• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصحاب تقلید کو دعوت غور و فکر ۔۔۔ از امام محمد بن اسماعیل الصنعانی

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اگر کوئی مثال دیں تو مہربانی ہوگی-
؎
یہ عقلی بات ہے۔ جب آپ مختلف مسالک کی فروع لیں گے تو ایسا کسی بھی جگہ واقع ہو جائے گا۔
مثال اس لیے نہیں دے سکتا کہ فقہ اہل حدیث پر مجھے عبور نہیں ہے۔

میرے اندازے میں ہر حدیث کے اصل سمجھنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہوگا-
میں یہ سمجھ نہیں سکا۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
صرف امام کا قول درست ثابت کرنے کے لیے تاویلات کی جائیں تو واقعی غیر مناسب فعل ہے۔
لیکن میں نے جہاں تک تصانیف کو دیکھا ہے وہ قول امام کے خلاف دلیل میں تاویل اس وجہ سے کرتے ہیں کہ امام کی وہ رائے دیگر دلائل کی بنیاد پر ان کے نزدیک درست ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی دلیل اس کے خلاف ملے تو ظاہر ہے یا اس دلیل میں تاویل کی جائے گی یا ان ادلہ میں جن سے پہلی رائے نکالی ہے۔ بیان کرنے کا انداز عموما یہ ہوتا ہے کہ امام صاحب (کوئی بھی امام ہوں) فلاں بات فرماتے ہیں اور اس حدیث میں جو آیا ہے وہ فلاں تاویل میں ہے۔ اس بات کی بحث کہ امام صاحب فلاں بات کیوں فرماتے ہیں اگر مقام ہو تب ہی کی جاتی ہے ورنہ نہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہوتی ہے کہ اس امام کی رائے مضبوط ادلہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور ایک دلیل سے اسے چھوڑ دینا ان ادلہ کو چھوڑ دینا ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہے۔ اور یہی ہمارے مابین بلکہ مسئلہ تقلید پر سب سے زیادہ مابہ النزاع مسئلہ ہے۔
اکثر اوقات دلیل میں تاویل کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ امام کی رائے دیگر دلائل کی بنیاد پر ان کےمقلدین کے نزدیک درست ہوتی ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ اپنے مسلک سے، پھر اپنے امام سے فطری محبت و عقیدت ہوتی ہے۔ جو بچپن ہی سے اور ابتدائی تعلیم سے ہی ذہنوں میں راسخ ہو جاتی ہے اور یہ عادتاً معلوم ہے کہ ایسا ہر دینی و دنیاوی کام میں ہوتا ہے۔

اب یہ امام جس کا مقام فی الواقع بھی ہے اور کچھ عقیدت و محبت اور مسلک سے فطری لگاؤ میں اپنے مقام سے کچھ بلند بھی نظر آتا ہے۔ ، جب اس امام کی کوئی رائے معلوم ہوتی ہے کہ فلاں مسئلہ میں قول امام یہ ہے۔ تو رائی برابر دلیل بھی خودبخود وزنی محسوس ہوتی ہے اورقول امام کے مخالف پہاڑ برابر دلیل بھی دل کو نہیں بھاتی۔ اور یہ کوئی ہم حاسدانہ یا مخالفانہ جذبات کے تحت یا فقط جوش جذبات میں بھی نہیں کہتے ۔ کبار علماء نے مقلدین عوام و خواص کی اس روش کا رونا رویا ہے۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیں:

امام قاضی ابن ابی العز شارح عقیدہ طحاویہ لکھتے ہیں:
"فطاءفۃ قد غلت فى تقلیدہ فلم تترک لہ قولا و انزلوہ منزلۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وان اورد علیہم نص مخالف قولہ تاولوہ علی غیر تاویلہ لید فعوہ عنہم" (الاتباع ص30)
... یعنی ایک گروہ نے تقلید میں غلو کیا ہے وہ ان کا کوئی قول ترک نہیں کرتے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ٹھہرا دیتے ہیں، اگر ان کے قول کے خلاف کوئی نص ان کے سامنے پیش کی جائے تو وہ اس کی غیر مناسب تاویل کرتے ہیں تاکہ ان کا دفاع کیا جا سکے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وتری العامۃ لا سیما الیوم فی کل قریۃ ینقیدون بمذھب من مذاھب المتقدمین ویرون خروج الانسان من مذھب من قلدہ ولو فی المسئلۃ کالخروج من الملۃ کانہ نبی بعث الیہ و افترضت طاعتہ علیہ"(تفھیمات ص151، ج1)
یعنی ہر شہر میں تم عام لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ متقدمین میں سے کسی ایک کے مذھب کی پابندی کرتے ہیں اور کسی انسان کا اپنے امام کے مذہب سے خروج اگرچہ وہ ایک مسئلہ میں ہی کیوں نہ ہو، ملت سے خروج کی طرح خیال کرتے ہیں گویا کہ وہ امام ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیاہے، اور اس کی اطاعت ان پر فرض کی گئی ہے۔

مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"من یکون عامیا ویقلد رجلا من الفقھاء بعینہ یرٰی انہ یمتنع من مثلہ الخطا و ان ماقالہ ھو الصواب البتۃ واضمر فی قبلہ ان لا یترک تقلیدہ وان ظحر الدلیل علی خلافہ و ذالک ما رواہ الترمذی عن عدی بن حاتم انہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقراء اتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ قال انھم لم یکونو یعبدونھم ولکنھم کانو ازاحلّو الھم شیئاً استحلو واذا حرموا علیھم شیئاً حرموہ"عقد الجید ص67، نیز حجۃ اللہ البالغہ ج1، ص155)

مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی سے منقول ہے:
"بعض مقلدین نے اپنے امام کو معصوم عن الخطا و مصیب و جوبا مفروض الاطاعت تصور کر کے عزم بالجزم کیا کہ خواہ کیسی ہی'حدیث صحیح' مخالف قول امام کے ہو اور مستند قول امام کا بجز قیاس امر دیگر نہ ہو پھر بھی بہت سے علل اور خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی تاویل بعید کر کے حدیث کو رد کر دیں گے ۔ ایسی تقلید حرام اور مصداق قولہ تعالٰی اتخذو احبارھم۔۔۔۔الخ اور خلاف وصیت آئمہ مرحومین ہے" (فتاویٰ امدادیہ ص88،ج4، الکلام المفید ص305)

ان بعض مقلدین کے علاوہ بھی مقلدین کی جو کیفیت رہی ہے اس کا حال بھی مولانا تھانوی کے الفاظ میں پڑھ لیجیے' چنانچہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
''اکثر مقلد عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہو جاتے ہیں کہ اگر قول مجتھد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث بھی کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح و انسباط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب پیدا ہوتا ہے، پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو' خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتھد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کیلیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں' دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتھد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کریں"
(تذکرہ الرشید:ص130،131، ج1)

خاص طور پر تھانوی صاحب کے اس آخری اقتباس پر غور کیجئے۔یہ کتنی سچی بات ہے۔ بالا علمائے کرام جس مزاج کی نشاندہی کر کے اس کی تردید کر رہے ہیں، اہلحدیث بھی فقط اسی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اور مصیبت در مصیبت یہ ہے کہ خود حنفی علمائے کرام شعوری یا لاشعوری طور پر اسی قسم کی روش کا شکار ہیں ، الا ماشاءاللہ، اور خصوصیت سے اہلحدیث و دیوبندیوں کے درمیان اکثر اختلافی مسائل فقط اسی جمود اور قول امام کی نصرت کی خواہش کی وجہ سے اب تک اختلافی ہیں، ورنہ حقائق تک پہنچنا بہرحال اتنا مشکل نہیں۔

اس کی بھی اب فقط ایک مثال ملاحظہ کیجئے کہ کیسے تقلید ، حق بات کی قبولیت میں مانع ہو جاتی ہے۔

محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)

اب کوئی عالم پوری تحقیق کے بعد مطلع ہو جائے کہ دلائل فلاں امام کے قول کے حق میں ہیں، لیکن اس بات پر فقط اس وجہ سے عمل پیرا نہ ہو کہ میں فلاں امام کا مقلد ہوں۔ اس کو آپ کیا نام دیں گے؟؟ ہم کچھ کہنے کے بجائے سرفراز خاں صفدر صاحب ہی کا قول پیش کر دیتے ہیں:

"کوئی بدبخت اور ضدی مقلد دل میں یہ ٹھان لے کہ میرے امام کے قول کے مخالف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذہب کو نہیں چھوڑوں گا، تو وہ مشرک ہے، ہم بھی کہتے ہیں، لا شک فیھ (الکلام المفید:ص310)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ایسا نہیں ہے۔ اور یہی ہمارے مابین بلکہ مسئلہ تقلید پر سب سے زیادہ مابہ النزاع مسئلہ ہے۔
اکثر اوقات دلیل میں تاویل کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ امام کی رائے دیگر دلائل کی بنیاد پر ان کےمقلدین کے نزدیک درست ہوتی ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ اپنے مسلک سے، پھر اپنے امام سے فطری محبت و عقیدت ہوتی ہے۔ جو بچپن ہی سے اور ابتدائی تعلیم سے ہی ذہنوں میں راسخ ہو جاتی ہے اور یہ عادتاً معلوم ہے کہ ایسا ہر دینی و دنیاوی کام میں ہوتا ہے۔

اب یہ امام جس کا مقام فی الواقع بھی ہے اور کچھ عقیدت و محبت اور مسلک سے فطری لگاؤ میں اپنے مقام سے کچھ بلند بھی نظر آتا ہے۔ ، جب اس امام کی کوئی رائے معلوم ہوتی ہے کہ فلاں مسئلہ میں قول امام یہ ہے۔ تو رائی برابر دلیل بھی خودبخود وزنی محسوس ہوتی ہے اورقول امام کے مخالف پہاڑ برابر دلیل بھی دل کو نہیں بھاتی۔ اور یہ کوئی ہم حاسدانہ یا مخالفانہ جذبات کے تحت یا فقط جوش جذبات میں بھی نہیں کہتے ۔ کبار علماء نے مقلدین عوام و خواص کی اس روش کا رونا رویا ہے۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیں:

امام قاضی ابن ابی العز شارح عقیدہ طحاویہ لکھتے ہیں:
"فطاءفۃ قد غلت فى تقلیدہ فلم تترک لہ قولا و انزلوہ منزلۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وان اورد علیہم نص مخالف قولہ تاولوہ علی غیر تاویلہ لید فعوہ عنہم" (الاتباع ص30)
... یعنی ایک گروہ نے تقلید میں غلو کیا ہے وہ ان کا کوئی قول ترک نہیں کرتے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ٹھہرا دیتے ہیں، اگر ان کے قول کے خلاف کوئی نص ان کے سامنے پیش کی جائے تو وہ اس کی غیر مناسب تاویل کرتے ہیں تاکہ ان کا دفاع کیا جا سکے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وتری العامۃ لا سیما الیوم فی کل قریۃ ینقیدون بمذھب من مذاھب المتقدمین ویرون خروج الانسان من مذھب من قلدہ ولو فی المسئلۃ کالخروج من الملۃ کانہ نبی بعث الیہ و افترضت طاعتہ علیہ"(تفھیمات ص151، ج1)
یعنی ہر شہر میں تم عام لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ متقدمین میں سے کسی ایک کے مذھب کی پابندی کرتے ہیں اور کسی انسان کا اپنے امام کے مذہب سے خروج اگرچہ وہ ایک مسئلہ میں ہی کیوں نہ ہو، ملت سے خروج کی طرح خیال کرتے ہیں گویا کہ وہ امام ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیاہے، اور اس کی اطاعت ان پر فرض کی گئی ہے۔

مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"من یکون عامیا ویقلد رجلا من الفقھاء بعینہ یرٰی انہ یمتنع من مثلہ الخطا و ان ماقالہ ھو الصواب البتۃ واضمر فی قبلہ ان لا یترک تقلیدہ وان ظحر الدلیل علی خلافہ و ذالک ما رواہ الترمذی عن عدی بن حاتم انہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقراء اتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ قال انھم لم یکونو یعبدونھم ولکنھم کانو ازاحلّو الھم شیئاً استحلو واذا حرموا علیھم شیئاً حرموہ"عقد الجید ص67، نیز حجۃ اللہ البالغہ ج1، ص155)

مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی سے منقول ہے:
"بعض مقلدین نے اپنے امام کو معصوم عن الخطا و مصیب و جوبا مفروض الاطاعت تصور کر کے عزم بالجزم کیا کہ خواہ کیسی ہی'حدیث صحیح' مخالف قول امام کے ہو اور مستند قول امام کا بجز قیاس امر دیگر نہ ہو پھر بھی بہت سے علل اور خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی تاویل بعید کر کے حدیث کو رد کر دیں گے ۔ ایسی تقلید حرام اور مصداق قولہ تعالٰی اتخذو احبارھم۔۔۔۔الخ اور خلاف وصیت آئمہ مرحومین ہے" (فتاویٰ امدادیہ ص88،ج4، الکلام المفید ص305)

ان بعض مقلدین کے علاوہ بھی مقلدین کی جو کیفیت رہی ہے اس کا حال بھی مولانا تھانوی کے الفاظ میں پڑھ لیجیے' چنانچہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
''اکثر مقلد عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہو جاتے ہیں کہ اگر قول مجتھد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث بھی کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح و انسباط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب پیدا ہوتا ہے، پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو' خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتھد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کیلیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں' دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتھد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کریں"
(تذکرہ الرشید:ص130،131، ج1)

خاص طور پر تھانوی صاحب کے اس آخری اقتباس پر غور کیجئے۔یہ کتنی سچی بات ہے۔ بالا علمائے کرام جس مزاج کی نشاندہی کر کے اس کی تردید کر رہے ہیں، اہلحدیث بھی فقط اسی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اور مصیبت در مصیبت یہ ہے کہ خود حنفی علمائے کرام شعوری یا لاشعوری طور پر اسی قسم کی روش کا شکار ہیں ، الا ماشاءاللہ، اور خصوصیت سے اہلحدیث و دیوبندیوں کے درمیان اکثر اختلافی مسائل فقط اسی جمود اور قول امام کی نصرت کی خواہش کی وجہ سے اب تک اختلافی ہیں، ورنہ حقائق تک پہنچنا بہرحال اتنا مشکل نہیں۔

اس کی بھی اب فقط ایک مثال ملاحظہ کیجئے کہ کیسے تقلید ، حق بات کی قبولیت میں مانع ہو جاتی ہے۔

محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)

اب کوئی عالم پوری تحقیق کے بعد مطلع ہو جائے کہ دلائل فلاں امام کے قول کے حق میں ہیں، لیکن اس بات پر فقط اس وجہ سے عمل پیرا نہ ہو کہ میں فلاں امام کا مقلد ہوں۔ اس کو آپ کیا نام دیں گے؟؟ ہم کچھ کہنے کے بجائے سرفراز خاں صفدر صاحب ہی کا قول پیش کر دیتے ہیں:

"کوئی بدبخت اور ضدی مقلد دل میں یہ ٹھان لے کہ میرے امام کے قول کے مخالف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذہب کو نہیں چھوڑوں گا، تو وہ مشرک ہے، ہم بھی کہتے ہیں، لا شک فیھ (الکلام المفید:ص310)



