• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القراء ات والقراء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن سیرین رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ رکنی کمیٹی بنائی تھی جن میں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا۔ سب سے خوشخط کون ہے؟ تو لوگوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا نام لیا پھر پوچھا کہ سب سے زیادہ فصیح کون ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ ہیں۔ (فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے مصاحف سجستانی کا حوالہ دیا ہے۔ راجع :۱۰ ؍۳۹۳) اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ لوکان المملی من ھذیل والکاتب من ثقیف لم یوجد فیہ لحن ‘‘(کتاب المصاحف لابن أبی داؤد،باب المصاحف العثمانیۃ)
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ مملی ہوگا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کاتب ہوگا۔ کیونکہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کا لہجہ رسول اللہﷺکے لہجہ کے مشابہہ تھا۔(طبقات ابن سعد)
بعض رِوایات میں سعید کی بجائے ابان بن سعید بھی مروی ہے۔ خطیب لکھتے ہیں یہ عمارہ بن غزیۃ کا وہم ہے کیونکہ ابان تو شام میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی قتل ہوچکاتھا۔
ابوبکر سجستانی نے بقیہ اَرکان کی فہرست بھی دی ہے جو یہ ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) مالک بن ابی عامررضی اللہ عنہ امام مالک کے جدامجد (٦) کثیر بن افلح رضی اللہ عنہ
(٧) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (٨) انس بن مالک رضی اللہ عنہ (٩) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں بارہ رکنی کمیٹی سے یہ کل نو آدمی معلوم ہوسکے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’’لا یملین فی مصاحفنا الاعلماء قریش أوثقیف‘‘(کتاب المصاحف لابن أبی داؤد،باب جمع عمر بن الخطاب)
لیکن مذکورہ کمیٹی میں کوئی بھی ثقفی نظر نہیں آتا بلکہ قریشی یا انصاری ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِبتداء تو سعیدرضی اللہ عنہ اور زیدرضی اللہ عنہ نے کی پھر مثنیٰ مصاحف کی تیاری کے لیے دوسرے لوگ بھی شامل کرلیے گئے اور اِملاء میں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مدد لی گئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی برہمی
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما کونہ تو چار رکنی کمیٹی کا رکن بنایا گیا اورنہ ہی بارہ رکنی کمیٹی میں شامل کیے گئے اس لیے انہوں نے زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ پر اپنے رنج وملال کااظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’یا معشر المسلمین! أعزل عن نسخ کتابۃ المصاحف یتولاہا رجل واﷲ! أسلمت وإنہ لفي صلب رجل کافر۔‘‘ (جامع الترمذي: ۳۱۰۴)
اورمصاحف ابن ابوداود سجستانی میں ہے کہ انہوں نے کہا:
’’ولقد أخذت مِن في رسول اﷲ ﷺ سبعین سورۃ وإن زید بن ثابت لصبي من الصبیان۔‘‘
ابو وائل کی روایت میں بضع وسبعین سورۃ بھی آیاہے۔ (فتح الباري: ۱۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے معذرت
لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے معذرت کی جاسکتی ہے کہ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کوفہ میں تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کی آمد تک اتنا بڑا اہم منصوبہ معرض التواء میں نہیں ڈال سکتے تھے، کیونکہ یہ ہنگامی قسم کی ضرورت تھی اور حالات کا فوری تقاضا تھا نیز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے موجودہ صحف کو ایک مصحف کی شکل دینا تھی تاکہ حروف کا اختلاف ختم ہوجائے۔ اور پہلے صحف کو چونکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا لہٰذا دوبارہ لکھنے کے لیے بھی یہی موزوں تر تھے۔ ترمذی کی روایت کے آخر میں ہے :
’’فکرہ ذلک من مقالۃ عبداﷲ بن مسعود رجال من أفاضل الصحابۃ۔‘‘(جامع الترمذي: ۳۱۰۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک اَہم سوال
لیکن یہاں پر ایک اہم سوال پیدا ہوتاہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو وہ مصاحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دئیے تھے تو بعد میں ان کا اَنجام کیاہوا؟
