• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
تمام بھائیوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ!
مجھے تو ذاتی طور نوجوان طلبۃ العلم کی طرف سے حدیث کی تحقیق اور اس کی نشر و اشاعت کا یہ رویہ کسی فتنے سے کم نظر نہیں آتا ہے۔ پہلے تو معاملہ یہاں تک تھا کہ فلاں روایت کو اگر علامہ البانی رحمہ اللہ صحیح کہہ رہے ہیں، تو مولانا مبشر ربانی صاحب حفظہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ وہ حسن ہے اور شیخ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ وہ ضعیف ہے وغیرہ ذلک۔ یعنی تحقیق حدیث کا یہ اختلاف اہل علم تک محدود تھا لیکن اب تو یہ اختلاف طلبۃ العلم میں داخل ہو گیا ہے، اور یوں سننے کو ملتا ہے کہ فلاں طالب علم کی یہ تحقیق ہے، فلاں کی یہ ہے اور فلاں کی یہ ہے اور میری یہ ہے۔

اور اب دو چار سالوں میں یہ ہو گا کہ مارکیٹ میں ایک سنن ابی داود ایسی بھی میسر ہو گی جو کسی ریٹائرڈ میجر صاحب کی تحقیقات کا شاہکار ہو گی، پھر کسی بینک مینیجر صاحب کو حدیث کی خدمت کا خیال آئے گا تو سنن ترمذی تحقیق شدہ شائع ہو جائے گی۔ ریٹائر ہیڈ ماسٹر صاحب کو خیال آئے گا کہ میری تو ساری زندگی پڑھنے پڑھانے ہی میں گزری ہے لہذا میرے لیے تو یہ کام نسبتا زیادہ آسان ہے اور سنن نسائی کی تحقیق بھی مارکیٹ میں آ جائے گی۔
متفق ابو الحسن علوی بھائی !

جزاک اللہ خیرا
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
تمام بھائیوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ!
مجھے تو ذاتی طور نوجوان طلبۃ العلم کی طرف سے حدیث کی تحقیق اور اس کی نشر و اشاعت کا یہ رویہ کسی فتنے سے کم نظر نہیں آتا ہے۔ پہلے تو معاملہ یہاں تک تھا کہ فلاں روایت کو اگر علامہ البانی رحمہ اللہ صحیح کہہ رہے ہیں، تو مولانا مبشر ربانی صاحب حفظہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ وہ حسن ہے اور شیخ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ وہ ضعیف ہے وغیرہ ذلک۔ یعنی تحقیق حدیث کا یہ اختلاف اہل علم تک محدود تھا لیکن اب تو یہ اختلاف طلبۃ العلم میں داخل ہو گیا ہے، اور یوں سننے کو ملتا ہے کہ فلاں طالب علم کی یہ تحقیق ہے، فلاں کی یہ ہے اور فلاں کی یہ ہے اور میری یہ ہے۔

اور اب دو چار سالوں میں یہ ہو گا کہ مارکیٹ میں ایک سنن ابی داود ایسی بھی میسر ہو گی جو کسی ریٹائرڈ میجر صاحب کی تحقیقات کا شاہکار ہو گی، پھر کسی بینک مینیجر صاحب کو حدیث کی خدمت کا خیال آئے گا تو سنن ترمذی تحقیق شدہ شائع ہو جائے گی۔ ریٹائر ہیڈ ماسٹر صاحب کو خیال آئے گا کہ میری تو ساری زندگی پڑھنے پڑھانے ہی میں گزری ہے لہذا میرے لیے تو یہ کام نسبتا زیادہ آسان ہے اور سنن نسائی کی تحقیق بھی مارکیٹ میں آ جائے گی۔

