• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے.

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اگر احناف کے نزدیک سینے پر ہاتھ رکھنے والی احادیث ضعیف ہیں تو پھر حنفی عورتیں نماز میں کس حدیث کی روشنی میں سینے پر ہاتھ رکھتی ہیں؟؟؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جزاک اللہ خیرا رضا بھائی جان
بہت اچھے
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
122
ری ایکشن اسکور
422
پوائنٹ
76
ماشاء اللہ !اچھا نکتہ ہے۔ اس کا جواب آنا چاہیے۔
السلام علیکم
ابوالحسن علوی بھائی آپ جیسی علمی شخصیت کیلئے یہ مناسب بات نہیں کہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس طرح سادہ لوحی سے احناف کو یا ان کی خواتین کو نشانہ بنانے والے سوالات کی حمایت کی جائے۔ اس موضوع پر تو دونوں طرف سے بیشمار رسائل لکھے گئے ہیں کیا ان میں سے ایک بھی رسالہ آپ کی نطر سے نہیں گزرا؟ حالانکہ کتاب و سنت لائبریری پر تو اس موضوع پر ایک اچھی کتاب یہاں موجود ہے۔(اور جس میں ۔۔ صفحہ 31 پر مجمع الزوائد کے حوالے سے وہ روایت درج کی گئی ہے جسے عورتوں کے سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل بتائی جاتی ہے ، ہرچند کہ روایت ضعیف ہے۔)

میری عاجز رائے تو یہی ہے کہ اس قسم کے موضوعات پر عام اراکین کو گفتگو کی اجازت ہی نہ دی جائے۔ اگر کسی رکن کو کچھ پوچھنا ہو تو وہ سوالات والے سیکشن میں اپنا سوال کر لے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
میری عاجز رائے تو یہی ہے کہ اس قسم کے موضوعات پر عام اراکین کو گفتگو کی اجازت ہی نہ دی جائے۔
نہایت ہی صائب مشورہ ہے۔ اس قسم کے موضوعات پر کتاب و سنت لائبریری پر موجود کتب سے استفادہ حاصل کرنا چاہئے۔ دلوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے والی غیرضروری گفتگو کے بجائے علمائے حق کی مفید کتب کا حوالہ دے دیا جانا کافی و شافی ہے۔
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
نہایت ہی صائب مشورہ ہے۔ اس قسم کے موضوعات پر کتاب و سنت لائبریری پر موجود کتب سے استفادہ حاصل کرنا چاہئے۔ دلوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے والی غیرضروری گفتگو کے بجائے علمائے حق کی مفید کتب کا حوالہ دے دیا جانا کافی و شافی ہے۔
میرے خیال سے ہر جگہ پر قدغن لگانا درست نہیں ہے۔ اور ہر رکن کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہونی چاہئے۔ اگرچہ جہاں اسلوب بیان سخت ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو تو اس پر آپ جیسے بھائی تنبیہ کرنے کے مجاز ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
ابوالحسن علوی بھائی آپ جیسی علمی شخصیت کیلئے یہ مناسب بات نہیں کہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس طرح سادہ لوحی سے احناف کو یا ان کی خواتین کو نشانہ بنانے والے سوالات کی حمایت کی جائے۔ اس موضوع پر تو دونوں طرف سے بیشمار رسائل لکھے گئے ہیں کیا ان میں سے ایک بھی رسالہ آپ کی نطر سے نہیں گزرا؟ حالانکہ کتاب و سنت لائبریری پر تو اس موضوع پر ایک اچھی کتاب یہاں موجود ہے۔(اور جس میں ۔۔ صفحہ 31 پر مجمع الزوائد کے حوالے سے وہ روایت درج کی گئی ہے جسے عورتوں کے سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل بتائی جاتی ہے ، ہرچند کہ روایت ضعیف ہے۔)

