کئی باتیں ایسی ہیں کہ ان کے کئی کئی مطالب نکالے جا سکتے ہیں ۔ ایسی تحریروں سے خوف محسوس هوتا هے ۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بات کس تناظر میں لکہی هے یہ سمجهنا ضروری هے هر کسی کو خواہ وہ عوام میں سے هو یا خواص میں سے۔
ڈاکٹر صاحب کا تعارف اور انکی مذکورہ تحریر یا اور دیگر تحریروں کے مخاطب کون لوگ ہیں انکا تعارف یہاں خود پڑهیں اور سمجهیں :
http://aqilkhan.org/تعارف-2
جی بالکل درست کہا لیکن جب بھی عقل نصوص پر حاکم ہو گی تو ایسے ہی کرشمہ جات نظر آتے ہیں میں کراچی میں ایسے طبقہ سے مخاطب ہوتا ہوں جن میں سے کچھ تو مسجد جمعہ کے دن بھی نہیں آتے لیکن ایسا نہیں ہے ایک جگہ میں نے درس دیا اور اس درس میں صرف حدیث کا متن اور ترجمہ ، حدیث کا متن اور ترجمہ اور موضوع تھا نماز کی فضیلت اس درس میں تقریبا 50 احادیث ترجمہ کے ساتھ پڑھی اور آخر میں یہ کہا کہ
آپ گواہ رہیے گا کہ آج کے درس میں میں نے ایک لفظ اپنی طرف سے نہیں کہا اب یہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کے لیے بطور خاص پیغام ہے اب آپ جانیں اور آپ کا کام اور جواب ضرور سوچیے گا کہ میدان حشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا امتی بن کر کس طرح سامنا کریں گے ۔
تو ایک شخص جسے میں نے کبھی مسجد میں نہیں دیکھا تھا سر جھکا کر بیٹھا ہوا تھا اس کا سر نہیں اٹھا اور اٹھ کر بہت تیزی سے باہر نکل گیا واضح رہے کہ یہ درس ایک گھر میں تھا اور باہر کھڑا ہو گیا کچھ دیر بعد میں باہر گیا تو باہر کھڑا تھا اور چہرے سے پتا چل رہا تھا کہ واردات قلبی ہو چکی ہے رویا رویا سا چہرہ پوچھا تو جواب ملا کہ اس سے پہلے لوگوں کی باتیں سنتا تھا آج پہلی مرتبہ نبی کریم کی باتیں سنی تو اپنے اوپر شرم آ رہی تھی کہ ایسی مجلس میں میرا کیا کام اس لیے اٹھ کر باہر آ گیا اور اب وہ شخص فجر کی پہلی صف میں ہوتا ہے
عرض ہے کہ نصوص قرآن اور احادیث میں آج بھی اتنی جان ہے کہ اخلاص کے ساتھ پڑھیں تو پھر دل سے دل نکلی ہوئی بات دل تک ہر صورت پہنچتی ہے
ڈاکٹر عقیل صاحب کی یہ تقسیم خود ساختہ ہے اور صرف میں ہی میں کی تصویر ہے اللہ ایسی فکری گمراہیوں سے محفوظ رکھے جو عبادات میں بھی مادر پدر آزاد ہونا چاہتے ہیں