• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟ عرش پر،آسمان پر یا۔۔۔۔؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,479
پوائنٹ
964
عبد اللہ بن آدم صاحب آپ جلدی جلدی علماء پر حکم لگانے پہنچ جاتے ہیں ، پہلے کسی عقیدہ کے درست صحیح ہونے پر تو بات کرلیں ۔
پھر حکم بھی لگالیں گے ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں درست غلط کا فیصلہ کرلیں ، حکم والی بات بعد میں رکھ لیتے ہیں ۔
کسی ایک عقیدے پر بات شروع کریں ، مثلا
استواء علی العرش ۔
وحدۃ الوجود وغیرہ ۔
صفات الہیہ میں تاویل ۔
کوئی بھی ایک پسندیدہ موضوع اختیار کرلیں اور نیا ’’ تھریڈ ‘‘ بناکر مجھے ٹیگ کردیں ۔
میں اور آپ گفتگو کر لیں گے ۔
 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
بہت اچھا کام ہے ویسے میں نے یہ آج دیکھا ہے
لیں جناب چند دانے چکھیں
ابن حجر حیثمی مکی صوفی ہیں ان کی رائے حجت نہیں جو قول انہوں نے ذکر کیا ہے اس کی سند بیان فرما دیں ائمہ تک
نسفی کو اپنے پاس رکھیں متکلمین کو احناف بھی گمراہ ہی کہتے ہیں
لونڈی نے جو جواب دیا تو جناب کی اطلاع کیلئے عرض ہے الی السماء کے الفاظ ہیں حدیث میں اور الی جہت کیلئے آتا ہے اور فی بمعنی علی بھی استعمال ہوتا ہے
ترمذی کی جو روایت پیش کی ہے اسلام ویب سے تو کیا ہی اچھا ہوتا مکمل ذکر کر دیتے
قال أبو عيسى هذا حديث غريب من هذا الوجه قال ويروى عن أيوب ويونس بن عبيد وعلي بن زيد قالوا لم يسمع الحسن من أبي هريرة
یہ لیں لنک بھی تسلی کیجئے http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=3220&idto=3220&bk_no=2&ID=1889
اور یہ جو تخریج میں لکھا ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟؟؟

یہ تو بریلویوں کی موضوعات شریف والی کہانی بن گئی ہے
امید ہے آپ جواب دینا پسند فرمائیں گے
علماء دیوبند نے اپنی کتاب ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے کہ الله تعالی کے لیئے جہت ثابت نہیں وه جہت سے پاک هے ، اوریہ قول وعقیده طالب الرحمن نامی جاهل آدمی کے نزدیک کفریہ شرکیہ هے ، اوریہ جاهل آدمی اس جهوٹ پرمزید جهوٹ اس طرح بولتا هے کہ امام ابوحنیفہ نے بهی علماء دیوبند کوبهی کافرومشرک کہا هے ( معا ذالله ) اور اس جهوٹ پراپنے زعم میں ثبوت اس طرح دیتا هے کہ ابن أبي العز نے اپنی کتاب ــ شرح العقيدة الطحاوية ــ میں أبي مطيع البلخي کے حوالے سے لکها هے کہ انهوں نے امام أبو حنيفة رحمه الله سے اس شخص کے بارے میں پوچها جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا میرا رب آسمان میں هے یا زمین میں هے تو امام أبو حنيفة رحمه الله نے فرمایا کہ اس شخص نے کفر کیا کیونکہ الله تعالی کا ارشاد هے {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} [سورة طه ] اور عرش اس کا سات آسمانوں سے اوپر هے الخ
اب غور طلب باتیں دو هیں ایک تو یہ کہ ( ألمُهند على المُفند ) میں لکهی هوئ بات صحیح هے یا ــ شرح العقيدة الطحاوية ــ والی بات لہذا انهی دو باتوں پر روشنی ڈالتے هیں ان شاء الله آپ کے سامنے طالب الرحمن نامی جاهل وکاذب شخص کا کذب واضح هوجا ئے گا ،
1 = طالب الرحمن نامی جاهل وکاذب شخص نے علماء دیوبند کے عقائد کو کفریہ شرکیہ کہا هے ابن أبي العز کی ــ شرح العقيدة الطحاوية ــ سے أبي مطيع البلخي کی روایت کوبنیاد بناکر اب طالب الرحمن کی جہالت کہیں یا ضد وتعصب کہ جس کتاب سے أبو مطيع البلخي کی روایت نقل کر رها هے اس کتاب کا مصنف یعنی ابن أبي العز ، أبو مطيع البلخي کے بارے میں اس طرح رقمطراز هے ، وأما أبو مطيع فهو الحكم بن عبد الله بن مسلمة البلخي ، ضعفه أحمد ابن حنبل ويحيى بن معين وعمرو بن علي الفلاس والبخاري وأبو داود وأبو حاتم الرازي وأبو حاتم محمد بن حبان البستي وابن عدي والدار قطني وغيرهم اهـ
یعنی أبو مطيع وه حكم بن عبد الله بن مسلمة البلخي هے امام أحمد ابن حنبل ويحيى بن معين وعمرو بن علي الفلاس والبخاري وأبو داود وأبو حاتم الرازي وأبو حاتم محمد بن حبان البستي وابن عدي والدار قطني وغيرهم نے اس کو ضعیف راوی قرار دیا هے ۰
اور مزید یہ کہ رجال کی دیگرکتب ( لسان الميزان ) »(ميزان الاعتدال ) اس سے سخت جرح اس پرموجود هے ،
اسی طرح (الفقه الأكبر ) کے متن میں بهی یہ کلام موجود نہیں هے ،
اوربتقدیر صحت کلام الإمام ابن عبد السلام نے کتاب (حل الرموز ) میں یہ جواب دیا هے جس کوعلامہ الإمام مُلا علي القاري نے ( شرح الفقه الأكبر 271 )
پرنقل کیا هے کہ (جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا میرا رب آسمان میں هے یا زمین میں هے تواس شخص نے کفر کیا ) کیونکہ اس قول سے یہ وهم هوتا هے کہ الله تعالی کے لیئے مکان ثابت هے اورجویہ وهم کرے کہ الله تعالی کے لیئے مکان ثابت هے تو وه مشبه هے اهـ
مُلا علي القاري نے اس کلام کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ
ولا شك أن ابن عبد السلام من أجل العلماء وأوثقهم فيجب الاعتماد علی نقله لا على ما نقله الشارح يعني شارح الطحاوية مع أن أبا مطيع رجل وضّاع عند أهل الحديث كما صرح به غير واحد اهـ
مُلا علي القاري فرماتے هیں کہ اس میں شک نہیں کہ ( الإمام ) ابن عبد السلام بہت بڑے اورثقہ علماء میں سے هیں لہذا انهوں نے جوجواب دیا هے اس پراعتماد ضروری هے اورجو بات شارح الطحاوية (ابن أبي العز ) نے نقل کی هے اس پرکوئ اعتماد نہ کرنا چائیے ، جب کہ أبا مطيع أهل الحديث (محدثین ) کے نزدیک وضّاع ( جهوٹی روایات بیان کرنے والا ) هے اور اس بات کی تصریح ایک زیاده (علماء امت ) نے کی هے ۰
اور مزید یہ کہ (متن العقيدة الطحاوية) کے پہلے سطر میں الامام العلامةُ حُجةُ الإسلامِ أبو جعفرٍ الوراقُ الطحاويُّ الحنفی رحمهُ الله فرماتے هیں کہ
هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين ،
یعنی یہ بیان هے أهل السنّة والجماعة کے عقیده کا فقهاء الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي،اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ،اور أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ،کے مذهب کے مطابق اور أصول الدينِ میں اورالله ربُ العالمين کے بارے جوعقائد وه رکهتے هیں اس کا ذکروبیان هے ۰
امام الطحاويُّ الحنفی رحمهُ الله چند سطورکے بعد فرماتے هیں کہ
( وتعالى عن الحدودِ والغاياتِ والأركانِ والأعضاءِ والأدوات، لا تحويهِ الجهاتُ الستُّ كسائرِ المبتدعات )
الله تعالی بلند وبرترهے حدود وغایات سے اورارکان واعضاء وادوات سے ،
چهہ (6 ) جِهات الله تعالی کوحاوی نہیں هیں دیگرتمام مخلوقات کی طرح ۰
(الغايات) یعنی النهايات معنی یہ هے کہ الله تعالی کے لیئے کوئ نهاية نہیں هے کیونکہ هروه چیزجس کے لیئے نهاية وانتهاء هوتو وه محدود هوگی اوراس کے لیئے مخصوص مقدار بهی هوگا اورالله تعالی اس سے مُنزه هے ،
( الأركان ) کا معنی هے الجوانب اور یہ بهی جسم کے صفات میں سے هے اورالله تعالی جسم سے مُنزه هے ،
(الأعضاء) کا معنی هے بڑے اجزاء جیسے سر ، هاتهہ ، پیر وغیره
(الأدوات ) کا معنی هے چهوٹے اجزاء جیسے زبان وغیره
( لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات)
معنی اس کا یہ هے کہ الله تعالی موجود هے بلا جهة وبلا مكان کے اور جهات ستہ (اوپر نیچے ، آگے پیچهے ، دائیں بائیں ) سے مُنزه هے جیسا کہ دیگر تمام مخلوقات کے لیئے یہ صفات هوتی هیں الله تعالی مخلوق کی ان اوصاف سے مُبَرَّا ومُنَزه هے ۰
غورفرمائیں امام الطحاويُّ الحنفی رحمهُ الله نے کتاب کے شروع میں کہا تها کہ یہ عقائد فقهاء الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ اور أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ کے مذهب کے مطابق بیان کیئے جائیں گے ،
توامام اعظم ابوحنیفہ کا عقیده یہ هے کہ الله تعالی موجود هے بلا جهة وبلا مكان کے الخ اور یہی عقیده ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هوا هے کہ الله تعالی کے لیئے جہت ثابت نہیں وه جہت سے پاک هے ،
توثابت هوگیا کہ طالب الرحمن نامی جاهل آدمی کا یہ کہنا کہ امام ابوحنیفہ نے بهی علماء دیوبند کوبهی کافرومشرک کہا هے ( معا ذالله ) کتنا بڑا جهوٹ وبهتان عظیم هے اورناواقف عوام کوگمراه کرنے کی ایک ناجائز ونامراد کوشش هے ۰
2 = دوسری بات جوعقیده ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے کہ الله تعالی کے لیئے جہت ثابت نہیں وه جہت سے پاک هے ، جس کو طالب الرحمن نامی جاهل وکذاب آدمی کفریہ شرکیہ عقیده کہتا هے ، کیا یہ عقیده صرف ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے یا دیگراسلاف وعلماء اهل سنت والجماعت کا بهی یہی عقیده هے ؟؟ خوب یاد رکهیں کہ جو عقیده ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے تمام اهل سنت کا وهی عقیده هے ، اس ضمن میں بحیثیت طالب العلم میرے پاس سلف صالحین وائمہ اسلام کے تقریبا ڈهائ سو (۲۵۰ ) سے زیاده اقوال هیں ، جن میں سے چند کا تذکره بغرض دلیل وشهادت کروں گا ، اوراس سے آپ طالب الرحمن نامی جاهل وکذاب شخص کی جهالت وحماقت کا اندازه بهی لگالیں گےکہ ضد وتعصب وعداوت کی بنا پرعلماء دیوبند کے اس عقیده کو کفریہ شرکیہ کہتا هے ، کیا اس شخص کے اس بکواس کی زد میں وه اسلاف وائمہ بهی نہیں آئیں گےجن کا عقیده وهی هے جو ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے ؟؟
اورساتهہ هی ان ناواقف عوام پرحُجت تمام هوگئ هے جواس جاهل آدمی کی هاں میں ملاتے هیں اوراس کی اندهی تقلید کرتے هیں ۰

أهل السـنة والجماعـة کا عـقیـده الله تـعـالی بلا مـكـان وبلاجـهـة موجود هے
سب سے پہلے " مـكـان وجــِـهـَــة " کی تعریف ملاحظہ کریں
1 = = مشهور لغوي عالم امام أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهاني اپنی کتاب ( المفردات في غريب القرءان) میں فرماتے هیں کہ
{المكان عند أهل اللغة الموضع الحاوي للشيء}.
یعنی مکان أهل اللغة کے نزدیک اس جگہ کوکہتے هیں جوکسی چیزکوحاوی
( گهیرا هوا ) هو ۰

2 = مشهور لغوي عالم علامہ مجد الدين محمد بن يعقوب الفيروزءابادي صاحب القاموس اپنی کتاب (القاموس المحيط ) میں فرماتے هیں کہ
{المكان: الموضع، ج: أمكنة وأماكن}
یعنی مکان جگہ کوکہتے هیں اورأمكنة وأماكن اس کی جمع هے ۰

3 = العلامة كمال الدين أحمد بن حسن البياضي الحنفي (إشارات المرام )میں فرماتے هیں کہ { المكان هو الفراغ الذي يشغله الجسم }
یعنی مکان اس خالی جگہ کوکہتے هیں جس کوجسم گهیرتا هے ۰

4 = الشيخ يوسف بن سعيد الضفتي المالكي فرماتے هیں کہ
{ قال أهل السنة: المكان هو الفراغ الذي يحل به الجسم}
یعنی مکان وه خالی جگہ هے جس میں جسم سماتا هے ۰

5 = الحافظ المجدث الفقيه اللغوي الحنفي السيد مرتضى الزبيدي اپنی كتاب
(تاج العُروس ) میں فرماتے هیں کہ :{المكان: الموضع الحاوي للشيء}
یعنی مکان وه جگہ هوتی هے جوکسی چیزکوحاوی هو ۰

یہ چند اقوال تو مـكـان کی تعریف سے متعلق تهے اب چند اقوال جــِـهـَــة کی تعریف کے متعلق ملاحظہ کریں ،
1 = الامام اللغوي الشيخ محمد بن مكرم الإفريقي المصري المعروف بابن منظور
علم نحو وصرف وادب ولغت عرب کے مشہور ومستند عالم هیں اپنی مشهور کتاب ( لسان العرب ) میں فرماتے هیں کہ
:{والجهة والوِجْهة جميعاً: الموضع الذي ٹوجه إليه وتقصده}
یعنی جــِـهـَــة اور وِجـــهـَــة سب اس جگہ کوکہتے هیں جس کی طرف تو متوجہ هو اورجس کا توقصد واراده کرے ۰

2 =علامہ مجد الدين محمد بن يعقوب الفيروزءابادي صاحب القاموس اپنی کتاب (القاموس المحيط ) میں فرماتے هیں کہ
{ والجهة: الناحية، ج: جهات}.
اور جــِـهـَــة کہتے هیں کنارے وطرف کو جمع اس کی جهات هے ۰

3 = علامہ الشيخ عبد الغني النابلسي فرماتے هیں کہ
{والجهة عند المتكلمين هي نفس المكان باعتبار إضافة جسم ءاخر إليه}
اورجــِـهـَــة متکلمین کے نزدیک مکان هی هے اس کی طرف دوسرے جسم کے اضافہ کے اعتبار سے ۰

