• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کے نزدیک فقہ حنفی کی کتاب "الہدایہ" قرآن کی طرح ہے ۔

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
یار قرآن کہہ رہا ہے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے پوچھ لو۔
آپ کو یہاں ضرورت کی پڑی ہے؟
آپ ایک بار پوچھیں پھر میں آپ کو بتاؤں گا کہ قرآن و سنت سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے یا نہیں۔ اور جناب عالی! آپ کے لیے ہی دھاگہ بنایا تھا میں نے کہ آپ مسئلہ پوچھیں جو آپ کے خیال میں قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ میں آپ کو دلائل دوں گا۔ پتا نہیں اب شرم آپ کو نہیں آتی یا ہمیں۔

اللہ کے کلام کے حکم پر عمل کریں اور پوچھ لیں کسی سے۔

afzal-1.jpg
afzal-2.jpg



احناف ان باتوں کو صحیح سند سے ثابت کریں

اگر صحیح سند سے صحیح ثابت کر دیں تو ٹھیک ورنہ

جھوٹے پر الله کی لعنت




 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
محدث مورخ باحث علامہ ابو شامہ (المتوفی 665 ھ) ابراز المعانی من حرز المعانی میں لکھتے ہیں:۔

قد لقيت جماعة من أصحابه مشايخ أئمة أكابر في أعيان هذه الأمة بمصر والشام وكلهم يعتقد فيه ذلك وأكثر منه مع إجلال له وتعظيم وتوقير حتى حملني ذلك منهم على أن قلت:
لقيت جماعة فضلاء فازوا ... بصحبة شيخ مصر الشاطبي
وكلهم يعظمه كثيرا ... كتعظيم الصحابة للنبي


یعنی میں مصر اور شام میں شاطبیؒ کے ساتھیوں کی ایک جماعت سے ملا جو مشائخ، ائمہ، اس امت کے اہم لوگوں میں بڑے تھے اور وہ سب ان (شاطبی) سے عقیدت رکھتے تھے اور بہت زیادہ رکھتے تھے اور ساتھ میں ان کی بزرگی، تعظیم اور توقیر بھی کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے اس فعل نے مجھے یہ کہنے پر ابھارا: میں نے فضلاء کی ایک جماعت سے ملاقات کی جو شیخ شاطبی کی صحبت سے بامراد ہوئے۔ اور ان میں سے ہر ایک ان کی بہت تعظیم کرتا تھا جیسا کہ صحابہ کی نبی ﷺ کے لیے تعظیم ہوتی ہے۔

یہ تو بہت ہی زیادہ واضح ہے۔ نبی ﷺ کی طرح تعظیم۔ اب ذرا محدثین کرام پر حکم لگائیے کہ وہ ایک عالم کو نبی ﷺ جیسی تعظیم دیتے ہیں۔
اگر یہ درست ہے تو پھر آپ کی دی ہوئی مثال بھی درست ہے۔


کچھ یہاں بھی ارشاد فرما دیں- مصنف ہدایہ نے کیا کہا اور شرح لکھنے والے لکھنوی نے کیا کہا - ہدایہ جو قرآن کی مانند ہے - اس کے لکھنے والے کو یہ بھی پتا نہیں چلا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے -



tashbiyah.jpg
tashbiyah-2.jpg

@اشماریہ بھی ضرور اس کی سند بتا دیں گے - تا کہ یہاں سب کو پتا چل سکے کہ صاحب ہدایہ نے صحیح لکھا یا لکھنوی صاحب نے صحیح لکھا

 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ٹھیک ہے جناب۔۔۔ ایک بات بتائیں۔۔۔ یہ ھدایہ میں کون سی فقہ والی خوبی ہے جو اس نے دیگر فقہ کی کتب کو منسوخ کر دیا ہے۔۔دین کے ہر معاملے میں آپ لوگ اپنے آپ کو ماہر کیوں سمجھتے ہیں اور دوسروں کو کمتر۔۔۔ حالانکہ آپ کا اپنا حنفی مولوی ایک مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کی بات کو صحیح قرار دے رہا ہے اور مان اس لئے نہیں رہا کہ وہ ابوحنیفہ کا مقلد ہے۔