یہ کیا تماشہ ہے کہ جس کی طرف لوگ حدیث کی خدمت کے نام پرجانا چاہ رہے ہیں، اللہ جانتا ہے اور ہمارے سامنے ہے کہ لوگوں نے قرآن کی خدمت کے نام پر فتنے برپا کیے ہیں، ریٹائرڈ میجروں اور کرنلوں نے قرآن کے تراجم اور تفاسیر مرتب کی ہیں اور انکار حدیث کا فتنہ قرآن کی خدمت کے نام پر ہی پیدا ہوا ہے۔ اور اب یہی کام ہم حدیث کی خدمت کے نام پر کرنا چاہتے ہیں کہ مارکیٹ میں چار سال بعد دس سنن ابوداود، بارہ سنن ترمذی، آٹھ سنن نسائی وغیرہ ذلک موجود ہوں۔ اور آپس میں یوں گفتگو ہو رہی گی۔ جی! یہ کس کی سنن ترمذی ہے، یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی ہے۔ جی، اچھا ! آپ کے پاس کون سنن ابی داود ہے، جی مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کی ہے۔ اچھا ! یار بازار سے میرے لیے شیخ زبیر علی زئی صاحب کی ایک سنن ابن ماجہ لانا۔ جی! آپ کس عالم دین کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہیں، جی ! میں تو اپنی تحقیق کرتا ہوں۔ اور وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب مارکیٹ میں علامہ البانی رحمہ اللہ کی صحیح اور ضعیف سنن کی طرح صحیح اور ضعیف سنن کی بھر مار ہو گی اور ایک عام خریدار پریشان حال ہو گا کہ کون سی تحقیق شدہ کتاب لے۔
جزاکم اللہ شیخ ابو الحسن صاحب!
آپ کی بات سے میں سو فیصد متفق ہوں
آپ نے جس فتنے کی نشاندہی کی ایک وقت آئے گا آہستہ آہستہ تحقیق کے نام پر صحاح ستہ کی چار احادیث کے ذخیرہ کو مکمل ضعیف قرار دے دیا جائے گا۔
اللہ تعالی قرآن وسنت کو تحقیقی فتنوں سے محفوظ رکھے آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
احادیث کی تحقیق وتخریج :غور وفکر کے چند پہلو

تحریر : رفیق احمد رئیس سلفی
( مکمل تحریر یہاں ملاحظہ کریں )
اردو قارئین کے لیے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر فن حدیث سے واقف نہیں ہیں،رجال حدیث کی انھیں خبر نہیں ہے،اصول حدیث کی بھاری بھرکم اصطلاحات انھوں نے سنی بھی نہیں ہیں اور ائمہ جرح وتعدیل کے مناقشے اور تجزیے سے انھیں کوئی واسطہ نہیں ہے۔ البتہ اب ایک بڑی تعداد یہ ضرور چاہتی ہے کہ ہم صرف صحیح اور حسن احادیث پر عمل کریں کیوں کہ یہ موٹی بات ان کی سمجھ میں آگئی ہے کہ موضوع اور منکر حدیث نہ قابل عمل ہے اور نہ اس سے دین کا کوئی مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ان کی اس دینی بیداری کو اس وقت بڑی تقویت ملی جب ابوداؤد،ابن ماجہ اور نسائی کے اردو تراجم تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع ہوئے۔اب وہ آسانی سے ان کتابوں میں موجود احادیث کی استنادی حیثیت معلوم کرسکتے ہیں۔ہر حدیث اعراب کے ساتھ موجود ہے،اس کا بہترین رواں ترجمہ بھی ہے ،فوائد ومسائل انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور سب سے اہم کام یہ کہ ہر حدیث پر نیچے حاشیہ دے کر اس کی مکمل تخریج کی گئی ہے یعنی یہ بتادیا گیا ہے کہ یہ حدیث مزید کن کن کتابوں میں پائی جاتی ہے اور قوسین میں اس کا حکم بھی بیان کردیا گیا ہے۔البتہ اردو قارئین کی ایک بڑی الجھن بھی سامنے آرہی ہے ،اس کو سمجھنا اور پھر کوئی حل تلاش کرنا اس وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے۔ایک واقعے سے اس الجھن کو سمجھا جاسکتا ہے اور اگر اسے دور نہ کیا گیا تو خود حاملین منہج سلف میں کس طرح کا فکری انتشار پیدا ہوسکتا ہے ،اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