4 = العلاّمة كمال الدين أحمد بن حسن المعروف بالبياضي فرماتے هیں کہ
والجهة اسم لمنتهى مأخذ الإشارة ومقصد المتحرك فلا يكونان إلا للجسم والجسمانيّ، وكل ذلك مستحيل ـ أي على الله ـ" اهـ



الله تعالى " مَـكــان وَجـِـهـَـة " سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا هے ۰

اب میں سلف صالحین وائمہ اسلام کی صرف اصل عبارات کا تذکره کروں گا اوران تمام عبارات کا معنی ومفہوم مشترک یہی هے کہ الله تـعـالی مـكـان وجــِـهـَــة سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا هے ، اس لیئے مستقل ترجمہ کرنے سے بات بہت طویل هوجائے گی ، لہذا اصل عبارات کے ذکرپراکتفاء کرتا هوں ٠

1 = قال الصحابي الجليل والخليفة الراشد سيدنا علي رضي الله عنه ما نصه
كان الله ولا مكان ، وهو الان على ماعليه كان اهـ. أي بلا مكان.
(( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333 ] ))
2 = وقال أيضا : "إن الله تعالى خلق العرش إظهارًا لقدرته لا مكانا لذاته" أ هـ
(( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333 ] ))
3 = وقال التابعي الجليل الإمام زين العابدين علي بن الحسين بن علي رضي الله عنهم ما نصه (أنت الله الذي لا يحويك مكان" أ هـ
[إتحاف السادة المتقين (4/ 380) ]
4 = قال الإمام الأعظم المجتهد الأكبرأبو حنيفة النعمان بن ثابت رضي الله عنه
" والله تعالى يُرى الآخرة، ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بلا تشبيه ولا كميّة، ولا يكون بينه وبين خلقه مسافة " اهـ
[ ذكره في الفقه الاكبر، انظر شرح الفقه الاكبر لملا علي القاري (ص/ 136ء 137) ].
5 =
وقال أيضا في كتابه الوصية : " ولقاء الله تعالى لأهل الجنة بلا كيف ولا تشبيه ولا جهة حق " اهـ [ الوصية: (ص/ 4)، ونقله ملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/138)]
6 = وقال أيضًا : " قلت: أرأيت لو قيل أين الله تعالى؟ فقال أي أبو حنيفة: يقال له كان الله تعالى ولا مكان قبل أن يخلق الخلق، وكان الله تعالى ولم يكن أين ولا خلق ولا شىء، وهو خالق كل شىء" اهـ. [ الفقه الأبسط ضمن مجموعة رسانل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 25). ].
7 = وقال أيضا : "ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه، وهو حافظ العرش وغير العرش من غير احتياج، فلو كان محتاجا لما قدر على إيجاد العالم وتدبيره كالمخلوقين، ولو كان محتاجا إلى الجلوس والقرار فقبل خلق العرش أين كان الله، تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا" اهـ.
[ كتاب الوصية، ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 2) ، وملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/ 75) عند شرح قول الامام: ولكن يده صفته بلا كيف"] .
8 = وقال الإمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي الله عنه إمام المذهب الشافعي ما نصه : " إنه تعالى كان ولا مكان فخلق المكان وهو على صفة الأزلية كما كان قبل خلقه المكان لا يجوز عليه التغيير في ذاته ولا التبديل في صفاته " اهـ
[إتحاف السادة المتقين (2/ 24 ]
9 = وأما الإمام المجتهد الجليل أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني إمام المذهب الحنبلي فقد ذكر الشيخ ابن حجر الهيتمي أنه كان من المنزهين لله تعالى عن الجهة والجسمية، ثم قال ابن حجر ما نصه : " وما اشتهر بين جهلة المنسوبين إلى هذا الإمام الأعظم المجتهد من أنه قائل بشىء من الجهة أو نحوها فكذب وبهتان وافتراء عليه " اهـ. [ الفتاوي الحديثية / 144).
10 = شيخ المحدثين الإمام أبو عبد الله محمد ابن إسماعيل البخاري صاحب الصحيح
کا بهی یہی عقیده هے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا هے
جیسا کہ بخاري شريف کے شُراح فرماتے هين

