عبداللہ حیدر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 316
- ری ایکشن اسکور
- 1,017
- پوائنٹ
- 120
نماز میں قبلہ رخ ہونے کے مسائل
(امام البانی کی کتاب "اصل صفۃ صلاۃ النبی" اور ان کے فتاویٰ سے ماخوذ)
نماز پڑھتے وقت اپنا رخ مسجد الحرام( مکہ المکرمہ کی مسجد جس میں خانہ کعبہ واقع ہے) کی طرف رکھنا نماز کے ارکان میں سے ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ
"(اے نبی) ہم بار بار آپ کے چہرے کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو۔"
اور فرمایا:
وَ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ[1]
"اور تم جہاں سے نکلو، مسجدِ محترم (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف منہ (کرکے نماز پڑھا) کرو۔ اور مسلمانو، تم جہاں ہوا کرو، اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی سنت کے ذریعے اس حکم کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہےچنانچہ فرض، سنت ، وتر اور نفل تمام قسم کی نمازوں میں قبلہ رخ ہونا فرض ہے۔ حدیث میں ہے:
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر[2]
"جب تم نماز (پڑھنے) کے لیے اٹھو تو (پہلے اچھی طرح سے) مکمل وضو کرلو، پھر قبلے کی جانب رخ کرو،پھر تکبیر (تحریمہ) کہہ (کر نماز شروع کرو)"
البتہ جب کوئی شرعی عذر یا رخصت ہو تو قبلے کی طرف رخ کیے بغیر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کا تفصیلی بیان آگے آ رہا ہے۔
قبلے کی سمت:
مسجد الحرام کی طرف جو بھی سمت بن رہی ہو وہی قبلہ ہے چنانچہ جو ملک مسجد الحرام کے مغرب میں واقع ہیں ان کے لیے مشرقی سمت اور مشرق والوں کے لیے مغربی سمت قبلہ ہے۔ اسی طرح جنوب والوں کے لیے شمال اور شمال والوں کے لیے جنوبی سمت قبلہ ہو گی۔ دور حاضر میں جدید آلات اور پیمائش کے درست ترین پیمانوں کی بدولت قبلے کی ٹھیک ٹھیک سمت معلوم کرنا نہایت آسان ہو گیا ہے چنانچہ بوقت ضرورت ان آلات کو استعمال کرنا چاہیے تا کہ قبلہ کی سمت کا درست طور پر پتہ چل سکے اور نمازوں کی ادائیگی میں کوئی نقصان نہ ہو۔ اسی لیے اب عُلماء کرام کی طرف سے یہ فتویٰ بھی دیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی مُسلمان کسی ایسی جگہ کی طرف سفر کرنے والا ہو جہاں اسے قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو سکتی ہو یا درست سمت کا پتہ چلنا مشکوک ہو تو اُس مسلمان پر واجب ہے کہ وہ قبلے کاصحیح رُخ بتانے والا کوئی آلہ ساتھ رکھے[3]۔ آجکل ایسے سافٹ وئیر بھی دستیاب ہیں جو موبائل فون میں انسٹال کر کے دنیا میں کسی بھی جگہ سے قبلے کی سمت نکالی جا سکتی ہے۔
اگر ایسی کوئی سہولت میسر نہ ہو ، تو جن جگہوں اور علاقوں میں قبلے کا ٹھیک ٹھیک زاویہ معلوم نہ ہو سکے ، وہاں موجود اور وہاں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مسجد الحرام کی درست سمت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لیں ، مثال کے طور پر اگر کسی جگہ خانہ کعبہ مغرب کی سمت میں واقع ہے تو مغربی سمت میں شمال اور جنوب کے درمیان کسی بھی رخ پر نماز پڑھ لی جائے تو وہ درست ہو گی ان شاء اللہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے فرمایا تھا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ[4]
"(اہل مدینہ کے لیے)مشرق اور مغرب کے درمیان (تمام سمت) قبلہ (کے حکم میں) ہے"
