
فمثلاً نجده عندما عرض لقوله تعالى فى الآية [25] من سورة البقرة: {وَبَشِّرِ الذين آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصالحات أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأنهار} يستطرد لمذهب الحنفية فى أن من قال لعبيده: مَن بشَّرنى بولادة فلانة فهو حر، فبشَّره جماعة واحداً بعد واحد أن الأول يُعتق دون غيره.
ومثلاً عندما تعرَّض لقوله تعالى فى الآية [26] من سورة يوسف: {وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَآ إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ}
... الآية، نجده يستطرد لخلاف الفقهاء فى مُدَّعى الُّقُطة إذا ذكر علامتها، وخلافهم فى اللقيط إذا ادَّعاه رجلان ووصف أحدهما علامة فى جسده، وخلافهم فى متاع البيت إذا ادَّعاه الزوج لنفسه وادَّعته الزوجة لنفسها، وخلافهم فى مصراع الباب إذا ادَّعاه رب الدار والمستأجر.. وغير ذلك من مسائل الخلاف التى لا تتصل بالآية إلا عن بُعْدٍ.
* *
* تعصبه لمذهب الحنفية:
ثم إن المؤلف - رحمه الله وعفا عنه- متعصب لمذهب الحنفية إلى حد كبير، مما جعله فى هذا الكتاب يتعسف فى تأويل بعض الآيات حتى يجعلها فى جانبه،
أو يجعلها غير صالحة للاستشهاد بها من جانب مخالفيه، والذى يقرأ الكتاب يلمس روح التعصب فيه فى كثير من المواقف.
فمثلاً عندما تعرَّض لقوله تعالى فى الآية [187] من سورة البقرة: {ثُمَّ أَتِمُّواْ الصيام إِلَى الليل} .. نجده يحاول بتعسف ظاهر أن يجعل الآية دالة على أن من دخل فى صوم التطوع لزم إتمامه.
ومثلاً عندما تعرَّض لقوله تعالى فى الآية [232] من سورة البقرة: {وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النسآء فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ}
... الآية، نجده يحاول أن يستدل بالآية من عدة وجوه على أن للمرأة أن تعقد على نفسها بغير الولى وبدون إذنه.
ومثلاً عندما تعرَّض لقوله تعالى فى الآية [2] من سورة النساء: {وَآتُواْ اليتامى أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُواْ الخبيث بالطيب}
... الآية، وقوله فى الآية [6] منها: {وابتلوا اليتامى حتى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْداً فادفعوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ} ... الآية، نجده يحاول أن يأخذ من مجموع الآيتين دليلاً لمذهب أبى حنيفة القائل بوجوب دفع المال لليتيم إذا بلغ خمساً وعشرين سنة، وإن لم يؤنس منه الرشد.
* *
* حملة الجصَّاص على مخالفيه:
ثم إن الجصَّاص مع تعصبه لمذهبه وتعسفه فى التأويل، ليس عف اللسان مع الإمام الشافعى رضى الله عنه ولا مع غيره من الأئمة، وكثيراً ما نراه يرمى الشافعى وغيره من مخالفى الحنفية بعبارات شديدة، لا تليق من مثل الجصَّاص فى مثل الشافعى وغيره من الأئمة رحمهم الله.
فمثلاً عندما عرض لآية المحرَّمات من النساء فى سورة النساء نجده يعرض للخلاف الذى بين الحنفية والشافعية فى حكم من زنى بامرأة، هل يحل له التزوج ببنتها أو لا؟ ثم ذكر مناظرة طويلة جرت بين الشافعى وغيره فى هذه المسألة، ويناقش الشافعى فيما يرد به على مناظره، ويرميه بعبارات شنيعة لاذعة كقوله: "فقد بان أن ما قاله الشافعى وما سلَّمه له السائل كلام فارغ لا معنى تحته فى حكم ما سُئِل عنه".
وقوله: "ما ظننت أن أحداً ممن ينتدب لمناظرة خصم يبلغ به الإفلاس من الحجاج أن يلجأ إلى مثل هذا، مع سخافة عقل السائل وغباوته".