قال الشيخ علي بن خلف المالكي المشهور بابن بطال أحد شراح البخاري (449هـ) ما نصه : "غرض البخاري في هذا الباب الرد على الجهمية المجسمة في تعلقها بهذه الظواهر، وقد تقرر أن الله ليس بجسم فلا يحتاج إلى مكان يستقر فيه، فقد كان ولا مكان، وانما أضاف المعارج اليه إضافة تشريف، ومعنى الارتفاع إليه اعتلاؤهء أي تعاليهء مع تنزيهه عن المكان " اهـ.
[فتح الباري (13/416).]
11 = وقال الشيخ ابن المنيِّر المالكي (695 هـ) ما نصه:"جميع الأحاديث في هذه الترجمة مطابقة لها إلا حديث ابن عباس فليس فيه إلا قوله "رب العرش" ومطابقته، والله أعلم من جهة أنه نبه على بطلان قول من أثبت الجهة أخذا من قوله (ذِى المَعَارِجِ) (سورة المعارج/3) ، ففهم أن العلو الفوقي مضاف إلى الله تعالى، فبيَّن المصنفء يعني البخاريء أن الجهة التي يصدق عليها أنها سماء والجهة التي يصدق عليها أنها عرش، كل منهما مخلوق مربوب محدث، وقد كان الله قبل ذلك وغيره، فحدثت هذه الأمكنة، وقدمه يحيل وصفه بالتحيز فيها" اهـ، نقله عنه الحافظ ابن حجر وأقره عليه .[ فتح الباري (13/ 418ء 419). ]
12 = وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 هـ) في رسالته (العقيدة الطحاوية) ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي كبار علماء السلف میں سے هیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) میں یہ اعلان کر رهے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا هے ، اور الله تعالی کی شان هے کہ آج پوری دنیا کے مدارس ومکاتب ومعاهد ومساجد میں (العقيدة الطحاوية) هی کی تعلیم دی جاتی هے ، حتی کہ عرب کے اندر تمام سلفی مدارس وکلیات میں (العقيدة الطحاوية) کی تعلیم دی جاتی هے ، اور عرب کے تمام سلفی علماء نے اس کے شروحات لکهے هیں ، اور تمام نے (العقيدة الطحاوية) کو اهل سنت والجماعت کی عقائد کی مستند ومعتبرکتاب قرار دیا هے ،
اور (العقيدة الطحاوية) پڑهنے والے تمام لوگ کتاب کو کهولتے هی یہ اعلان کرتے هیں
، هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين ،
(ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء)
13 = وقال إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 هـ) ما نصه : " كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني.[تبيين كذب المفتري (ص/ 150).]
14 = وقال إمام أهل السنة أبو منصور الماتريدي (333 هـ) ما نصه : "إن الله سبحانه كان ولا مكان، وجائز ارتفاع الأمكنة وبقاؤه على ما كان، فهو على ما كان، وكان على ما عليه الان، جل عن التغير والزوال والاستحالة" اهـ. يعني بالاستحالة التحول والتطور والتغير من حال إلى حال وهذا منفي عن الله ومستحيل عليه سبحانه وتعالى.[كتاب التوحيد (ص/ 69).]
15 = وقال الحافظ محمد بن حبان (354 هـ) صاحب الصحيح المشهور بصحيح ابن حبان ما نصه : "الحمد لله الذي ليس له حد محدود فيحتوى، ولا له أجل معدود فيفنى، ولا يحيط به جوامع المكان ولا يشتمل عليه تواتر الزمان". [الثقات (1/ 1)
16 = وقال أيضا ما نصه : "كان الله ولا زمان ولا مكان" اهـ.[صحيح ابن حبان، أنظر الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان (8/ 4).]
17 = وقال الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي (388 هـ) صاحب "معالم السنن" ما نصه "وليس معنى قول المسلمين إن الله على العرش هو أنه تعالى مماس له أو متمكن فيه أو متحيز في جهة من جهاته، لكنه بائن من جميع خلقه، وإنما هو خبر جاء به التوقيف فقلنا به ونفينا عنه التكييف إذ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ)ا هـ.[أعلام الحديث: كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قوله تعالى: (هُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ) (سورة الروم/27) (2/،147).]
18 = وقال القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري (403) ما نصه : "ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان"اهـ الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65).
19 = وذكر الشيخ أبو الطيب سهل بن محمد الشافعي مفتي نيسابور (404 هـ) ما نقله عنه الحافظ البيهقي: "سمعت الشيخ أبا الطيب الصعلوكي يقول: "ُتضامّون" بضم أوله وتشديد الميم يريد لا تجتمعون لرؤيتهء تعالىء في جهة ولا ينضم بعضكم إلى بعض فإنه لا يرى في جهة" اهـ، ذكر ذلك الحافظ ابن حجر فتح الباري (447/11).
20 = وقال أبو بكر محمد بن الحسن المعروف بابن فورك الاشعري (406 هـ) ما نصه "لا يجوز على الله تعالى الحلول في الأماكن لاستحالة كونه محدودا ومتناهيا وذلك لاستحالة كونه محدثا" اهـ.
مشكل الحديث (ص/ 57).
21 = وقال الشيخ الإمام أبو منصور عبد القاهر بن طاهر التميمي البغدادي الإسفراييني (429 هـ) ما نصه "وأجمعوا (أي أهل السنة)على أنه أي الله لا يحويه مكان ولا يجري عليه زمان " اهـ
الفرق بين الفرق (ص/ 333).
22 = وقال أبو محمد علي بن أحمد المعروف بابن حزم الأندلسي (456 هـ)
" وأنه تعالى لا في مكان ولا في زمان، بل هو تعالى خالق الأزمنة والأمكنة، قال تعالى: (وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً)(سورة الفرقان/2)، وقال (خلقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا)(سورة الفرقان/59)، والزمان والمكان هما مخلوقان، قد كان تعالى دونهما، والمكان إنما هو للاجسام" اهـ.
(أنظر كتابه علم الكلام: مسألة في نفي المكان عن الله تعالى (ص/ 65).
23 = وقال الحافظ أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي الشافعي (458 هـ) ما نصه "والذي روي في أخر هذا الحديث إشارة إلى نفي المكان عن الله تعالى، وأن العبد أينما كان فهو في القرب والبعد من الله تعالى سواء، وأنه الظاهر فيصح إدراكه بالأدلة، الباطن فلا يصح إدراكه بالكون في مكان. واستدل بعض أصحابنا في نفي المكان عنه بقول النبي (صلّى الله عليه و سلّم) "أنت الظاهر فليس فوقك شىء، وأنت الباطن فليس دونك شىء"، وإذا لم يكن فوقه شىء ولا دونه شىء لم يكن في مكان " اهـ
( الأسماء والصفات (ص/ 400).
24 = وقال الفقيه المتكلم أبو المظفر الإسفراييني الأشعري (471 هـ) ما نصه "الباب الخامس عشر في بيان اعتقاد أهل السنة والجماعة: وأن تعلم أن كل ما دل على حدوث شىء من الحد، والنهاية، والمكان، والجهة، والسكون، والحركة، فهو مستحيل عليه سبحانه وتعالى، لأن ما لا يكون محدثا لا يجوز عليه ما هو دليل على الحدوث " اهـ. التبصير في الدين (ص/ 161)..
25 = وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (476 هـ) في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ
أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101).
26 = وقال إمام الحرمين أبو المعالي عبد الملك بن عبد الله الجويني الأشعري (478 هـ) ما نصه "البارىء سبحانه وتعالى قائم بنفسه، متعال عن الافتقار إلى محل يحله أو مكان يقله " اهـ.
الإرشاد إلى قواطع الأدلة (ص/ 53).
27 = وقال الفقيه المتكلم أبو سعيد المتولي الشافعي الأشعري (478 هـ) أحد أصحاب الوجوه في المذهب الشافعي ما نصه (ثبت بالدليل أنه لا يجوز أن يوصف ذاته تعالى بالحوادث، ولأن الجوهر متحيز، والحق تعالى لا يجوز أن يكون متحيزا" اهـ.
الغنية قي أصول الدين (ص/83).
28 = وقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي الاشعري (505 هـ) ما نصه : " (تعالى أي الله عن أن يحويه مكان، كما تقدس عن أن يحده زمان، بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو الان على ما عليه كان " اهـ.
إحياء علوم الدين: كتاب قواعد العقاند، الفصل الأول (1/ 108).
29 = وقال لسان المتكلمين الشيخ أبو المعين ميمون بن محمد النسفي (توفي 508 هـ) مانصه "القول بالمكان – اي في حق الله – منافيا للتوحيد"
تبصرة الأدلة (1/ 171 و 182).
30 = وقال أبو الوفاء علي بن عقيل البغدادي شيخ الحنابلة في زمانه (513 هـ) ما نصه "تعالى الله أن يكون له صفة تشغل الأمكنة، هذا عين التجسيم، وليس الحق بذي أجزاء وأبعاض يعالج بها" اهـ.
الباز الأشهب: الحديث الحادي عشر (ص/ 86).
31 = وقال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف بابن رشد الجد المالكي (520 هـ) ما نصه: "ليس الله في مكان، فقد كان قبل أن يخلق المكان) اهـ. ذكره ابن الحاج المالكي في كتابه "المدخل"
المدخل: فصل في الاشتغال بالعلم يوم الجمعة (149/2)
32 = وقال المحدث أبو حفص نجم الدين عمر بن محمد النسفي الحنفي (537 هـ) صاحب العقيدة المشهورة بـ "العقيدة النسفية " ما نصه "والمحدث للعالم هو الله تعالى، لا يوصف بالماهية ولا بالكيفية ولا يتمكن في مكان " انتهى باختصار
العقيدة النسفية (ضمن مجموع مهمات المتون) (ص/28).
33 = وقال القاضي أبو بكر بن العربي المالكي . الأندلسي (543 هـ) ما نصه " البارى تعالى يتقدس عن ان يحد بالجهات أو تكتنفه الأقطار"
القبس في شرح موطأ مالك بن انس (1/396).
34 = وقال أيضا ما نصه "الله تعالى يتقدس عن أن يحد بالجهات "
المصدر السابق (1/395).
35 = وقال القاضي عياض بن موسى المالكي (544 ) ما نصه "اعلم أن ما وقع من إضافة الدنو والقرب هنا من الله او إلى الله فليس بدنو مكان ولا قرب مدى، بل كما ذكرنا عن جعفر بن محمد الصادق: ليس بدنو حد، صفة المجد والعلاء، فإنه تعالى فوق كل موجود بالقهر والاستيلاء"
الشفا: فصل في حديث الاسراء (1/205).
36 = وقال الشيخ محمد بن عبد الكريم الشهرستاني الشافعي (548هـ) ما نصه : "فمذهب أهل الحق أن الله سبحانه لا يشبه شيئا من المخلوقات ولا يشبهه شىء منها بوجه من وجوه المشابهة والمماثلة"لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ" ( سورة الشورى/11). فليس البارىء سبحانه بجوهر ولا جسم ولا عرض ولا في مكان ولا في زمان " اهـ.
نهاية الأقدام (ص/ 103).
37 = قال الإمام الحافظ المفسر عبد الرحمن بن علي المعروف بابن الجوزي الحنبلي (597 هـ) ما نصه " الواجب علينا أن نعتقد أن ذات الله تعالى لا يحويه مكان ولا يوصف بالتغير والانتقال" اهـ.
دفع شبه التشبيه (ص/58). (2) صيد الخاطر (ص/ 476).
38 = وقال الشيخ تاج الدين محمد بن هبة الله المكي الحموي المصري (599 هـ) في تنزيه الله عن المكان ما نصه وصـانـع الـعـالـم لا يـحـويـه قـطـر تـعـالـى الله عـن تـشـبـيـه قد كـان مـوجـودا ولا مكـانـا وحـكـمـه الان عـلـى مـا كـانـا سبحـانـه جل عن الـمكـان وعـز عـن تـغـيـر الـزمـان" اهـ
منظومته "حدائق الفصول وجواهر الأصول" في التوحيد، التي كان أمر بتدريسها السلطان المجاهد صلاح الدين الأيوبي (ص13) النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب، 4/ 32).
39 = وقال المبارك بن محمد المعروف بابن الأثير (606 ص) ما نصه : "المراد بقرب العبد من الله تعالى القرب بالذكر والعمل الصالح، لا قرب الذات والمكان لأن ذلك من صفات الأجسام، والله يتعالى عن ذلك ويتقدس " اهـ.
تفسير الرازي المسمى بالتفسير الكبير (سورة الملك/ أية 16ء 30/ 69).
40 = وقال المفسر فخرالدين الرازي (6 0 6 هـ) ما نصه "واعلم أن المشبهة احتجوا على إثبات المكان لله تعالى "أَأَمنتم من في السماء "اهـ أي أن اعتقاد أن الله في مكان فوق العرش أو غير ذلك من الأماكن هو اعتقاد المشبهة الذين قاسوا الخالق على المخلوق وهو قياس فاسد منشؤه الجهل واتباع الوهم "اهـ.
المصدر السابق (سورة الشورى أية 4ء 27/ 144).
41 = وقال الشيخ أبو منصور فخر الدين عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن عساكر (620 هـ) عن الله تعالى ما نصه "موجود قبل الخلق ليس له قبل ولا بعد، ولا فوق ولا تحت، ولا يمين ولا شمال، ولا أمام ولا خلف، ولا كل ولا بعض، ولا يقال متى كان، ولا أين كـان ولا كيف، كان ولا مكان، كون الأكوان، ودبر الزمان، لا يتقيد بالزمان، ولا يتخصص بالمكان " اهـ.
أنظر شرحه على العقيدة الطحاوية المسمى بيان اعتقاد أهل السنة (ص/ 45).
42 = وقال الشيخ إسماعيل بن إبراهيم الشيباني الحنفي (629 ص) ما نصه "مسألة: قال أهل الحق: إن "الله تعالى متعال عن المكان، غير متمكن في مكان، ولا متحيز إلى جهة خلافا للكرامية والمجسمة... والذي يدل عليه قوله تعالى "ليس كمثله شيء وهو السميع البصير "
أبكار الأفكار (ص/ 194ء 195)، مخطوط
43 = وقال المتكلم سيف الدين الآمدي (631 هـ) ما نصه "وما يروى عن السلف من ألفاظ يوهم ظاهرها إثبات الجهة والمكان فهو محمول على هذا الذي ذكرنا من امتناعهم عن إجرائها على ظواهرها والإيمان بتنزيلها وتلاوة كلأية على ما ذكرنا عنهم، وبين السلف إلاختلاف في الألفاظ التي يطلقون فيها، كل ذلك اختلاف منهم في العبارة، مع اتفاقهم جميعا في المعنى أنه تعالى ليس بمتمكن في مكان ولا متحيز بجهة، الخ
44 = وقال الشيخ جمال الدين محمود بن أحمد الحصيري شيخ الحنفية في زمانه (636 ص) بعد أن قرأ فتوى ابن عبد السلام في تنزيه الله عن المكان والحروف والصوت ما نصه "هذا اعتقاد المسلمين، وشعار الصالحين، ويقين المؤمنين، وكل ما فيهما صحيح، ومن خالف ما فيهما وذهب إلى ما قاله الخصم من إثبات الحرف والصوت فهو حمار" ا.هـ
طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيزبن عبد السلام (8/ 237).
45 = وقال الشيخ جمال الدين أبو عمرو عثمان بن عمر المعروف بابن الحاجب المالكي (646 هـ) مثنيا على العقيدة التي كتبها الشيخ عبد العزيز ابن عبد السلام ومما جاء في هذه العقيدة قول ابن عبد السلام: "كان ء اللهء قبل أن كون المكان ودبر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان " اهـ ومن جملة ما ذكره في ثنائه قوله : "ما قاله ابن عبد السلام هو مذهب أهل الحق، وأن جمهور السلف والخلف على ذلك، ولم يخالفهم إلا طائفة مخذولة، يخفون مذهبهم ويدسونه على تخوف إلى من يستضعفون علمه وعقله " اهـ
طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيزبن عبد السلام (8/ 237).
46 = وقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السلام الأشعري الملقب بسلطان العلماء (660 ص) ما نصه "ليسء أي اللهء بجسم مصوَّر، ولا جوهر محدود مُقدَّر، ولا يشبه شيئا، ولا يُشبهه شىءٌ، ولا تحيط به الجهات، ولا تكتنفه الأرضون ولا السموات، كان قبل أن كوَّن المكان ودبَّر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان" ا.هـ
طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيز بن عبد السلام (8/ 219).
47 = وقال المفسّر محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي المالكي (671 هـ) ما نصه "والعليّ " يراد به علو القدر والمنزلة لا علو المكان، لأن الله منزه عن التحيز"
الجامع لأحكام القرأن سورة البقرة، أية/ 55 2 (3/ 278).
48 = وقال ابو الحافظ أبو زكريا محيي الدين بن شرف النووي الشافعي الأشعري (676) ما نصه إن الله تعالى ليس كمثله شىء ، منزه عن التجسيم والانتقال والتحيز في جهة وعن سائر صفات المخلوق "اهـ
شرح صحيح مسلم (19/3).
49 = وقال الحافظ ابن حجر العسقلاني الشافعي الأشعري (852 هـ) ما نصه "ولا يلزم من كون جهتي العلو والسفل محالا على الله أن لا يوصف بالعلو، لأن وصفه بالعلو من جهة المعنى، والمستحيل كون ذلك من جهة الحس، ولذلك ورد في صفته العالي والعلي والمتعالي، ولم يرد ضد ذلك وإن كان قد أحاط بكل شىء علما جلّ وعز"اهـ
فتح الباري (3/ 30).
50 = وقال الشيخ بدر الدين محمود بن أحمد العَيْني الحنفي (855 هـ) في شرحه على صحيح البخاري ما نصه "ولا يدل قوله تعالى :" وكان عرشه على الماء " على، أنهء تعالىء حالّ عليه، وإنما أخبر عن العرش خاصة بأنه على الماء، ولم يخبر عن نفسه بأنه حال عليه، تعالى الله عن ذلك، لأنه لم يكن له حاجة إليه " ا.هـ.
عمدة القاري (مجلد 12/ 25/ 111).
کبارائمہ اسلام محدثین ومفسرین وفقهاء ومحققین وسلف صالحین کے ( 50 ) پچاس
اقوال میں نے باحوالہ ان کی اصل عبارات میں ذکرکیئے هیں ، باقی اقوال بخوف طوالت میں نے ذکرنہیں کیئے ، ان سب ائمہ اسلام کا اجماعی فیصلہ یہ هے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے اور دیگرمخلوقات کی صفات ومشابهت سے پاک ومُبَرا ومُنزه وبلند وبرتر هے اوریہی جمیع اهل سنت سلف وخلف کا عقیده هے ، اور یہی عقیده اکابرعلماء دیوبند کی اجماعی کتاب
ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے ، جس کو طالب الرحمن نامی جاهل ومجهول آدمی کفریہ شرکیہ عقیده کہتا هے ،
کیا اس جاهل ومجهول آدمی کی اس بکواس کی زد میں یہ سارے کبارائمہ اسلام نہیں آئیں گے ؟؟
کیا سارے کبارائمہ اسلام وسلف صالحین کفریہ شرکیہ عقیده رکهتے تهے ؟؟
(معاذالله)
کیا کوئ عقل مند آدمی اس کے بعد بهی اس جاهل ومجهول آدمی کی بات کا اعتبار کرے گا اوراس کی اندهی تقلید میں سرگرداں رهے گا ؟؟
الله تعالی عوام الناس کو صحیح سمجهہ دے اوراس جاهل وکذاب شخص کی حقیقت ان پرکهول دے ۰
( إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت وماتوفيقي إلابالله​
 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
صفات باری تعالٰی سے متعلق عربی حوالہ کا مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب کے قالم سے مترجم اقتباس ملاحظہ فرمایئے:۔ ”خدا کی جن صفات کو سلف صالحین نے ظاہر پر جاری رکھا ہے جیسی کہ قرآن و حدیث میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک صفت استواء ہے۔ کتاب و سنت کی دلیلیں اس میں بہت ہیں۔ جیسا ہم استواء اور اس جہت میں ہونے کے متعلق کہتے ہیں اسی طرح ہم آیات معیت وھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمٌ وغیرہ میں کہتے ہیں۔ یعنی ہم ایسی آیات میں وہی کہتے ہیں جیسا قرآن میں آیا ہے کہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے ہم اس کی تاویل میں تکلیف نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے غیر کرتے ہیں کہ اس سے مراد علم ہے کیونکہ یہ ایک تاویل ہے جو مذاہب خلف کے مخالف ہے۔ اور صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے بھی بالکل خلاف ہے۔ جب تو سلامتی کے راستہ پر پہنچ گیا۔ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے تو اس سے آگے نہ گزر“۔(رسالہ التحف فی مذاہب السلف ص۴۳) مولانا ثناء اللہ غیرمقلد مذکورہ حوالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اس عبارت کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ امام شوکانی نہ تو استواء کی تاویل کرتے ہیں اور نہ معیت خداوندی کی تاویل کے قائل ہیں بلکہ ہر قسم کی تاویل پر صحابہ اور سلف صالحین کے مذاہب کے خلاف بتاتے ہیں، یعنی ان کے نزدیک ھو معکم کی تاویل علم کے ساتھ کرنے والے مذاہب سلف کے ایسے ہی مخالف ہیں جیسا وہ لوگ جو استواء علی العرش کی تاویل کرتے ہیں“۔(مظالم روپڑی ص۱۳) نواب صدیق حسن خان صاحب (م ۱۸۹۰) جن کے متعلق مولانا ثناہ اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں کہ: ”ہندوستان کے نامور سلفی اہل حدیث مصنف میں سے مولانا نواب صدیق حسن صاحب بھوپالی مشہور ترین ہیں۔(مظالم روپڑی ص۱۳) نواب صاحب موصوف کا اس مسئلہ میں مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد کے قلم سے ایک مترجم اقتباس ملاحظہ فرمایئے: ”ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ استواء علی العرش اور اللہ کا آسمان پر ہونا اور مخلوق سے بائن ہونا اور اس کا قرب اور معیت اور جو بھی صفات آئی ہیں کیفیت بتانے اور علم و قدرت کےساتھ تاویل کرنے کے بغیر ظاہر پر جا ری ہیں۔ کیونکہ تاویل کرنے کی کوئی دلیل شرعی وارد نہیں ہوئی“۔(کتاب الجوائز والصلات ص۲۶۲) مولانا امرتسری صاحب اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”میں کہتا ہوں کہ یہ عبارت قاضی شوکانی کی عبارت سے بھی واضح تر ہے۔ مطلب اس کا وہی ہے کہ خدا تعالٰی جیسا کہ عرش پر ہے ویسا ہی زمین پر ہے ۔ رہا یہ امر کہ کیسے ہے۔ سو یہ سوال کیفیت سے ہے جو حوالہ بخدا ہے۔(مظالم روپڑی ص۱۳) اسی طرح مولانا امرتسری نے جماعت غیرمقلدین کے وکیل اعظم مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب (جنہوں نے انگریز یہ اہلحدیث نام آلارٹ کروایا) کی تائید سے علامہ محمد بن علی شوکانی سے بھی یہی عقیدہ نقل کیا ہے۔(مظالم روپڑی ص۱۲) خود مولانا امرتسری غیرمقلدین اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”میں خدا کی صفت قرب معیت کو اور اللہ تعالٰی کا آسمانوں اور زمینوں میں ہونا بلا تاویل یقین کرتا ہوں “۔ (مظالم روپڑی ص۱۱) اب جس عقیدہ کو یہ اکابرین غیرمقلدین حق کہہ کر اس پر جمے ہوئے ہیں اور کو سلف صالحین کا مسلک قرار دے رہے ہیں، غیرمقلدین اس عقیدہ کو باطل باور کرکے علمائے دیوبند کو اس کا الزام
شکوے ہمارے سارے غلط بھی سہی مگر لو تم ہی اب بتاؤ کس کا قصور تھا10312 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
علماء دیوبند نے اپنی کتاب ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے کہ الله تعالی کے لیئے جہت ثابت نہیں وه جہت سے پاک هے ، اوریہ قول وعقیده طالب الرحمن نامی جاهل آدمی کے نزدیک کفریہ شرکیہ هے ، اوریہ جاهل آدمی اس جهوٹ پرمزید جهوٹ اس طرح بولتا هے کہ امام ابوحنیفہ نے بهی علماء دیوبند کوبهی کافرومشرک کہا هے ( معا ذالله ) اور اس جهوٹ پراپنے زعم میں ثبوت اس طرح دیتا هے کہ ابن أبي العز نے اپنی کتاب ــ شرح العقيدة الطحاوية ــ میں أبي مطيع البلخي کے حوالے سے لکها هے کہ انهوں نے امام أبو حنيفة رحمه الله سے اس شخص کے بارے میں پوچها جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا میرا رب آسمان میں هے یا زمین میں هے تو امام أبو حنيفة رحمه الله نے فرمایا کہ اس شخص نے کفر کیا کیونکہ الله تعالی کا ارشاد هے {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} [سورة طه ] اور عرش اس کا سات آسمانوں سے اوپر هے الخ
اب غور طلب باتیں دو هیں ایک تو یہ کہ ( ألمُهند على المُفند ) میں لکهی هوئ بات صحیح هے یا ــ شرح العقيدة الطحاوية ــ والی بات لہذا انهی دو باتوں پر روشنی ڈالتے هیں ان شاء الله آپ کے سامنے طالب الرحمن نامی جاهل وکاذب شخص کا کذب واضح هوجا ئے گا ،
1 = طالب الرحمن نامی جاهل وکاذب شخص نے علماء دیوبند کے عقائد کو کفریہ شرکیہ کہا هے ابن أبي العز کی ــ شرح العقيدة الطحاوية ــ سے أبي مطيع البلخي کی روایت کوبنیاد بناکر اب طالب الرحمن کی جہالت کہیں یا ضد وتعصب کہ جس کتاب سے أبو مطيع البلخي کی روایت نقل کر رها هے اس کتاب کا مصنف یعنی ابن أبي العز ، أبو مطيع البلخي کے بارے میں اس طرح رقمطراز هے ، وأما أبو مطيع فهو الحكم بن عبد الله بن مسلمة البلخي ، ضعفه أحمد ابن حنبل ويحيى بن معين وعمرو بن علي الفلاس والبخاري وأبو داود وأبو حاتم الرازي وأبو حاتم محمد بن حبان البستي وابن عدي والدار قطني وغيرهم اهـ
یعنی أبو مطيع وه حكم بن عبد الله بن مسلمة البلخي هے امام أحمد ابن حنبل ويحيى بن معين وعمرو بن علي الفلاس والبخاري وأبو داود وأبو حاتم الرازي وأبو حاتم محمد بن حبان البستي وابن عدي والدار قطني وغيرهم نے اس کو ضعیف راوی قرار دیا هے ۰
اور مزید یہ کہ رجال کی دیگرکتب ( لسان الميزان ) »(ميزان الاعتدال ) اس سے سخت جرح اس پرموجود هے ،
اسی طرح (الفقه الأكبر ) کے متن میں بهی یہ کلام موجود نہیں هے ،
اوربتقدیر صحت کلام الإمام ابن عبد السلام نے کتاب (حل الرموز ) میں یہ جواب دیا هے جس کوعلامہ الإمام مُلا علي القاري نے ( شرح الفقه الأكبر 271 )
پرنقل کیا هے کہ (جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا میرا رب آسمان میں هے یا زمین میں هے تواس شخص نے کفر کیا ) کیونکہ اس قول سے یہ وهم هوتا هے کہ الله تعالی کے لیئے مکان ثابت هے اورجویہ وهم کرے کہ الله تعالی کے لیئے مکان ثابت هے تو وه مشبه هے اهـ
مُلا علي القاري نے اس کلام کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ
ولا شك أن ابن عبد السلام من أجل العلماء وأوثقهم فيجب الاعتماد علی نقله لا على ما نقله الشارح يعني شارح الطحاوية مع أن أبا مطيع رجل وضّاع عند أهل الحديث كما صرح به غير واحد اهـ
مُلا علي القاري فرماتے هیں کہ اس میں شک نہیں کہ ( الإمام ) ابن عبد السلام بہت بڑے اورثقہ علماء میں سے هیں لہذا انهوں نے جوجواب دیا هے اس پراعتماد ضروری هے اورجو بات شارح الطحاوية (ابن أبي العز ) نے نقل کی هے اس پرکوئ اعتماد نہ کرنا چائیے ، جب کہ أبا مطيع أهل الحديث (محدثین ) کے نزدیک وضّاع ( جهوٹی روایات بیان کرنے والا ) هے اور اس بات کی تصریح ایک زیاده (علماء امت ) نے کی هے ۰
اور مزید یہ کہ (متن العقيدة الطحاوية) کے پہلے سطر میں الامام العلامةُ حُجةُ الإسلامِ أبو جعفرٍ الوراقُ الطحاويُّ الحنفی رحمهُ الله فرماتے هیں کہ
هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين ،
یعنی یہ بیان هے أهل السنّة والجماعة کے عقیده کا فقهاء الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي،اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ،اور أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ،کے مذهب کے مطابق اور أصول الدينِ میں اورالله ربُ العالمين کے بارے جوعقائد وه رکهتے هیں اس کا ذکروبیان هے ۰
امام الطحاويُّ الحنفی رحمهُ الله چند سطورکے بعد فرماتے هیں کہ
( وتعالى عن الحدودِ والغاياتِ والأركانِ والأعضاءِ والأدوات، لا تحويهِ الجهاتُ الستُّ كسائرِ المبتدعات )
الله تعالی بلند وبرترهے حدود وغایات سے اورارکان واعضاء وادوات سے ،
چهہ (6 ) جِهات الله تعالی کوحاوی نہیں هیں دیگرتمام مخلوقات کی طرح ۰
(الغايات) یعنی النهايات معنی یہ هے کہ الله تعالی کے لیئے کوئ نهاية نہیں هے کیونکہ هروه چیزجس کے لیئے نهاية وانتهاء هوتو وه محدود هوگی اوراس کے لیئے مخصوص مقدار بهی هوگا اورالله تعالی اس سے مُنزه هے ،
( الأركان ) کا معنی هے الجوانب اور یہ بهی جسم کے صفات میں سے هے اورالله تعالی جسم سے مُنزه هے ،
(الأعضاء) کا معنی هے بڑے اجزاء جیسے سر ، هاتهہ ، پیر وغیره
(الأدوات ) کا معنی هے چهوٹے اجزاء جیسے زبان وغیره
( لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات)
معنی اس کا یہ هے کہ الله تعالی موجود هے بلا جهة وبلا مكان کے اور جهات ستہ (اوپر نیچے ، آگے پیچهے ، دائیں بائیں ) سے مُنزه هے جیسا کہ دیگر تمام مخلوقات کے لیئے یہ صفات هوتی هیں الله تعالی مخلوق کی ان اوصاف سے مُبَرَّا ومُنَزه هے ۰
غورفرمائیں امام الطحاويُّ الحنفی رحمهُ الله نے کتاب کے شروع میں کہا تها کہ یہ عقائد فقهاء الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ اور أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ کے مذهب کے مطابق بیان کیئے جائیں گے ،
توامام اعظم ابوحنیفہ کا عقیده یہ هے کہ الله تعالی موجود هے بلا جهة وبلا مكان کے الخ اور یہی عقیده ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هوا هے کہ الله تعالی کے لیئے جہت ثابت نہیں وه جہت سے پاک هے ،
توثابت هوگیا کہ طالب الرحمن نامی جاهل آدمی کا یہ کہنا کہ امام ابوحنیفہ نے بهی علماء دیوبند کوبهی کافرومشرک کہا هے ( معا ذالله ) کتنا بڑا جهوٹ وبهتان عظیم هے اورناواقف عوام کوگمراه کرنے کی ایک ناجائز ونامراد کوشش هے ۰
2 = دوسری بات جوعقیده ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے کہ الله تعالی کے لیئے جہت ثابت نہیں وه جہت سے پاک هے ، جس کو طالب الرحمن نامی جاهل وکذاب آدمی کفریہ شرکیہ عقیده کہتا هے ، کیا یہ عقیده صرف ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے یا دیگراسلاف وعلماء اهل سنت والجماعت کا بهی یہی عقیده هے ؟؟ خوب یاد رکهیں کہ جو عقیده ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے تمام اهل سنت کا وهی عقیده هے ، اس ضمن میں بحیثیت طالب العلم میرے پاس سلف صالحین وائمہ اسلام کے تقریبا ڈهائ سو (۲۵۰ ) سے زیاده اقوال هیں ، جن میں سے چند کا تذکره بغرض دلیل وشهادت کروں گا ، اوراس سے آپ طالب الرحمن نامی جاهل وکذاب شخص کی جهالت وحماقت کا اندازه بهی لگالیں گےکہ ضد وتعصب وعداوت کی بنا پرعلماء دیوبند کے اس عقیده کو کفریہ شرکیہ کہتا هے ، کیا اس شخص کے اس بکواس کی زد میں وه اسلاف وائمہ بهی نہیں آئیں گےجن کا عقیده وهی هے جو ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے ؟؟
اورساتهہ هی ان ناواقف عوام پرحُجت تمام هوگئ هے جواس جاهل آدمی کی هاں میں ملاتے هیں اوراس کی اندهی تقلید کرتے هیں ۰