یہ تو حال ہے آپ لوگوں کی فقاہت کا ۔۔ اور آپ لوگوں کے امام ابوحنیفہ کا یہ حال ہے کہ اس کے اپنے شاگردوں نے اس سے اختلاف کیا اور اس کی رائے کو نہیں مانا۔۔ تو کیا ھدایہ جو کہ غلطیوں کا انبار ہے اس کا لکھنے والا ابوحنیفہ سے بھی زیادہ عالم بن گیا ہے آپ کے نزدیک کہ آپ کا امام تو غلطیاں کرے لیکن ھدایہ کا لکھنے والا آپ کے نزدیک ماہر عالم بن جائے۔ اللہ کا خوف کرو۔
یہ موضوع سے غیر متعلق بات ہو گئی۔ آپ میں سے بعض حضرات کو شاید اعتراض کا کوئی موقع چاہیے ہوتا ہے۔ جہاں جواب دے دیا جائے وہاں کبھی مانا ہے کہ ہاں یہ بات ہم نے مان لی؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
8339 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 8340 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


احناف ان باتوں کو صحیح سند سے ثابت کریں

اگر صحیح سند سے صحیح ثابت کر دیں تو ٹھیک ورنہ

جھوٹے پر الله کی لعنت




کچھ یہاں بھی ارشاد فرما دیں- مصنف ہدایہ نے کیا کہا اور شرح لکھنے والے لکھنوی نے کیا کہا - ہدایہ جو قرآن کی مانند ہے - اس کے لکھنے والے کو یہ بھی پتا نہیں چلا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے -



8341 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 8342 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

@اشماریہ بھی ضرور اس کی سند بتا دیں گے - تا کہ یہاں سب کو پتا چل سکے کہ صاحب ہدایہ نے صحیح لکھا یا لکھنوی صاحب نے صحیح لکھا

آپ کو پتا ہے بات کیا چل رہی ہے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
وجہ شبہ آگے شعر میں ہی مذکور ہے۔ یعنی جس طرح قرآن کریم نے اپنے سے پہلے کتب کو منسوخ کر دیا اس طرح ہدایہ نے شرع یعنی فقہ کی اپنے سے پہلے تصنیف شدہ کتب کو منسوخ کر دیا ہے۔
ان الہدایۃ کالقرآن قد نسخت ما صنفوا قبلہا من الکتب

ویسے اگر یہ وجہ شبہ مذکور نہ ہوتی تو بھی ہم عقل سے کوئی صحیح وجہ شبہ ہی نکالتے۔ یہ تو کوئی بھی نہیں سوچ سکتا کہ کوئی عالم ہدایہ یا کسی بھی کتاب کو معجز ہونے وغیرہ میں قرآن کے مشابہ قرار دے گا۔ زید کالاسد میں بھی تو ہم وجہ شبہ عقل سے ہی نکالتے ہیں ورنہ مذکور تو کہیں نہیں ہوتی۔
پہلے بات تو یہ ہے ک قرآن نے تو امر واقعی میں پچھلی کتابوں کو منسوخ کر دیا اور دوسری بات یہ کہ نسخ کی اتھارٹی صاحب کلام کے پاس ہوتی ہے نہ کہ غیر کے پاس۔ اللہ کی کتابیں تھیں، اس کا کلام تھا، اس نے نئی کتاب کے ساتھ منسوخ کر دیا۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ ہدایہ کو یہ اتھارٹی نے کس نے دی کہ وہ متقدمین کی کتابوں کو منسوخ کرے، ایک شخص یا مصنف یا متکلم زیادہ سے زیادہ اپنے کلام کو منسوخ کرنے کا حق رکھتا ہے یا وہ کسی متکلم پر اتھارٹی ہو تو اس کے کلام کو منسوخ کرنے کا حق رکھتا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے رسول کے کلام کو منسوخ کر دیں یا رسول خود سے اپنے کلام کو منسوخ کر دیں لیکن کوئی صحابی رسول کے کلام کو منسوخ کرنے کا حق اور اہلیت نہیں رکھتا۔