البتہ جس شخص کو مکہ مکرمہ میں حاضری کا شرف حاصل ہو اور وہ کسی ایسے مقام پر ہو جہاں سے کعبہ کی زیارت کی جا سکے (جیسے وہاں قریبی رہائش گاہوں میں ہوتا ہے)، یا کسی بھی اور ذریعے سے وہ بالکل ٹھیک سیدھ میں کعبہ کا صحیح رخ جان سکے تو ایسی صورت میں اسے اپنا رخ ٹھیک کعبہ کی طرف رکھنا فرض ہے۔
جب سمت معلوم نہ ہو:
بالفرض ایسے حالات پیدا ہو جائیں جب سمت کا کچھ پتہ نہ چل رہا ہو تو قرائن اوردستیاب وسائل و ذرائع سے قبلے کی سمت جاننےکی پوری کوشش کرنی چاہیے، پھر جس طرف غالب گمان ہو اسی جانب رخ کر کے نماز پڑھ لی جائے۔ یہ نماز درست ہو گی اور اسے لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے چاہے وہ غلط سمت ہی میں پڑھی گئی ہو۔ ایسا ایک واقعہ دور نبوت میں پیش آیا تھا جس کی تفصیل جابر رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں:
" ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آسمان پر (گہرے) بادل چھا گئے تو قبلےکے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا ۔ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی کوشش کی پھر(ہر ایک نے اپنے اجتہاد کے مطابق) الگ الگ سمت میں نماز پڑھ کر نشان لگا دیا تا کہ صبح معلوم ہو جائے کہ(اس نے) نماز قبلہ رخ پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہم نے قبلے کی سمت نماز ادا نہیں کی تھی۔ یہ واقعہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تو انہوں نے ہمیں نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا اور فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم[5]
"تمہاری نماز ہو گئی"
شہروں اور آبادیوں میں قبلے کی سمت عمومًا پوچھنے سے معلوم ہو جاتی ہےلہٰذا ایسی جگہوں پر اپنے اجتہاد سے رخ کا تعین کرنے کی بجائے کسی سے دریافت کر لینا واجب ہے۔
سفر میں قبلے سے متعلق رخصت:
تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں اگر کوئی مسافر نفلی نماز پڑھنا چاہے تو اس پر قبلہ رخ ہونا فرض نہیں ، یعنی وہ اپنی سواری پر اپنی نشست یا اپنے قیام کے رخ کے مطابق ، یا اگر سواری میں کھلی جگہ میسر ہو تو کوئی بھی رخ اختیار کر کے اپنی نفلی نماز پڑھ سکتا ہے ، ،
اس کی دلیل اللہ پاک کا فرمان فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ " تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے"بھی ہے[6] ، اور اس فرمان کی عملی تطبیق اور اس مسئلے کی عملی دلیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ میں بھی میسر ہے ، جیسا کہ صحیحین میں صراحت کے ساتھ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دوران سفر اپنی سواری پر بیٹھ کر نفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب (کسی بھی طرف) ہوتا[7]۔
یہاں یہ بات اچھی طرح سے سمجھنے اور یاد رکھنے کی ہے کہ سفر کی حالت میں نفلی نماز کے لیے قبلہ رخ ہونے کی فرضیت نہ ہونا اپنی جگہ ایک درست مسئلہ ہے لیکن اُس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بالکل بجا ہے کہ سواری پر نفل نماز پڑھنے کا افضل طریقہ یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کہتے وقت سواری کا رخ قبلے کی طرف کرلیا جائے[8]، یا مسافر اپنا رخ قبلہ کی طرف کر لے، پھر اس کے بعد سواری کے پھر جانے کی وجہ سے نمازی کا رخ قبلہ سے ہٹ بھی جائے ، تو کوئی حرج نہیں۔ شروع میں قبلہ رخ ہونا مشکل ہو تو کسی بھی سمت میں نماز شروع کی جا سکتی ہے۔