أهل السـنة والجماعـة کا عـقیـده الله تـعـالی بلا مـكـان وبلاجـهـة موجود هے
سب سے پہلے " مـكـان وجــِـهـَــة " کی تعریف ملاحظہ کریں
1 = = مشهور لغوي عالم امام أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهاني اپنی کتاب ( المفردات في غريب القرءان) میں فرماتے هیں کہ
{المكان عند أهل اللغة الموضع الحاوي للشيء}.
یعنی مکان أهل اللغة کے نزدیک اس جگہ کوکہتے هیں جوکسی چیزکوحاوی
( گهیرا هوا ) هو ۰

2 = مشهور لغوي عالم علامہ مجد الدين محمد بن يعقوب الفيروزءابادي صاحب القاموس اپنی کتاب (القاموس المحيط ) میں فرماتے هیں کہ
{المكان: الموضع، ج: أمكنة وأماكن}
یعنی مکان جگہ کوکہتے هیں اورأمكنة وأماكن اس کی جمع هے ۰

3 = العلامة كمال الدين أحمد بن حسن البياضي الحنفي (إشارات المرام )میں فرماتے هیں کہ { المكان هو الفراغ الذي يشغله الجسم }
یعنی مکان اس خالی جگہ کوکہتے هیں جس کوجسم گهیرتا هے ۰

4 = الشيخ يوسف بن سعيد الضفتي المالكي فرماتے هیں کہ
{ قال أهل السنة: المكان هو الفراغ الذي يحل به الجسم}
یعنی مکان وه خالی جگہ هے جس میں جسم سماتا هے ۰

5 = الحافظ المجدث الفقيه اللغوي الحنفي السيد مرتضى الزبيدي اپنی كتاب
(تاج العُروس ) میں فرماتے هیں کہ :{المكان: الموضع الحاوي للشيء}
یعنی مکان وه جگہ هوتی هے جوکسی چیزکوحاوی هو ۰

یہ چند اقوال تو مـكـان کی تعریف سے متعلق تهے اب چند اقوال جــِـهـَــة کی تعریف کے متعلق ملاحظہ کریں ،
1 = الامام اللغوي الشيخ محمد بن مكرم الإفريقي المصري المعروف بابن منظور
علم نحو وصرف وادب ولغت عرب کے مشہور ومستند عالم هیں اپنی مشهور کتاب ( لسان العرب ) میں فرماتے هیں کہ
:{والجهة والوِجْهة جميعاً: الموضع الذي ٹوجه إليه وتقصده}
یعنی جــِـهـَــة اور وِجـــهـَــة سب اس جگہ کوکہتے هیں جس کی طرف تو متوجہ هو اورجس کا توقصد واراده کرے ۰

2 =علامہ مجد الدين محمد بن يعقوب الفيروزءابادي صاحب القاموس اپنی کتاب (القاموس المحيط ) میں فرماتے هیں کہ
{ والجهة: الناحية، ج: جهات}.
اور جــِـهـَــة کہتے هیں کنارے وطرف کو جمع اس کی جهات هے ۰

3 = علامہ الشيخ عبد الغني النابلسي فرماتے هیں کہ
{والجهة عند المتكلمين هي نفس المكان باعتبار إضافة جسم ءاخر إليه}
اورجــِـهـَــة متکلمین کے نزدیک مکان هی هے اس کی طرف دوسرے جسم کے اضافہ کے اعتبار سے ۰

4 = العلاّمة كمال الدين أحمد بن حسن المعروف بالبياضي فرماتے هیں کہ
والجهة اسم لمنتهى مأخذ الإشارة ومقصد المتحرك فلا يكونان إلا للجسم والجسمانيّ، وكل ذلك مستحيل ـ أي على الله ـ" اهـ



الله تعالى " مَـكــان وَجـِـهـَـة " سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا هے ۰

اب میں سلف صالحین وائمہ اسلام کی صرف اصل عبارات کا تذکره کروں گا اوران تمام عبارات کا معنی ومفہوم مشترک یہی هے کہ الله تـعـالی مـكـان وجــِـهـَــة سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا هے ، اس لیئے مستقل ترجمہ کرنے سے بات بہت طویل هوجائے گی ، لہذا اصل عبارات کے ذکرپراکتفاء کرتا هوں ٠

1 = قال الصحابي الجليل والخليفة الراشد سيدنا علي رضي الله عنه ما نصه
كان الله ولا مكان ، وهو الان على ماعليه كان اهـ. أي بلا مكان.
(( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333 ] ))
2 = وقال أيضا : "إن الله تعالى خلق العرش إظهارًا لقدرته لا مكانا لذاته" أ هـ
(( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333 ] ))
3 = وقال التابعي الجليل الإمام زين العابدين علي بن الحسين بن علي رضي الله عنهم ما نصه (أنت الله الذي لا يحويك مكان" أ هـ
[إتحاف السادة المتقين (4/ 380) ]
4 = قال الإمام الأعظم المجتهد الأكبرأبو حنيفة النعمان بن ثابت رضي الله عنه
" والله تعالى يُرى الآخرة، ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بلا تشبيه ولا كميّة، ولا يكون بينه وبين خلقه مسافة " اهـ
[ ذكره في الفقه الاكبر، انظر شرح الفقه الاكبر لملا علي القاري (ص/ 136ء 137) ].
5 =
وقال أيضا في كتابه الوصية : " ولقاء الله تعالى لأهل الجنة بلا كيف ولا تشبيه ولا جهة حق " اهـ [ الوصية: (ص/ 4)، ونقله ملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/138)]
6 = وقال أيضًا : " قلت: أرأيت لو قيل أين الله تعالى؟ فقال أي أبو حنيفة: يقال له كان الله تعالى ولا مكان قبل أن يخلق الخلق، وكان الله تعالى ولم يكن أين ولا خلق ولا شىء، وهو خالق كل شىء" اهـ. [ الفقه الأبسط ضمن مجموعة رسانل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 25). ].
7 = وقال أيضا : "ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه، وهو حافظ العرش وغير العرش من غير احتياج، فلو كان محتاجا لما قدر على إيجاد العالم وتدبيره كالمخلوقين، ولو كان محتاجا إلى الجلوس والقرار فقبل خلق العرش أين كان الله، تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا" اهـ.
[ كتاب الوصية، ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 2) ، وملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/ 75) عند شرح قول الامام: ولكن يده صفته بلا كيف"] .
8 = وقال الإمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي الله عنه إمام المذهب الشافعي ما نصه : " إنه تعالى كان ولا مكان فخلق المكان وهو على صفة الأزلية كما كان قبل خلقه المكان لا يجوز عليه التغيير في ذاته ولا التبديل في صفاته " اهـ
[إتحاف السادة المتقين (2/ 24 ]
9 = وأما الإمام المجتهد الجليل أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني إمام المذهب الحنبلي فقد ذكر الشيخ ابن حجر الهيتمي أنه كان من المنزهين لله تعالى عن الجهة والجسمية، ثم قال ابن حجر ما نصه : " وما اشتهر بين جهلة المنسوبين إلى هذا الإمام الأعظم المجتهد من أنه قائل بشىء من الجهة أو نحوها فكذب وبهتان وافتراء عليه " اهـ. [ الفتاوي الحديثية / 144).
10 = شيخ المحدثين الإمام أبو عبد الله محمد ابن إسماعيل البخاري صاحب الصحيح
کا بهی یہی عقیده هے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا هے
جیسا کہ بخاري شريف کے شُراح فرماتے هين