علی گڑھ میں میرے ایک دوست ہیں جو الحمد للہ حافظ قرآن ہیں ،نئے اہل حدیث ہیں اور دین کے احکام ومسائل کے تعلق سے وسیع معلومات رکھتے ہیں۔ایک دن انھوں نے مجھے مولانا عبدالسلام بستوی رحمہ اللہ کی کتاب’’اسلامی وظائف‘‘کا ایک ایسا ایڈیشن دکھایا جو محقق تھا اور جس کی تمام احادیث کی تخریج کرکے ان پر حکم لگایا گیا تھا۔یہ تمام علمی کام پاکستان کے مشہور محقق حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کا ہے۔ ٹائٹل سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر ثانی کا کام حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ہمارے دوست نے اسی نسخے کا ایک صفحہ کھولا جس میں موجود ایک دعا پر مشتمل حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگا ہوا تھا اور پھر انھوں نے سنن ابی داؤد کا وہ اردو ترجمہ نکالا جو دارالدعوۃ دہلی سے شائع ہوا ہے۔اسلامی وظائف میں زیر گفتگو حدیث کے لیے حوالہ سنن ابی داؤد کا دیا ہوا تھا،اس لیے انھوں نے رقم حدیث کے ذریعے ابوداؤ سے وہ حدیث نکال لی۔اس میں اسی حدیث پر صحیح ہونے کا حکم لگا ہوا ہے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟کس کو صحیح سمجھیں اور کس پر اعتماد کریں؟دارالدعوۃ دہلی سے شائع شدہ سنن ابی داؤد کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ اس کی احادیث کی تحقیق وتخریج کا کام ہمارے فاضل بزرگ دوست شیخ احمد مجتبیٰ سلفی مدنی حفظہ اللہ کا ہے اور وہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیقات پر اعتماد کرتے ہیں،اس لیے مجھے یہ اندازہ کرنے میں مشکل نہیں پیش آئی کہ سنن ابی داؤد کی مذکورہ حدیث پر حکم دراصل علامہ البانی کا ہے اور اسلامی وظائف پر حکم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا ہے۔دونوں محققین کے یہاں اصول حدیث کے بعض مباحث میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔خاص طور پر تدلیس کے مسئلے میں علامہ البانی کا موقف کچھ ہے اور حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا کچھ ہے۔
یہی حال دارالسلام ریاض سے شائع شدہ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کا ہے۔محترم عبدالمالک مجاہد صاحب نے تحقیق وتخریج حدیث کا کام حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے کرایا ہے اور پھر نظر ثانی مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ سے کرائی ہے ۔ یہاں بھی وہی صورت حال ہے۔حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں اور حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ دوسرے محققین کا حوالہ دے کر اسے صحیح یاحسن قرار دیتے ہیں۔یہ دونوں حکم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔قارئین کے اطمینان کے لیے میں یہاں ایک اقتباس درج کرنا چاہوں گا ۔فن حدیث سے شغف رکھنے والے اہل علم حضرات سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی اس مسئلے پر ہمدردی سے غور کریں اور اردو قارئین کو کچھ مشورے دیں تاکہ وہ اپنے فکر وعمل میں توازن پیدا کرسکیں اور فکری انتشار سے محفوظ رہیں:
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر:۲۸۸،کو حافظ ابوطاہر زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سلیمان اعمش کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے لیکن فوائد ومسائل کے ذیل میں مولا ناعطاء اللہ ساجد حفظہ اللہ لکھتے ہیں :ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جب کہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھئے:(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد۳؍۳۷۲،حدیث:۱۸۸۲،وصحیح الترغیب للالبانی،حدیث:۲۰۸،وصحیح أبی داؤد للالبانی، حدیث:۵۲)لہٰذا مذکورہ حدیث دیگر شواہد کی بناپر قابل حجت ہے۔