سواری پر، یا سواری میں عام انداز میں نماز پڑھنے کی طرح رکوع و سجود نہ کیے جا سکتے ہوں جیسا کہ آج کل کی سواریوں میں نشستوں پر بیٹھے رہنے کی صورت میں رکوع وسجود ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا تو انہیں اشاروں میں ادا کیا جا سکتا ہے ، ایسی حالت میں یہ خیال رکھا جائے کہ سجدے اور رکوع میں فرق کو جس قدر ممکن ہو برقرار رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے ، لہذا سجدہ کرتے وقت سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکایا جائے گا[9]۔
جمہور علماء [10]کے نزدیک ہر چھوٹے بڑے سفر میں سواری پر نفل پڑھے جا سکتے ہیں ، اس میں سفر کی مسافت کی کوئی قید نہیں ۔ البتہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے یا پرہجوم جگہوں پر یا کسی بھی ایسی جگہ نفل نہیں پڑھنے چاہیئں جہاں توجہ منتشر ہونے یا اپنے یا کسی کے جان و مال کو خطرہ پیش آنے کا ڈر ہو[11]۔
جدید ذرائع آمدورفت کی وجہ سے اس سنت پر عمل کرنا خاصا آسان ہو گیا ہے۔ کیا خوب ہو جو کار، بس، ٹرین اور ہوائی جہاز وغیرہ میں موسیقی سے دل بہلانے کی بجائے مسلمان اس سنت پر عمل کرنا شروع کر دیں جو ہم مسلمانوں کی کم علمی اور اپنے دین سے دوری کی وجہ سے تقریبًا متروک و مہجور ہو چکی ہے۔
فرض نماز کے لیے قبلہ رخ ہونا اور سواری سے اترنا لازمی ہے:
شرعی عذر کے بغیرفرض نماز سواری پر بیٹھ کر یا قبلے کے سوا کسی دوسرے رخ پر ادا کرنا جائز نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض نماز ہمیشہ سواری سے نیچے اتر کر اور قبلے کی طرف رخ کر کے ادا فرمایا کرتے تھے[12]چنانچہ فرض نمازسواری پر بیٹھ کر نہیں پڑھی جا سکتی البتہ کوئی شرعی عذر ہو تو ایسا کرناجائز ہے۔ مثلا ٹرین ، ہوائی جہاز ، بحری جہازوغیرہ میں سفر کے دوران اترنا ممکن نہ ہو اور وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو وہیں پرقبلہ رخ ہو کرنماز ادا کر لینی چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ قبلہ کے رخ کا پتہ کرنے کے بعد نماز کی ابتداء قبلہ رخ ہو کر ہی کی جائے ، ایساممکن نہ ہو تو خود صحیح سمت کا انداز لگانے کی پوری کوشش کر کے اسی طرف رخ کر کے نماز شروع کی جائے ، اس کے بعد اگر سواری کسی اور طرف پھرے تو اپنے آپ کو گھما کر قبلہ رخ رہنے کی کوشش کی جانی چاہیے ، بہتر یہی ہے کہ نماز کھڑے ہو کر پڑھی جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہے ۔
نمازوں کو زیادہ سے زیادہ اطمینان کے ساتھ پڑھنے کے لیے ہم نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے کی سہولت کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔اگر ظہر کی نماز کا وقت ایسی سواری میں آ جائے جس سواری کو ہم روک کر اس میں سے اتر نہ سکتے ہوں اور عصر کا وقت ختم ہونے سے پہلے اترنا ممکن ہو تو ظہر کو موخر کر کے اترنے کے بعد عصر کے ساتھ جمع کر کے پڑھنا زیادہ بہتر ہے ، اسی طرح اگر مغرب کا وقت سواری پر ہی آ جائے اور عشاء کا وقت ختم ہونے سے پہلے سواری سے اترنا ممکن ہو تو مغرب کی نماز عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھنا زیادہ بہتر ہے [13]۔
جہاد اور جنگ کے وقت قبلہ رخ نہ ہونے کی اجازت ہے:
جب دشمن کے ساتھ مقابلہ درپیش ہو اور دشمن کے حملے کی شدت، دشمن کی کثرت اور شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے نماز باجماعت کا اہتمام نہ ہو سکے تو جیسے بھی آسانی ہو ویسے نماز پڑھ لینی چاہیے۔ ایسے وقت میں فرض نماز کے لیے سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے کی پابندی لاگو نہیں رہتی بلکہ فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا اتر کر اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے، بہرحال نماز ادا ہو جائے گی[14]۔دوبدو لڑائی میں تو سر کے اشارے سے نماز پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس[15]
"جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سر سے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے"
قبلے کی مختصر تاریخ:
مکی دور میں اورمدینہ کی طرف ہجرت کے کچھ عرصے بعد تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ پھر مسجد الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم نازل ہوا جس کا ذکر سورۃ البقرۃ میں ان الفاظ میں ہے:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ
"(اے نبی) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لو"
جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم قباء کے مقام پر صبح کی نماز ادا کر رہے تھے، وہ حالت نماز ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب سے ایک پیغام رساں نے آ کر خبر دی کہ "آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم اپنا رخ اسی طرف کر لو"۔ اس وقت نمازی کا رخ شام کی جانب تھا، اعلان سن کر سب گھوم کر کعبہ کی طرف پھر گئے، امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبہ کی طرف رخ کر لیا۔[16]
اس واقعے سے جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ اطاعت رسول کا اندازہ ہوتا ہے کہ حکم سن کر فورًا رخ تبدیل کر لیاوہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غلط سمت میں نماز پڑھنے والے کو دورانِ نماز صحیح سمت بتائی جا سکتی ہے اور جب نماز کے دوران درست سمت پتہ چل جائے تو اسی وقت ادھر رخ کر لینا چاہیے۔
[HR][/HR][1]۔سورۃالبقرۃ آیت 150
[2]۔صحیح البخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام،صحیح مسلم کتاب الصلاۃباب وجوب قراءۃالفاتحۃ فی کل رکعۃ وانہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
[3]۔ سلسلۃ الھدیٰ و النور شریط رقم 530۔
[4]۔سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ماجاءان مابین المشرق والمغرب قبلۃ،صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
[5]۔ سنن دارقطنی کتاب الصلاۃباب الاجتھاد فی القبلۃ وجوازالتحری فی ذلک،ارواءالغلیل فی تخریج احادیث منارالسبیل للالبانی حدیث نمبر 291
[6]۔ صحیح مسلم کتاب صلاۃالمسافرین وقصرھا باب جوازصلاۃالنافلۃعلی الدابۃفی السفرحیث توجھت
[7]۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوترفی السفر،صحیح مسلم کتاب صلاۃالمسافرین وقصرھاباب جوازصلاۃالنافلۃعلی الدابۃفی السفرحیث توجھت
[8]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃباب التطوع علی الراحلۃ والوتر،صحیح سنن ابی داؤدحدیث نمبر 1225
[9]۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃباب ماجاءفی الصلاۃعلی الدابۃ فی الطین والمطر،صفۃ صلاۃالنبی الکتاب الام ص 58
[10]۔ حنفیہ، شافعیہ اورحنابلہ کے نزدیک ہر سفر میں سواری پر نفل پڑھے جا سکتے ہیں جبکہ مالکیہ اسے ایسے طویل سفر کے ساتھ مشروط کرتے ہیں جس میں نماز قصر کی جا سکے۔ (الموسوعۃ الفقیہہ الکویتیۃ، الصلاۃ علی الراحلۃ)
[11]۔ سلسلۃ الھدیٰ و النور شرط رقم 386
[12]۔ صحیح البخاری ابواب تقصیرالصلاۃباب ینزل للمکتوبۃ
[13]۔ فتاوی ابن باز اور فتاوی ابن العثیمین سے ماخوذ
[14]۔ صحیح البخاری کتاب تفسیرالقرآن باب قولہ عزوجل فان خفتم فرجالااورکبانا فاذاامنتم فاذکروااللہ
[15]۔ سنن البیہقی جلد 3 ص 255
[16]۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