قال الشيخ علي بن خلف المالكي المشهور بابن بطال أحد شراح البخاري (449هـ) ما نصه : "غرض البخاري في هذا الباب الرد على الجهمية المجسمة في تعلقها بهذه الظواهر، وقد تقرر أن الله ليس بجسم فلا يحتاج إلى مكان يستقر فيه، فقد كان ولا مكان، وانما أضاف المعارج اليه إضافة تشريف، ومعنى الارتفاع إليه اعتلاؤهء أي تعاليهء مع تنزيهه عن المكان " اهـ.
[فتح الباري (13/416).]
11 = وقال الشيخ ابن المنيِّر المالكي (695 هـ) ما نصه:"جميع الأحاديث في هذه الترجمة مطابقة لها إلا حديث ابن عباس فليس فيه إلا قوله "رب العرش" ومطابقته، والله أعلم من جهة أنه نبه على بطلان قول من أثبت الجهة أخذا من قوله (ذِى المَعَارِجِ) (سورة المعارج/3) ، ففهم أن العلو الفوقي مضاف إلى الله تعالى، فبيَّن المصنفء يعني البخاريء أن الجهة التي يصدق عليها أنها سماء والجهة التي يصدق عليها أنها عرش، كل منهما مخلوق مربوب محدث، وقد كان الله قبل ذلك وغيره، فحدثت هذه الأمكنة، وقدمه يحيل وصفه بالتحيز فيها" اهـ، نقله عنه الحافظ ابن حجر وأقره عليه .[ فتح الباري (13/ 418ء 419). ]
12 = وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 هـ) في رسالته (العقيدة الطحاوية) ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي كبار علماء السلف میں سے هیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) میں یہ اعلان کر رهے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا هے ، اور الله تعالی کی شان هے کہ آج پوری دنیا کے مدارس ومکاتب ومعاهد ومساجد میں (العقيدة الطحاوية) هی کی تعلیم دی جاتی هے ، حتی کہ عرب کے اندر تمام سلفی مدارس وکلیات میں (العقيدة الطحاوية) کی تعلیم دی جاتی هے ، اور عرب کے تمام سلفی علماء نے اس کے شروحات لکهے هیں ، اور تمام نے (العقيدة الطحاوية) کو اهل سنت والجماعت کی عقائد کی مستند ومعتبرکتاب قرار دیا هے ،
اور (العقيدة الطحاوية) پڑهنے والے تمام لوگ کتاب کو کهولتے هی یہ اعلان کرتے هیں
، هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين ،
(ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء)
13 = وقال إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 هـ) ما نصه : " كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني.[تبيين كذب المفتري (ص/ 150).]
14 = وقال إمام أهل السنة أبو منصور الماتريدي (333 هـ) ما نصه : "إن الله سبحانه كان ولا مكان، وجائز ارتفاع الأمكنة وبقاؤه على ما كان، فهو على ما كان، وكان على ما عليه الان، جل عن التغير والزوال والاستحالة" اهـ. يعني بالاستحالة التحول والتطور والتغير من حال إلى حال وهذا منفي عن الله ومستحيل عليه سبحانه وتعالى.[كتاب التوحيد (ص/ 69).]
15 = وقال الحافظ محمد بن حبان (354 هـ) صاحب الصحيح المشهور بصحيح ابن حبان ما نصه : "الحمد لله الذي ليس له حد محدود فيحتوى، ولا له أجل معدود فيفنى، ولا يحيط به جوامع المكان ولا يشتمل عليه تواتر الزمان". [الثقات (1/ 1)
16 = وقال أيضا ما نصه : "كان الله ولا زمان ولا مكان" اهـ.[صحيح ابن حبان، أنظر الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان (8/ 4).]
17 = وقال الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي (388 هـ) صاحب "معالم السنن" ما نصه "وليس معنى قول المسلمين إن الله على العرش هو أنه تعالى مماس له أو متمكن فيه أو متحيز في جهة من جهاته، لكنه بائن من جميع خلقه، وإنما هو خبر جاء به التوقيف فقلنا به ونفينا عنه التكييف إذ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ)ا هـ.[أعلام الحديث: كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قوله تعالى: (هُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ) (سورة الروم/27) (2/،147).]
18 = وقال القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري (403) ما نصه : "ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان"اهـ الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65).
19 = وذكر الشيخ أبو الطيب سهل بن محمد الشافعي مفتي نيسابور (404 هـ) ما نقله عنه الحافظ البيهقي: "سمعت الشيخ أبا الطيب الصعلوكي يقول: "ُتضامّون" بضم أوله وتشديد الميم يريد لا تجتمعون لرؤيتهء تعالىء في جهة ولا ينضم بعضكم إلى بعض فإنه لا يرى في جهة" اهـ، ذكر ذلك الحافظ ابن حجر فتح الباري (447/11).
20 = وقال أبو بكر محمد بن الحسن المعروف بابن فورك الاشعري (406 هـ) ما نصه "لا يجوز على الله تعالى الحلول في الأماكن لاستحالة كونه محدودا ومتناهيا وذلك لاستحالة كونه محدثا" اهـ.
مشكل الحديث (ص/ 57).
21 = وقال الشيخ الإمام أبو منصور عبد القاهر بن طاهر التميمي البغدادي الإسفراييني (429 هـ) ما نصه "وأجمعوا (أي أهل السنة)على أنه أي الله لا يحويه مكان ولا يجري عليه زمان " اهـ
الفرق بين الفرق (ص/ 333).
22 = وقال أبو محمد علي بن أحمد المعروف بابن حزم الأندلسي (456 هـ)
" وأنه تعالى لا في مكان ولا في زمان، بل هو تعالى خالق الأزمنة والأمكنة، قال تعالى: (وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً)(سورة الفرقان/2)، وقال (خلقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا)(سورة الفرقان/59)، والزمان والمكان هما مخلوقان، قد كان تعالى دونهما، والمكان إنما هو للاجسام" اهـ.
(أنظر كتابه علم الكلام: مسألة في نفي المكان عن الله تعالى (ص/ 65).
23 = وقال الحافظ أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي الشافعي (458 هـ) ما نصه "والذي روي في أخر هذا الحديث إشارة إلى نفي المكان عن الله تعالى، وأن العبد أينما كان فهو في القرب والبعد من الله تعالى سواء، وأنه الظاهر فيصح إدراكه بالأدلة، الباطن فلا يصح إدراكه بالكون في مكان. واستدل بعض أصحابنا في نفي المكان عنه بقول النبي (صلّى الله عليه و سلّم) "أنت الظاهر فليس فوقك شىء، وأنت الباطن فليس دونك شىء"، وإذا لم يكن فوقه شىء ولا دونه شىء لم يكن في مكان " اهـ
( الأسماء والصفات (ص/ 400).
24 = وقال الفقيه المتكلم أبو المظفر الإسفراييني الأشعري (471 هـ) ما نصه "الباب الخامس عشر في بيان اعتقاد أهل السنة والجماعة: وأن تعلم أن كل ما دل على حدوث شىء من الحد، والنهاية، والمكان، والجهة، والسكون، والحركة، فهو مستحيل عليه سبحانه وتعالى، لأن ما لا يكون محدثا لا يجوز عليه ما هو دليل على الحدوث " اهـ. التبصير في الدين (ص/ 161)..
25 = وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (476 هـ) في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ
أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101).
26 = وقال إمام الحرمين أبو المعالي عبد الملك بن عبد الله الجويني الأشعري (478 هـ) ما نصه "البارىء سبحانه وتعالى قائم بنفسه، متعال عن الافتقار إلى محل يحله أو مكان يقله " اهـ.
الإرشاد إلى قواطع الأدلة (ص/ 53).
27 = وقال الفقيه المتكلم أبو سعيد المتولي الشافعي الأشعري (478 هـ) أحد أصحاب الوجوه في المذهب الشافعي ما نصه (ثبت بالدليل أنه لا يجوز أن يوصف ذاته تعالى بالحوادث، ولأن الجوهر متحيز، والحق تعالى لا يجوز أن يكون متحيزا" اهـ.
الغنية قي أصول الدين (ص/83).
28 = وقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي الاشعري (505 هـ) ما نصه : " (تعالى أي الله عن أن يحويه مكان، كما تقدس عن أن يحده زمان، بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو الان على ما عليه كان " اهـ.
إحياء علوم الدين: كتاب قواعد العقاند، الفصل الأول (1/ 108).
29 = وقال لسان المتكلمين الشيخ أبو المعين ميمون بن محمد النسفي (توفي 508 هـ) مانصه "القول بالمكان – اي في حق الله – منافيا للتوحيد"
تبصرة الأدلة (1/ 171 و 182).
30 = وقال أبو الوفاء علي بن عقيل البغدادي شيخ الحنابلة في زمانه (513 هـ) ما نصه "تعالى الله أن يكون له صفة تشغل الأمكنة، هذا عين التجسيم، وليس الحق بذي أجزاء وأبعاض يعالج بها" اهـ.
الباز الأشهب: الحديث الحادي عشر (ص/ 86).
31 = وقال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف بابن رشد الجد المالكي (520 هـ) ما نصه: "ليس الله في مكان، فقد كان قبل أن يخلق المكان) اهـ. ذكره ابن الحاج المالكي في كتابه "المدخل"
المدخل: فصل في الاشتغال بالعلم يوم الجمعة (149/2)
32 = وقال المحدث أبو حفص نجم الدين عمر بن محمد النسفي الحنفي (537 هـ) صاحب العقيدة المشهورة بـ "العقيدة النسفية " ما نصه "والمحدث للعالم هو الله تعالى، لا يوصف بالماهية ولا بالكيفية ولا يتمكن في مكان " انتهى باختصار
العقيدة النسفية (ضمن مجموع مهمات المتون) (ص/28).
33 = وقال القاضي أبو بكر بن العربي المالكي . الأندلسي (543 هـ) ما نصه " البارى تعالى يتقدس عن ان يحد بالجهات أو تكتنفه الأقطار"
القبس في شرح موطأ مالك بن انس (1/396).
34 = وقال أيضا ما نصه "الله تعالى يتقدس عن أن يحد بالجهات "
المصدر السابق (1/395).
35 = وقال القاضي عياض بن موسى المالكي (544 ) ما نصه "اعلم أن ما وقع من إضافة الدنو والقرب هنا من الله او إلى الله فليس بدنو مكان ولا قرب مدى، بل كما ذكرنا عن جعفر بن محمد الصادق: ليس بدنو حد، صفة المجد والعلاء، فإنه تعالى فوق كل موجود بالقهر والاستيلاء"
الشفا: فصل في حديث الاسراء (1/205).
36 = وقال الشيخ محمد بن عبد الكريم الشهرستاني الشافعي (548هـ) ما نصه : "فمذهب أهل الحق أن الله سبحانه لا يشبه شيئا من المخلوقات ولا يشبهه شىء منها بوجه من وجوه المشابهة والمماثلة"لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ" ( سورة الشورى/11). فليس البارىء سبحانه بجوهر ولا جسم ولا عرض ولا في مكان ولا في زمان " اهـ.
نهاية الأقدام (ص/ 103).
37 = قال الإمام الحافظ المفسر عبد الرحمن بن علي المعروف بابن الجوزي الحنبلي (597 هـ) ما نصه " الواجب علينا أن نعتقد أن ذات الله تعالى لا يحويه مكان ولا يوصف بالتغير والانتقال" اهـ.
دفع شبه التشبيه (ص/58). (2) صيد الخاطر (ص/ 476).
38 = وقال الشيخ تاج الدين محمد بن هبة الله المكي الحموي المصري (599 هـ) في تنزيه الله عن المكان ما نصه وصـانـع الـعـالـم لا يـحـويـه قـطـر تـعـالـى الله عـن تـشـبـيـه قد كـان مـوجـودا ولا مكـانـا وحـكـمـه الان عـلـى مـا كـانـا سبحـانـه جل عن الـمكـان وعـز عـن تـغـيـر الـزمـان" اهـ
منظومته "حدائق الفصول وجواهر الأصول" في التوحيد، التي كان أمر بتدريسها السلطان المجاهد صلاح الدين الأيوبي (ص13) النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب، 4/ 32).
39 = وقال المبارك بن محمد المعروف بابن الأثير (606 ص) ما نصه : "المراد بقرب العبد من الله تعالى القرب بالذكر والعمل الصالح، لا قرب الذات والمكان لأن ذلك من صفات الأجسام، والله يتعالى عن ذلك ويتقدس " اهـ.
تفسير الرازي المسمى بالتفسير الكبير (سورة الملك/ أية 16ء 30/ 69).
40 = وقال المفسر فخرالدين الرازي (6 0 6 هـ) ما نصه "واعلم أن المشبهة احتجوا على إثبات المكان لله تعالى "أَأَمنتم من في السماء "اهـ أي أن اعتقاد أن الله في مكان فوق العرش أو غير ذلك من الأماكن هو اعتقاد المشبهة الذين قاسوا الخالق على المخلوق وهو قياس فاسد منشؤه الجهل واتباع الوهم "اهـ.
المصدر السابق (سورة الشورى أية 4ء 27/ 144).
41 = وقال الشيخ أبو منصور فخر الدين عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن عساكر (620 هـ) عن الله تعالى ما نصه "موجود قبل الخلق ليس له قبل ولا بعد، ولا فوق ولا تحت، ولا يمين ولا شمال، ولا أمام ولا خلف، ولا كل ولا بعض، ولا يقال متى كان، ولا أين كـان ولا كيف، كان ولا مكان، كون الأكوان، ودبر الزمان، لا يتقيد بالزمان، ولا يتخصص بالمكان " اهـ.
أنظر شرحه على العقيدة الطحاوية المسمى بيان اعتقاد أهل السنة (ص/ 45).
42 = وقال الشيخ إسماعيل بن إبراهيم الشيباني الحنفي (629 ص) ما نصه "مسألة: قال أهل الحق: إن "الله تعالى متعال عن المكان، غير متمكن في مكان، ولا متحيز إلى جهة خلافا للكرامية والمجسمة... والذي يدل عليه قوله تعالى "ليس كمثله شيء وهو السميع البصير "
أبكار الأفكار (ص/ 194ء 195)، مخطوط
43 = وقال المتكلم سيف الدين الآمدي (631 هـ) ما نصه "وما يروى عن السلف من ألفاظ يوهم ظاهرها إثبات الجهة والمكان فهو محمول على هذا الذي ذكرنا من امتناعهم عن إجرائها على ظواهرها والإيمان بتنزيلها وتلاوة كلأية على ما ذكرنا عنهم، وبين السلف إلاختلاف في الألفاظ التي يطلقون فيها، كل ذلك اختلاف منهم في العبارة، مع اتفاقهم جميعا في المعنى أنه تعالى ليس بمتمكن في مكان ولا متحيز بجهة، الخ
44 = وقال الشيخ جمال الدين محمود بن أحمد الحصيري شيخ الحنفية في زمانه (636 ص) بعد أن قرأ فتوى ابن عبد السلام في تنزيه الله عن المكان والحروف والصوت ما نصه "هذا اعتقاد المسلمين، وشعار الصالحين، ويقين المؤمنين، وكل ما فيهما صحيح، ومن خالف ما فيهما وذهب إلى ما قاله الخصم من إثبات الحرف والصوت فهو حمار" ا.هـ
طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيزبن عبد السلام (8/ 237).
45 = وقال الشيخ جمال الدين أبو عمرو عثمان بن عمر المعروف بابن الحاجب المالكي (646 هـ) مثنيا على العقيدة التي كتبها الشيخ عبد العزيز ابن عبد السلام ومما جاء في هذه العقيدة قول ابن عبد السلام: "كان ء اللهء قبل أن كون المكان ودبر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان " اهـ ومن جملة ما ذكره في ثنائه قوله : "ما قاله ابن عبد السلام هو مذهب أهل الحق، وأن جمهور السلف والخلف على ذلك، ولم يخالفهم إلا طائفة مخذولة، يخفون مذهبهم ويدسونه على تخوف إلى من يستضعفون علمه وعقله " اهـ
طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيزبن عبد السلام (8/ 237).
46 = وقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السلام الأشعري الملقب بسلطان العلماء (660 ص) ما نصه "ليسء أي اللهء بجسم مصوَّر، ولا جوهر محدود مُقدَّر، ولا يشبه شيئا، ولا يُشبهه شىءٌ، ولا تحيط به الجهات، ولا تكتنفه الأرضون ولا السموات، كان قبل أن كوَّن المكان ودبَّر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان" ا.هـ
طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيز بن عبد السلام (8/ 219).
47 = وقال المفسّر محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي المالكي (671 هـ) ما نصه "والعليّ " يراد به علو القدر والمنزلة لا علو المكان، لأن الله منزه عن التحيز"
الجامع لأحكام القرأن سورة البقرة، أية/ 55 2 (3/ 278).
48 = وقال ابو الحافظ أبو زكريا محيي الدين بن شرف النووي الشافعي الأشعري (676) ما نصه إن الله تعالى ليس كمثله شىء ، منزه عن التجسيم والانتقال والتحيز في جهة وعن سائر صفات المخلوق "اهـ
شرح صحيح مسلم (19/3).
49 = وقال الحافظ ابن حجر العسقلاني الشافعي الأشعري (852 هـ) ما نصه "ولا يلزم من كون جهتي العلو والسفل محالا على الله أن لا يوصف بالعلو، لأن وصفه بالعلو من جهة المعنى، والمستحيل كون ذلك من جهة الحس، ولذلك ورد في صفته العالي والعلي والمتعالي، ولم يرد ضد ذلك وإن كان قد أحاط بكل شىء علما جلّ وعز"اهـ
فتح الباري (3/ 30).
50 = وقال الشيخ بدر الدين محمود بن أحمد العَيْني الحنفي (855 هـ) في شرحه على صحيح البخاري ما نصه "ولا يدل قوله تعالى :" وكان عرشه على الماء " على، أنهء تعالىء حالّ عليه، وإنما أخبر عن العرش خاصة بأنه على الماء، ولم يخبر عن نفسه بأنه حال عليه، تعالى الله عن ذلك، لأنه لم يكن له حاجة إليه " ا.هـ.
عمدة القاري (مجلد 12/ 25/ 111).
کبارائمہ اسلام محدثین ومفسرین وفقهاء ومحققین وسلف صالحین کے ( 50 ) پچاس
اقوال میں نے باحوالہ ان کی اصل عبارات میں ذکرکیئے هیں ، باقی اقوال بخوف طوالت میں نے ذکرنہیں کیئے ، ان سب ائمہ اسلام کا اجماعی فیصلہ یہ هے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے اور دیگرمخلوقات کی صفات ومشابهت سے پاک ومُبَرا ومُنزه وبلند وبرتر هے اوریہی جمیع اهل سنت سلف وخلف کا عقیده هے ، اور یہی عقیده اکابرعلماء دیوبند کی اجماعی کتاب
ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے ، جس کو طالب الرحمن نامی جاهل ومجهول آدمی کفریہ شرکیہ عقیده کہتا هے ،
کیا اس جاهل ومجهول آدمی کی اس بکواس کی زد میں یہ سارے کبارائمہ اسلام نہیں آئیں گے ؟؟
کیا سارے کبارائمہ اسلام وسلف صالحین کفریہ شرکیہ عقیده رکهتے تهے ؟؟
(معاذالله)
کیا کوئ عقل مند آدمی اس کے بعد بهی اس جاهل ومجهول آدمی کی بات کا اعتبار کرے گا اوراس کی اندهی تقلید میں سرگرداں رهے گا ؟؟
الله تعالی عوام الناس کو صحیح سمجهہ دے اوراس جاهل وکذاب شخص کی حقیقت ان پرکهول دے ۰
( إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت وماتوفيقي إلابالله​
 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
جناب ابن آدم صاحب آپ نے میرے پہلے اعتراضات سے کیوں منہ پھیر لیا یہاں تو سینہ تان تان کر چھلانگ لگا لگا کر فتوی فتوی ہو رہا ہے وہں جو خیانت کی ہے اس پر بھی لب مبارک ہلا دیجئے ؟؟؟
باقی میری معلومات کے مطابق ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ معیت کے قائل تھے کما یلیق لجلاہ و عظمتہ اور اھل السنۃ کا ایک گروہ یہی کہتا ہے یہاں اختلاف ہے اھل السنۃ میں بعض کے نزدیک معیت سے مراد معیت علمی ہے یا نصرت ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام سے کہا اننی معکما اسمع و اری ایسے ہی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں جہاں بھی اللہ کی معیت کا ذکر ہے وہاں اس کے علم وغیرہ کا ضرور ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے معیت سے مراد ذات نہیں جبکہ اھل السنۃ کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے نہیں جیسے آیت آئی ہے ویسے ہی بیان کریں گے معیت سے مراد ذات ہے لیکن کما یلیق لجلالہ و عظمتہ
اب فرق کی اہے اشعری ماتریدی اور اھل السنۃ میں ؟؟؟
جناب اھل السنۃ اللہ کی معیت ثابت کرتے ہیں استواء اور جھت کے ثبوت کے ساتھ اور اشعری ماتریدی معیت ثابت کرتے ہیں بلا استوی اور بلا جھت
یہ فرق ہے اھل السنۃ کہتے ہیں مستوی علی العرش اور اور اس کی معیت بھی ہے جب کہ جناب کی قوم کا عقیدہ ہے نہ استواء ہے نہ اس کی جھت ہے ہر جگہ ہے
ھم دلیل کے تابع ہیں نہ کہ اھواء کے
احناف ماتریدی عقیده رکهتے هیں اوردیگر مقلدین اشعری عقیده رکهتے هیں