محترم عبدالمالک مجاہد صاحب نے یہ ایڈیشن شائع کرکے جماعت اہل حدیث کو سخت آزمائش میں مبتلا کردیا ہے ۔برصغیر کے مناظرانہ ماحول کو وہ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ،انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ مسلکی تشدد اور تلخیوں نے اس کی دینی فضا کو مسموم کررکھا ہے۔اپنی تمام تر بے اعتدالیوں کے باوجود تقلید کے پرستار اپنی اکثریت کا راگ الاپتے اور عوام کو کتاب وسنت سے دور رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ایک بڑا طبقہ میلاد اور قوالی کو عین تقاضائے اسلام سمجھتا ہے اور دوسرا طبقہ چلہ کشی اور صوفیانہ کشف وکرامات کا اسیر ہے ۔اہل حق کی معمولی کمزوری اسے بیساکھی فراہم کردیتی ہے اور وہ انھیں ائمہ کا گستاخ اور صوفیائے کرام کی جناب میں بے ادب کہنے میں کوئی شرم نہیں محسوس کرتے۔ یہاں تو ابھی تک ہم نواب وحید الزماں حیدرآبادی اور نواب صدیق حسن خاں کے فقہی ونظریاتی تفردات سے جوجھ رہے تھے اور مخالفین جماعت نے ان کے حوالے سے کئی ایک کتابیں لکھ دی ہیں اور ان کو جگہ جگہ تقسیم کرتے اور پھیلاتے ہیں۔ابوبکر غازی پوری کی تمام دل آزار کتابیں آج بھی جگہ جگہ نظر آتی ہیں،اس اللہ کے بندے نے جو اب دنیا میں نہیں رہے،الٹے سیدھے اقتباسات جہاں تہاں سے نقل کرکے جماعت اہل حدیث،اس کی فکر اور اس کے علما کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا ہے ،اس کو پڑھتے ہوئے نہیں لگتا کہ یہ تحریر کسی ایسے عالم دین کی ہوسکتی ہے جس نے اسلامی شریعت کی تعلیم حاصل کی ہو اور جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو۔اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے لہٰذا ان کے بارے میں مزید کچھ کہنا مناسب نہیں ،اس لیے کہ شریعت وفات پائے ہوئے لوگوں کی اچھائیاں اور نیکیاں یاد کرنے کا حکم دیتی ہے اور لغزشوں اور تسامحات کے لیے دعائے مغفرت کرنے کی تاکید کرتی ہے۔ان حالات میں تضادات سے بھرپور کتابیں شائع کرنا کہاں تک مناسب ہوسکتا ہے۔اگر ہمیں علامہ البانی کے حکم پر اعتماد نہیں تھا اور ہم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحقیقات پر اعتماد کرتے تھے تو پھر اسی تحقیق کو شائع کیا جاتا۔حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ خود ایک ذمہ دار عالم دین، مفسر،محدث اور فقیہ ہیں ،ان کی اپنی تحقیقات شائع کی جاتیں لیکن یہ کیا کہ تحقیق تو حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی ہے اور نظر ثانی حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی جس میں جگہ جگہ وہ محقق سے اختلاف کرتے ہیں اور جس حدیث کو انھوں نے ضعیف قرار دیا ہے،اس کے بارے میں یہ لکھتے ہیں کہ بعض دوسرے محققین نے اسے صحیح یا حسن کیا ہے۔ اردو کا ایک عام قاری کیا کرے گا۔بلکہ بہت سے علماء اس تضاد بیانی سے الجھنوں کا شکار ہوجائیں گے۔
ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ بعض راویان حدیث کے سلسلے میں ائمہ جرح وتعدیل کی آراء مختلف ہیں ،اسی طرح اصول حدیث کی بعض بحثیں اپنے اندر خاصی وسعت رکھتی ہیں اور اپنے اپنے نقطہائے نظر کے مطابق ائمہ جرح وتعدیل بعض احادیث پر حکم لگاتے ہیں ۔اہل علم ان مباحث سے چوں کہ واقف ہیں،اس لیے ان کے لیے حدیث پر لگائے جانے والے حکم کے اختلاف کو سمجھنا اور اس کا تجزیہ کرنا آسان ہے لیکن عوام یا حدیث سے کماحقہ واقفیت نہ رکھنے والے اہل علم کیا کریں گے۔کاش محترم عبدالمالک مجاہد صاحب تک میری یہ بات پہنچ پاتی اور ہم ان سے یہ درخواست کرتے کہ آیندہ کے ایڈیشن میں اس تضاد بیانی اور متضاد احکام سے کتب احادیث کے اردو ترجموں کو پاک رکھیں۔ورنہ خود محبان کتاب وسنت میں اختلاف فکر ونظر پیدا ہوجائے گا اور مخالفین کے یہاں ہماری یہ روش مضحکہ خیز بن جائے گی۔
آخر میں ایک بات یہ بھی عرض کردوں کہ حکم احادیث کا اختلاف ہو یا فقہی احکام ومسائل کا اختلاف،عوام الناس اسے ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ بعض بے عمل اور بدعمل لوگ علمائے کرام کے اندر پائے جانے والے ان اختلافات کو استہزاء کا موضوع بناتے ہیں۔ لہٰذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ عام اہل حدیث علماء کے متفقہ فیصلے سے اختلاف ہونے کی صورت میں خود انہی سے رجوع کیا جائے اور اپنے دلائل سے انھیں آگاہ کرکے مسئلے کی صحیح نوعیت سامنے لائی جائے ۔عجلت میں ایک نیا مسئلہ اور ایک نئی تحقیق شائع کرکے عوام کے ہاتھوں میں تھمادینا نہ دین داری ہے اور نہ صحیح طرز فکر وعمل۔اس سے صرف فکری انتشار پیدا ہوگا اور متضاد قسم کے گروہ وجود میں آئیں گے۔مجھے یاد ہے شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ نے اپنے ایک مکتوب میں سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ استفسارات کے جو جواب وہ تحریر کرتے ہیں ،انھیں جماعتی رسائل میں شائع کردیا جائے ۔حدیث کی صحت اور ضعف کا مسئلہ بہت نازک ہے۔بہتر ہوگا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹرعبدالباری فتح اللہ،ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس، ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی اور شیخ محمد جعفر مدنی (جامعہ اسلامیہ دریاباد )حفظہم اللہ سے رجوع کیا جائے اور ان حضرات سے درخواست کی جائے کہ علامہ البانی اور حافظ زبیر علی زئی کے نقطہائے نظر میں جو اختلاف ہے ،اس کو واضح کردیں اور حق وصواب کا معاملہ کس طرف ہے ،اس کی بھی تعیین فرمادیں ،ورنہ آگے چل کر یہ اختلاف مزید وسعت اختیار کرے گا اور افراد جماعت انتشار کا شکار ہوں گے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ رفیق سلفی صاحب نے تقریبا وہی اشکالات مثال کے ساتھ پیش کیے ہیں جو شیخ علوی صاحب کئی سال پہلے ذکر کر چکے ہیں ، اور ان کا جواب شیخ کفایت اللہ نے احسن انداز میں دے دیا ہے ۔
بطور معلومات یہ تحریر یہاں پیش کی گئی ہے ، اور تاکہ اگر اس موضوع پر مزید کچھ پہلو سامنے آسکتے ہیں تو ان پر بات کی جاسکے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ البانی ،ان سے پہلے احمد شاکر اور ان کے بعد شیخ زبیر علی زئی وغیرہ ( رحمہم اللہ جمیعا ) کچھ بھی نیا نہیں لے کر آئے ، وہی سب باتیں جو پہلے ائمہ حدیث میں فکر و نظر کا محور رہیں ، انہیں کو لے کر ان علماء عظام نے داد تحقیق دی ہے ۔