پھر یہ کہ حنفیہ کے نزدیک امر واقعی میں ہدایہ سے پہلے کی کتب منسوخ نہیں ہیں جیسا کہ قرآن سے پہلے کی کتب امر واقعی میں منسوخ ہیں لیکن اس وجہ شبہہ سے ہم یہ کہیں گے کہ وجہ شبہہ، مشبہ بہ میں تو موجود ہے لیکن مشبہہ میں نہیں ہے۔ یعنی آپ زید کو شیر سے تشبیہہ دے رہے ہیں لیکن وجہ شبہہ صرف شیر میں ہے، زید میں بہادری نام کی صفت نہیں ہے۔ یہ تشبہیہ کی کون سی قسم ہے؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
پہلے بات تو یہ ہے ک قرآن نے تو امر واقعی میں پچھلی کتابوں کو منسوخ کر دیا اور دوسری بات یہ کہ نسخ کی اتھارٹی صاحب کلام کے پاس ہوتی ہے نہ کہ غیر کے پاس۔ اللہ کی کتابیں تھیں، اس کا کلام تھا، اس نے نئی کتاب کے ساتھ منسوخ کر دیا۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ ہدایہ کو یہ اتھارٹی نے کس نے دی کہ وہ متقدمین کی کتابوں کو منسوخ کرے، ایک شخص یا مصنف یا متکلم زیادہ سے زیادہ اپنے کلام کو منسوخ کرنے کا حق رکھتا ہے یا وہ کسی متکلم پر اتھارٹی ہو تو اس کے کلام کو منسوخ کرنے کا حق رکھتا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے رسول کے کلام کو منسوخ کر دیں یا رسول خود سے اپنے کلام کو منسوخ کر دیں لیکن کوئی صحابی رسول کے کلام کو منسوخ کرنے کا حق اور اہلیت نہیں رکھتا۔

پھر یہ کہ حنفیہ کے نزدیک امر واقعی میں ہدایہ سے پہلے کی کتب منسوخ نہیں ہیں جیسا کہ قرآن سے پہلے کی کتب امر واقعی میں منسوخ ہیں لیکن اس وجہ شبہہ سے ہم یہ کہیں گے کہ وجہ شبہہ، مشبہ بہ میں تو موجود ہے لیکن مشبہہ میں نہیں ہے۔ یعنی آپ زید کو شیر سے تشبیہہ دے رہے ہیں لیکن وجہ شبہہ صرف شیر میں ہے، زید میں بہادری نام کی صفت نہیں ہے۔ یہ تشبہیہ کی کون سی قسم ہے؟؟؟
جزاک اللہ خیرا
نسخ کے دو معنی ہوتے ہیں:

  1. ایک چیز کا حکم ختم کر کے اس کی جگہ دوسرا حکم لانا یا کسی چیز کے حکم کو تبدیل کر دینا۔
  2. ایک چیز کی جگہ پر دوسری چیز کو رکھنا یعنی اسے پہلے والی کے قائم مقام بنانا۔
تاج العروس میں ہے:
ينسخ الشيء نسخا، أي يزيله ويكون مكانه. والعرب تقول: نسخت الشمس الظل وانتسخته: أزالته، والمعنى أذهبت الظل وحلت محله
معجم الوسیط میں ہے:۔
(نسخ)
الشيء نسخا أزاله يقال نسخت الريح آثار الديار ونسخت الشمس الظل ونسخ الشيب الشباب ويقال نسخ الله الآية أزال حكمها وفي التنزيل العزيز {ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو مثلها} ويقال نسخ الحاكم الحكم أو القانون أبطله

مقاییس اللغۃ ہے:۔
وكل شيء خلف شيئا فقد انتسخه.

قرآن کریم میں نسخ اپنے کمال کے ساتھ پایا جاتا ہے یعنی دونوں صفتیں یعنی اس نے ماقبل کتب کے احکام کو بھی منسوخ کر دیا اور ان کے قائم مقام بھی ہو گیا۔ جب کہ ہدایہ میں نسخ کی دوسری قسم (جو در حقیقت ایک جماعت کے نزدیک اصل نسخ ہے کما فی مقاییس اللغۃ) پائی جاتی ہے۔ یعنی ہدایہ سے پہلے مسائل، دلائل عقلیہ اور دلائل نقلیہ کے لیے مختلف کتب، متون و شروح کو دیکھنا پڑتا تھا۔ جب کہ ہدایہ نے ان سب چیزوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جس کی وجہ سے ہدایہ نے ماقبل کتب کی جگہ لے لی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے والی کتب کے احکامات ہی تبدیل ہو گئے۔ کیوں کہ ہدایہ خود پہلی کتب سے اخذ شدہ ہے۔
اسی لیے اکثر جگہ فقہ کی آخری کتاب کے طور پر ہدایہ پڑھائی جاتی ہے۔