وقوله حين لم يرقه أحد أجوبة الشافعى على سؤال مناظره: "ولو كُلِّم بذلك المبتدئون من أحداث أصحابنا لما خفى عليهم عوار هذا الحجاج، وضعف السائل والمسئول فيه".
ومثلاً عند ذكره لمذهب الشافعى فى الترتيب بين أعضاء الوضوء نجده يقول: "وهذا القول مما خرج به الشافعى عن إجماع السَلَف والفقهاء" كأن الشافعى فى نظر الجصَّاص ممن لا يُعتد برأيه، حتى ينعقد الإجماع بدونه.
* * *
* تأثر الجصَّاص بمذهب المعتزلة:
كذلك نجد الجصَّاص يميل إلى عقيدة المعتزلة، ويتأثر بها فى تفسيره، فمثلاً عندما تعرَّض لقوله تعالى فى الآية [102] من سورة البقرة: {واتبعوا مَا تَتْلُواْ الشياطين على مُلْكِ سُلَيْمَانَ}
... الآية، نجده يذكر حقيقة السحر ويقول إنه: "متى أُطلق فهو اسم لكل أمر هو باطل لا حقيقة له ولا ثبات"، كما ينكر حديث البخارى فى سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويقر أنه من وضع الملاحدة.
ومثلاً عندما تعرَّض لقوله تعالى فى الآية [103] من سورة الأنعام: {لاَّ تُدْرِكُهُ الأبصار}
... الآية، نجده يقول: "معناه لا تراه الأبصار. وهذا تمدح بنفى رؤية الأبصار كقوله تعالى - فى الآية [255] من سورة البقرة: {لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ} - وما تمدّح الله بنفيه عن نفسه فإن إثبات ضده ذم ونقص، فغير جائز إثبات نقيضه بحال.. فلما تمدَّح بنفى رؤية البصر عنه لم يجز إثبات ضده ونقيضه بحال، إذ كان فيه إثبات صفة نقص، ولا يجوز أن يكون مخصوصاً بقوله تعالى فى الآيتين [22، 23] من سورة القيامة: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ * إلى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} ؛ لأن النظر محتمل لمعان: منها انتظار الثواب، كما روى عن جماعة من السَلَف، فلما كان ذلك محتملاً للتأويل لم يجز الاعتراض به على ما لا يساغ للتأويل فيه. والأخبار المروية فى الرؤية إنما المراد بها العلم لو صحَّت، وهو علم الضرورة الذى لا تشوبه شبهة، ولا تعرض فيه الشكوك، لأن الرؤية بمعنى العلم مشهورة فى اللُّغة".
* *
* حملة الجصَّاص على معاوية رضى الله عنه:
كما أننا نلاحظ على الجصَّاص أنه تبدو منه البغضاء لمعاوية رضى الله عنه، ويتأثر بذلك فى تفسيره. فمثلاً عند تفسيره لقوله تعالى فى الآيات [39 - 41] من سورة الحج: {أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُواْ وَإِنَّ الله على نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ * الذين أُخْرِجُواْ مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ}
... إلى قوله: {الذين إِنْ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الأرض أَقَامُواْ الصلاة وَآتَوُاْ الزكاة وَأَمَرُواْ بالمعروف وَنَهَوْاْ عَنِ المنكر وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأمور} .. يقول: ".. وهذه صفة الخلفاء الراشدين، الذين مكنهم الله فى الأرض وهم أبو بكر وعمر وعثمان وعلىّ رضى الله عنهم. وفيه الدلالة الواضحة على صحة إمامتهم، لإخبار الله تعالى بأنهم إذا مُكِّنوا فى الأرض قاموا بفروض الله عليهم، وقد مُكِّنوا فى الأرض فوجب أن يكونوا أئمة قائمين بأوامر الله منتهين عن زواجره ونواهيه، ولا يدخل معاوية فى هؤلاء، لأن الله إنما وصف بذلك المهاجرين الذين أُخرجوا من ديارهم، وليس معاوية من المهاجرين، بل هو من الطُلَقاء".