میری عاجز رائے تو یہی ہے کہ اس قسم کے موضوعات پر عام اراکین کو گفتگو کی اجازت ہی نہ دی جائے۔ اگر کسی رکن کو کچھ پوچھنا ہو تو وہ سوالات والے سیکشن میں اپنا سوال کر لے۔
واہ باطل شکن صاحب
عام آدمی گفتگو نہ کرے یہ کیسی بات ہوئی۔اب گفتگو کے درمیان رضا بھائی جان کے زہن میں ایک ایسی بات آ گئی جو علماء کے زہن میں بھی نہ آ سکی۔یہ کوئی بات نہیں ہے کہ عام آدمی گفتگو میں حصہ نہ لیں ہاں اگر گفتگو میں عام آدمی کوئی اٹکل پچو سے کام لے رہا ہو یا گالی گلوچ کر رہا ہو تو پھر آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں اس کے علاوہ آپ ایسی بات نہ کریں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
میرے خیال سے ہر جگہ پر قدغن لگانا درست نہیں ہے۔ اور ہر رکن کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہونی چاہئے۔ اگرچہ جہاں اسلوب بیان سخت ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو تو اس پر آپ جیسے بھائی تنبیہ کرنے کے مجاز ہیں۔
میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں بھائی جان اسلم۔اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس عطا فرمائے آمین۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم
ابوالحسن علوی بھائی آپ جیسی علمی شخصیت کیلئے یہ مناسب بات نہیں کہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس طرح سادہ لوحی سے احناف کو یا ان کی خواتین کو نشانہ بنانے والے سوالات کی حمایت کی جائے۔ اس موضوع پر تو دونوں طرف سے بیشمار رسائل لکھے گئے ہیں کیا ان میں سے ایک بھی رسالہ آپ کی نظر سے نہیں گزرا؟ حالانکہ کتاب و سنت لائبریری پر تو اس موضوع پر ایک اچھی کتاب یہاں موجود ہے۔(اور جس میں ۔۔ صفحہ 31 پر مجمع الزوائد کے حوالے سے وہ روایت درج کی گئی ہے جسے عورتوں کے سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل بتائی جاتی ہے ، ہرچند کہ روایت ضعیف ہے۔)
میری عاجز رائے تو یہی ہے کہ اس قسم کے موضوعات پر عام اراکین کو گفتگو کی اجازت ہی نہ دی جائے۔ اگر کسی رکن کو کچھ پوچھنا ہو تو وہ سوالات والے سیکشن میں اپنا سوال کر لے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے اس اقتباس سے محسوس رہا ہے کہ

  1. رضا بھائی کے اس سوال میں احناف کو اور ان کی خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے؟!!
  2. عورتوں کے سینے پر ہاتھ باندھنے پر احناف کے ہاتھ بہت سارے دلائل (صحیح احادیث مبارکہ سے) ہیں۔ کیونکہ سینے یا ناف پر ہاتھ باندھنے کی احادیث کی صحت وضعف پر بحث چل رہی ہے۔
  3. یہ دلائل علوی بھائی کو بھی تسلیم ہیں۔ لیکن وہ اس کے باوجود تجاہل عارفانہ سے کام لے کر اس قسم کے سوالوں کی حمایت کر رہے ہیں، جو ان کے علمی مقام سے فروتر ہے۔
نہایت ہی محترم بھائی!
نمبر ایک
مجھے علم نہیں کہ نشانہ بنانے سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اور رضا بھائی نے کہاں اور کیسے احناف اور خاص طور پر ان کی خواتین کو نشانہ بنایا ہے؟!! (کسی کی عزت کو نشانہ بنانا تو بہت بڑا جرم ہے، براہ کرم وضاحت فرمادیں تاکہ ہم رضا بھائی سے معذرت اور معافی کا مطالبہ کریں!)
نمبر دو
افسوس کہ ان بے شمار رسائل میں سے - جو کم از کم آپ کی نظروں سے گزرے تھے - آپ نے ان دلائل کا تذکرہ نہیں فرمایا جن میں خواتین کو سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم دیا گیا۔
البتہ آپ نے صرف ایک حوالہ دیا - جو شائد آپ کے نزدیک اس موضوع پر احناف کی سب سے قوی دلیل ہے - لیکن وہ ہاتھ باندھنے کے متعلق نہیں بلکہ رفع الیدین کے متعلّق ہے کہ ہاتھ کہاں تک اٹھانے چاہیئں .... حیرانگی تو یہ ہے کہ آپ نے احناف کی جو ایک ہی دلیل ذکر کی ہے، اس کے متعلّق آپ کو خود بھی یہ اعتراف ہے کہ وہ ضعیف ہے، پھر اسے ذکر کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ جس کی بنیاد پر آپ علوی بھائی پر اعتراض کر رہے ہیں کہ انہیں بھی ان دلائل کا علم ہونا چاہئے تھا۔
نمبر 3
علوی بھائی نے - میرے علم کے مطابق - کہیں ایسا اعتراف نہیں کیا کہ وہ عورتوں کے سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق احناف کے دلائل کو تسلیم کرتے ہیں کہ جس کی بناء پر ان سے تقاضا کیا جائے کہ آپ تو جانتے بوجھتے اس قسم کے سوالات کی حمایت نہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم! اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
جناب ناصر صاحب
آپ نے جو سماک بن حرب پر سفیان الثوری وغیرہ کے اعتراضات کو رد کیا ۔ اس کی مذید تحقیق دیکھئیے ۔