جب ہم زید کالاسد کہتے ہیں تو زید میں بھی یقینا شیر کی طرح جرات پائی جانا ضروری نہیں بلکہ وہ کم بہادر بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جب بہادری کی صفت کسی حد تک بھی پائی جاتی ہے تو اسے شیر سے تشبیہ دے دی جاتی ہے۔

ویسے ایک بات ہے۔ اگر میں کہتا ہوں زید کالاسد تو یہ جملہ درست ہے۔ قطع نظر یہ دیکھے کہ زید میں شیر جیسی بہادری ہے یا نہیں۔ خصوصا اگر میں کسی کتاب میں یہ لکھ دوں۔ اس پر یہ جرح تو ہو سکتی ہے کہ یہ بات خلاف واقع ہے لیکن یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے غلط جملہ کہا ہے یا چوں کہ زید میں شیر جیسی بہادری نہیں ہے اس لیے یہاں میں نے شکل میں یا پنجوں میں یا بو میں شیر کے مشابہ قرار دیا ہے۔ یہ شاید کوئی بھی عاقل نہ کہے۔
ہماری یہاں بحث یہ چل رہی ہے کہ الہدایۃ کالقرآن کہنا درست ہے یا نہیں۔ تو یہ درست ہے۔ پھر آگے وجہ شبہ بھی ذکر کر دی ہے۔
اب یہ الگ بحث ہے کہ یہ چیز خلاف واقع مبالغۃ کہی گئی ہے یا یہ واقع کے مطابق ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
جزاک اللہ خیرا
نسخ کے دو معنی ہوتے ہیں:

  1. ایک چیز کا حکم ختم کر کے اس کی جگہ دوسرا حکم لانا یا کسی چیز کے حکم کو تبدیل کر دینا۔
  2. ایک چیز کی جگہ پر دوسری چیز کو رکھنا یعنی اسے پہلے والی کے قائم مقام بنانا۔
تاج العروس میں ہے:
ينسخ الشيء نسخا، أي يزيله ويكون مكانه. والعرب تقول: نسخت الشمس الظل وانتسخته: أزالته، والمعنى أذهبت الظل وحلت محله
معجم الوسیط میں ہے:۔
(نسخ)
الشيء نسخا أزاله يقال نسخت الريح آثار الديار ونسخت الشمس الظل ونسخ الشيب الشباب ويقال نسخ الله الآية أزال حكمها وفي التنزيل العزيز {ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو مثلها} ويقال نسخ الحاكم الحكم أو القانون أبطله

مقاییس اللغۃ ہے:۔
وكل شيء خلف شيئا فقد انتسخه.

قرآن کریم میں نسخ اپنے کمال کے ساتھ پایا جاتا ہے یعنی دونوں صفتیں یعنی اس نے ماقبل کتب کے احکام کو بھی منسوخ کر دیا اور ان کے قائم مقام بھی ہو گیا۔ جب کہ ہدایہ میں نسخ کی دوسری قسم (جو در حقیقت ایک جماعت کے نزدیک اصل نسخ ہے کما فی مقاییس اللغۃ) پائی جاتی ہے۔ یعنی ہدایہ سے پہلے مسائل، دلائل عقلیہ اور دلائل نقلیہ کے لیے مختلف کتب، متون و شروح کو دیکھنا پڑتا تھا۔ جب کہ ہدایہ نے ان سب چیزوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جس کی وجہ سے ہدایہ نے ماقبل کتب کی جگہ لے لی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے والی کتب کے احکامات ہی تبدیل ہو گئے۔ کیوں کہ ہدایہ خود پہلی کتب سے اخذ شدہ ہے۔
اسی لیے اکثر جگہ فقہ کی آخری کتاب کے طور پر ہدایہ پڑھائی جاتی ہے۔

جب ہم زید کالاسد کہتے ہیں تو زید میں بھی یقینا شیر کی طرح جرات پائی جانا ضروری نہیں بلکہ وہ کم بہادر بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جب بہادری کی صفت کسی حد تک بھی پائی جاتی ہے تو اسے شیر سے تشبیہ دے دی جاتی ہے۔