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے سجستانی کے حوالہ سے لکھاہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مروان نے وہ صحف ضائع کر دئیے تھے تاکہ مرور اَیام کے ساتھ کسی قسم کانزاع پیدا نہ ہو۔ لیکن اولاً توان تختیوں کاضیاع اَلمیہ ہے جو رسول اللہ1 کی زندگی میں لکھی گئی تھیں اور پھر ان صحف کا ضیاع بڑا اَلمیہ ہے جو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے دور میں جمع کئے گئے تھے۔ یہ اِظہار افسوس کسی شک وشبہ کی بناء پر نہیں ہے ،بلکہ ایک دستاویز کی اصل شکل ضائع ہونے کی بناء پر ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں اور اصل مخطوطوں کی اہمیت کوسامنے رکھا جائے تو ان صحف کی قدر وقیمت کا اَندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے، خصوصاً جب تحقیق کے لیے اَصل شہادۃ بھی آثار قدیمہ ہی رہ گئے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے آخر میں ہے:
’’وأمر بما سواہ من القرآن في کل صحیفۃ ومصحف أن یحرق‘‘(بخاري شریف مع الفتح: ۱۰؍۳۹۵)
’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے سوا تمام صحف اور مصاحف کو جلا ڈالنے کا حکم دیا۔‘‘
اس حکم کے تحت عراق میں بھی مصاحف جلا ڈالے گئے لیکن بہت سے لوگوں نے اسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔اور اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ’محرق مصاحف‘ کہا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے دفاع کیااور کہا:
’’لا تقولوا لعثمان في تحریق المصاحف إلا خیرًا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس وقت صحابہ کی بہت بڑی جماعت موجود تھی لیکن ان میں سے کسی نے بھی کوئی اِعتراض نہیں کیا۔ اس بناء پر ابن بطال اس فقہی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’في ہذا الحدیث جواز تحریق الکتب بالنار فیہا اسم اﷲ۔‘‘
کیونکہ اس طریق سے پرانے اور بوسیدہ کاغذات بے ادبی سے بچ جاتے ہیں لیکن علماء کی ایک جماعت نے کہاہے کہ جلا ڈالنے سے دھو ڈالنا زیادہ بہتر ہے( فی زمانہ کاغذ سازی میں پرانے قرآن کے کاغذات اسی طریق سے استعمال کیے جاتے ہیں، جو کہ جائز ہے اور اس مسئلہ پر راقم کا ایک فتویٰ بھی شائع ہو چکا ہے)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جن پرائیویٹ مصاحف کو جلا ڈالنے کا حکم دیاتھا ان میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والے صحف شامل نہیں تھے بلکہ تمام صحابہ کے مصاحف محفوظ رہے تھے جیسا کہ مصاحف سجستانی سے معلوم ہوتا ہے۔(المصاحف للسجستاني وفتاویٰ ابن تیمیۃ: ۴۲۰۱۳)
لیکن مروان نے حضرت حفصہ والے صحف ضائع کر دئیے تھے (حضرت علی بن اَبی طالب، حضرت زبیر، طلحہ، سعد اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کے پاس اپنے مصاحف موجود تھے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے رسم مصاحف سے مختلف تھے۔)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بہرحال اَب مصاحف عثمانی میں جو کچھ ہے وہی قرآن ہے اور اس میں نقص وزیادۃ یا حذف وابدال جائز نہیں ہے، کیونکہ اُمت مرحومہ کا اس پر اِجماع ہوچکاہے۔ یہ مصاحف اختلاف کو ختم کرنے کے لیے سبعہ اَحرف کی بجائے ایک حرف پر لکھے گئے تھے اور وہ بھی عرضۂ اَخیرہ والا حرف ہاں نقاط اور اعراب سے مجرد تھے اور ان میں یہ گنجائش تھی کہ جو قراء ۃ صحابہ کرام کی نقل سے ثابت ہو اور سند صحیح ہو تو اس پر بھی پڑھا جا سکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تابعین کرام کا دور
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین رحمہم اللہ نے قرآن کی تعلیم وتعلّم کو زندہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو قراء ات وحروف منقول تھے ان کی پوری حفاظت کی۔ اس دور میں چونکہ سلسلہ تلمذ بہت وسیع ہوجاتاہے اس لیے ہم ہر مرکزی شہر کے تابعین کا ذکر کرتے ہیں جن سے سلسلہ اسناد قائم رہا۔
ابن الجزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مدینۃالنبی کے قراء
مدینہ طیبہ میں حسب ذیل تابعین قراء مشہور ہوئے۔
(١) سعید بن مسیب القرشی المخزومي رحمہ اللہ المتوفي ۹۳ھ
(٢) عروۃ بن زبیر أبو عبداﷲ القرشي رحمہ اللہ عالم المدینۃ واحد الفقہاء السبعۃ (المتوفی۹۳ھ(۶۷ھ)
(٣) سالم بن عبداﷲ بن عمر بن الخطاب رحمہ اللہ (المتوفی ۱۰۱ھ)
(٤) عمر بن عبدالعزیز الأموي رحمہ اللہ خلیفہ راشد (۱۰۱ھ)
(٥) سلیمان بن یسار رحمہ اللہ (۱۰۷ھ) (٦) عطاء بن یساررحمہ اللہ (۱۰۳ھ)
(٧) معاذ بن الحارث المعروف بمعاذ القاری رحمہ اللہ
(٨) عبدالرحمن بن ہرمزرحمہ اللہ (المتوفی ۱۱۷ھ) کاتب المصاحف وشیخ نافع بن أبي نعیم
(٩) ابن شہاب الزہري رحمہ اللہ (۹۴ھ) (١٠) مسلم بن جندب رحمہ اللہ (۱۳۰ھ)
(١١) زید بن أسلم رحمہ اللہ (۱۲۶ھ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مکہ مکرمہ کے قراء
(١) عبیدۃ بن عمیررحمہ اللہ (۹۴ھ) (٢) عطاء بن أبی رباح رحمہ اللہ (۱۱۰ھ)
(٣) طاؤس رحمہ اللہ (۱۰۶ھ) (٤) مجاہد بن جبیر أبو الحجاج المکی رحمہ اللہ (۱۰۳ھ)
(٥) عکرمۃرحمہ اللہ (۱۱۵ھ) (٦) ابن أبی ملیکۃ رحمہ اللہ
 
Top