ومثلاً فى سورة النور عند قوله تعالى فى الآية [55] : {وَعَدَ الله الذين آمَنُواْ مِنْكُمْ وَعَمِلُواْ الصالحات لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأرض} ... الآية، يقول: "وفيه الدلالة على صحة إمامة الخلفاء الأربعةَ أيضاً، لأن الله استخلفهم فى الأرض وَمَكَّن لهم كما جاء الوعد، ولا يدخل فيهم معاوية، لأنه لم يكن مؤمناً فى ذلك الوقت".
وفى سورة الحجرات عند قوله تعالى فى الآية [9] : {وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ المؤمنين اقتتلوا}
... الآية، نجده يجعل علياً رضى الله عنه هو المحق فى قَتَاله، أما معاوية ومَن معه فهم الفئة الباغية. كذلك كل مَن خرج على علىّ". وما كان أولى بصاحبنا أن يترك هذا التحامل على معاوية الصحابى، ويفوِّض أمره إلى الله، ولا يلوى مثل هذه الآيات إلى ميوله وهواه.
هذا.. والكتاب مطبوع فى ثلاثة مجلدات كبار، ومتداول بين أهل العلم.
* * *

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 323 – 327 جلد 02 التفسير والمفسرون - الدكتور محمد السيد حسين الذهبي (المتوفى: 1398هـ) - مكتبة وهبة، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 385 – 389 جلد 02 التفسير والمفسرون - الدكتور محمد السيد حسين الذهبي (المتوفى: 1398هـ) – دار الحديث، القاهرة

مختصراً شیخ ارشاد الحق اثری نے ایک جگہ یوں تعارف کروایا ہے:
علامہ ابو بکر الجصاصؒ بلاشبہ اکابر علمائے احناف میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر اس کے باوصف وہ معتزلی افکار کے حامل تھے۔ منصور باللہ نے انہیں ''طبقات المعتزلہ'' میں ذکر کیا ہے۔ دکتور محمد حسین الذہبی رقمطراز ہیں۔

'' كذلك نجد الجصَّاص يميل إلى عقيدة المعتزلة، ويتأثر بها فى تفسيره، فمثلاً عندما تعرَّض لقوله تعالى فى الآية [102] من سورة البقرة: {واتبعوا مَا تَتْلُواْ الشياطين على مُلْكِ سُلَيْمَانَ} ... الآية، نجده يذكر حقيقة السحر ويقول إنه: "متى أُطلق فهو اسم لكل أمر هو باطل لا حقيقة له ولا ثبات"، كما ينكر حديث البخارى فى سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويقر أنه من وضع الملاحدة.'' (التفسير المفسرون جلد 02، صفحه 438)
''کہ ہم جصاص کو پاتے ہیں کہ وہ معتزلی عقیدہ کیی طرف مائل ہے اور اپنی تفسیر میں اس سے متاثر ہے۔ مثلاً سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 102 وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ الاية کے تحت وہ سحر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس اطلاق ہر باطل عمل پر ہوتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اسی بنا پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جادو کے بارے میں بخاری کی حدیث کا انکار کرتے ہیں اور اسے ملحدوں کی من گھڑت قرار دیتے ہیں'' اسی طرح علامہ ابو بکر جصاص نے معتزلی افکار کی ترجمانی کرتے ہوئے قیامت کے روز اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی زیارت کا بھی انکار کیا ہے اور ''وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ'' کے بارے میں کہا ہے کہ یہاں ''ناظرة'' کے معنی ''انتظار الثواب'' کے ہیں اور جن احادیث میں رؤیت باری تعالیٰ کا ذکر ہے تو اس سے مراد علم ہے کیونکہ لغت میں رؤیت کے معنی علم شائع وزائع ہیں۔ ملاحظہ ہو احکام القرآن جلد 03 صفحہ 05۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 108 – 109 احادیث صحیح بخاری ومسلم کو مذہبی داستانیں بنانے کی ناکام کوشش – ارشاد الحق اثری – ادارۃ العلوم الاثریہ، فیصل آباد
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
Top