میں نے کسی بھی مسئلے میں انتہا تک جانے والے یا غلو کرنے والے علماء کی بات نہیں کی۔ ان کی جو رائے ہو وہ ان کے لیے ہے جیسے وہ مناسب سمجھیں۔
میں نے واضح مثالیں دی ہیں کہ ہر جگہ تقلید جامد نہیں کی جاتی۔
اور میرے بھائی جس بات کا آپ نے اقتباس دیا ہے اس پر آپ احناف کی کتب فقہ کا بغور مطالعہ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کہاں تک حقیقت ہیں۔ اگر کرنا چاہیں تو ہدایہ، بنایہ، عنایہ، فتح القدیر اور نصب الرایہ کا ایک ساتھ مطالعہ فرمائیں تو آپ کو بہت سے مقامات پر یہ بات نظر آئے گی۔ بہت سے مقامات پر فقہ کا صرف کوئی قاعدہ نظر آئے گا جیسے لاضرر و لا ضرار۔ اور اس کی وجہ سے حدیث میں تاویل کی جا رہی ہوگی۔ لیکن جب آپ اس قاعدہ کا تعاقب کریں گے تو آپ کو اس کے واضح اور مضبوط دلائل ملیں گے۔ اسی طرح بعض مقامات میں قاعدہ فقہیہ کو قیاس کے لفظ سے بھی بیان کیا جاتا ہے حالاں کہ نہ تو وہاں مقیس ہوتا ہے اور نہ مقیس علیہ اور نہ ہی علت۔ وہاں مراد قیاس سے قاعدہ فقہیہ ہوتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ میں نے علماء کی سخت یا متفرد آراء کا ذکر نہیں کیا اور ماقبل پوسٹس میں ان کی نفی بھی کی ہے۔
ویسے راجا بھائی آپ محمود الحسن رح والے حوالے میں جمشید بھائی سے بحث کر چکے ہیں۔ اس تھریڈ میں ملاحظہ فرمائیں۔ لنک
پھر اسے کیا اسکات اور بحث کے لیے ذکر کر رہے ہیں صرف؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
صرف امام کا قول درست ثابت کرنے کے لیے تاویلات کی جائیں تو واقعی غیر مناسب فعل ہے۔
لیکن میں نے جہاں تک تصانیف کو دیکھا ہے وہ قول امام کے خلاف دلیل میں تاویل اس وجہ سے کرتے ہیں کہ امام کی وہ رائے دیگر دلائل کی بنیاد پر ان کے نزدیک درست ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی دلیل اس کے خلاف ملے تو ظاہر ہے یا اس دلیل میں تاویل کی جائے گی یا ان ادلہ میں جن سے پہلی رائے نکالی ہے۔ بیان کرنے کا انداز عموما یہ ہوتا ہے کہ امام صاحب (کوئی بھی امام ہوں) فلاں بات فرماتے ہیں اور اس حدیث میں جو آیا ہے وہ فلاں تاویل میں ہے۔ اس بات کی بحث کہ امام صاحب فلاں بات کیوں فرماتے ہیں اگر مقام ہو تب ہی کی جاتی ہے ورنہ نہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہوتی ہے کہ اس امام کی رائے مضبوط ادلہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور ایک دلیل سے اسے چھوڑ دینا ان ادلہ کو چھوڑ دینا ہوتا ہے۔
ایسے کئی مقامات ہیں جہاں آپ بھی تاویل کریں گے۔ جیسے اہل سنت کا مذہب ہے کہ مرتکب گناہ کبیرہ مخلد فی النار (ہمیشہ کے لیے جہنمی) نہیں ہوگا۔ اب قتل عمد کی آیت قرآنی جو انتہائی واضح ہے اس میں مختلف تاویلات کی جاتی ہیں کہ وہ حلال سمجھ کر قتل کرنے کے بارے میں ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا معتزلہ کی جانب سے ہم اس بات کو تسلیم کر سکتے ہیں کہ ہم مسلک کو بچانے کے لیے تاویلات کر رہے ہیں ورنہ آیت سے معتزلہ کا مسلک (مرتکب کبیرہ مخلد فی النار ہوگا) ثابت ہو رہا ہے؟
ہم جواب میں یہی کہیں گے کہ ہم اپنے مسلک کے لیے تاویل کر رہے ہیں لیکن بظاہر۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مسلک (اہل سنت کا) جن دلائل پر مبنی ہے ان کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہم اس میں تاویل کر رہے ہیں۔
تو ہر امام کے متبع عالم کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اس مقام کو دیکھیں جہاں اس رائے پر بحث ہے جس کا وہ دفاع کر رہا ہے تو آپ کو ایسے دلائل ملیں گے جنہیں وہ راجح سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ تاویل کر رہا ہوتا ہے۔
آپ کی بات کا لب لباب یہی ہے کہ چونکہ امام صاحب نے بھی قوی دلائل کی بنیاد پر فتوی دیا ہوتا ہے لہذا جب امام صاحب کا فتوی کے خلاف قرآن وسنت سے دلائل ملیں تو ہم امام صاحب کی بات کو خلاف قرآن وسنت کہہ کر رد نہیں کریں گے ۔ بلکہ یہ تصور کریں گے کہ قرآن وسنت کے دلائل کا آپس میں تعارض ہے ۔ یہی نا ؟ اور آپ نے جو مخلد فی النار کے حوالے سے اہل سنت والجماعت کا موقف کی بات کی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ قرآن وسنت کی نصوص کے ( ظاہری ) تعارض کو امام صاحب کے فتاوی کا قرآن وسنت سے تعارض کے مثل سمجھتے ہیں ۔
ہمارے نزدیک یہ بالکل بھی درست نہیں ہے ۔
نصوص تأویل ( آپ کے الفاظ میں ) اس وقت کی جائے گی جب نصوص کا نصوص سے تعارض ہو ۔ کسی امام کے اقوال کے بارے میں اس درجہ تک حسن و ظن رکھنا کہ قرآن وسنت کی نصوص سے مقابلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے نزدیک بالکل درست نہیں ۔
ہم ان نصوص پر عمل کرنے کے مکلف ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں ( اورالحمدللہ مکمل دین پہنچا ہے ) ہمیں ان نصوص کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا جو امام صاحب کے اقوال سے حسن ظن کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں ۔
مجھے آپ یہ وضاحت کردیں کہ یہ ’’ حسن ظن ‘‘ اتخذوار احبارہم و رہبانہم میں کیوں شامل نہیں ہوتا ؟ حالانکہ ہم نے أئمہ کے اقوال کو قرآن وسنت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اس ’’ حسن ظن ‘‘ کی بنیاد پر کہ ان کے پاس بھی دلائل ہوں گے ۔
أئمہ کرام ، سلف صالحین کے فہم کی مدد تو لی جاتی ہے قرآن وسنت کوسمجھنے کے لیے گویا اصل قرآن وسنت ہے ۔ لیکن جب ہم أئمہ کے اقوال کے دفاع کے لیے قرآن و سنت میں تلاش شروع کردیں گے تو قرآن وسنت کی ’’ حجیت اور اصلیت ‘‘ کے کیا معنی باقی رہ جاتے ہیں ؟
قرآن وسنت کی خدمت کے لیے آئمہ ہیں ؟ یا آئمہ کی خدمت کے لیے قرآن وسنت ہیں ؟
جی ہاں اس طرح ابحاث کی جاتی ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ پہلے سے کی جا چکی ہیں تو زیادہ مناسب ہے۔ لیکن سب کا ایک ہی نتیجے پر پہنچنا نا ممکن ہے اور اس کی وجہ سوچ کا فرق ہے جو دنیا کے ہر علم میں اثر ڈالتا ہے۔ اسی لیے بعض لوگ ایک اصول کے دلائل کو راجح مانتے ہوئے اسے قبول کر لیتے ہیں اور بعض لوگ دوسرے اصول کو۔
اس کی مثال جیسے عام غیر مخصوص عنہ البعض ہے۔ یعنی وہ لفظ جو عام ہو اور اس میں سے کسی فرد کے لیے کوئی خاص حکم نہیں لگایا گیا ہو۔ امام شافعی رح فرماتے ہیں کہ یہ ظنی ہے اور اس کی وجہ (یا علت) یہ ہے کہ اس کے کسی بھی فرد میں تخصیص ہونا ممکن ہے جو ہمیں کسی دوسری نص سے معلوم ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کا حکم اس کے افراد کے بارے میں ظنی ہوگا۔ یہ دلیل الفاظ کے اعتبار سے مضبوط ہے۔