ویسے ایک بات ہے۔ اگر میں کہتا ہوں زید کالاسد تو یہ جملہ درست ہے۔ قطع نظر یہ دیکھے کہ زید میں شیر جیسی بہادری ہے یا نہیں۔ خصوصا اگر میں کسی کتاب میں یہ لکھ دوں۔ اس پر یہ جرح تو ہو سکتی ہے کہ یہ بات خلاف واقع ہے لیکن یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے غلط جملہ کہا ہے یا چوں کہ زید میں شیر جیسی بہادری نہیں ہے اس لیے یہاں میں نے شکل میں یا پنجوں میں یا بو میں شیر کے مشابہ قرار دیا ہے۔ یہ شاید کوئی بھی عاقل نہ کہے۔
ہماری یہاں بحث یہ چل رہی ہے کہ الہدایۃ کالقرآن کہنا درست ہے یا نہیں۔ تو یہ درست ہے۔ پھر آگے وجہ شبہ بھی ذکر کر دی ہے۔
اب یہ الگ بحث ہے کہ یہ چیز خلاف واقع مبالغۃ کہی گئی ہے یا یہ واقع کے مطابق ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مقاییس اللغۃ کی ایک عبارت کے حوالے سے آپ نے نسخ کا جو معنی بیان کیا ہے، وہ اس سے نہیں نکل رہا ہے کیونکہ عربی زبان میں خلف کا معنی محض قائمقام ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس طرح قائمقام ہونا کہ پہلا ختم ہو چکا ہو اور یہ درحقیقت پہلے معنی ہی کی وضاحت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩﴿٥٨﴾ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا

پس مقاییس اللغۃ کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر چیز جب دوسری کے اس طرح قائمقام ہو جائے کہ پہلی نہ رہے تو اس کو نسخ کہتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے کہا کہ زید کالاسد کہنا ایک درست جملہ ہے، چاہے زید میں بہادری نہ بھی ہو اور بہادری نہ ہونے کی صورت میں اسے مبالغہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن جملہ درست رہے گا۔

اس کے لیے یوں مثال دوں گا کہ نیلسن منڈیلا حسن میں حضرت یوسف علیہ السلام جیسا، بلاشبہہ آپ کی بات بجا کہ گرامر اور زبان کے اعتبار سے جملہ درست ہے یعنی علم بیان میں درست ہے لیکن علم معانی کے اعتبار سے سو فی صد لغو ہے کیونکہ وجہ شبہہ میں مبالغہ نہیں بلکہ وہ مشبہہ میں مفقود ہے۔ مبالغہ اس کو کہتے ہیں کہ ایک صفت موجود ہو اور آپ اس کو بڑھا دیں یعنی ایگزیجیریٹ کر دیں۔ اور اگر ایک موجود ہی نہ ہو اور اسے ثابت کیا جائے تو یہ امر واقع کا خلاف ہے جسے ہم اصطلاح میں کذب کہتے ہیں۔

اور یہ بھی واضح رہے کہ کلام محض الفاظ کی صحت ترکیب کا نام نہیں ہے بلکہ الفاظ کی صحت ترکیب کے ساتھ ان سے پیدا ہونے والے معانی کا نام ہے۔ ورنہ تو مستشرقین نے بھی قرآن جیسا کلام لانے کا نہ صرف دعوی کیا بلکہ وہ لے کر بھی آئے ہیں جیسا مستشرقین کا قرآن دی ٹرو فرقان اس کی ایک مثال ہے۔ ایک مستشرق نے قرآن کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے یہ آیات گھڑیں: الفیل ما الفیل وما ادراک ما الفیل۔ اب کلام کی صحت ترکیب یا علم بیان کا کون سا قاعدہ ہے جو اس میں لغو ثابت ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود ایک عربی دان اسے سن کر ہنسے بغیر نہیں رہے گا۔

ایک اوربات واضح کرتا چلوں کہ حنفی فقہ میں کتب فقہ کو چار درجات میں تقسیم کیا گیا ہے: کتب اصول، کتب نوادر، کتب فتاوی اور کتب جمع وتالیف۔ الہدایہ آخری درجے کی کتاب شمار ہوتی ہے جو لتب اصول، کتب نوادر اور کتب فتاوی، فتاوی سے مراد حالیہ معنی میں فتاوی نہیں ہے، سے کیسےبے نیاز کر سکتی ہے؟

میری رائے میں ایک جملے میں اگر یہ کہہ دیا جائے کہ شاعر کا یہ شعر امر واقعہ کے خلاف ہے، اور اگر وہ ایسا شعر نہ کہتے تو بہت بہتر تھا، تو اتنی لمبی چوڑی دفاعی تاویلات سے بچا جا سکتا ہے۔
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
پہلی بات تو یہ ہے کہ مقاییس اللغۃ کی ایک عبارت کے حوالے سے آپ نے نسخ کا جو معنی بیان کیا ہے، وہ اس سے نہیں نکل رہا ہے کیونکہ عربی زبان میں خلف کا معنی محض قائمقام ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس طرح قائمقام ہونا کہ پہلا ختم ہو چکا ہو اور یہ درحقیقت پہلے معنی ہی کی وضاحت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩﴿٥٨﴾ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا

پس مقاییس اللغۃ کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر چیز جب دوسری کے اس طرح قائمقام ہو جائے کہ پہلی نہ رہے تو اس کو نسخ کہتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے کہا کہ زید کالاسد کہنا ایک درست جملہ ہے، چاہے زید میں بہادری نہ بھی ہو اور بہادری نہ ہونے کی صورت میں اسے مبالغہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن جملہ درست رہے گا۔

اس کے لیے یوں مثال دوں گا کہ نیلسن منڈیلا حسن میں حضرت یوسف علیہ السلام جیسا، بلاشبہہ آپ کی بات بجا کہ گرامر اور زبان کے اعتبار سے جملہ درست ہے یعنی علم بیان میں درست ہے لیکن علم معانی کے اعتبار سے سو فی صد لغو ہے کیونکہ وجہ شبہہ میں مبالغہ نہیں بلکہ وہ مشبہہ میں مفقود ہے۔ مبالغہ اس کو کہتے ہیں کہ ایک صفت موجود ہو اور آپ اس کو بڑھا دیں یعنی ایگزیجیریٹ کر دیں۔ اور اگر ایک موجود ہی نہ ہو اور اسے ثابت کیا جائے تو یہ امر واقع کا خلاف ہے جسے ہم اصطلاح میں کذب کہتے ہیں۔

اور یہ بھی واضح رہے کہ کلام محض الفاظ کی صحت ترکیب کا نام نہیں ہے بلکہ الفاظ کی صحت ترکیب کے ساتھ ان سے پیدا ہونے والے معانی کا نام ہے۔ ورنہ تو مستشرقین نے بھی قرآن جیسا کلام لانے کا نہ صرف دعوی کیا بلکہ وہ لے کر بھی آئے ہیں جیسا مستشرقین کا قرآن دی ٹرو فرقان اس کی ایک مثال ہے۔ ایک مستشرق نے قرآن کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے یہ آیات گھڑیں: الفیل ما الفیل وما ادراک ما الفیل۔ اب کلام کی صحت ترکیب یا علم بیان کا کون سا قاعدہ ہے جو اس میں لغو ثابت ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود ایک عربی دان اسے سن کر ہنسے بغیر نہیں رہے گا۔

ایک اوربات واضح کرتا چلوں کہ حنفی فقہ میں کتب فقہ کو چار درجات میں تقسیم کیا گیا ہے: کتب اصول، کتب نوادر، کتب فتاوی اور کتب جمع وتالیف۔ الہدایہ آخری درجے کی کتاب شمار ہوتی ہے جو لتب اصول، کتب نوادر اور کتب فتاوی، فتاوی سے مراد حالیہ معنی میں فتاوی نہیں ہے، سے کیسےبے نیاز کر سکتی ہے؟

میری رائے میں ایک جملے میں اگر یہ کہہ دیا جائے کہ شاعر کا یہ شعر امر واقعہ کے خلاف ہے، اور اگر وہ ایسا شعر نہ کہتے تو بہت بہتر تھا، تو اتنی لمبی چوڑی دفاعی تاویلات سے بچا جا سکتا ہے۔
بھائی جان سب سے پہلی بات یہ کہ میں آپ کی آخری بات سے متفق ہوں۔ لیکن کیا اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعر نے ہدایہ کو قرآن کے برابر کر دیا ہے اور احناف اسے قرآن کی طرح کتاب سمجھتے ہیں؟ اعتراض یہ ہوتا ہے اور بات یہ چلتی ہے۔

شاعر نے اگر مبالغہ کرتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے تو ٹھیک ہے۔ اس نے غلط کہا ہوگا لیکن کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ شاعر یا ہم یعنی احناف کا عقیدہ یہ ہے کہ ہدایہ قرآن کی طرح ہے؟ کیا میں آپ سے یہ عاجزانہ درخواست کر سکتا ہوں کہ آپ یہ بات اپنے ہم مسلک حضرات کو سمجھائیں جنہوں نے یہاں یہ تھریڈ پوسٹ کیا ہے؟