وسوسه = احناف ماتریدی عقیده رکهتے هیں اوردیگر مقلدین اشعری عقیده رکهتے هیں ، اور اشاعره وماتریدیه دونوں کے عقائد غلط وگمراه کن هیں ۰

جواب = یہ باطل وسوسہ بهی عوام الناس کو مختلف انداز سے یاد کرایا جاتا هے ، اور فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل جاهل شیوخ اپنے جاهل مقلد عوام کو وسوسہ پڑها دیتے هیں اور وه بے چارے اس وسوسہ کو یاد کرلیتے هیں ، اور آگے اس کو پهیلاتے هیں ، فرقہ جدید اهل حدیث کے عوام کوتواشعری وماتریدی کا نام پڑهنا بهی نہیں آتا ، اوریہی حال ان کے خواص کا هے ان کو کوئ پتہ نہیں هوتا کہ ماتریدی کون تها اشعری کون تها ان کے کیاعقائد وتعلیمات هیں ؟ بس احناف سے ضد کی بنا پر انهوں سب کچهہ کرنا هے ۰
اس وسوسہ کے تحت کسی قدر تفصیل سے بات کرنا چاهتا هوں

تــاريخ عـلم الكـلام

کون نہیں جانتا کہ خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم کی آمد مبارک سے پہلے

دنیاکا شیرازه بکهرا هوا تها ، انسانیت میں انتشار وافتراق تها نفرت وعداوت تهی تمام اعمال رذیلہ موجود تهے عقائد واخلاق کا کوئ ضابطہ نہ تها عبد ومعبود کا صحیح رشتہ ٹوٹ چکا تها ،خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے خزاں رسیده انسانیت بہار کے هم آغوش هوئ ، قلوب انسانی کی ویران کهیتیاں لہلہا اٹهی انسانیت نے سراٹهایا ، واخلاق واعمال کی پاکیزگی عقائد حقہ کی پختگی اورعبادات وطاعات کی لذت سے کائنات کا ذره ذره آشنا هوگیا ،

،خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم کے بعد آپ کے جانثار اصحاب بهی پورے کائنات انسانی کے لیئے آپ کی سیرت وکردار کامل ومکمل نمونہ تهے ،

لیکن صحابہ کرام کا مبارک دورگذرنےکے بعد حالات مختلف هوئے ،

اموی دورخلافت کے اخیرمیں علم وفن کی خدمت کے نام پر غیردینی علوم کا ترجمہ شروع هوا ، فلاسفہ کی ایک جماعت نے عبرانی اور قبطی زبانوں سے

هیئت وکیمیا کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ، اسی طرح ارسطو کے کچهہ رسائل کو اور فارسی زبان کی بعض کتب کوعربی میں منتقل کیا گیا ،

پهر جب اسلام کو وسعت حاصل هوئ اور ایرانی ، قبطی ، یونانی وغیره اقوام حلقہ بگوش اسلام هوئیں تو انهوں نے مسائل عقائد میں نکتہ آفرینیاں اور بال کی کهال نکالنا شروع کردی ، اسلامی عقائد کا جوحصہ ان کے قدیم عقیده سے کسی درجہ میں ملتا جلتا نظرآیا تو قدرتی طور پرانهوں نے اسی رنگ میں اس کی تشریح پسند کی ، پهر عقل ونقل کی بحث نے اس خلیج کو اور وسیع کیا ، یہ سلسلہ چل هی رها کہ اموی خلافت کی جگہ دولت عباسیہ نے لے لی اور اس نے دوسری مختلف زبانوں کے ساتهہ حکمت وفلسفہ یونان کا سارا ذخیره عربی میں منتقل کرکے مسلمانوں میں پهیلا دیا ،

یونانی فلسفہ کے پهیلنے کا نتیجہ یہ هوا کہ مسلمانوں کے مذهبی جذبات میں کمزوری کے ساتهہ ساتهہ باهم مذهبی اختلاف اورگروه بندی کا دروازه بهی کهل گیا ، جس کے نتیجہ میں الحاد و زندقہ نے بال وپر نکالنے شروع کردیئے ،

اب تک عقائد سے متعلقہ مسائل کو ذهن نشین کرنے کا جوفطری طریقہ کتاب وسنت کی بنیاد پرقائم تها حکمت وفلسفہ کی موشگافیوں اور کچهہ دیگر انسانی اصطلاحات وقواعد رواج پاجانے کے بعد علماء امت کی نظرمیں کچهہ زیاده موثرنہیں رها ،

اس طرح کے حالات وماحول میں جب کہ شکوک وشبہات اور الحاد وزندقہ وگمراهی کے پاوں جمنے شروع هوچکے تهے ،

چنانچہ خلیفہ مهدی جو ( ۱۵۷ هہ ) میں تخت نشین هوا اس کے دور خلافت میں ملحدین وزنادقہ کی رد میں کتب لکهوانے کی ضرورت محسوس هونے لگی اور حکومت کی سرپرستی میں ایسی چند کتب لکهی گئیں یہ " علم کلام " کی پہلی بنیاد تهی جومسلمانوں میں قائم هوئ ، پهر حالات کے پیش نظر دن بدن اس کام کی اهمیت بڑهتی هی گئ ،

حتی کہ علماء اسلام کی ایک مخصوص جماعت مجبور هوئ کہ وه اپنے آپ کواس کام لیئے وقف کردیں ،

لہذا مامون الرشید نے ایسے علماء کی بڑهہ چڑهہ کرحوصلہ افزائ کی ، اورحکومت وقت کی حوصلہ افزائ دیکهہ کر علماء کا ایک ذهین طبقہ معقولات کی تحصیل میں همہ تن مشغول هوگیا اور اس فن میں انهوں نے مہارت تامہ حاصل کی ،

لیکن ان علماء میں زیاده تر وه لوگ تهے جو " مسلک اعتزال " سے وابستہ تهے کیونکہ حکومت وقت کا مزاج ومسلک بهی یہی مُعتزلہ والا ) تها انہی علماء کی کدوکاوش نے ( علم کلام ) کو ایک خاص فن کا درجہ دیا اور انهوں نے هی اس فن کی جمع وتدوین کی ،

علامہ شہرستانی لکهتے هیں کہ

ثم طالع بعد ذالك شيوخ المعتزلة كتب الفلاسفة حين فسرت أيام المامون فخلطت مناهجها مناهج الكلام وأفردتها فنا من فنون العلم وسميتها باسم الكلام ،
(الملل والنحل ج 1 ص 32 )
یعنی " معتزلة " کے اکابرنے فلاسفہ کی تصنیفات کا مطالعہ کیا اور اس طرح کلام وفلسفہ کی مختلف راهیں ایک هوگئیں اور ایک نیا فن ( علم کلام ) کے نام سے ایجاد هوا ،

علم کلام کی وجہ تسمیہ (یہ نام کیوں رکهاگیا ) ؟

علامہ شہرستانی لکهتے هیں کہ

أما لأن أظهر مسئلة تكلموا فيها وتقابلوا عليها هي مسئلة الكلام فسمى النوع باسمها وأما لمقابلتهم الفلاسفة فى تسميتهم فنا من فنون علمهم بالمنطق والمنطق والكلام مترادفان (الملل والنحل ج 1 ص 33 )علم کلام کا اهم ترین موضوع بحث الله تعالی کا کلام هی تها ، اسی وجہ سے اس فن کا نام ( علم کلام ) رکها گیا الخ

تاريخ الفرقة المعتزلة

معتزلہ کا سردار وپیشوا ابوالهذیل علاف تها اور اس نے اس فن میں بہت سی کتب بهی لکهیں ، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله لکهتے هیں