احناف کہتے ہیں کہ یہ قطعی ہے کیوں کہ تخصیص ہو سکتی ہے ہوئی نہیں ہے۔ اب یہ بھی مضبوط ہے۔ جو احناف کی طرز پر سوچتے ہوں گے انہیں احناف کا موقف مضبوط لگے گا اور وہ اسے اختیار کر لیں گے اور جو شوافع کی طرز پر سوچتے ہوں گے انہیں ان کا موقف مضبوط لگے گا۔ نتیجہ تب نکلے گا جب کسی لفظ عام کے کسی فرد میں خبر واحد سے تخصیص ہوگی۔ شوافع اسے قبول کر لیں گے اور احناف قبول نہیں کریں گے۔
اب اس قسم کے معاملات میں ہم سب کو ایک طرح سے سوچنے پر مجبور کر ہی نہیں سکتے کیوں کہ یہ تو اپنی اپنی فہم کی بات ہے۔
میں دلائل کی روشنی میں اختلاف کے خاتمے یا مذمت کی بات نہیں کررہا یہ خود صحابہ کرام کے اندر بھی موجود تھا ۔ لیکن حنفی شافعی مالکی حنبلی میں سے کسی ایک مذہب کا پابند ہوکر اپنے علم و فضل کو اسی میں بند اور محصور کرلینا مطلوب شرعی نہیں ہے ۔ کوئی تحقیق کرے دلائل کی روشنی میں جانچ پرکھ کرکے کسی مسئلے ( چاہے اصولی ہو یا فرعی ) میں کسی بھی موقف کو حق سمجھتاہے اس پر عمل کرے ۔ چار آدمیوں کی تحقیق کے نتائج دلائل کا فہم مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف ہیں تو ان شاء اللہ چاروں عند اللہ ماجور ہیں کہ جو ان کے بس میں تھا انہوں نے کردیا ۔ لیکن بعد والا کوئی آکر آنکھ بند کرکے ان میں سے کسی ایک کی بات کو پکڑ لے ( اور بعض دفعہ حق واضح ہوجانے کی صورت میں بھی نہ چھوڑے ) تو اس نے شریعت کی طرف سے اس پر جو حق تھا اس کو پورا نہیں کیا ۔
اگر ایک حنفی دلائل کی روشنی میں تحقیق کرتا تو کیا ہر ہر مسئلہ میں اس کو مذہب حنفی ہی راجح ملتا ہے ؟ اسی طرح شافعی ، مالکی ، حنبلی ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مقلدین مذاہب میں سے بھی منصف مزاج حضرات کے بہت سارے اقوال مذہب کے خلاف مل جاتے ہیں ۔ حنفی مذہب میں ماضی قریب کی مثال مولانا عبد الحی لکھنوی صاحب کی شخصیت ہے ۔
جی میں یہ جانتا ہوں۔ اس سے کچھ خرابیاں تو لازم آتی ہیں لیکن وہ زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ ایک فرعی مسئلہ لیا گیا جو کسی اصول پر مبنی تھا اور دوسری جگہ کسی اور کا کوئی دوسرا فرعی مسئلہ لیا گیا جو پہلے اصول کے الٹ پر مبنی تھا۔ اب دوسرے مسئلہ پر عمل کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ نے پہلے اصول کو رد کر دیا حالاں کہ پہلے مسئلے میں آپ پہلے اصول پر عمل پیرا ہیں اور دوسرے کو رد کر رہے ہیں۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی اصول صحیح یا راجح اور غلط یا مرجوح کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن نہ تو یہ ہمیشہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کوئی بڑی خرابی لازم آتی ہے۔
آپ کی یہ بات ( اگر میں صحیح سمجھ سکا ہوں تو ) درست نہیں ہے ۔
مثال کے طورپر ’’ خبر واحد ‘‘ احناف کے نزدیک عقائد میں حجت نہیں ۔ اہل حدیث کا ہاں حجت ہے ۔ اب دونوں میں سے کسی ایک موقف کو راجح جاننے والا ہر جگہ پر وہی اصول لاگو کرے گا ۔ایک ہی اصول کو کبھی راحج کبھی مرجوح کبھی صحیح کبھی غلط ۔۔۔ ایسے کون کرتا ہے ؟ وہ آدمی جو کسی خاص مذہب یا شخص کی حمایت اپنے لیے فرض جانتا ہواور اس کے لیے اس کے نزدیک قرآن وسنت اور اصولوں کی کوئی اہمیت نہ ہو ۔ ایک جگہ ایک اصول لاگو کیا کسی دوسری جگہ پر جا کر بذات خود اس کو نظر انداز کردیا ۔
پاک و ہند میں کثرت سے ایسے اہل حدیث موجود ہیں جو یہ بھی نہیں کرتے بلکہ قرآن و حدیث کے ترجمے سے جو مسئلہ ان کی فہم کے مطابق سمجھ میں آتا ہے اسی پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ یہ عموما وہ ہوتے ہیں جو عالم نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے عمل چوں کہ قرآن و حدیث پر ہی ہے اس لیے غلط نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کی بنیاد پر جب دوسروں کو مخالف حدیث کہا جاتا ہے یا مشرک کہا جاتا ہے تو اختلاف کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ پھر دونوں جانب سے وہ کچھ ہوتا ہے کہ الامان و الحفیظ
۔۔۔۔۔
سستی کا مطلب شرک یا حرام یا مکروہ یا خلاف اولی؟
جو قرآن وسنت کو صحیح سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا وہ بذات خود یہ دعوی کیونکر کرسکتا کہ میں قرآن و سنت پر عمل کررہا ہوں ۔ قرآن وسنت سمجھنے کے لیے علماء کی مدد لینی چاہیے ۔
شرک ، کفر اور مخالف حدیث کے فتووں میں جلد بازی کے قائل الحمد للہ نہ میں ہوں نہ میرے اساتذہ ۔ اور نہ ہی ہم اس رویہ کو درست سمجھتے ہیں ۔ لیکن بہر صورت جو کام خلاف سنت ہے اس کی وضاحت کرنا یہ علما کی ذمہ داری ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ کی بات کا لب لباب یہی ہے کہ چونکہ امام صاحب نے بھی قوی دلائل کی بنیاد پر فتوی دیا ہوتا ہے لہذا جب امام صاحب کا فتوی کے خلاف قرآن وسنت سے دلائل ملیں تو ہم امام صاحب کی بات کو خلاف قرآن وسنت کہہ کر رد نہیں کریں گے ۔ بلکہ یہ تصور کریں گے کہ قرآن وسنت کے دلائل کا آپس میں تعارض ہے ۔ یہی نا ؟ اور آپ نے جو مخلد فی النار کے حوالے سے اہل سنت والجماعت کا موقف کی بات کی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ قرآن وسنت کی نصوص کے ( ظاہری ) تعارض کو امام صاحب کے فتاوی کا قرآن وسنت سے تعارض کے مثل سمجھتے ہیں ۔
ہمارے نزدیک یہ بالکل بھی درست نہیں ہے ۔
نصوص تأویل ( آپ کے الفاظ میں ) اس وقت کی جائے گی جب نصوص کا نصوص سے تعارض ہو ۔ کسی امام کے اقوال کے بارے میں اس درجہ تک حسن و ظن رکھنا کہ قرآن وسنت کی نصوص سے مقابلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے نزدیک بالکل درست نہیں ۔
ہم ان نصوص پر عمل کرنے کے مکلف ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں ( اورالحمدللہ مکمل دین پہنچا ہے ) ہمیں ان نصوص کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا جو امام صاحب کے اقوال سے حسن ظن کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں ۔
مجھے آپ یہ وضاحت کردیں کہ یہ ’’ حسن ظن ‘‘ اتخذوار احبارہم و رہبانہم میں کیوں شامل نہیں ہوتا ؟ حالانکہ ہم نے أئمہ کے اقوال کو قرآن وسنت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اس ’’ حسن ظن ‘‘ کی بنیاد پر کہ ان کے پاس بھی دلائل ہوں گے ۔
أئمہ کرام ، سلف صالحین کے فہم کی مدد تو لی جاتی ہے قرآن وسنت کوسمجھنے کے لیے گویا اصل قرآن وسنت ہے ۔ لیکن جب ہم أئمہ کے اقوال کے دفاع کے لیے قرآن و سنت میں تلاش شروع کردیں گے تو قرآن وسنت کی ’’ حجیت اور اصلیت ‘‘ کے کیا معنی باقی رہ جاتے ہیں ؟
قرآن وسنت کی خدمت کے لیے آئمہ ہیں ؟ یا آئمہ کی خدمت کے لیے قرآن وسنت ہیں ؟