یہ اصل بات ہے۔ اس سے آگے بعض علمی نکات پر میں اپنی اصلاح کی غرض سے کچھ بات کرتا ہوں تا کہ آپ میری اصلاح فرما دیں۔ لیکن انہیں بحث برائے بحث ہرگز نہ سمجھا جائے۔


آپ نے جو بات خلف کے بارے میں فرمائی بندہ کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ محترم بھائی خلف کا اصل معنی "پیچھے" کا ہے۔ پھر یہ مجازاً کسی کے گزرنے اور ختم ہونے کے بعد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایک کے بعد دوسری نسل کے لیے بھی۔ لیکن اس کے بغیر یعنی ایک چیز زندہ اور موجود ہو اور دوسری چیز اس کو ہٹا کر اس کی جگہ پر ہو جائے اس کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

اللہ پاک کا ارشاد ہے:۔

وَإِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذًا لَا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا

آپ کو اس (مکہ) سے نکال دیں اور تب یہ آپ کے پیچھے (یعنی بعد) بہت کم زمانہ رہیں گے۔

اس میں اکثر قراء کی قراءت "خلافک" کے بجائے "خلفک" ہے۔

علامہ ابن عادل (المتوفی 775 ھ) فرماتے ہیں:۔

قوله تعالى: «خلافك» قرأ الأخوان، وابن عامر، وخفص: «خلافك» بكسر الخاء، وألف بعد اللام، والباقون بفتح الخاء، وسكون اللام

(اللباب فی علوم الکتاب، 12۔353 ط العلمیۃ)


حالاں کہ اہل مکہ کے نبی ﷺ کو مکہ سے نکالنے کے بعد بھی آپ ﷺ حیات رہتے اور رہے بھی۔ اور اہل مکہ پر یہ وعدہ بدر میں پورا ہوگیا۔


مقاییس اللغہ میں نسخ کی دونوں صورتیں وضاحت کے ساتھ لکھی ہیں:۔

قال قوم: قياسه رفع شيء وإثبات غيره مكانه. وقال آخرون: قياسه تحويل شيء إلى شيء.

ان دونوں میں واضح فرق ہے جو کہ اہل عقل پر مخفی نہیں ہے۔ پہلے میں صرف ایک چیز کو ہٹا کر دوسری کو اس کی جگہ دی جاتی ہے اور دوسرے میں بالکل تبدیل کر دیا جاتا ہے۔میں نے بقدر ضرورت وہاں سے ایک مختصر جملہ اس لیے اقتباس کیا تھا تا کہ پہلے والے حوالہ جات کے لیے شاہد بن جائے۔

مقاییس اللغہ میں ہی خلف کی تفصیل میں اس کی تین اصول میں سے پہلی اصل میں پہلی شے کے مکمل ختم ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے:۔

ان يجيء شيء بعد شيء يقوم مقامه

یعنی جو چیز بھی دوسری چیز کے بعد ہو اور اس کے قائم مقام ہو جائے اسے خلف کہتے ہیں۔ بعد ہونا یہاں اس کے ختم کے بعد بھی ہو سکتا ہے اور ختم کے بغیر بھی۔

باقی آپ نے جو نیلسن منڈیلا اور الفیل وغیرہ کی مثالیں دیں تو عرض یہ ہے کہ یہاں اعتراض اس بات پر ہے کہ ہدایہ کو قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ اور میں صرف اسی کا رد کر رہا تھا۔ حقیقت میں یہ کس قدر ہے یا نہیں یا شاعر نے یہ مبالغہ کیا ہے یا نہیں مجھے اس سے بحث نہیں۔

لیکن اگر ہم اس پہلو سے دیکھیں کہ پہلے جو مختلف کتب پڑھائی جاتی تھیں ان کی جگہ ہدایہ نے لے لی اور اب عام دلائل کے لیے ان تمام کتب کی باقاعدہ تدریس کی ضرورت نہیں رہی تو اس پہلو سے شاعر کی یہ بات درست ہے۔ البتہ فتوی وغیرہ کے پہلو سے جیسے آپ نے فرمایا کہ احناف کے نزدیک کتب کی اقسام ہیں تو اس پہلو سے آپ کی بات درست ہے۔ اعتبارات مختلف ہیں تو معانی بھی مختلف ہیں۔

ہذا ما ظہر لی واللہ اعلم۔
 
Top