اور یہ چیزیں عربی زبان میں صدیوں سے ہیں ، اور سب یہ بھی جانتے ہیں ، اور یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سارے عربی جاننے والے ، ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے اردو یا کوئی بھی دوسری زبان جاننے والے ، اس لیے کسی علم نافع کا مجرد کسی دوسری زبان میں منتقل ہوجانا فتنے یا پریشانی کا باعث نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ یہ زبان اور اہل زبان کے لیے فخر و امتیاز کی بات ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو علما جس طرح علمی باتیں سمجھاتے ہیں ، اسی طرح مسائل میں اختلاف کی نوعیت بھی سمجھائیں ، علوم و فنون کی طبیعت سمجھائیں کہ تمام علوم و فنون میں کچھ چیزیں محل اتفاق اور کچھ چیزوں میں فکر و نظر کی گنجائش ہوتی ہے ۔
لیکن ایک فطری سی بات بن چکی ہے کہ فتنے کا سد باب اسی وقت ہوتا ہے جب وہ ظاہر ہوتا ہے ، ورنہ اس سے پہلے اگرچہ مجمل اور اصولی باتیں تو موجود ہوتی ہیں ، لیکن تفصیلی طور پر اس کی بیخ کنی اسی وقت ہوتی ہے ، جب کچھ لوگ پورے زور سے اس کا اظہار کرتے ہیں ۔
برصغیر پاک و ہند وغیرہ میں انکار حدیث کے فتنے کے عام ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہی ہے کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تراجم دستیاب ہوگئے ، لہذا پہلے یہ کتابیں صرف علما کی ہی دسترس میں تھیں ، اور جب وہ ان احادیث کا ترجمہ کرنے کے قابل ہوتے تھے ، ساتھ ساتھ اس قدر علوم و فنون حاصل کر چکے ہوتے تھے کہ پیش آنے والے اشکالات کو حل کرسکیں ۔ ترجمہ کے بعد جب یہ چیزیں ایک عام آدمی اور علوم فنون سے کورے آدمی کے ہاتھ میں پہنچی تو اس نے اپنے کم عقلی و کج فہمی کی بنا پر ان کا انکار شروع کردیا ، اور یوں اس فتنے نے زور پکڑا تو علما نے اس کا تفصیلی رد اور اگلے پچھلے سب اعتراضات کے تسلی بخش جوابات رقم فرمادیے ۔ اگر منکرین حدیث یہ چیزیں پیش نہ کرتے تو یقینا دفاع حدیث پر لکھی گئی یہ سینکڑوں کتابیں بھی معرض وجود میں نہ آتیں ۔
بعض احادیث کی صحت و ضعف میں اختلاف ہو جانا کوئی نئی بات نہیں ، پہلے بعد والے علما کئی مسائل میں ایک دوسرے سے مختلف رہے ، خود البانی رحمہ اللہ نے کئی علماء سے اختلاف کیا ، اسی طرح بعد والوں کا ان سے اختلاف ایک فطری امر ہے ۔
اختلاف کا جو حل عربی جاننے والی عوام کے لیے نکالا گیا ، ویسے اردو جاننے والوں کو بھی مطمئن کیا جاسکتا ہے ۔
برصغیر میں ترجمہ قرآن ہونے پر اختلاف ہوا ، لیکن اب سب متفق ہیں ، اسی طرح علوم حدیث و رجال کی کتابوں کے تراجم پر بھی اہل علم کے تحفظات ہیں ، لیکن یہ زیادہ دیر نہیں رہیں گے ، کیونکہ ان علمی ( یا غیر علمی ) کاموں میں دو چار ، پانچ دس سال کی تاخیر تو ہوسکتی ہے کہ یہ ختم بالکل نہیں ہوسکتے ، آخر علما کو اس کے اصل حل کی طرف آنا ہی ہوگا کہ علمی ذخیرہ عوام کی دسترس میں بھی ہو ، لیکن ساتھ ساتھ اس قدر تربیت ہو کہ وہ اس کا صحیح اور درست استعمال کرسکیں ، اور وہی علوم و فنون جن کے پڑھنے پڑھانے سے علما کو قدر و منزلت ملی ، انہیں چیزوں سے لوگ فتنے اور گمراہی میں مبتلا نہ ہوں ۔
 
Top