أبوالهذيل العلاف شيخ المعتزلة ومُصنف الكتب الكثيرة فى مذاهبهم كان خبيث القول فارق اجماع المسلمين ورد نص كتاب الله وجحد صفات الله تعالى عما يقول علوا كبيرا وكان كذاباً أفاكاً مات سنة سبع وعشرين ومأتين ٠
( لسان الميزان ص 413 ج 5 )
أبوالهذيل العلاف مُعتزلہ فرقہ کے شیوخ میں سے تها جس نے اعتزال کے رنگ میں ڈوبی هوئ بہت سی کتب لکهیں ، یہ پہلا شخص هے جس نے نصوص قطعیہ کا انکارکیا صفات باری تعالی کوتسلیم کرنے سے انکارکیا ، جهوٹا ، لغوگو ، اور بدترین خلائق انسان تها ۰
علامہ شہرستانی نے بهی یہی بات لکهی هے
فكان أبوالهذيل العلاف شيخهم الأكبر وافق الفلاسفة وأبدع بدعا فى الكلام والإرادة وأفعال والقول بالقدر والآجال والأرزاق ٠
(الملل والنحل ج 1 ص 33 )
أبوالهذيل العلاف مُعتزلہ فرقہ معتزلہ کا سب سے بڑا شیخ تها فلاسفہ کا موافق تها
افعال عباد ، اراده ، تقدیر، رزق ، تمام مسائل میں امت کے قطعی نظریات سے صاف پهر گیا تها ۰
حافظ ذهبی نے بهی اپنی کتاب (سير أعلام النبلاء) میں تقریبا یہی بات لکهی هے
أبو الهذيل العلاف ورأس المعتزلة أبو الهذيل محمد بن الهذيل البصري العلاف صاحب التصانيف الذي زعم أن نعيم الجنة وعذاب النار ينتهي بحيث إن حرمات أهل الجنة تسكن وقال حتى لا ينطقون بكلمة وأنكر الصفات المقدسة حتى العلم والقدرة وقال هما الله وأن لما يقدر الله عليه نهاية وآخرا وأن للقدرة نهاية لو خرجت إلى الفعل فإن خرجت لم تقدر على خلق ذرة أصلا وهذا كفر وإلحاد ۰
( سير أعلام النبلاء ؛ أبو الهذيل العلاف )
اورفرقہ معتزلہ کا بانی وموسس واصل بن عطاء البصري تها،
پهراس کے بعد أبو الهذيل حمدان بن الهذيل العلاف هے جوشيخ المعتزلة، ومقدم الطائفة، ومقرر الطريقة، والمناظر کے القاب سے معروف هے ، اس نے مذهب الاعتزال عثمان بن خالد الطويل سے بطریق واصل بن عطاء کے حاصل کیا ،
( الشهرستاني: الملل والنحل ج1ص 64 )
اور ( فرقة الهُذيلية.) اسی کی طرف منسوب هے ٠
اسی طرح إبراهيم بن يسار بن هانئ النظَّام نے کتب فلاسفہ کا بکثرت مطالعہ کیا اور فلاسفہ کا کلام معتزلہ کے کلام کے ساتهہ ملایا اور ( فرقة النظاميّة ) اسی کی طرف منسوب هے ٠
( الشهرستاني: الملل والنحل ج1ص 64 )
اسی طرح معمر بن عباد السلمي هے جس کی طرف ( فرقة المعمرية.) منسوب هے ٠
اسی طرح عيسى بن صبيح المكنى بأبي موسى الملقب بالمردار اس کو راهب المعتزلة کہا جاتا تها ( فرقة المردارية.) اس کی طرف منسوب هے ٠
اسی طرح ثمامة بن أشرس النميري یہ آدمی بادشاه المأمون اورالمعتصم اور الواثق، کے عہد میں ( قدرية ) فرقہ کا سربراه تها ، اور اس کے فرقہ کو ( الثماميّة ) کہا جاتا هے ٠
اسی طرح أبو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ فرقة معتزلة کے بہت بڑے لکهاری تها اور کتب فلاسفہ سے خبردار اور ادب وبلاغت میں ماهر تها (الجاحظية.) فرقہ اسی کی طرف منسوب هے ٠
اسی طرح أبو الحسين بن أبي عمر الخياط هے جو بغداد کا معتزلی هے ( الخياطية)
اسی کی طرف منسوب هے ٠
اسی طرح القاضي عبد الجبار بن أحمد بن عبد الجبار الهمداني یہ متاخرین معتزلہ میں سے تها اور اپنے زمانہ کے بہت بڑا شيوخ المعتزلة میں تها اور مذهب معتزلہ کے اصول وافکار وعقائد کو بڑا پهیلایا ، اور معتزلہ کا بڑا مشہور مناظر تها ٠

حاصل کلام یہ کہ ( فرقة معتزلة ) کے کل بائیس بڑے فرقے بن گئے تهے ، هر فرقہ سب کی تکفیر کرتا تها ، ان فرقوں کی کچهہ تفصیل میں نے لکهہ دی هے ،

اجمالی طور پران کے اسماء درج ذیل هیں

(( الواصلية، والعمرية، والهذيلية، والنظامية، والأسوارية، والمعمرية، والإسكافية، والجعفرية، والبشرية، والمردارية، والهشامية، والتمامية، والجاحظية، والحايطية، والحمارية، والخياطية، وأصحاب صالح قبة، والمويسية، والشحامية، والكعبية، والجبابية، والبهشمية المنسوبة إلى أبي هاشم بن الحبالى. ))

( البغدادي: الفرق بين الفرق ص104)
جس علم کی تدوین کے بنیادی اراکین میں میں أبو الهذيل العلاف جیسے لوگ شامل هوں تو پهر اس کے نقش قدم پرچلنے والے لوگ کیسے هوں گے ؟
پهر اس فن کے لیئے جواصول وضوابط نافذ کیئے گئے وه اسلام کے اصل نہج سے کتنے دور هوں گے ؟

علماء اسلام نے بعد میں معتزلہ کے رواج دیئے هوئے نظریات کو مٹانے کی کوشش کی لیکن جو خمیر معتزلہ ڈال چکے تهے وه مکمل طور پرپاک نہ هوسکا ، لہذا قدیم علم کلام میں کی کتب میں اس طرح مباحث بکثرت موجود هیں ، پهر اس فلسفیانہ طرز استدلال ونظریہ نے جو نقصان پہنچایا وه بالکل ظاهر هے ، حتی کہ آج بهی آزاد طبع لوگ معتزلی نظریات کوقبول کرلیتے هیں ،

بہرحال علم کلام ترقی کرتا رها ،

علم کلام کی تاریخ کے سلسلہ میں

علامہ شہرستانی جیسا مستند وذمہ دار آدمی رقمطراز هے کہ

أما رونق علم الكلام فابتداءه من الخلفاء العباسية هارون والمامون والمعتصم والواثق والمتوكل وأما إنتهائه فمن صاحب ابن عباد وجماعة من الديالمة
( ألملل والنحل ج 1 ص 39 )
علم کلام کی ابتداء خلفاء عباسیہ خصوصا هارون اور مامون کے دور میں هوئ ،
اور معتصم ، واثق ، متوكل کے عہد سلطنت میں بهی اس فن کو عروج حاصل هوا ، اور پهر یہ فن صاحب بن عباد اور دیالمہ کے وقت میں انتہائ حدود میں داخل هوگیا ۰

ان گهمبیر حالات میں جس کی سرسری جهلک گذشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کی کہ معتزلہ اور ذیلی گمراه فرقوں کے نظریات پهیلتے جارهے تهے

الله تعالی نے أمة محمديه کی هدایت وراهنمائ ایسے رجال وافراد کو منتخب کیا جنهوں نے دین حنیف اور عقائد حقہ کی حفاظت وحمایت وصیانت کا کام بڑے اعلی درجات اور منظم طریقہ سے انجام دیا ، اور ملحدین وزنادقہ وفرق ضالہ کے اوهام ونظریات کا ادلہ وبراهین کے بهرپور رد کیا ، اور معتزلہ اور دیگرفرق ضالہ کے انتشار کے بعد الله تعالی نے شیخ أبو الحسن الأشعري

اور شیخ أبي المنصور الماتريدي کو پیدا کیا ، لہذا ان دونوں بزرگوں نے عقائد اهل سنت کی حفاظت وحمایت کا کام بڑی محنت شاقہ کے ساتهہ شروع کیا ،

اور صحابہ وتابعین وتبع تابعین کے عقائد کی حفاظت وصیانت کا ذمہ اٹهایا ،

اور اپنے زبان وقلم سے دلائل نقلیہ وعقلیہ سے اس کا اثبات کیا ، اور مستقل کتب وتالیفات میں عقائد اهل سنت کو جمع کیا ، اور ساتهہ ساتهہ معتزلہ اوران سے نکلنے والے دیگرفرق ضالہ کے شبہات ونظریات کا بڑے زور وشور سے رد کیا ، لہذا اس کے بعد تمام اهل سنت اشعری یا ماتریدی کہلانے لگے ،

اور یہ نسبت اس لیئے ضروری تها تاکہ دیگر فرق ضالہ سے امتیاز وفرق واضح رهے

، لهذا اس کے بعد ان دو ائمہ کے منهج پرچلنے لوگ اهل سنت کہلائے ٠

ترجمة الإمام أبو الحسن الأشعري رحمه الله

أبو الحسن علي بن إسماعيل بن أبي بشر إسحاق بن سالم بن إسماعيل بن عبد الله بن موسى بن بلال بن أبي بُردَةَ عامر ابن صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم أبي موسى الأشعري.

تاریخ ولادت و وفات

آپ کی ولادت ( 260 هہ ) میں هوئ بعض نے (270 هہ ) بتایا ، اور آپ کی تاريخ وفات میں اختلاف هے بعض نے ( 333 هہ ) بعض نے ( 326 هہ )

بعض نے ( 330 هہ ) بغداد میں آپ فوت هوئے مقام ( الكرخ اور باب البصرة) کے درمیان مدفون هوئے ،

ابتداء حیات میں آپ نے مذهب اعتزال أبي علي الجبَّائي معتزلی سے پڑها اور ایک مدت تک اسی پر رهے ، پهر آپ نے مذهب اعتزال سے توبہ کیا اور بالکلیہ طور پر اس کوخیرباد کہ دیا ، اور بصره کی جامع مسجد میں جمعہ کے

دن کرسی ومنبرپرچڑهہ کر بآواز بلند ببانگ دهل یہ اعلان کیا کہ اے لوگو جس نے مجهے پہچانا اس نے مجهے پہچانا اور جس نے مجهے نہیں پہچانا میں اس کو اپنی پہچان کراتا هوں لہذا میں فلان بن فلان قرآن کے مخلوق هونے کا قائل تها ، اور یہ کہ الله تعالی رویت آخرت میں آنکهوں کے ساتهہ نہیں هوسکتی ، اور یہ کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق هیں ، اور اب میں مذهب اعتزال سے توبہ کرتا هوں اور میں معتزلہ کے عقائد پر رد کروں گا اور ان کے عیوب وضلالات کا پرده چاک کروں گا ، اور میں نے الله تعالی سے هدایت طلب کی الله تعالی نے مجهے هدایت دی ، اور میں اپنے گذشتہ تمام نظریات کو اس طرح اتارتا هوں جس یہ کپڑا اتارتا هوں ، پهر اس کے بعد بطورمثال اپنے جسم پرجو چادر تها اس اتار کرپهینک دیا ، پهر لوگوں کو وه کتابیں دیں جو مذهب أهل الحق اهل السنه کے مطابق تالیف کیں ٠

الإمام الأشعرى کے تلامذه


ایک كثير مخلوق نے آپ سے استفاده کیا ، بڑے بڑے أعلام الأمة أكابر العلماء نے آپ کے مسلک کی اتباع کی اور نصرة عقائد أهل السنة میں آپ کے اصول کو اپنایا ، اور آپ کے تلامذه کی تعداد وتذکره علماء امت نے مستقل طور پرآپ کے سوانح میں کیا ،
قاضي القضاة الشيخ تاج الدين ابن الامام قاضي القضاة تقي الدين السبكي الشافعی نے اپنی کتاب ( طبقات الشافعية ) میں ایک خاص فصل میں آپ کا تذکره کیا ،
اور امام سبکی الشافعی نے آپ کے ترجمہ کی ابتداء ان الفاظ میں کی
شيخنا وقدوتنا إلى الله تعالى الشيخ أبو الحسن الأشعري البصري شيخ طريقة أهل السنة والجـماعة وإمام المتكلمين وناصر سنة سيد المرسلين والذاب عن الدين والساعي في حفظ عقائد المسلمين سعيًا يبقى أثره إلى يوم يقوم الناس لرب العالمين، إمام حبر وتقي بر حمى جناب الشرع من الحديث المفترى وقام في نصرة ملّة الإسلام فنصرها نصرًا مؤزرًا وما برح يدلج ويسير وينهض بساعد التشمير حتى نقَّى الصدور من الشُّبه كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس ووقى بأنوار اليقين من الوقوع في ورطات ما التبس فلم يترك مقالاً لقائل وأزاح الأباطيل، والحق يدفع ترهات الباطل " اهہ
اسی طرح مؤرخ الشام اور حافظ الحدیث الشیخ أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله بن عساكر نے الشيخ أبي الحسن الأشعري کی مناقب ومؤلفات وسوانح پرمستقل کتاب لکهی ۰
اوردیگر تمام علماء امت نے بهی اپنی کتب میں آپ کا تذکره کیا ، اور سب نے آپ کو اهل سنت کا امام قرار دیا ،
المؤرخ الحافظ ابن العماد الحنبلي نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
الإمام العلامة البحر الفهامة المتكلم صاحب المصنفات، ثم قـال: "وممّا بيض به وجوه أهل السنة النبوية وسود به رايات أهل الاعتزال والجهمية فأبان به وجه الحق الأبلج، ولصدور أهل ا لإيمان والعرفان أثلج، مناظرته مع شيخه الجبائي التي قصم فيها ظهر كل مبتدع مرائي " اهـ.
شذرات الذهب (2/ 303، 305).
امام شمس الدين بن خلكان نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
صاحب الأصول، والقائم بنصرة مذهب أهل السنة، وإليه تنسب الطائفة الأشعرية، وشهرته تغني عن الإطالة في تعريفه " اهـ.
وفيات ا لأعيان (3/ 284ء286).
امام أبو بكر بن قاضي شهبة نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
الشيخ أبو الحسن الأشعري البصري إمام المتكلمين وناصر سنة سيد المرسلين، والذاب عن الدين" ا.هـ.
طبقات الشافعية (1/ 113).
علامه يافعي شافعي نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
الشيخ الإمام ناصر السنة وناصح الأمة، إمام الأئمة الحق ومدحض حجيج المبدعين المارقين، حامل راية منهج الحق ذي النور الساطع والبرهان القاطع " ا.هـ
مرأة الجنان (2/ 298).
علامه القرشي الحنفي نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
صاحب الأصول الإمام الكبير وإليه تنسب الطائفة الأشعرية"
الجواهر المضية في طبقات الحنفية 21/ 544، ه 54).
علامه الأسنوي الشافعي نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا
هو القائم بنصرة أهل السنة القامع للمعتزلة وغيرهم من المبتدعة بلسانه وقلمه، صاحب التصانيف الكثيرة، وشهرته تغني عن ا لإطالة بذكره
طبقات الشافعية (1/ 47).
خلاصہ یہ هے کہ ائمہ اسلام کے اقوال وآراء تعریف وتوصیف الإمام الأشعرى اورالإمام أبو منصور الماتريدي کے متعلق بیان کروں توایک مستقل کتاب تیار هوجائے ، بطور مثال چند ائمہ کے اقوال ذکرکردیئے تاکہ ان جاهل لوگوں کوهدایت هوجائے ، جو جہلاء کی اندهی تقلید میں امت مسلمہ کے کبارائمہ پرلعن طعن کرتے هیں ، جب ان جہلاء کی اپنی حالت یہ هے کہ الف باء سے واقف نہیں ، فالی الله المشتکی ۰

مؤلفات الإمام أبو الحسن الأشعري

آپ کی کتب وتالیفات بہت زیاده هیں ، بطورمثال چند کتب کا ذکرکرتا هوں
ا- إيضاح البرهان في الرد على أهل الزيغ والطغيان.

2- تفسير القرءان، وهوكتاب حافل جامع.

3- الرد على ابن الراوندي في الصفات والقرءان.

4- الفصول في الرد على الملحدين والخارجين عن الملّة.

5- القامع لكتاب الخالدي في الارادة.

6- كتاب الاجتهاد في الأحكام.

7- كتاب الأخبار وتصحيحها.

8 -تاب الإدراك في فنون من لطيف الكلام.

9- كتاب الإمامة.

10-التبيين عن أصول الدين.

11- الشرح والتفصيل في الرد على أهل الإفك والتضليل.

