صرف امام کا قول درست ثابت کرنے کے لیے تاویلات کی جائیں تو واقعی غیر مناسب فعل ہے۔
لیکن میں نے جہاں تک تصانیف کو دیکھا ہے وہ قول امام کے خلاف دلیل میں تاویل اس وجہ سے کرتے ہیں کہ امام کی وہ رائے دیگر دلائل کی بنیاد پر ان کے نزدیک درست ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی دلیل اس کے خلاف ملے تو ظاہر ہے یا اس دلیل میں تاویل کی جائے گی یا ان ادلہ میں جن سے پہلی رائے نکالی ہے۔ بیان کرنے کا انداز عموما یہ ہوتا ہے کہ امام صاحب (کوئی بھی امام ہوں) فلاں بات فرماتے ہیں اور اس حدیث میں جو آیا ہے وہ فلاں تاویل میں ہے۔ اس بات کی بحث کہ امام صاحب فلاں بات کیوں فرماتے ہیں اگر مقام ہو تب ہی کی جاتی ہے ورنہ نہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہوتی ہے کہ اس امام کی رائے مضبوط ادلہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور ایک دلیل سے اسے چھوڑ دینا ان ادلہ کو چھوڑ دینا ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہے۔ اور یہی ہمارے مابین بلکہ مسئلہ تقلید پر سب سے زیادہ مابہ النزاع مسئلہ ہے۔
اکثر اوقات دلیل میں تاویل کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ امام کی رائے دیگر دلائل کی بنیاد پر ان کےمقلدین کے نزدیک درست ہوتی ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ اپنے مسلک سے، پھر اپنے امام سے فطری محبت و عقیدت ہوتی ہے۔ جو بچپن ہی سے اور ابتدائی تعلیم سے ہی ذہنوں میں راسخ ہو جاتی ہے اور یہ عادتاً معلوم ہے کہ ایسا ہر دینی و دنیاوی کام میں ہوتا ہے۔
اب یہ امام جس کا مقام فی الواقع بھی ہے اور کچھ عقیدت و محبت اور مسلک سے فطری لگاؤ میں اپنے مقام سے کچھ بلند بھی نظر آتا ہے۔ ، جب اس امام کی کوئی رائے معلوم ہوتی ہے کہ فلاں مسئلہ میں قول امام یہ ہے۔ تو رائی برابر دلیل بھی خودبخود وزنی محسوس ہوتی ہے اورقول امام کے مخالف پہاڑ برابر دلیل بھی دل کو نہیں بھاتی۔ اور یہ کوئی ہم حاسدانہ یا مخالفانہ جذبات کے تحت یا فقط جوش جذبات میں بھی نہیں کہتے ۔ کبار علماء نے مقلدین عوام و خواص کی اس روش کا رونا رویا ہے۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیں:
امام قاضی ابن ابی العز شارح عقیدہ طحاویہ لکھتے ہیں:
"فطاءفۃ قد غلت فى تقلیدہ فلم تترک لہ قولا و انزلوہ منزلۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وان اورد علیہم نص مخالف قولہ تاولوہ علی غیر تاویلہ لید فعوہ عنہم" (الاتباع ص30)
... یعنی ایک گروہ نے تقلید میں غلو کیا ہے وہ ان کا کوئی قول ترک نہیں کرتے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ٹھہرا دیتے ہیں،
اگر ان کے قول کے خلاف کوئی نص ان کے سامنے پیش کی جائے تو وہ اس کی غیر مناسب تاویل کرتے ہیں تاکہ ان کا دفاع کیا جا سکے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وتری العامۃ لا سیما الیوم فی کل قریۃ ینقیدون بمذھب من مذاھب المتقدمین ویرون خروج الانسان من مذھب من قلدہ ولو فی المسئلۃ کالخروج من الملۃ کانہ نبی بعث الیہ و افترضت طاعتہ علیہ"(تفھیمات ص151، ج1)
یعنی
ہر شہر میں تم عام لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ متقدمین میں سے کسی ایک کے مذھب کی پابندی کرتے ہیں اور کسی انسان کا اپنے امام کے مذہب سے خروج اگرچہ وہ ایک مسئلہ میں ہی کیوں نہ ہو، ملت سے خروج کی طرح خیال کرتے ہیں گویا کہ وہ امام ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیاہے، اور اس کی اطاعت ان پر فرض کی گئی ہے۔
مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"من یکون عامیا ویقلد رجلا من الفقھاء بعینہ یرٰی انہ یمتنع من مثلہ الخطا و ان ماقالہ ھو الصواب البتۃ واضمر فی قبلہ ان لا یترک تقلیدہ وان ظحر الدلیل علی خلافہ و ذالک ما رواہ الترمذی عن عدی بن حاتم انہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقراء اتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ قال انھم لم یکونو یعبدونھم ولکنھم کانو ازاحلّو الھم شیئاً استحلو واذا حرموا علیھم شیئاً حرموہ"عقد الجید ص67، نیز حجۃ اللہ البالغہ ج1، ص155)
مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی سے منقول ہے:
"بعض مقلدین نے اپنے امام کو
معصوم عن الخطا و مصیب و جوبا مفروض الاطاعت تصور کر کے عزم بالجزم کیا کہ خواہ کیسی ہی'حدیث صحیح' مخالف قول امام کے ہو اور
مستند قول امام کا بجز قیاس امر دیگر نہ ہو پھر بھی بہت سے علل اور خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی
تاویل بعید کر کے
حدیث کو رد کر دیں گے ۔ ایسی تقلید حرام اور مصداق قولہ تعالٰی اتخذو احبارھم۔۔۔۔الخ اور خلاف وصیت آئمہ مرحومین ہے" (فتاویٰ امدادیہ ص88،ج4، الکلام المفید ص305)
ان بعض مقلدین کے علاوہ بھی مقلدین کی جو کیفیت رہی ہے اس کا حال بھی مولانا تھانوی کے الفاظ میں پڑھ لیجیے' چنانچہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
''
اکثر مقلد عوام بلکہ
خواص اس قدر جامد ہو جاتے ہیں کہ اگر قول مجتھد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث بھی کان میں پڑتی ہے تو
ان کے قلب میں انشراح و انسباط نہیں رہتا بلکہ اول
استنکار قلب پیدا ہوتا ہے، پھر
تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو' خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو
بلکہ مجتھد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کیلیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں'
دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتھد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کریں"
(تذکرہ الرشید:ص130،131، ج1)
خاص طور پر تھانوی صاحب کے اس آخری اقتباس پر غور کیجئے۔یہ کتنی سچی بات ہے۔ بالا علمائے کرام جس مزاج کی نشاندہی کر کے اس کی تردید کر رہے ہیں، اہلحدیث بھی فقط اسی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اور مصیبت در مصیبت یہ ہے کہ خود حنفی علمائے کرام شعوری یا لاشعوری طور پر اسی قسم کی روش کا شکار ہیں ، الا ماشاءاللہ، اور خصوصیت سے اہلحدیث و دیوبندیوں کے درمیان اکثر اختلافی مسائل فقط اسی جمود اور قول امام کی نصرت کی خواہش کی وجہ سے اب تک اختلافی ہیں، ورنہ حقائق تک پہنچنا بہرحال اتنا مشکل نہیں۔
اس کی بھی اب فقط ایک مثال ملاحظہ کیجئے کہ کیسے تقلید ، حق بات کی قبولیت میں مانع ہو جاتی ہے۔
محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ
حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں
امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے
لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر
امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
اب کوئی عالم پوری تحقیق کے بعد مطلع ہو جائے کہ دلائل فلاں امام کے قول کے حق میں ہیں، لیکن اس بات پر فقط اس وجہ سے عمل پیرا نہ ہو کہ میں فلاں امام کا مقلد ہوں۔ اس کو آپ کیا نام دیں گے؟؟ ہم کچھ کہنے کے بجائے سرفراز خاں صفدر صاحب ہی کا قول پیش کر دیتے ہیں:
"کوئی بدبخت اور ضدی مقلد دل میں یہ ٹھان لے کہ
میرے امام کے قول کے مخالف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذہب کو نہیں چھوڑوں گا، تو وہ مشرک ہے، ہم بھی کہتے ہیں،
لا شک فیھ (الکلام المفید:ص310)