حیرت ہے۔ خضر بھائی کیا آپ نے پوری پوسٹ میں سے صرف وہ جملہ پڑھا ہے جو آپ نے ہائی لائٹ فرمایا ہے؟
میں نے ظاہر تاویل کے بارے میں لکھا ہے کہ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ امام کے مذہب کے لیے حدیث میں تاویل کی جا رہی ہے حالاں کہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ امام کا مذہب ادلہ پر مبنی ہوتا ہے جو اس عالم کے نزدیک راجح ہوتی ہیں۔ یعنی صرف حسن ظن کی بنا پر نہیں کر رہا ہوتا ایسا بلکہ وہ ان ادلہ کو جانتا ہے اور راجح سمجھ رہا ہوتا ہے۔
دیکھیے میں نے عرض کیا تھا:۔
تو ہر امام کے متبع عالم کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اس مقام کو دیکھیں جہاں اس رائے پر بحث ہے جس کا وہ دفاع کر رہا ہے تو آپ کو ایسے دلائل ملیں گے جنہیں وہ راجح سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ تاویل کر رہا ہوتا ہے۔
تو وہ اس بنیاد پر بحث و تاویل کرتا ہے۔
یہ اس عالم کی بات ہو رہی ہے جو اس کی صلاحیت رکھتا ہو اور جو نہ رکھتا ہو اس کے لیے میرا نہیں خیال کہ کوئی عالم بھی تاویل کو جائز قرار دے الا یہ کہ وہ کسی دوسرے عالم کا قول نقل کر رہا ہو۔
معتزلہ اور اہل سنت کے اختلاف کی مثال میں نے یوں عرض کی کہ ہم آیت میں تاویل کریں یہ کہہ کر کہ یہ مذہب اہل سنت کے خلاف ہے۔ (کتابوں میں ایسا ہوتا ہے)۔ اب اگر وہ اشکال کریں کہ تم اپنے مذہب کی وجہ سے آیت میں تاویل کر رہے ہو؟ تو ہم اپنے مذہب کے دلائل بیان کر کے کہیں گے کہ ظاہرا تو اپنے مذہب کے لیے تاویل کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں ان دلائل کے خلاف ہونے کی وجہ سے تاویل کر رہے ہیں کیوں کہ دونوں تعارض ہوگا اگر تاویل نہ کی گئی اور ہم راجح اپنے دلائل کو سمجھتے ہیں تو آیت میں تاویل کی جائے گی۔
اسی طرح جب کسی حدیث میں تاویل کی جاتی ہے تو ان دلائل کی وجہ سے جو امام کے مسلک کے پیچھے ہوتے ہیں۔ یہاں میں امام کے قول کا احادیث سے تعارض نہیں کہہ رہا بلکہ اس قول کی ادلہ (آیات یا احادیث یا اجماع وغیرہ) کا ان روایات سے تعارض کہہ رہا ہوں۔ اور بحث اور تاویل کرنے والا عالم یہ جاننے اور امام کے مسلک پر مطمئن ہونے کے بعد ہی تاویل کرتا ہے۔ اسی لیے یہ اتخذوا احبارہم کے تحت نہیں آتا۔
جو بندہ علم نہ رکھتا ہو اور اس کے سامنے ایسی روایت آجائے تو اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ میرا امام اس کے معنی جانتا تھا اور یہ منسوخ یا مرجوح روایت ہے۔ یہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ شخص علم نہیں رکھتا۔ اگر وہ اس پر عمل شروع کردے اور کچھ دن بعد مخالف روایت مل جائے تو وہ پھنس جائے گا۔ اور اگر ہم کہیں کہ وہ ہر روایت کے بارے میں تمام مسالک کے علماء سے معلوم کرتا رہے تو ہر مسلک کا عالم اسے اپنے دلائل سے قائل کر دیگا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ جلد ہی منکر حدیث یا دہریہ ہو جائے گا۔ اس لیے اس کے لیے یہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ یہ سمجھے۔ لیکن یہ اس کے لیے ہے جو غیر عالم ہو۔ جو عالم ہو اور پوری تحقیق کر سکتا ہو وہ تحقیق ہی کیا کرتا ہے۔