ابن حجر تھذیب میں سماک بن حرب کے متعلق کہتے ہیں کہ " فالمعروف عن الثوري أنه ضعفه "
ابن حجر کا فالمعروف کہنا وزن رکھتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس زمانے میں اکثر اہل علم کو یہ بات معلوم تھی اور وہ اس بات کے قائل تھے کہ سفیان الثوری سماک کو ضعیف کہا ہے

شعبہ کے سماک کے متعلق تحفظات کو صرف يحيی بن معین نے ذکر نہیں کیا عفان نے بھی ذکر کیا ہے۔

وقال عفان: سمعت شعبة ذكر سماك بن حرب بكلمة لانحفظها إلا أنه غمزه (ضعفاء العقيلي)

صرف یہی نہیں دیگر نے سماک بن حرب پر اعتراضات کیے ہیں ۔ امام نسائی" وسماك إذا انفرد بأصل لم يكن حجة" کہتے ہیں۔

وقد قال الإمام النسائي رحمه الله كما في تحفة الأشراف(5/137) (لأن سماك بن حرب كان ربما لقن فقيل له عن ابن عباس ، وابن المبارك أثبت في سفيان من الفضل بن موسى ، وسماك إذا انفرد بأصل لم يكن حجة، لأنه كان يلقن فيقبل التلقين) انتهى

اس کے علاوہ بھی بحت سے محدثین کرام ہیں ۔ طوالت کے خوف سے مذید ذکر نہیں کر رہا۔

مومل بن اسماعیل کے متعلق امام بخاری کے قول کے متعلق دیکھئیے سير أعلام النبلاء للحافظ الذهبي جس میں حافظ الذھبی نے امام بخاری کا قول ذکر کیا ہے کہ امام بخاری مومل بن اسماعیل کو منکر الحدیث کہا تھا۔
اس کے علاوہ المغنی فی الضعفاء ، تھذیب الکمال ، تھذیب التھذیب اور ميزان الاعتدال بھی ضرور دیکھیں۔
کیا اتنے بہت سے محدثین کو امام بخاری کے قول کے بارے میں وہم ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے یقیینا کوئی دلیل پائی ہوگی تو اتنے محدثین نے امام بخاری کا قول ذکر کیا ہے۔
اگر ہم ایک لمحہ کے لئیے امام بخاری کا قول کو الگ بھی کرلیں تو مومل بن اسماعیل کو اور محدثین نے بھی کثیر الخطاء ذکر کیا ہے ۔ جو میں پچھلی پوسٹ پر بیان کرحکا ہوں ۔ اب آپ ابن خزیمہ کی مومل بن اسماعیل والی حدیث کے متعلق البانی الباني رحمہ اللہ اکا قول سنئیے ۔
اس حدیث کے متلعلق شیخ الباني رحمہ اللہ ابن خزیمہ کے جاشیہ میں کہتے ہیں کہ إسناده ضعيف لأن مؤملًا ـ وهوَ: ابن إسماعيل ـ سيِّئ الحفظ

میں نے جو سماک بن حرب کے متعلق جو اقوال شعبہ ، سفیان اور ابن مبارک کے ذکر کیے ۔ آپ نے نے نہیں بلا دلیل رد کیے ۔
آپ نے تاریخ بغداد کے حوالہ سے یحیی بن معین اور شعبہ کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات سے ثابت کرنا چاہا کہ یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ شعبہ اور یحیی بن معین کی تاریخ پیدائش اور موت الخطیب البغدادی تک کس سند سے پہنچی ۔ اور اس روایت میں کوئی راوی مجہول تو نہیں ۔(آپ مجہول راوی کی بنیاد پر ایک روایت رد کوچکے ہیں )
اسی طرح امام العجلی اور سفیان کی تاریخ پیدائش اور موت الخطیب البغدادی تک کس سند سے پہنچی۔
خطیب بغدادی اور ان ائمہ کے بہت بعد 392 ہجری میں پیدا ہوئے ۔
اسی طرح تاریخ الثقات کے مؤلف الحاقظ بن الشاہین 297 ہجری میں پیدا ہوئے ۔

سینے پر ہاتھ رکھنے کے متعلق جتنی بھی احادیث ہیں ان میں سب سے قوی مومل بن بن اسماعیل کی روایت ہے اس کی سند ہے
مؤمَّل بن إسماعيل، عن سفيان الثوري، عن عاصم بن كليب بن شهاب، عن أبيه، عن وائل بن حجر
یہ روایت مومل بن اسماعیل کی وجہ سے منکر ہے ۔(اس کے بارے میں مختلف محثین کے قول ذکر کیے جاچکے ہیں )