12- العمد في الرؤية.

13- كتاب الموجز.

14- كتاب خلق الأعمال.

15- كتاب الصفات، وهو كبير تكلم فيه على أصناف المعتزلة والجهمية.

16- كتاب الرد على المجسمة .

17- اللمع في الرد على أهل الزيغ والبدع.

18-النقض على الجبائي.

19- النقض على البلخي.

20- جمل مقالات الملحدين.

21- كتاب في الصفات وهو أكبر كتبه نقض فيه ءاراء المعتزلة وفند أقوالهم وأبان زيغهم وفسادهم.

22-أدب الجدل.

23- الفنون في الرد على الملحدين.

24- النوادر في دقائق الكلام.

25- جواز رؤية الله تعالى بالأبصار.

26- كتاب الإبانة.

ترجمة الإمام أبو منصور الماتريدي


هو أبو منصور محمد بن محمد بن محمود الماتريدي السمرقندي،
ماتریدی نسبت هے ماترید کی طرف اور یہ سمرقند ماوراء النهر میں ایک مقام کا نام هے ، اورامام أبو منصور الماتريدي کوبهی علماء امت نے "إمام الهدى" و "إمام المتكلمين" و "إمام أهل السنه " وغير ذلك القابات سے یاد کیا ،
آپ کی تاریخ ولادت کے متعلق کوئ متعین تاریخ تونہیں ملتی مگر علماء کرام نے لکها هے کہ آپ کی ولادت عباسی خليفة المتوكل کے عهد میں هوئ ، اور آپ کی ولادت الإمام أبي الحسن الأشعري سے تقریبا بیس سال قبل هوئ هے ،
اور آپ نے جن مشائخ سے علم حاصل کیا ان سب کی سند الإمام الجليل الإمام الإمام الاعظم أبي حنيفة النعمان سے جاملتی هے ،
اورآپ علوم القرأن الكريم وأصول الفقه وعلم الكلام والعقائد کے بے مثال ومستند امام هیں ، اورآپ کی پوری زندگی حماية الإسلام ونصرة عقيدة أهل السنة والجماعة سے عبارت هے ، اورآپ بالاتفاق أهل السنة والجماعة کے امام جلیل محافظ العقائد أهل السنة، وقاطع الاعتزال والبدع قرارپائے ، معتزلہ اوردیگر فرق ضالہ کا اپنی مناظرات ومحاورات میں اور تصنیفات وتالیفات میں بهرپور رد وتعاقب کیا ، اور تمام عمرعقائد أهل السنة کی حفاظت وصیانت وتبلیغ وتشہیرکی ٠
مؤلفات الإمام أبو منصور الماتريدي
آپ کے کئ مؤلفات هیں جن کا تذکره علماء امت نے آپ کے ترجمہ میں کیا هے
جن میں سے بعض کے نام درج ذیل هیں
1 = كتاب "التوحيد"
2 = كتاب "المقالات"
3 = كتاب "الرد على القرامطة"
4 = كتاب "بيان وهم المعتزلة"
5 = كتاب "رد الأصول الخمسة لأبي محمد الباهلي"
6 = كتاب "أوائل الأدلة للكعبي"
7 = كتاب "رد كتاب وعيد الفساق للكعبي"
8 = كتاب "رد تهذيب لجدل للكعبي"
9 = كتاب "الجدل"
10 = وكتاب "مأخذ الشرائع في أصول الفقه"
11 = كتاب "شرح الفقه الأكبر"
12 = كتاب "تأويلات أهل السنة"
بعض نسخوں میں اس کتاب کا نام "تاويلات الماتريدي في التفسير" هے ،
الإمام عبد القادر القرشي المتوفى سنة 775هــ اس کتاب کے متعلق فرماتے هیں کہ یہ ایسی کتاب هے کہ اس فن میں لکهی گئ پہلی کتابوں میں سے کوئ کتاب اس کے برابربلکہ اس کے قریب بهی نہیں پہنچ سکتی ٠
اس کتاب کے مقدمہ کی ابتداء ان الفاظ سے هوتی هے
"قال الشيخ الإمام الزاهد علم الدين شمس العصر، رئيس أهل السنة والجماعة أبو بكر محمد بن أحمد السمرقندي رحمه الله تعالى: إن كتاب التاويلات المنسوب إلى الشيخ الإمام أبي منصور الماتريدي رحمه الله كتاب جليل القدر، عظيم الفائدة في بيان مذهب أهل السنة والجماعة في أصول التوحيد، ومذهب أبي حنيفة وأصحابه رحمهم الله في أصول الفقه وفروعه على موافقة القرأن". ا.هــ.
صاحب "كشف الظنون" نے یہ تصریح کی هے کہ یہ کتاب آٹهہ جلدوں میں هے اور الشيخ علاء الدين بن محمد بن أحمد نے اس کو جمع کیا هے ،
حاصل یہ کہ بطور مثال آپ کے علمی میراث کی ایک جهلک آپ نے ملاحظہ کی ، اور جیساکہ میں گذشتہ سطور میں عرض کرچکا هوں کہ ان دو جلیل القدر ائمہ اهل سنت کے ترجمہ وسوانح وکمالات وکارناوں پرمستقل کتب موجود هیں ،
یہاں تواختصارکے ساتهہ ان کا تذکره مقصود هے ، تاکہ ایک صالح متدین آدمی کے علم میں اضافہ هو اور اس کے دل میں ان جلیل القدر ائمہ اهل سنت کا احترام وعظمت زیاده هوجائے ، اور جوشخص جہل کی وجہ سے ان کے ساتهہ بغض رکهتا هے ان پرلعن طعن کرتا هے اس کی اصلاح هوجائے ٠
الإمام الماتريدي كى تاريخ وفات

صاحب كتاب "كشف الظنون" نے ذکرکیا هے کہ آپ کی وفات ( 332هــ ) میں هوئ هے ، دیگر کئ مؤرخين نے سنہ وفات ( 333هــ ) بهى لكهى هے ،
علامه عبد الله القرشي نے بهى "الفوائد البهية" میں سنہ وفات ( 333هــ ) بتائ هے ، اور آپ کی قبرسمرقند میں هے ،
امت مسلمہ کے کبارمحدثین ومفسرین وفقہاء وائمہ اشعری وماتریدی هیں ٠
بطورمثال چند کا تذکره پیش خدمت هے
1 = الإمام الحافظ أبو الحسن الدارقطني رحمه الله تعالى ،
(تفصیل دیکهیئے ، تبيين كذب المفتري 255، السير 17/558، أثناء ترجمة الحافظ أبي ذر الهروي، وتذكرة الحفاظ 3/1104).
2 = الحافظ أبو نعيم الأصبهاني رحمه الله تعالى، صاحب حلية الأولياء،
الإمام الأشعري کے متبعین میں سے هیں ،
(تبيين كذب المفتري 246، الطبقات الكبرى للتاج السبكي 3/370).
3 = الحافظ أبو ذر الهروي عبد بن أحمد رحمه الله تعالى،
( تفصیل دیکهیئے گذشتہ حوالے اور ، الطبقات الكبرى للتاج السبكي 3/370).
4 = الحافظ أبو طاهر السلفي رحمه الله تعالى،
(الطبقات 3/372)
5 = الحافظ الحاكم النيسابوري رحمه الله تعالى صاحب المستدرك على الصحيحين،
اپنے زمانہ کے إمام أهل الحديث هیں کسی تعارف محتاج نہیں هیں ،
اورعلماء امت کا اتفاق هے کہ امام حاکم ان بڑے علم والے ائمہ میں سے ایک هیں جن کے ذریعہ سے الله تعالی نے دین متین کی حفاظت کی ،
(تبيين كذب المفتري ص/227).
6 = الحافظ ابن حبان البستي رحمه الله تعالى صاحب الصحيح وكتاب الثقات وغيرها، الإمام الثبت القدوة إمام عصره ومقدم أوانه
7 = الحافظ أبو سعد ابن السمعاني رحمه الله تعالى، صاحب كتاب الأنساب.
(الطبقات 3/372)
8 =الإمام الحافظ أبو بكر البيهقي رحمه الله تعالى صاحب التصانيف الكثيرة الشهيرة
9 = الإمام الحافظ ابن عساكر رحمه الله تعالى
10 = الإمام الحافظ الخطيب البغدادي رحمه الله تعالى، (التبيين ص / 268).
11 = الإمام الحافظ محي الدين يحيى بن شرف النووي محي الدين رحمه الله تعالى،
امام نووی کسی تعارف کےمحتاج نہیں هیں ، دنیا کا کون سا حصہ ایسا هے جہاں آپ کی کتاب رياض الصالحين اور کتاب الأذكار اورشرح صحيح مسلم نہیں هے ؟؟
12 = شيخ الإسلام الإمام الحافظ أبو عمرو بن الصلاح رحمه الله تعالى
13 = الإمام الحافظ ابن أبي جمرة الأندلسي مسند أهل المغرب رحمه الله تعالى
14 = الإمام الحافظ الكرماني شمس الدين محمد بن يوسف رحمه الله ، صاحب الشرح المشهور على صحيح البخاري
15 = الإمام الحافظ المنذري رحمه الله تعالى صاحب الترغيب والترهيب.
16 = الإمام الحافظ الأبي رحمه الله تعالى شارح صحيح مسلم.
17 = الإمام الحافظ ابن حجر العسقلاني رحمه الله تعالى ،
امام حافظ ابن حجر کسی تعارف کےمحتاج نہیں هیں ،
18 = الإمام الحافظ السخاوي رحمه الله تعالى.
19 = الإمام الحافظ السيوطي رحمه الله تعالى.
20 = الإمام القسطلاني رحمه الله تعالى شارح الصحيح.
21 = الإمام الحافظ المناوي رحمه الله تعالى
خلاصہ کلام یہ کہ اگراشاعره وماتریدیه علماء امت کی صرف اسماء کو بهی جمع کیا هے توایک ضخیم کتاب تیارهوجائے ، مذکوره بالا ائمہ میں اکثرشافعی المسلک هیں ، اس کے بعد احناف ، مالکیہ ، حنابلہ ، کے تمام حفاظ حدیث وائمہ اسلام جوکہ اشاعره وماتریدیه هیں ان کا تذکره هماری بس سے باهر هے ، کیونکہ علماء اسلام کا ایک ٹهاٹهیں مارتا هوا سمندر هے جنهوں نے عقائد واصول میں الإمام أبو الحسن الأشعري اور الإمام أبو منصور الماتريدي کی اتباع کی ، یہاں سے آپ ان جاهل لوگوں کی جہالت وحماقت کا اندازه بهی لگالیں ، جویہ کہتے هیں کہ اشعری وماتریدی توگمراه هیں ( معاذالله ) کیا اتنے بڑے کبارائمہ گمراهوں لوگوں کی اتباع کرنے والے تهے ؟
بس جہالت اور اندهی تقلید کی زنده مثالیں کسی نے دیکهنی هوتو وه فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل عوام وخواص کو دیکهہ لے ، کوئ کسی شخص یا کسی مسئلہ کے بارے علم نہیں هوتا لیکن ضد وتعصب واندهی تقلید میں اس کو پهیلاتے جاتے هیں ، اور دلیل یہ هوتی هے کہ فلاں شیخ صاحب سے سنا هے ،
اب اگراس جاهل شیخ کی غلطی کوئ ظاهرکربهی دے پهر بهی یہ بے وقوف لوگ اس جاهل شیخ کی دم نہیں چهوڑتے ، اور جواب بزبان حال وقال یہی دیتے هیں کہ خبردینے والا نائ بڑا پکا هے ، آخر ایسی ضد وجہالت کا علاج کس کے پاس هے ؟؟
: امام ابو حنیفہ و فقہ حنفی سے متعلق وساوس
 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
عبد اللہ بن آدم صاحب آپ جلدی جلدی علماء پر حکم لگانے پہنچ جاتے ہیں ، پہلے کسی عقیدہ کے درست صحیح ہونے پر تو بات کرلیں ۔
پھر حکم بھی لگالیں گے ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں درست غلط کا فیصلہ کرلیں ، حکم والی بات بعد میں رکھ لیتے ہیں ۔
کسی ایک عقیدے پر بات شروع کریں ، مثلا
استواء علی العرش ۔
وحدۃ الوجود وغیرہ ۔
صفات الہیہ میں تاویل ۔
کوئی بھی ایک پسندیدہ موضوع اختیار کرلیں اور
http://forum.mohaddis.com/members/%D8%AE%D8%B6%D8%B1-%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D8%AA.202/


@خضر حیات

کیا میں تجھے تھریڈ بنا کر ٹیگ کر سکتی ہوں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,568
پوائنٹ
791
میں صدقے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا پیاری زبان میں خوشبودار باتیں کر کے عنبر گھول رہی ہے ۔اور اہل علم کو مخاطب کرنے کا کیا واہیات انداز ہے ۔
اور ’‘ کل اناءبما فیہ ینضح ’‘برتن میں جو ہوتا وہی باہر چھلکتا ہے ۔۔۔سچ فرمایا میرے رب نے ۔وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا۔

اور اس شیریں زبانی کا سارا کریڈٹ اس مولوی (المنتن ) کو جاتا ہے ،جس نے جاہلانہ اور مسموم خیالات اپنے کالانعام مریدوں میں
انسٹال کئے ۔اللہ کی پناہ ان انسان نما شیاطین سے اللہ کی پناہ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میں صدقے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا پیاری زبان میں خوشبودار باتیں کر کے عنبر گھول رہی ہے ۔اور اہل علم کو مخاطب کرنے کا کیا واہیات انداز ہے ۔
اور ’‘ کل اناءبما فیہ ینضح ’‘برتن میں جو ہوتا وہی باہر چھلکتا ہے ۔۔۔سچ فرمایا میرے رب نے ۔وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا۔

اور اس شیریں زبانی کا سارا کریڈٹ اس مولوی (المنتن ) کو جاتا ہے ،جس نے جاہلانہ اور مسموم خیالات اپنے کالانعام مریدوں میں
انسٹال کئے ۔اللہ کی پناہ ان انسان نما شیاطین سے اللہ کی پناہ
ہو سکتا ہے اسےابن آدم نے بھجا ہو ۔کیوں کہ وہ خود تھریڈ سے بھاگ گیا ہے
 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
میں صدقے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا پیاری زبان میں خوشبودار باتیں کر کے عنبر گھول رہی ہے ۔اور اہل علم کو مخاطب کرنے کا کیا واہیات انداز ہے ۔
اور ’‘ کل اناءبما فیہ ینضح ’‘برتن میں جو ہوتا وہی باہر چھلکتا ہے ۔۔۔سچ فرمایا میرے رب نے ۔وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا۔

اور اس شیریں زبانی کا سارا کریڈٹ اس مولوی (المنتن ) کو جاتا ہے ،جس نے جاہلانہ اور مسموم خیالات اپنے کالانعام مریدوں میں
انسٹال کئے ۔اللہ کی پناہ ان انسان نما شیاطین سے اللہ کی پناہ
اسحاق سلفی اہل خینث کی اولاد شاطین کے بچے تیرے اہل جہل کو مخاطب کرنے کا یہی درست طریقہ ہے ۔ اپنے باپ خضرحیات سے کہ کے میری بات کا جواب دے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top