أئمہ کرام ، سلف صالحین کے فہم کی مدد تو لی جاتی ہے قرآن وسنت کوسمجھنے کے لیے گویا اصل قرآن وسنت ہے ۔ لیکن جب ہم أئمہ کے اقوال کے دفاع کے لیے قرآن و سنت میں تلاش شروع کردیں گے تو قرآن وسنت کی '' حجیت اور اصلیت '' کے کیا معنی باقی رہ جاتے ہیں ؟
میں نے یہی عرض کیا کہ جو ائمہ کے اقوال کا دفاع کیا جاتا ہے وہ ان ادلہ کی وجہ سے کیا جاتا ہے جن پر ائمہ کے ان اقوال کا دار و مدار ہوتا ہے۔ یہ ضرور ہوتا ہے کہ اگر صرف قول ملے اور کوئی دلیل نہ ملے تو اس کے لیے دلیل ڈھونڈی جاتی ہے یہ سوچ کر کہ آخر اس قول کی کوئی بنیاد تو ہوگی نا۔ لیکن اس صرف قول کے لیے کسی دلیل میں تاویل نہیں کی جاتی۔

اگر ایک حنفی دلائل کی روشنی میں تحقیق کرتا تو کیا ہر ہر مسئلہ میں اس کو مذہب حنفی ہی راجح ملتا ہے ؟ اسی طرح شافعی ، مالکی ، حنبلی ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مقلدین مذاہب میں سے بھی منصف مزاج حضرات کے بہت سارے اقوال مذہب کے خلاف مل جاتے ہیں ۔ حنفی مذہب میں ماضی قریب کی مثال مولانا عبد الحی لکھنوی صاحب کی شخصیت ہے ۔

اس کا محور کسی عالم کی علمی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس میں اتنی صلاحیت نہ ہو کہ وہ اپنی الگ رائے قائم کر سکے تو وہ پہلے کی گئی ابحاث سے ہی مطمئن ہو جائے گا۔
لیکن اگر صلاحیت ہو تو جہاں اسے مذہب کے خلاف دلائل مضبوط لگیں وہاں وہ ضرور ذکر کرتا ہے۔ اگر صرف راجح مرجوح کی بات ہو تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نزدیک راجح قول پر عمل نہ کرے اور مرجوح پر کرلے لیکن یہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی رائے بھی ذکر نہ کرے الا یہ کہ اسے کسی فتنہ یا تکلیف کا خوف ہو۔
اس کی مثال زمانہ قریب میں صرف علامہ عبد الحئی لکھنوی رح نہیں ہیں بلکہ اور بھی بے شمار ہیں جیسے مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ
میں مفتی زرولی خان صاحب کے بیان میں تھا تو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ "فقہاء کہتے ہیں کہ روزے میں اگر کوئی بھولے سے کھا رہا ہو تو اگر ضعیف ہو تو اسے روزہ یاد نہیں دلانا چاہیے اور قوی ہو تو یاد دلا دینا چاہیے۔ فقہاء کا قول سر آنکھوں پر لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ حدیث میں اسے اللہ کی طرف سے کھلانا کہا گیا ہے تو جو قوی ہو اسے بھی یاد نہیں دلانا چاہیے۔ جب اللہ کھلا رہا ہے تو ہم کیوں روکیں؟"
مفتی صاحب کے پاس ایک جماعت المسلمین کے لڑکے کو گھر والے پکڑ کر لے گئے۔ آپ نے اس سے پوچھا کیسے نماز پڑھتے ہو؟ اس نے بتایا۔ آپ نے پوچھا دلیل کیا ہے؟ اس نےبتائیں۔ آپ نے گھر والوں کو کو کہا جیسے پڑھتا ہے پڑھنے دو ٹھیک تو کر رہا ہے۔ یہ قصہ جماعت المسلمین کے ہی ایک ذمہ دار ساتھی نے سنایا ہے۔ (یعنی دروغ بر گردن راوی(ابتسامہ))
میرے استاد محترم مفتی طارق مسعود صاحب جوان اور نامور شخصیت ہیں۔ ان کے بیانات مشہور ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ "احناف کہتے ہیں کہ عورتوں کو مسجد میں نہیں آنا چاہیے اور علت اس کی عمر رض کا عمل کہتے ہیں جس کی بنیاد فتنے کی وجہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ عورتیں آج کل ہر جگہ جا رہی ہیں۔ صرف مسجد میں ہی نہیں آ رہیں۔ کیا ان کے دوسری جگہوں پر جانے سے زیادہ مسجد میں آنے سے فتنہ ہوگا؟ انہیں مسجد میں ضرور آنا چاہیے تاکہ ان کی بھی دینی تربیت ہو۔ یہ میری رائے ہے فتوی نہیں۔" میری اپنی بھی یہ رائے انہی کی بات پر ہے۔
مفتی رشید احمد لدھیانوی رح اپنے استاد مفتی شفیع رح سے اختلاف کرتے ہوئے احسن الفتاوی میں فرماتے ہیں کہ معتکف کا اخراج ریح کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔ مفتی صاحب کی اس رائے سے عبد الرؤف سکھروی صاحب متفق نہیں اور جائز قرار دیتے ہیں۔
اکثر حنفی علماء شیعہ کو مطلقا کافر قرار دیتے ہیں لیکن مفتی رفیع عثمانی اور مفتی تقی مد ظلہما اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ (بندہ کی اور جمشید بھائی کی بھی رائے ثانی الذکر ہے)

اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ علماء میں سے جو جہاں الگ رائے رکھتا ہے وہ بیان کر دیتا ہے۔ سب تقلید جامد نہیں کرتے۔ ہاں جہاں وہ کسی مسلک کو درست سمجھتے ہیں یا جہاں تحقیق نہیں کر سکتے وہاں تقلید ہی کرتے ہیں۔ اور ایسا ہر عالم کو کہیں نہ کہیں کرنا ہی پڑتا ہے۔

آپ کی یہ بات ( اگر میں صحیح سمجھ سکا ہوں تو ) درست نہیں ہے ۔
مثال کے طورپر '' خبر واحد '' احناف کے نزدیک عقائد میں حجت نہیں ۔ اہل حدیث کا ہاں حجت ہے ۔ اب دونوں میں سے کسی ایک موقف کو راجح جاننے والا ہر جگہ پر وہی اصول لاگو کرے گا ۔ایک ہی اصول کو کبھی راحج کبھی مرجوح کبھی صحیح کبھی غلط ۔۔۔ ایسے کون کرتا ہے ؟ وہ آدمی جو کسی خاص مذہب یا شخص کی حمایت اپنے لیے فرض جانتا ہواور اس کے لیے اس کے نزدیک قرآن وسنت اور اصولوں کی کوئی اہمیت نہ ہو ۔ ایک جگہ ایک اصول لاگو کیا کسی دوسری جگہ پر جا کر بذات خود اس کو نظر انداز کردیا ۔

نہیں میں آپ کو اپنی بات نہیں سمجھا سکا شاید۔
آپ نے فرمایا تھا کہ اہل حدیث جہاں سے حق کے موافق اصل یا فرع ملتی ہے لے لیتے ہیں۔ تو اس پر عرض کیا کہ اس سے یہ ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر ایک شوافع کی فرع لی جس کی بنیاد ایک اصول پر ہے اور دوسری جگہ حنابلہ کی کسی اور مسئلے میں فرع لے لی جس کی بنیاد پہلے اصول کے الٹ پر ہے۔ تو اب دونوں مسئلے تو الگ الگ ہیں لیکن اصول ایک میں ایک اور دوسرے میں اس کا متضاد ہو جاتا ہے۔ گویا ایک جگہ ایک اصول کی تائید کی اور دوسری جگہ اسے رد کر دیا۔ لیکن یہ ہمیشہ نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ اگر عوام کو اس کی اجازت دے دیں تو وہ فقہ مقارن میں سے آسانیاں ڈھونڈتے پھریں گے۔ البتہ اگر علماء کی ایک جماعت مل کر مسئلہ کو باہمی بحث سے حل کرے تو یہ کام نہیں ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ اگر احتیاط کی جائے تو اسے مطلقا ہم غلط اور بالکل باطل نہیں کہہ سکتے بشرطیکہ کام کرنے والے علماء ہوں۔

جو قرآن وسنت کو صحیح سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا وہ یہ دعوی کیونکر کرسکتا کہ میں قرآن و سنت پر عمل کررہا ہوں ۔ قرآن وسنت سمجھنے کے لیے علماء کی مدد لینی چاہیے ۔
ہمارے یہاں ترجمہ سے بننے والے مجتہد کافی ہیں۔ کچھ کو آپ فورم پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ میں صرف انہی کا انکار کرتا ہوں۔
اسی طرح بغیر تحقیق صرف تعصب کی بنیاد پر اعتراض کرنے والے بھی کافی ساتھی پاکستان میں ہیں۔ مقلد بھی اور غیر مقلد بھی۔ اللہ کا کرم ہے کہ میرے قریبی ساتھیوں میں ایسا کوئی نہیں ہے۔

شرک ، کفر اور مخالف حدیث کے فتووں میں جلد بازی کے قائل الحمد للہ نہ میں ہوں نہ میرے اساتذہ ۔ اور نہ ہی ہم اس رویہ کو درست سمجھتے ہیں ۔ لیکن بہر صورت جو کام خلاف سنت ہے اس کی وضاحت کرنا یہ علما کی ذمہ داری ہے ۔
اگر یہ خلاف اولی ہے یا مکروہ تنزیہی ہے اور اس پر آپ لوگوں کے ہاں کوئی خاص حکم نہیں لگتا (جیسے شرک کفر وغیرہ) تو میں امید رکھ سکتا ہوں کہ ہم مسلمانان پاکستان بھی متحد ہو سکیں گے اور مولانا داؤد راز رح کے قول کے مطابق فروعی مسائل کو چھوڑ کر اصل معاملات میں ایک جگہ ہو سکیں گے۔ اسی لیے پوچھ رہا تھا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مولانا محمود الحسن دیوبندی رح کا قول جو اوپر راجا بھائی نے ذکر کیا ہے وہ بھی اسی قبیل سے ہے کہ جو انہیں راجح محسوس ہوا اسے بیان کردیا۔ البتہ عمل مرجوح قول پر کرنے کا کہا۔
اگر وہ جامد مقلد ہوتے تو انہیں کیا ضرورت تھی کہ وہ ان کے قول کو راجح کہتے۔ اس کے بجائے وہ ان کے تمام دلائل کو شہید کرنے کی کوشش کرتے یا کم از کم یہ جملہ ہی نہیں کہتے۔
اسے ہمارے بھائی الٹ معنی میں لیتے ہیں۔
 
Top