اس روایت کو سفيان الثوري سے وكيع بن الجراح، وعبدالرزاق، ويحيى بن آدم، وأبو نعيم الفضل بن دكين، وعبدالله بن الوليد، ومحمد بن يوسف الفريابي نے نقل کیا ہے لیکن کسی نے بھی سینے پر ہاتھ رکھنے کا ذکر نہیں کیا ہے

اس حدیث کو شعبة بن الحجاج، وسفيان بن عيينة، وعبدالله بن إديس، ومحمد بن فضيل، وعبدالواحد بن زياد، وعبدالعزيز بن مسلم، وزائدة بن قدامة، وزهير بن معاوية، وبشر بن المفضل نے بھی روایت کیا ہے اور سب نے عاصم بن كليب سے روایت کی ہے اور کسی نے بھی سینے پر ہاتھ رکھنے کے الفاظ نقل نہیں کیے ۔

اس کی مذید سند کچھ یوں ہیں عبدالجبار بن وائل عن علقمة بن وائل، ومولىً لهم، كلاهما روياه عن وائل بن حجر لیکن انہوں نے بھی علی الصدر کے الفاظ بیان نہیں ہیں ۔

تو کیا ایک متکلم فیہ راوی کی وجہ اس روایت پر عمل کریں ۔ یہ کیسے ممکن ہے۔.

: حديث هلب الطَّائي اس میں سماک کے علاوہ ؛ فقبيصة بن هلب بھی ضعیف ہے اس کو عنه ابن المديني والنسائي نے مجھول کہا ہے ۔
اور جس نے بھی یہ حدیث سفیان الثوری یا سماک بن حرب سے رویایت کیا اس الوضع علی الصدر کے الفاض نہیں سوائے روایت کے جو يحيى بن سعيد القطان نے سفیان الثوری سے کی ہے
اور رفع الیدین کی بحث میں آپ حضرات نے سفیان الثوری کے مدلس ہونے دلائل دیے تھے تو اب ان کی روایت کردہ حدیث سے حجت کیوں ۔

اگر فقہاء کا قول ذکر کروں گا تو بات طویل ہوجائے گی۔ بس امام ترمذی کا قول دیکھ لیں ۔

قال الترمذي رحمه الله في "جامعه": "والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم؛ يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة، ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة، ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة، وكل ذلك واسع عندهم".


جناب محمد ارسلان صاحب
احناف کے ہاں جو دلائل عورت کے نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق ہیں ان کو اگر ٹائم ملا تو عورتوں کی نماز کی پوسٹ میں ذکر کروں گا ۔ باقی جن حضرات نے بھی عورت کے نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق لکھا ہے نگراں اعلی سے گذارش ہے کہ اس کو " عورت کے نماز " والی تھریڈ میں منتقل کردیں ۔ تاکہ دو الگ مسئلے گڈمڈ نہ ہوں ۔

باقی ناصر صاحب کی بیان کردہ حدیث نمبر ایک کے جواب میں دلائل کے حوالہ سے کچھ جوالہ جات ڈھونڈھ رہا ہوں ۔ جلد اس پر بھی انشاء اللہ بات کروں گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
باقی جن حضرات نے بھی عورت کے نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق لکھا ہے نگراں اعلی سے گذارش ہے کہ اس کو " عورت کے نماز " والی تھریڈ میں منتقل کردیں ۔ تاکہ دو الگ مسئلے گڈمڈ نہ ہوں ۔
حنفیہ کے نزدیک یہ دو مسائل بنتے ہیں لیکن اہل لحدیث کے نزدیک یہ ایک ہی مسئلہ ہے کیونکہ ان کے ہاں اس سلسلے میں عورت اور مرد کی نماز میں فرق نہیں ہے۔لہذا اگر آپ مہربانی فرما کر یہاں اس اہم تر سوال کا جواب نقل کر دیں تو راقم کو کم ازکم ذاتی طور کافی اطمینان ہو گا کہ حنفی فقہ کے بارے جو ہم نے سنا ہے کہ اس کے مسائل کی ایک بڑی تعداد کی بنیاد صحیح روایات کے بالمقابل ضعیف روایات پر ہے ، تو اس تاثر میں کافی کمی واقع ہو گی۔کیونکہ یہ بھی امکان ہے کہ یہ یک طرفہ تاثر ہو جو اہل الحدیث کی طرف سے عا م کیا گیا ہو تو اس تاثر میں کمی کا یہ بہترین موقف ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top